Gulzar
گلزار صاحب کا تعارف اور کچھ منتخب کلام
پیدائشی نام سمپورن سنگھ کالرا ہے، مگر شاعری میں گلزار ؔکے نام سے پہچانے جاتے ہیں: رکے رکے سے قدم، رک کے بار بار چلے قرار دے کے تیرے دَر سے بے قرار چلے بہرحال پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے لگ بھگ سو کلو میٹر کے فاصلے پر، جی ٹی روڈ کے کنارے ضلع جہلم کا تاریخی قصبہ دینہ ضلع جہلم میں پیدا ہونے والے گلزارؔ بھارت کے مشہور گیت کار بھی ہیں۔مشہور اداکارہ راکھی کے شوہر نامدار ہیں اورایک عدد بیٹی میگھنا گلزار کے باپ ہیں۔ ریشم کا یہ شاعر آج بھی اپنی جنم بھومی سے اتنی ہی محبت کرتا ہے، جیسے آج سے پون صدی پہلے کرتا تھا
ممتاز فلم ساز و ہدایت کار، فلم نغمہ نگار اور افسانہ نگار۔ مرزا غالب پر ٹیلی ویژن سیریل کے لئے مشہور گلزار،سمپورن سنگھ۔ کی سالگرہ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس شخص کا پیدائشی نام سمپورن سنگھ کالرا ہے، مگر شاعری میں گلزار ؔکے نام سے پہچانے جاتے ہیں: رکے رکے سے قدم، رک کے بار بار چلے قرار دے کے تیرے دَر سے بے قرار چلے بہرحال پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے لگ بھگ سو کلو میٹر کے فاصلے پر، جی ٹی روڈ کے کنارے ضلع جہلم کا تاریخی قصبہ دینہ ضلع جہلم میں پیدا ہونے والے گلزارؔ بھارت کے مشہور گیت کار بھی ہیں۔
(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماں میں آیا تھا
گلزارؔ کی اپنی جنم بھومی دینہ جہلم سے واپسی پر ایک نظم
ماں میں آیا تھا
تری پیروں کی مٹی کو، میں آنکھوں سے لگانے کو
وصل کے گیت گانے کو، ہجر کے گیت گانے کو
ترے جہلم کے پانی میں نہانے کو
ترے میلوں کے ٹھیلوں میں
جھمیلوں میں، میں خوش ہونے اور ہنسنے کو اور رونے کو
میں وہی میلا کچیلا کالڑا بچہ
نیلم کی ندی میں خود کو دھونے کو میں آیا تھا
شکاری تاک میں تھے پر
ہجر کے شجر پر بیٹھے پرندے کی طرح میں لوٹ آیا تھا
وطن کے آسمانوں کو، ندی نالوں، درختوں اور ڈالوں کو
یہ ستر برس پہلے کی کہانی ہے، جلاوطنی کی لمبی رات ہے
صدیوں کو جاتی ہے، وہاں سے ٹرین آتی ہے
دکھوں کے دھندلکوں میں شام میں لپٹی ہوئی
یادوں کی ریکھاؤں
ریلوے کی پٹڑیوں پہ جھلملاتی ہیں
یہ ستر برس پہلے کی کہانی ہے
میرے گاؤں کے اسٹیشن کے ویٹنگ روم میں
رکھی شیشم کی ٹیبل پر کوئی بھولا ہوا ناول ملا تھا
زندگی کا جو کوئی بھولا ہوا بھٹکا مسافر بھول گیا تھا
میں وہ ناول بھول آیا
پر میں ویٹنگ روم اپنے ساتھ لایا تھا
یہ ستر برس پہلے کی کہانی ہے
ویٹنگ روم میں بھولا ہوا ناول وہ میں ہی تھا
میں چھوٹا تھا، میں پونے سات برسوں کا اک بچہ تھا
یہیں دینے کی گلیوں میں وہی میلا کچیلا کالڑا بچہ
میں بوڑھے پن کی سرحد کب کی پار کر کے آیا ہوں
میں کئی گیت لایا ہوں تری خاطر
میں ویٹنگ روم سے نکلا نہیں اب تک
گاؤں کا ویران اسٹیشن میرے خوابوں میں جو آباد ہے
اب تک حقیقت میں وہاں کوئی ٹرین ایسی بھی نہیں رکتی
جو مجھ کو تیرے پیروں میں لے آئے
تیرے پیروں کی جنت میں جگہ دے دے
دفن کر دے مجھے اس آم کی گٹھلی کی مانند
جو میرے گھر کے آنگن میں کھلا تھا جس پر بیٹھی
شام کو وہ شور چڑیوں کا مری ہر شام
میں اب بھی آتا ہے بلاتا ہے
میں وہی میلا کچیلا کالڑا بچہ، یہ سرحد میں بٹی دنیا
جو شیشم کے درختوں جنگلوں کو، جہلم کے دریا کو
نیلم کے نیلے پانیوں کو، ندی جتنے ہمارے آنسوؤں کو
مندروں میں گھنٹیوں جیسی ہواؤں کو
یہ سرحد میں بٹی دنیا وہ آری ہے
جو شیشم کے درختوں جنگلوں کو کاٹ دیتی ہے
پاٹ دیتی ہے مری ماں کو
میرے دادا کے دینے کو
خوں پسینے کو
سمادھی گردواروں، مندروں اور مسجدوں، گرجوں کو
مزاروں اور مڑھیوں خانقاہوں کو
یہ سرحد میں بٹی دنیا
شیشم کے درختوں جنگلوں کو کاٹ کر
کچھ بھی بنا دے
کتابوں سے بھری کوئی شیلف
یا چوباروں میں کھلتی نرگسی آنکھوں کی کھڑکی
کوئی بھگوان، کوئی بدھا
کسی سوہنے سلونے یار سانول ڈھول کی مورت
یا مصنوعی اعضا سپاہی کے
یا کسی پھانسی کے تختے کو بنائے
یہ سرحد میں بٹی دنیا
یہ ستر برس پہلے کی کہانی ہے
ماں میں آیا تھا
جنم بھومی میری بھومی
جنم تو نے دیا مجھ کو
تیرے پیروں کے نیچے
وہ جو جنت ہے
وہ جو ندی بہتی ہے کہتی ہے مجھ سے
تھک گیا ہے تو، اب تو سو جا، پر سو نہیں سکتا
مری مٹی مجھے کہتی ہے تو آ مٹی میں مٹی بن جا
چاک پر چڑھ جا کمہارن کے
پر ایسا ہو نہیں سکتا مگر میں سو نہیں سکتا
کیوں تیرا ہو نہیں سکتا؟
یہ سرحد میں بٹی دنیا
ماں!
میں آیا تھا
۔
آنکھوں میں جل رہا ہے کیوں بجھتا نہیں دھواں
اُٹھتا تو ہے گھٹا سا، برستا نہیں دھواں
چولہے نہیں جلائے یا بستی ہی جل گئی؟
کچھ روز ہوگئے ہیں اب اُٹھتا نہیں دھواں
آنکھوں کے پوچھنے سے لگا آنچ کا پتہ
یوں چہرہ پھیر لینے سے چُھپتا نہیں دھواں
آنکھوں کے آنسوؤں سے مراسم پرانے ہیں
میہماں یہ گھر میں آئے تو چُبھتا نہیں دھواں
۔
کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سےبڑی حسرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں، اب اکثر
گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں
انہیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
جو قدریں وہ سناتی تھیں۔۔۔۔
کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے
وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں
جو رشتے وہ سناتی تھیں
وہ سارے ادھڑے ادھڑے ہیں
کوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہے
کئی لفظوں کے معنی گر پڑے ہیں
بنا پتوں کے سوکھے ٹنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظ
جن پر اب کوئی معنی نہیں اگتے
بہت سی اصطلاحیں ہیں۔۔۔۔
جو مٹی کے سکوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں
گلاسوں نے انہیں متروک کر ڈالا
زباں پہ ذائقہ آتا تھا جو صفحے پلٹنے کا
اب انگلی کلک کرنے سے بس اک
جھپکی گزرتی ہے۔۔۔۔۔
بہت کچھ تہ بہ تہ کھلتا چلا جاتا ہے پردے پر
کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا، کٹ گیا ہے
کبھی سینے پہ رکھ کے لیٹ جاتے تھے
کبھی گودی میں لیتے تھے
کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کر
نیم-سجدے میں پڑھا کرتے تھے، چھوتے تھے جبیں سے
خدا نے چاہا تو وہ سارا علم تو ملتا رہے گا بعد میں بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول
کتابیں مانگنے، گرنے، اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے
ان کا کیا ہو گا
وہ شاید اب نہیں ہوں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے سبب مسکرا رہا ہے چاند
کوئی سازش چھپا رہا ہے چاند
جانے کس کی گلی سے نکلا ہے
جھینپا جھینپا سا آرہا ہے چاند
کتنا غازہ لگایا ہے منہ پر
دُھول ہی دُھول اُڑا رہا ہے چاند
سُوکھی جامن کے پیڑ کے رستے
چھت ہی چھت پر سے جارہا ہے چاند
کیسا بیٹھا ہے چُھپ کے پتوں میں
باغباں کو ستارہا ہے چاند
سیدھا سادا اُفق سے نکلا تھا
سر پہ اب چڑھتا جا رہا ہے چاند
چھوکے دیکھا تو گرم تھا ماتھا
دُھوپ میں کھیلتا رہا ہے چاند
۔
دن کچھ ایسے گذارتا ھے کوئی
جیسے احساں اتارتا ھے کوئی
آئینہ دیکھ کر تسلی ھوئی
ھم کو اس گھر میں جانتا ھے کوئی
دل میں کچھ یوں سنبھالتا ھوں غم
جیسے زیور سنبھالتا ھے کوئی
پک گیا ھے شجر پہ پھل شاید
پھر سے پتھر اچھالتا ھے کوئی
دیر سے گونجتے ہیں سناٹے
جیسے ھم کو پکارتا ھے کوئی
۔
ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے
وقت کی شاخ سے لمحے نہیں توڑا کرتے
جس کی آواز میں سِلوٹ ہو، نگاہوں میں شکن
ایسی تصویر کے ٹکڑے نہیں جوڑا کرتے
لگ کے ساحل سے جوبہتا ہے اُسے بہنے دو
ایسے دریا کا کبھی رُخ نہیں موڑا کرتے
جاگنے پر بھی نہیں آنکھ سے گرتیں کرچیں
اس طرح خوابوں سے آنکھیں نہیں پھوڑا کرتے
شہد جینے کا مِلا کرتا ہے تھوڑا تھوڑا
جانے والوں کیلئے دِل نہیں تھوڑا کرتے
جمع ہم ہوتے ہیں ، تقیسم بھی ہوجاتے ہیں
ہم تو تفریق کے ہندسے نہیں جوڑا کرتے
جاکے کہسار سے سرمارو کہ آواز تو ہو
خستہ دِیواروں سے ماتھا نہیں پھوڑا کرتے
۔
جب سے قریب ہوکے چلے زندگی سے ہم
خود اپنے آئینے کو لگے اجنبی سے ہم
وہ کون ہے جو پاس بھی ہے اور دور بھی
ہر لمحہ مانگتے ہیں کسی کو کسی سے ہم
احساس یہ بھی کم نہیں جینے کے واسطے
ہر درد جی رہے ہیں تمہاری خوشی سے ہم
کچھ دور چل کے راستے سب ایک سے لگے
ملنے گئے کسی سے ،مل آئے کسی سے ہم
کس موڑ پر حیات نے پہنچا دیا ہمیں!!
ناراض ہیں غموں سے نہ خوش ہیں خوشی سے ہم
آنکھوں کو دے کے روشنی گل کردیئے چراغ
تنگ آچکے ہیں وقت کی اس دل لگی سے ہم
اچھے برے کے فرق نے بستی اجاڑ دی
مجبور ہوکے ملنے لگے ہر کسی سے ہم
۔
ذکر جہلم کا ہے ، بات ہے دِینے کی
چاند پکھراج کا ، رات پشمینے کی
کیسے اوڑھے گی اُدھڑی ہو ئی چاندی
رات کوشش میں ہے چاند کو سینے کی
کوئی ایسا گرا ہے نظر سے کہ بس
ہم نے صورت نہ دیکھی پھر آئینے کی
دَرد میں جاودانی کا احساس تھا
ہم نے لاڈوں سے پالی خلش سینے کی
موت آتی ہے ہر روز ہی رُوبرو
زندگی نے قسم دی ہے کل، جینے کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(7744) ووٹ وصول ہوئے
Related Poet
Related Articles
پروین شاکر کا نعتیہ کلام
Parveen Shakir Ka Naatia Kalam
افضل خان اور اک عمر کی مہلت
Afzal Khan Aor Ik Umr Ki Muhlat
احمد ندیم قاسمی کی برسی پر خصوصی تحریر ( نوید صادق)
Ahmad Nadeem Qasmi Ki Barsi Par Khasoosi Tehreer (naveed Sadiq)
نور محمد نور کپورتھلوی کے کلام میں عصری آ گہی کا شعور
Noor Mohammad Noor Kapoor Thalavi
ادب نامہ کی طرف سے عمران عامی کی شاعری سے انتخاب
Imran Aami Ki Shaeri Se Intikhab
حسن عباسی کا خصوصی انٹرویو
Hassan Abbasi Ka Khasoosi Interview
ذوالفقار عادل کی شاعری (ںوید صادق)
Zulfiqar Adil Ki Shaeri (naveed Sadiq)
اور یہ دوستی رہے گی ابھی (ابرار احمد ) از قلم۔نصیر احمد ناصر
Aor Yeh Dosti Rahay Gi Bhi
ابرار احمد کی نظم کا تجزیاتی مطالعہ۔۔۔۔۔۔ عارفہ شہزاد
Abrab Ahmed Ki Nazm Ka Tajziyati Matalea By Arifa Shehzaz
ادب نامہ کی طرف سے فیاض اسود کی شاعری سےانتخاب
Fiaz Aswad Ki Shaeri Se Intikhab
بھینسیں پالنے والا شاعر
Bhaensain Palnay Wala Shaer
جناب انور شعور کی شاعری سے انتخاب
Anwer Shaoor Ki Shairi Se Intikhab
گلزار صاحب کا تعارف اور کچھ منتخب کلام
Gulzar
ادب نامہ کی طرف سے تہذیب حافی کی شاعری سے انتخاب
Tehzeeb Hafi Ki Shaeri Se Intikhab By Adab Nama
ظفر گورکھپوری ۔۔۔۔۔۔ ایک عہد، ایک شاعر
Zafar Gurakhpuri .... Aik Ehd, Aik Shair
ادب نامہ کی جانب سے عمدہ شاعر اظہر فراغ کی شاعری سے انتخاب
Adan Nama Ki Taraf Se Azhar Faragh Ki Shaeri Se Kiya Gaya Intikhab
Gulzar - Read Urdu Article
Gulzar is a detailed Urdu Poetry Article in which you can read everything about your favorite Poet. Gulzar is available to read in Urdu so that you can easily understand it in your native language.
Gulzar in Urdu has everything you wish to know about your favorite poet. Read what they like and who their inspiration is. You can learn about the personal life of your favorite poet in Gulzar.
Gulzar is a unique and latest article about your favorite poet. If you wish to know the latest happenings in the life of your favorite poet, Gulzar is a must-read for you. Read it out, and you will surely like it.