اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 اگست2023ء)
وزیراعظم نے کہا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو دی گئی سزا پر قطعاً کوئی خوشی نہیں،9 مئی کو شہدا اور غازیوں کی یادگاروں کی بے حرمتی کی گئی، وہ دن رہتی
دنیا تک یوم سیاہ کے طور پر یاد رکھا جائیگا، 9 مئی کو جو ہوا یہ ریاست،
فوج اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کیخلاف بغاوت تھی،13 جماعتی اتحادی حکومت انوکھا واقعہ ہے، یہ گلدستہ نہ پہلے بنا تھا نہ دوبارہ بنے گا، ہماری حکومت تاریخ کی مختصر ترین مخلوط حکومت تھی جس نے 16 ماہ میں ملک کو درپیش چیلنجز پر قابو پانے کیلئے بھرپور کوششیں کیں، حکومت اور اتحادی جماعتوں نے سیاست کی بجائے ریاست بچانے کو ترجیح دی، وفاق، صوبے اور ادارے مل کر آگے بڑھیں گے اور کریڈٹ کے چکر سے نکلیں گے تو ملک آگے بڑھے گا، قومی اتحاد کے بغیر ملک نہیں چل سکتا،راجا
ریاض سے (آج) جمعرات کو ملاقات کرکے نگران
وزیراعظم کے نام پر تبادلہ خیال کرونگا جس کے بعد نام
الیکشن کمیشن کو بھیجا جائے گا۔
(جاری ہے)
بدھ کو
قومی اسمبلی کے آخری اجلاس میں الوداعی خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم
شہباز شریف نے کہا کہ 11 اپریل 2022 کو
قومی اسمبلی کے دائیں اور بائیں طرف بیٹھے ساتھیوں نے مجھ پر اعتماد کیا اور ملک کا
وزیراعظم منتخب کروایا
۔وزیراعظم نے کہا کہ انتہائی مشکل حالات میں اتحادی حکومت نے مشکلات کا مقابلہ کیا، بدترین
سیلاب کا مقابلہ کیا جس نے صوبہ
سندھ کو بدترین
نقصان پہنچایا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا اس کو تار تار کردیا گیا اور
پاکستان کے وقار و اعتماد کو شدید چوٹ لگی، گزشتہ حکومت نے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کو بری طرح مجروح کیا جس کی بنا پر
پاکستان کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوگیا
۔وزیراعظم نے کہا کہ سائفر کے ڈرامے نے
تیل پر جلتی کا کام کیا، جس کی وجہ سے امریکا سے تعلقات بری طرح سے متاثر ہوئے،
چین کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کیا گیا جس کی وجہ سے دوستانہ تعلقات متاثر ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ قرض لے لے کر پوری
دنیا کے سامنے ہماری گردن کو
دنیا کے سامنے جھکایا گیا اور گزشتہ حکومت نے ملک کے داخلی معاملات پر اس طرح اقدامات اٹھائے کہ جس سے ملک میں زہریلہ پروپیگنڈا پیدا کیا گیا اور ایوان میں موجود ایک دو کو چھوڑ کر سب کو
چور اور ڈاکو کہا گیا
۔وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں مشکلات کا اندازہ تو تھا تاہم ان کی اتنی گہرائی کا اندازہ نہیں تھا، یوکرین جنگ کی وجہ سے کساد بازاری بڑھی ہوئی تھی اور ہر بار جب
پیٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوتا تھا تو کابینہ میں بحث ہوتی تھی کہ
غریب عوام پر یہ بوجھ کیسے ڈالیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت کے دور میں گندم کی پیداوار میں کمی ہوئی جس کی وجہ سے اربوں روپے خرچ کرکے باہر سے گندم منگوانی پڑی
۔وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ حکومت کے چار سالہ دور میں پوری اپوزیشن کو دیوار سے لگایا گیا، موجودہ حکومت نے 16 ماہ میں کسی کو نہ گرفتار کروایا نہ ہی کسی کے پیچھے نیب کو لگایا، اگر آج ایک پارٹی رہنما کو سزا ملی ہے تو اس میں ہمیں کوئی خوشی نہیں، کسی کو اس پر مٹھائی تقسیم نہیں کرنی چاہیے تاہم اس ملک کے ساتھ ظلم و زیادتی ہوئی جس کی ابتدا 9 مئی کو ہوئی جس دن کو سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
شہباز شریف نے کہا کہ دہشت گردی کی جنگ میں ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے شہریوں نے قربانی دی تاہم یہ بات واضح ہے کہ اس وقت کے
وزیراعظم نے اسی ایوان میں خطاب کرتے کہا تھا کہ ہم ہم ان
(طالبان) کو دعوت دیتے ہیں کہ یہاں آئیں اور اس کے بعد دہشت گردی نے کس طرح سر اٹھایا یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ کس طرح ہو
سوات میں آئے، تھانو پر قبضہ کیا اور آج تک ملک بھر میں دہشت گردی کے حملے دوبارہ شروع ہوگئے ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ
پاکستان کی فوجی، سپھہ سالار جنرل عاصم منیر کے خلاف بغاوت تھی، اس میں کوئی شک نہیں رہا اب، میں یہ بات انتہائی ذمہ داری سے کر رہا ہوں۔انہوں نے رات کوصدر
پاکستان کو
اسمبلی کی تحلیل کے لیے تجویز ارسال کرنے کا اعلان کیا اور کہاکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس ایوان کو اس بدترین ساشزش کا دوبارہ نوٹس لینا چاہیے بلکہ دوبارہ ایک
قرارداد منظور کرکے اس بات کا اعادہ کریں کہ کسی کو قیامت تک یہ ہمت نہ ہو کہ وہ
پاکستان کی
فوج کے خلاف اس طرح کی حرکت کر سکے۔
شہباز شریف نے کہا کہ
بلوچستان کے نمائندگان کو یقین دلاتا ہوں کہ ان کے کچھ مسائل حل ہوئے ہیں جو حل نہیں ہوئے وہ حل کریں گے، ان کے اعتراضات جائز ہیں کیونکہ
بلوچستان باقی صوبوں کے لحاظ سے ترقی میں پیچھے رہ گیا ہے
۔شہباز شریف نے سابق وزرائے اعظم محترمہ شہید
بے نظیر بھٹو اور
نواز شریف کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ وزیر خارجہ
بلاول بھٹو زرداری نے بہترین سفارت کاری کی اور
پاکستان کے نام کو اجاگر کرنے کے لیے پوری کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ راجا
ریاض سے (آج) جمعرات کو ملاقات کرکے نگران
وزیراعظم کے نام پر تبادلہ خیال کریں گے جس کے بعد نام
الیکشن کمیشن کو بھیجا جائے گا۔قبل ازیں بدھ کو وفاقی کابینہ کے الوداعی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے
وزیراعظم نے کہا کہ 11 اپریل 2022ء کو
قومی اسمبلی نے ہم پر اعتماد کیا جس کے نتیجہ میں ایک مخلوط حکومت معرض وجود میں آئی، اس نے 16 ماہ میں اپنی حتی المقدور کوشش کی کہ اس وقت جو
معاشی صورتحال تھی اس کو بہتر بنایا جائے اور عوام کی خدمت کیلئے پوری دیانتداری سے اپنی صلاحیتوں کو بروئے
کار لاتے ہوئے عوام کی خدمت کی جائے، اپنی حکومت کی مدت مکمل ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں، یہ 15، 16 ماہ پر مشتمل تاریخ کی مختصر ترین حکومت تھی، ہمیں اقتدار میں آتے ہی بدترین
سیلاب کا سامنا کرنا پڑا جس نے پورے
پاکستان میں
تباہی مچا دی تھی خاص طور پر
سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور
پنجاب کے کچھ حصے بھی
سیلاب سے شدید متاثر ہوئے تھے، یہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا، جب ہم متاثرہ علاقوں میں جاتے تھے تو ہر طرف دریائے
سندھ کے
سیلاب سے ہونے والی
تباہی نظر آتی تھی، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے وفاق اور چاروں صوبوں نے مل کر دن رات کام کیا، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت متاثرین نے 75، 80 ارب روپے انتہائی شفاف طریقہ سے متاثرین میں تقسیم کئے جس کو
دنیا بھر میں سراہا گیا اس کے علاوہ این ڈی ایم اے نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا، وزیراعلیٰ
سندھ، بلوچستان اور ان کی ٹیم اور پی ڈی ایم ایز اور باقی اداروں نے بھی متاثرین کی مدد کیلئے بہترین کام کیا،
خیبرپختونخوا اور
پنجاب میں ہماری حکومتیں نہیں تھیں تاہم ہم نے کوئی تفریق نہیں کی اور اپنی ذمہ داریاں پوری کیں۔
دوست ممالک اور باہر سے جو امداد آئی اسے حقداروں تک پہنچایا،
سندھ سب سے بڑا متاثرہ صوبہ تھا اس لئے ان کو امداد بھی زیادہ ملی۔
وزیراعظم نے این ڈی ایم اے اور پاک
فوج کی اس وقت کی قیادت کی کاوشوں کو بھی خراج تحسین پیش کیا۔
وزیراعظم نے شازیہ
مری کی خدمات کو بھی سراہا جنہوں نے
سیلاب متاثرین کی مدد کیلئے انتہائی محنت سے کام کیا۔
وزیراعظم نے وزیر خارجہ
بلاول بھٹو زرداری، وفاقی وزیر شیری رحمن اور وزیر مملکت
حنا ربانی کھر اور وزارت خارجہ کے حکام کی خدمات کی بھی تعریف کی جنہوں نے عالمی سطح پر
سیلاب متاثرین کیلئے آواز بلند کی۔
وزیراعظم نے وفاقی وزراء
احسن اقبال، سردار ایاز صادق اور کابینہ کے دیگر ارکان کی کاوشوں کو بھی سراہا۔
وزیراعظم نے کہا کہ
سیلاب کے علاوہ بھی ہماری حکومت کو بہت بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، ہم اقتدار میں آئے تو
مہنگائی کا
طوفان تھا جو ابھی تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا، اس کی بے شمار وجوہات ہیں، جب ہم نے حکومت سنبھالی تو
مہنگائی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا جس کا سبب سابق حکومت کی چار سالہ بدترین غفلت تھی، سابق حکومت نہ صرف داخلی بلکہ خارجی محاذ پر بھی
پاکستان کی ساکھ کو
نقصان پہنچانے کا موجب بنی اور
پاکستان کے تشخص کو مجروح کیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ آج کابینہ کا آخری اجلاس ہے،
پاکستان کی تاریخ میں اس طرح کی کابینہ کی مثال نہیں ملتی جس میں چاروں صوبوں کی قیادت موجود ہے جس سے بعض فیصلے کرنے میں ہمیں بہت آسانی ہوئی اس قیادت نے اپنے صوبوں کے مفادات کا بھی بھرپور تحفظ کیا، ہماری کابینہ چاروں صوبوں کے ایک خوبصورت گلدستے کی مانند تھی، تمام مشکلات، چیلنجز اور اپنے اپنے منشور اور سوچ کے ساتھ ہم نے 16 ماہ تک یکجا ہو کر
پاکستان کو بچانے کیلئے کام کیا اور ریاست کو بچایا، تاریخ اس کردار کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے اپنی سیاست کا نہیں سوچا، اپنے سیاسی مفادات کی قربانی دے کر قومی مفادات کی آبیاری کی، اس سوچ پر میں اپنے قائد محمد
نواز شریف، آصف علی
زرداری اور پی ڈی
ایم کے سربراہ
مولانا فضل الرحمن، بلاول بھٹو زرداری، مسلم لیگ (ق) سربراہ چوہدری شجاعت حسین،
ایم کیو ایم کے سربراہ ڈاکٹر
خالد مقبول صدیقی، عوامی نیشنل پارٹی کے قائدین بالخصوص ایمل ولی خان،
ڈاکٹر خالد مگسی، سردار اختر جان مینگل،
محمود خان اچکزئی، اسلم بھوتانی، علی نواز شاہ، آفتاب احمد خان شیرپائو، علامہ ساجد میر، شاہ زین بگٹی،
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سمیت تمام حکومتی اتحادی رہنمائوں اور اکابرین کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے ہرقدم پر میری معاونت کی، مشورے دیئے، رہنمائی فراہم کی اور خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ مثبت تنقید بھی کی۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہماری حکومت کے ختم ہوتے ہی
نگران حکومت وجود میں آئے گی اور آئندہ عام
انتخابات ہوں گے جن کے نتیجہ میں جو بھی حکومت آئے گی ہم سب مل کر اس ملک کی کشتی کو پار لگانے کیلئے شبانہ روز محنت کریں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کے حوالے سے بے پناہ مشکلات کا سامنا تھا، ہم نے بہت محنت کی اور ہمت نہیں ہاری، اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال نہ ہوتی تو ہم کامیاب نہیں ہو سکتے تھے۔
وزیراعظم نے وزیر خزانہ
اسحاق ڈار، ان کی ٹیم اور وزیر خارجہ
بلاول بھٹو زرداری کو بھی اس حوالے سے خراج تحسین پیش کیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ
پاکستان کے دوست ممالک کے تعاون اور وفاقی کابینہ اور اداروں کے کردار اور کاوشوں کے حوالے سے عوام کو علم ہونا چاہیے،
چین نے پچھلے چار مہینوں میں ہمارا بھرپور ساتھ دیا اور تقریباً پانچ ارب
ڈالر کے قرضے فراہم کئے،
چین کے سابق
وزیراعظم نے آئی ایم ایف کی ایم ڈی کے ساتھ بات کی اور انہیں باور کرایا کہ چین
پاکستان کو کسی مشکل میں تنہا نہیں چھوڑے گا اور مجھے آئی ایم ایف کی ایم ڈی نے بھی خود یہ بات بتائی، چند ہفتے پہلے
چین کا ایک اعلیٰ سطحی وفد
پاکستان آیا، چینی قیادت نے
پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے خصوصی پیغام بھیجا اور
سی پیک کا آئندہ کا پروگرام بھی دیا، 25 ارب
ڈالر کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے، دوسرے مرحلہ میں بھی اہم ترین شعبوں میں بہت بڑی سرمایہ کاری آ رہی ہے،
ٹیکنالوجی، زراعت اور انفراسٹرکچر اور اکنامک زونز کے حوالے سے بہت بڑی پیشرفت ہو رہی ہے،
گوادر کی ترقی کیلئے بہت کام ہوا ہے اور بہت سے منصوبوں کی تکمیل ہوئی ہے، یہ منصوبے 6، 6 سال سے لٹکے ہوئے تھے۔
وزیراعظم نے 9 مئی کے سانحہ کو
پاکستان کی تاریخ کا المناک ترین سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ
پاکستان اور ریاست کے خلاف بدترین سازش تھی، یہ
پاکستان کی
فوج اور اس کے سپہ سالار کے خلاف سازش تھی، سابق وزیراعظم
عمران نیازی نے یہ جتھہ تیار کیا تھا، یہ
پاکستان کو تباہ کرنے کی سازش تھی، اگر یہ سازش کامیاب ہو جاتی تو
پاکستان کا جو حشر ہوتا میں اس کی تصویر کشی نہیں کر سکتا، ایک بھیانک صورتحال کا سامنا ہوتا، اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس ناپاک اور بدترین سازش سے محفوظ رکھا، میں نے کل شہداء کے والدین اور غازیوں سے
جی ایچ کیو میں ملاقات کی،
پاکستان کی مسلح افواج کے شہداء اور غازیوں نے جرات و بہادری کی داستانیں رقم کی ہیں اور بدترین دہشت گردی کا مقابلہ کیا ہے، پورے ملک کو دہشت گردی کا سامنا تھا، ہسپتال، مساجد اور سکول تک دہشت گردوں سے محفوظ نہیں تھے،
جی ایچ کیو پر
حملہ ہوا، اساتذہ اور طلباء تک کو نہیں بخشا گیا، کوئی جگہ دہشت گردی سے محفوظ نہیں تھی،
پاکستان کی مسلح افواج، مذہبی سیاسی جماعتوں اور عوام نے مل کر دہشت گردی کی عفریت کا مقابلہ کیا اور
ضرب عضب اور ردالفساد آپریشنز کئے، ہزاروں لوگوں کی شہادت کے نتیجہ میں ملک میں امن قائم ہوا، ایسی عظیم قربانیاں دینے والے شہداء اور غازیوں کی بے حرمتی کا کوئی پتھر دل بھی تصور نہیں کر سکتا، پوری قوم اپنے شہداء اور غازیوں کے احترام پر یکسو ہے، 9 مئی کے سانحہ سے ان شہداء کے وارثوں اور غازیوں پر کیا بیتی ہو گی، ہمیں 9 مئی کے دالخراش واقعہ سے سبق سیکھنا ہو گا، پوری قوم نے ایک جتھے کے خلاف اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا، پوری قوم نے اس جتھے کی سازش کو رد کیا، پاک
فوج کے سپہ سالار جنرل عاصم منیر نے جو پختگی دکھائی اور قائدانہ صلاحیت کا مظاہرہ کیا اس سے گھنٹوں میں معاملات پر قابو پا لیا گیا، بروقت فیصلے نہ کئے جاتے تو نتیجہ مختلف ہو سکتا تھا، ہمیں اس سانحہ سے آئندہ کیلئے سبق حاصل کرنا ہے۔
وزیراعظم نے قومی اتحاد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ ملک قومی اتحاد کے بغیر آگے نہیں چل سکتا، صوبوں اور وفاق کے درمیان جو بھی فاصلہ ہو اسے کم کرنا ہو گا، 16 ماہ میں سیاسی قیادت نے سنجیدگی دکھائی ہے، حکومتی اتحاد میں شامل ہر جماعت کا اپنا اپنا منشور اور اپنی اپنی سیاسی سوچ ہے لیکن ایک مقصد کیلئے ہم اکٹھے ہوئے ہیں،
نواز شریف سمیت سیاسی قائدین نے کمال کی سیاسی پختگی اور سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور تدبر، برداشت اور صبر سے کام لیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ تاریخ یاد رکھے گی کہ کس طرح مختلف سیاسی جماعتوں نے مل کر مسائل پر قابو پایا۔ انہوں نے کہا کہ
پاکستان کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے 75 سالوں میں کئی کوششیں ہوئیں اس دوران باربار فوجی حکومتیں آتی رہیں اور 33، 34 سال مارشل لاء میں گزر گئے اور بلاواسطہ بھی سیاسی حکومتیں کنٹرول ہوتی رہیں،
پاکستان اس مقام پر پہنچ گیا ہے کہ یہ بات کہتے شرم آتی ہے کہ
بنگلہ دیش بھی ہم سے آگے نکل گیا ہے اور وہ ملک جنہوں نے ہمارا پانچ سالہ منصوبہ کاپی کیا وہ آسمانوں سے باتیں کر رہے ہیں اور ہم کہاں کھڑے ہیں، مشرق میں ہمارا ہمسایہ 60، 70، 80 اور 90ء کی دہائی میں بھی کئی میدانوں میں ہم سے پیچھے تھا لیکن آج وہ کئی شعبوں میں ہم سے آگے نکل چکا ہے، کوئی تو وجہ ہے کہ ہم پیچھے رہ گئے، کہیں تو ہم نے غلطیاں کی ہوں گی کہ چھوٹے چھوٹے ملک بھی آگے نکل گئے اور ان میں ایسے بھی ملک ہیں جن میں ایک کلو کپاس بھی پیدا نہیں ہوتی لیکن وہ کپاس درآمد کرکے بھی ایکسپورٹرز بن گئے، یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے، اس صورتحال پر بطور پاکستانی سب سے پہلے میں اپنے آپ کو اور پھر کسی اور کو ذمہ دار ٹھہرائوں گا، آج اگر ہم نے ملک کو کھڑا کرنا ہے اور ترقی و خوشحالی کے سفر پر گامزن کرنا ہے تو ہمیں سوچنا ہو گا،
سعودی عرب، یو اے ای،
قطر، چین اور دوست ممالک مدد نہ کرتے تو آئی ایم ایف سے پروگرام نہیں ملنا تھا، 6 ارب
ڈالر کا گیپ تھا، ایک ارب
ڈالر اسی وقت اسلامی بینک نے وہیں بیٹھے بیٹھے دے دیا، برادر ممالک کا شکریہ ادا کرتے ہیں لیکن ہم کب تک قرض لیتے رہیں گے، قرضے لے کر
جرمنی اور جاپان سمیت کئی ملک اپنے پائوں پر کھڑے ہو گئے، ایس آئی
ایف سی کا منصوبہ
پاکستان کیلئے بہترین موقع ہے اور یہ ایک بہترین میکنزم فراہم کرتا ہے، وفاق، صوبے اور ادارے مل کر آگے بڑھیں گے،کریڈٹ کے چکر سے نکلیں گے تو ملک آگے بڑھے گا، ہم نے مل کر ملک کو آگے لے کر جانا ہے، ایس آئی
ایف سی میں وفاق، چاروں صوبے اور ادارے اور سپہ سالار جنرل عاصم منیر شامل ہیں، ہم نے مل کر یہ وڑن بنایا ہے، دوست ممالک کو ساتھ ملا کر سرمایہ کاری کے ذریعے اور استحکام پیدا کرکے آگے بڑھیں گے۔
مجھے امید ہے کہ آنے والی حکومتیں اسی وڑن کو لے کر آگے بڑھیں گی۔
وزیراعظم نے 16 ماہ کے دوران اپنی معاونت کرنے والے تمام اعلیٰ افسران و صوبائی حکومتوں اور ذمہ داران اور وفاقی و صوبائی وزارتوں کا بھی شکریہ ادا کیا۔