Fehmida Riaz Sahiba Se Aik Mulaqat

فہمیدہ ریاض سے ملاقات ( بشکریہ: بی بی سی اردو منظرنامہ)

Fehmida Riaz Sahiba Se Aik Mulaqat

ائنٹین فورٹی فائیو جولائی ٹوئنٹی ایٹ۔ (اٹھائیس جولائی انیس سو پینتالیس) یہ ہے ڈیٹ آف برتھ۔ والدین آزادی سے پہلے ہی آ گئے تھے، سندھ میں رہتے تھے۔ تو یہیں پر پڑھی تمام تعلیم یہیں پر حاصل کی۔ تمام تو کیا ایک حد تک۔ کالج میں یہاں پڑھی۔

ملاقات: انور سِن رائے

سوال: فہمیدہ کیا آپ ہمیں بتائیں گی: فہمیدہ ریاض کون ہے؟

فہمیدہ ریاض: یہ تو آپ مشکل سوال کر رہے ہیں۔ میں فہمیدہ ریاض سے بلکل واقف نہیں اور میں ان کے بارے بہت کم سوچتی ہوں۔اس لیے میں انہیں نہیں جانتی زیادہ۔ (قہقہہ) میرٹھ میں کہتے ہیں کہ پیدا ہوئی تھی۔ نائنٹین فورٹی فائیو جولائی ٹوئنٹی ایٹ۔ (اٹھائیس جولائی انیس سو پینتالیس) یہ ہے ڈیٹ آف برتھ۔

والدین آزادی سے پہلے ہی آ گئے تھے، سندھ میں رہتے تھے۔ تو یہیں پر پڑھی تمام تعلیم یہیں پر حاصل کی۔ تمام تو کیا ایک حد تک۔ کالج میں یہاں پڑھی۔ یونیورسٹی میں یہاں تھی، پھر سکسٹی سیون میں میں انگلینڈ چلی گئی۔ وہاں کچھ عرصے بعد میں نے بی بی سی میں کام کیا تھا۔ وہاں میں رہی ہوں سیونٹی ٹو کے آخر تک۔

(جاری ہے)

اس زمانے میں وہاں لندن سکول آف فلم ٹیکنیک ہوتا تھا، اس میں فلم ٹیکنیک کا کورس کیا تھا۔

اس وقت وہ بڑا پرسٹیجس ادارہ تھا۔ سیونٹی تھری میں میں پھر واپس آ گئی۔ میری بڑی بیٹی وہاں پیدا ہوئی سارہ۔ یہاں آنے کے بعد پاکستان کے حالات میں مصروف و مشغول ہوگئے۔ یہاں سے ایک رسالہ پبلش کرنا شروع کیا جس کا نام تھا: ’آواز‘۔ ضیاالحق کے زمانے میں، اس پر بڑے مقدمات وغیرہ قائم کیے گئے تھے۔ اس وقت بہت سے (لوگ) ملک چھوڑ کر جا رہے تھے میں بھی چلی گئی۔

ہندوستان رہی۔ مارچ ایٹی ون میں گئی تھی ایٹی سیون دسمبر میں واپس آئی۔ سات برس ہندوستان میں رہی۔ پہلے وہاں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ’پوئٹ ان ریذیڈنس‘ تھی۔ پھر سینئر ریسرچ فیلو رہی ’آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف سوشل ریسرچ‘ کی اور آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف ہسٹوریکل ریسرچ کی۔ اس کے بعد پاکستان میں تھی۔ پاکستان میں جب تبدیلی آئی تھی تو اسلام آباد میں تھی میں چئر پرسن نیشنل بک کونسل آف پاکستان۔

اس کے بعد منسٹری آف کلچر کی کنسلٹنٹ رہی کچھ عرصے۔ پھر نائنٹی سکس، نائنٹی سیون میں اپنی ایک این جی او رجسٹرڈ کروائی۔ ’وعدہ‘ اس کا نام تھا۔ ویمن اینڈ ڈیویلپمنٹ ایسوسی ایشن۔ بنیادی طور پر تو میں یہ چاہتی تھی کہ یہ ایک پبلشنگ ہاؤس بنے جو بچوں اور عورتوں کے لیے کتابیں چھاپے۔ مگر ساتھ ساتھ پھر دوسری چیزیں بھی تھیں، کانفرنسیں کروانا۔

سیمینار منعقد کرنا۔ یعنی کتابیں بنانے کے سلسلے میں دوسری بھی بہت ساری سرگرمیاں تھیں، وہ جاری رہیں۔ وہ ادارہ ہے اپنی جگہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال: کب شروع کیا آپ نے لکھنا؟

ف ر: سمجھیے شروع کیا سکول کے زمانے سے۔ پہلی نظم تو تبھی لکھی تھی۔

س: یاد ہے پہلی نظم کیا تھی؟ کیسے اس کی تحریک ہوئی؟

ف ر: پہلی نظم کیوں ہوئی؟ کیسے ہوئی مجھے بالکل یاد ہے۔

حالانکہ وہ نظم اب مجھے نہیں یاد ہے۔ ایسا تھا کہ سندھ یونیورسٹی کی ڈیبیٹ تھی، اس میں لڑکے اور لڑکیں بھی لے جائے گئے تھے۔ یہ دکھانے کے لیے کہ انٹر کالجیٹ ڈیبیٹ کیسی ہوتی ہیں۔ تو بس وہاں پر ایک مجمع تھا لوگوں کا جو ہنس رہے تھے۔ اسی نے مجھ پر بڑا گہرا اثر چھوڑا۔ وہی میں نے پہلی نظم میں لکھا تھا۔ سب لوگوں کا اکٹھا مل کر ہنسنا۔ یہ اس کا موضوع تھا شاید۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
س: آپ کے بہن بھائی، والدین، دادا، دادی۔ کیا نام تھے کیسے رہتے تھے؟ کچھ ان کی یادیں؟

ف ر: انور، مجھے اپنے باپ اور ماں کا نام تو بے شک یاد ہے کافی مشکل ہوتا ہے بھولنا۔ میرے والد کا نام تھا ریاض الدین۔ جن کی وجہ سے میرا نام فہمیدہ ریاض ہے۔ میری والدہ کے دو نام تھے۔ ہمارے گھر میں سب کے دو نام رکھے جاتے تھے۔ان کا نام تھا حسنہ بیگم۔

جب میں پانچ سال کی تھی تو میرے والد کا انتقال ہوگیا تھا۔میری والدہ نے ہم بہنوں کی پرورش کی۔ میرے والد جب یہاں آئے سندھ تو نور محمد ہائی سکول بنا تھا اس وقت۔ وہ تو تھرٹیز میں آ گئے تھے۔ تو وہ اس میں پڑھاتے تھے۔ اب مجھے ٹھیک سال تو یاد نہیں۔ اس وقت چھوٹے گیج کی ٹرین چلا کرتی تھی جسے اب یہ دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اجمیر سے ہوتی ہوئی یو پی تک چلی جاتی تھی۔

دہلی سے شاید بدلتے تھے اور پھر میرٹھ چلے جاتے تھے۔ مگر اس زمانے میں بھی یہ بہت ہی دور سمجھا جاتا تھا۔ باقاعدہ پردیس۔ تو وہ پڑھاتے تھے پہلے سکول میں پھر وارڈن تھے اور آخری زمانے میں اپنے انتقال سے کچھ عرصے پہلے وہ ٹریننگ کالج میں پڑھانے لگے تھے۔ انہوں نے بہت لمبا عرصہ گزارا تھا یہاں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال: پھر باقاعدہ شاعری کب سے شروع کی؟

ف ر: وہ تو کالج کے زمانے ہی میں۔

زبیدہ گورنمنٹ کالج حیدرآباد۔ سب کو نیشنلائیز کر لیا گیا تھا لیکن وہ تو شاید تھا ہی سرکاری کالج۔ بڑی اچھی جگہ تھا اور بڑا سا آسمان تھا اس پر۔ خاصا کھلا ہوا تھا اب تو نا جانے کیسا ہو گیا ہو؟ کالج کے زمانے میں نظمیں لکھنے لگی تھی۔ کبھی کبھی کسی کو سنا بھی دیں۔ کسی نے مجھ سے کہا کہ آپ بھیج دیں۔ اس زمانے میں ’فنون‘ شروع ہوا تھا یہ سکسٹی تھری کی بات ہے یا سکسٹی فور ہو گا۔

تو میں نے نظمیں بھیجیں اور وہ شائع ہو گئیں بس اس طرح آغاز ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال: پہلی نظم کون سی شائع ہوئی؟

ف ر: یہ تو مجھے اب یاد نہیں ہے ’پتھر کی زباں‘ پہلے مجموعے کا نام تھا۔ سکسٹی سیون میں شائع ہوا۔ اس میں وہ نظم ہے۔ فنون میں وہ ایک نہیں تین چار نظمیں اکٹھی شائع ہوئی تھیں۔ اس کے بعد میں فنون میں ہی لکھتی رہی۔

اب تو کچھ عرصے سے میں نثر زیادہ لکھ رہی ہوں۔ سات آٹھ سال سے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال : پہلی ملازمت آپ نے کب کی؟

ف ر : پہلی ملازمت میں نے ریڈیو پر کی تھی اور فوجی بھائیوں کے لیے پروگرام پیش کیا کرتی تھی حیدرآباد میں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال : یہ تو ایک طرح کا جزوی کام تھا شاید، پہلی ملازمت کہاں اختیار کی؟

ف ر : پہلی ملازمت میں نے لندن میں کی تھی، ایک میرین انشورنس کمپنی میں ایک کلیریکل جاب تھی، بینک کے ایریا میں۔

پاکستان آنے کے بعد میں نے آر لنٹاس میں کام کیا۔ وہاں فلمیں بناتی تھی اور ہیڈ آف کریٹیو ڈیپارٹمنٹ تھی۔ یہ تھا میرا عہدہ وہاں پر۔ کیوں کہ میں فلم ٹیکنیک کا کورس کرکے آئی تھی لندن سے۔ یہ ایک سینئر انتظامی عہدہ تھا۔ یہاں اس قابلیت کا اور کوئی شخص ہی نہیں تھا۔ سوائے ایک کے، وہ تھے مشتاق گزدر۔ انہوں نے اسی سکول سے پڑھا تھا لندن سکول آف فلم ٹیکنیک سے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال: ستاسی میں ایک تبدیلی آئی، سنسر شپ وغیرہ ختم ہوئی، اخباروں کے لیے ڈیکلیئریشن وغیرہ ملنے لگے۔ اس کے بعد اب یہ دور آیا ہے، کیا لگتا ہے، اس میں کچھ آزادی ہے یا یہ بھی لگتا ہے کہ یہ بھی صرف دیکھنے ہی ۔ ۔ ۔ ؟

ف ر: میرے خیال میں یہ بڑی ہی زیادتی ہوگی اگر ہم یہ کہیں کہ فریڈم نہیں ہے بالکل فریڈم ہے۔اب آپ کوئی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں مثلاً جنرل پرویز مشرف پر جتنے اعتراضات کیے جاتے ہیں اور جتنا ہمارا پریس ان کو برا بھلا کہتا ہے۔

کسی بھی اور شخصیت کو اتنا نشانہ نہیں بناتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔دیکھیے مجھے بھٹو صاحب کادور یاد آتا ہے۔ دیکھیے یہ ایک مائنڈ سیٹ ہوتا ہے ایک جاگیرداری مائنڈ سیٹ اور شہری مڈل کلاس کا۔ بھٹو صاحب کہتے تھے کہ تم کسی کو بھی کچھ لکھ دو سوائے میرے۔ مجھے کچھ نہیں کہنا۔ یہ ایک تھنکنگ تھی یہاں پر معاملہ اس کے برعکس ہے۔ کسی دوسرے منسٹر، کسی دوسرے وزیر کسی کے لیے کچھ نہیں لکھا جاتا۔

سوائے پرویز مشرف کے یہ ہے فرق۔ ابھی چند روز قبل میں سکھر میں ہونے والی کاروکاری کی ایک کانفرنس میں گئی تھی ایک بڑا حال تھا جو عورتوں، مردوں، لڑکیوں اور لڑکوں سے بھرا ہوا تھا، اس میں آئی جی پولیس بھی آئے تھے اور وہاں کے ناظم بھی آئے تھے۔ میں یہ دیکھ رہی کہ وہاں جو پیپرز پڑھے جا رہے تھے۔ تو اس میں لوگوں نے اٹھ کر کہا کہ آپ کیا باتیں کر رہے ہیں اس طرح کے قتل تو پولیس خود کراتی ہے۔

اس کے بعد پولیس والوں نے بھی اپنا دفاع کیا لیکن یہ بات پہلے کہاں تھی۔ ایوب خان کے مارشل میں ہم چھوٹے تھے لیکن ان کا مارشل لا شروع میں سخت تھا بعد میں بیسک ڈیموکریسی آگئی لیکن بھٹو صاحب کے دور میں ایک عام جلسے میں کھل کر اس طرح بات نہیں کہی جا سکتی تھی حالانکہ وہ ایک الیکٹڈ پرائم منسٹر تھے۔ شاید واحد ایسے انتخابات میں عوام کی حمایت کے ساتھ منتخب ہو کر آنے والے لیکن ان کے دور میں بھی یہ باتیں نہیں کہی جا سکتی تھیں۔

اس کے بعد ضیا الحق کے دورمیں تو سوال ہی پیدانہیں ہوتا تھا کہ کوئی بات کرسکے لوگ مزاحمت خفیہ طور پر ہی کرتے تھے۔ لیکن ان بہت سارے ٹیلی ویژن چینلوں سے شعور بہت بڑھا ہے پھر ان میں این جی اوز کا بھی بہت ہاتھ ہے حالانکہ یہ اس سلسلے میں بدنامِ زمانہ ادارے بن گئے ہیں کہ یہ تو بس پیسے کھانے کی چیز ہیں۔لیکن ان کا مثبت پہلو یہ ہے کہ ان کی وجہ سے مزید شعور پیداہوا ہے۔

لیکن ان کی وجہ سے لوگوں میں ہمت اور جرات آئی ہے بات کہنے کی لیکن جیسے وہاں بات کرنے والوں کو یہ یقین تھا کہ اس بات کی بنا پر انہیں گھر پہنچنے پر گرفتار نہیں کر لیا جائے گا لیکن دوسری طرف یہ ہے کہ کرپشن ہے۔ کیاؤس ہے اور اس حد تک ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ کرپشن تو کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال: ایک عرصے تک شاعری کے بعد آپ نثر کی طرف آئی ہیں اس کی کوئی خاص وجہ ہے، ایسی باتیں جو آپ کو لگا کہ شاعری میں نہیں آ سکتیں؟

ف ر: میں شروع سے بھی کہانیاں لکھتی رہی ہوں۔

ایک چوٹا سا مجموعہ چھپا ہے: ’خطِ مرموز‘ اس میں تو فنون میں شائع ہونے والی کالج کے زمانے کی شارٹ سٹوریز بھی ہیں۔ تو میں لکھتی تھی، ایرک فرام کی ایک کتاب تھی ’فئرآف فریڈم‘ جو فاشزم کی سماجی بنیادوں کے بارے میں ہے۔ تو اس کا میں نے ایک ایڈاپٹیشن کیا تھا یعنی اس کے اصولوں سے پاکستانی معاشرے کو دیکھنے کی کوشش کی تھی۔ تو نثر میں لکھتی ہی رہی تھی لیکن اتنی جم کر نہیں لکھی تھی۔

پھر بعض ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو اتنی پھیلی ہوئی ہوتی ہیں جن کے ساتھ ایک نظم میں شاید آپ انصاف نہ کر سکیں یا یہ ہے کہ وہ ایک نظم بن کر آپ تک نہیں پہنچتیں۔ تو پاکستان ٹوٹنے کے بعد میں جو لکھا تھا وہ تھا: ’زندہ بہار‘ جو بنگلہ دیش کے ان تجربات پر مشتمل تھے جو بہت متاثر کرنے والے تھے۔ جو نظم میں نہیں آ پا رہے تھے یا نظم بن کرآئے نہیں۔

پھر ’گوداوری‘ جو ہندوستان کے تجربات پر مشتمل تھی اور اس کے بعد پھر’ کراچی‘ کے حالات ہی ایسے تھے۔ تو یہ تین کہانیاں ہیں جو تین حصوں کے بارے میں ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فہمیدہ کی شاعری میں مشرقی عورت کی مجبوریاں بھی نظر آتی ہیں اور بیسویں صدی کی عورت کی روایات سے آزاد اور خودمختار ہونے کی خواہش بھی۔ ان کا خواب ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں عورت اور مرد کو برابری مل سکے۔


انہوں نے سندھی شاعر شیخ ایاز کے کلام کو اردو ترجمہ کیا ہے اس کے علاوہ مثنوی مولانا روم کا بھی ترجمہ کیا ہے۔ یہ پروگریسو رائٹرز ویمن کی بانی اور ’’المانتی‘‘ ایوارڈ حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی شاعرہ ہیں اس کے علاوہ انہوں نے ستارۂ امتیاز اور صدارتی تمغہ حسن کارکردگی برائے ادب بھی حاصل کئے۔
ان کی تصانیف میں ’’بدن دریدہ‘‘، ’’قافلے پرندوں کے‘‘، ’’یہ خانۂ آب و گل‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔

اس کے علاوہ مشہور نظمیں ’’پتھر کی زبان‘‘، پچھتاوا‘‘، ’’ایک رات کی کہانی‘‘، ’’یہ زرد موسم کے خشک پتے‘‘ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب سو جاؤ
اور اپنے ہاتھوں کو میرے ہاتھ میں رہنے دو
تم چاند سے ماتھے والے ہو
اور اچھی قسمت رکھتے ہو
بچے کی سو بھولی صورت
اب تک ضد کرنے کی عادت
کچھ کھوئی کھوئی سی یادیں
کچھ سینے میں چھبھتی یادیں
اب انہیں بھلا دو سو جاؤ
اور اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں رہنے دو
سو جاؤ تم شہزادے ہو
اور کتنے ڈھیروں پیارے ہو
اچھا تو کوئی اور بھی تھی
اچھا پھر بات کہاں نکلی
کچھ اور بھی یادیں بچپن کی
کچھ اپنے گھر کے آنگن کی
سب بتلا دو پھر سو جاؤ
اور اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں رہنے دو
یہ ٹھنڈی سانس ہواؤں کی
یہ جھلمل کرتی خاموشی
یہ ڈھلتی رات ستاروں کی
بیتے نہ کبھی تم سو جاؤ
اور اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں رہنے دو
۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس گلی کے ہر موڑ پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس گلی کے موڑ پر اک عزیز دوست نے
میرے اشک پونچھ کر
آج مجھ سے یہ کہا
یوں نہ دل جلاؤ تم
لوٹ مار کا ہے راج
جل رہا ہے کل سماج
یہ فضول راگنی
مجھ کو مت سناؤ تم
بورژوا سماج ہے
لوٹ مار چوریاں اس کا وصف خاص ہے
اس کو مت بھلاؤ تم
انقلاب آۓ گا
اس سے لو لگاؤ تم
ہو سکے تو آج کل کچھ مال بناؤ تم
کھائی سے نکلنے کی آرزو سے پیشتر
دیکھ لو ذرا جو ہے دوسری طرف ہے گڑھا
آج ہیں جو حکمراں ان سے بڑھ کے خوفناک ان کے سب رقیب ہیں
دندنا رہے ہیں جو لے کے پاتھ میں چھرا
شکر کا مقام ہے
میری مسخ لاش آپ کو کہیں ملی نہیں
اک گلی کے موڑ پر
میں نے پوچھا واقعی
سن کے مسکرا دیا کتنی دیر ہو گئی
لیجیۓ میں اب چلا اس کے بعد اب کیا ہوا
کھڑکھڑائیں ہڈیاں
اس گلی کے موڑ سے وہ کہیں چلا گیا
۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھتاوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خداۓ ہر دوجہاں نے جب آدمی کو پہلے پہل سزا دی
بہشت سے جب اسے نکالا
تو اس کو بخشا گیا یہ ساتھی
یہ ایسا ساتھی ہے جو ہمیشہ ہی آدمی کے قریں رہا ہے
تمام ادوار چھان ڈالو
روایتوں میں حکایتوں میں
ازل سے تاریخ کہہ رہی ہے
کہ آدمی کی جبیں ہمیشہ ندامتوں سے عرق رہی ہے
وہ وقت جب سے کہ آدمی نے
خدا کی جنت میں شجر ممنوعہ چکھ لیا
اور
سرکشی کی
تبھی سے اس پھل کا یہ کسیلا ذائقہ
آدمی کے کام و دہن میں ہر پھر کے آ رہا ہے
مگر ندامت کے تلخ سے ذائقے سے پہلے گناہ کی بے پناہ لذت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(3315) ووٹ وصول ہوئے

Related Articles

Fehmida Riaz Sahiba Se Aik Mulaqat - Read Urdu Article

Fehmida Riaz Sahiba Se Aik Mulaqat is a detailed Urdu Poetry Article in which you can read everything about your favorite Poet. Fehmida Riaz Sahiba Se Aik Mulaqat is available to read in Urdu so that you can easily understand it in your native language.

Fehmida Riaz Sahiba Se Aik Mulaqat in Urdu has everything you wish to know about your favorite poet. Read what they like and who their inspiration is. You can learn about the personal life of your favorite poet in Fehmida Riaz Sahiba Se Aik Mulaqat.

Fehmida Riaz Sahiba Se Aik Mulaqat is a unique and latest article about your favorite poet. If you wish to know the latest happenings in the life of your favorite poet, Fehmida Riaz Sahiba Se Aik Mulaqat is a must-read for you. Read it out, and you will surely like it.