Khawb KamKhawb
خواب کمخواب
دانیال طریر کیا کتاب خواب کمخواب پر علی بابا تاجی کا ایک خوبصورت مضمون
خواب کمخواب
تحریر.....علی بابا تاج
دانیال طریر فی زمانہ اپنی ادبی و شعری صلاحیتوں کے باوصف تخلیقی ، تنقیدی اور تحقیقی حوالوں سے اپنا تعارف رقم کرچکا ہے۔\'\'انتھک \'\'جیسی توصیفی اصطلاح پر بلا شبہ پورا اترتا ہے۔تنقید میں اپنا زاویہء نظر منوانے کے ساتھ تخلیق میں بھی بعینہ اپنی انفرادیت کے ہمراہ قلم و قرطاس کے سرخیلوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔
(جاری ہے)
آدھی آتما اور بلوچستان میں شعریا ت کی تلاش کے بعد دانیال کی محنت شاقہ سے حال ہی میں مزید تین تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں جو پذیرش و ستائیش کے مراحل طے کررہی ہیں۔\'\'جدیدیت ، مابعد جدیدییت اورغالب\'\'، \'\'خدا مری نظم کیوں پڑھے گا\'\' اور\'\' خواب کمخواب\'\' کے محاسن کی بازگشت مختلف جرائد و رسائل کے علاوہ سوشل میڈیا ( جواب اس دور کا سب مضبوط میڈیم ہے) میں سنی جا رہی ہے۔متذکرہ کتب میں ایک تحقیق اور دو طبعزاد شعری تخلیقات پر مشتمل ہیں جن میں سے ہر ایک پر کئی ایک پہلوؤں سے بات کی جاسکتی ہے۔یہاں اس مضمون میں دانیال طریرکی کتاب \'\' خواب کمخواب\'\' کے چنیدہ اشعار پیش کئے جائیں گے جو ترسیل معانی اور تفاھم شعر تک رسائی کے لیے ممد و معاون ثابت ہوسکتے ہیں ۔ان منتخب اشعار سے دانیال کی قوت متخیلہ کے پہلو بہ پہلو اس کے شعری و فنی خصائص کو اجاگر کرنے میں بھی مدد ملیں گے۔یوں تو غزلوں کے اس مجموعے میں یہ چند اہم موضوعات باربار آئے ہوئے ہیں حتیٰ کہ پوری پوری غزل میں قافیہ و کہیں کہیں پر ردیف کے لازمہ کے طور پربھی استعمال ہوئے ہیں لیکن طوالت سے اجتنابرتا گیا ہے کہ تقلیل کلام کے تقاضے بھی پورے ہوں۔
آدرشوں ، ارمانوں اور آرزؤں کے علاوہ خواب ابتداء ہی سے انسانی احساسات کے ہمراز و ہمرکاب رہے ہیں۔شعوری طور ان پر ہزار خواہش کے باوجود اپنی مرضی نہیں چلائی جاسکتی البتہ اچھے خوابوں کی تمنا کی جاتی رہے گی۔دانیال خواب کو کس کس زایوں سے دیکھتا ہے ملاحظہ کیجیے:
نیند بیچی جارہی ہے کاروبار خواب ہے
پھر بھی آشفتہ سروں کو اعتبار خواب ہے
ایک بجھاؤ ایک جلاؤ خواب کا کیا ہے
آنکھوں میں رکھ کر سوجاؤ خواب کا کیا ہے
میں سویا بھی نہیں ہوں اور سپنا دیکھتا ہوں
زمیں کو آسمانوں پر بچھایا جارہا ہے
ایک کباڑی گلیوں گلیوں واج لگائے
راکھ خریدو، آگ کے بھاؤ خواب کا کیا ہے
گیا کہ سیل رواں کا بہاؤ ایسا تھا
وہ ایک خواب جو کاغذ کی ناؤ ایسا تھا
میں کیا ہریالیوں کی آس باندھوں
زمیں کے ساتھ سپنا بھی گرو ہے
لایعنی ہے سب لایعنی ہے یعنی یعنی
اور کہانی لکھ کر لاؤ خواب کا کیا ہے
وہ جو آنکھوں میں تھی کوئی دنیا الگ تھی، جہاں سے جدا
میرے خوابوں میں تھے امن کا راہبر، روشنی ، فاختہ
آنکھ لگ جائے تری چاند کی لوری سن کر
پھر تری نیند مرے خواب میں رکھی جائے
مجھے اس نیند کے ماتھے کا بوسہ ہو عنایت
جو مجھ سے خواب کا آزار لے کے جارہی ہے
انسان کی سب سے بڑی کمزوری خوف ، وسوسہ ، تذبذب اور اندیشہ ہا ئے دور و دراز ہے یہی عناصر باعث بنی ہیں کہ انسانوں نے اپنے آپ کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی کوششیں کی ہیں۔کچھ اندیشے شاعروں کے حصے میں آئے ہیں:
سانس آنچ لگتا ہے جسم کانچ لگتا ہے
مجھ کو مار ڈالے گا ایک دن یہ ڈر میرا
میں چیختے ہوئے صحرا میں دور تک بھاگا
نہ جانے ریت کہاں لے گئی امنگ میری
یہ خوف تو ویرانی دل سے بھی گراں ہے
آسیب در یار میں دیکھا ہے خدا خیر کرے
کیا وحشت ہوتی ہے تیز بگولے کے دل
کیوں صحرا سے شہر کی جانب چلنا پڑتا ہے
روشنیوں کے دھبے ان کے بیچ خلا
اور خلاؤں سے ہم ڈرنے والے لوگ
پھر میں تھا اژدھوں کا علاقہ تھا خوف تھا
اپنی طرف خدا کو بلانے کی دیر تھی
انسانی احساسات کے ہزار رنگ ہیں اور رنگ رنگ کے احساسات کو ملفوظ کرنے کے ہزار طوراور طریقے ۔۔۔دانیال اپنے حزن و ملال کو احساس کی دھیمی لومیں کیسے دیکھتا ہے ملاحظہ ہو:
ایسے بھی آرائش ہوتی ہے گھر کی
تنہائی کمروں میں رکھی جاتی ہے
صورت ریگ شہر پر برسا
دشت جو ابر کی تھکن میں تھا
خبر کب تھی کہ آنکھیں اوس برسانے لگیں گی
تجھے ورنہ جگانے کا ارادہ ہی نہیں تھا
بدن پر ٹانک کر تارے اڑایا جارہا ہے
مجھے آخر پرندہ کیوں بنایا جارہا ہے
تری خوشبو سے جانا
تو شاید موتیا ہے
نظر آتی نہیں ہے بولنے والے کی صورت
سنائی دے رہا ہے جو سنایا جارہا ہے
جسم کیوں محسوس ہوتا ہے مجھے ایسا شجر
جس کی شاخوں پر پرندے لوٹنے کاوقت ہے
ہروجود کا \'\'اظہار وجود\'\' کا اپنا ایک انداز ہے لیکن انسان کے اظہار کے پیرائے ہی الگ ہیں ۔ انسان عرفان ذات اور اپنے ہونے اور اسی ہونے کی انہونیوں پر مسلسل سوچتا آرہا ہے۔کہتے ہیں کہ زندگی بذات خود چلتی آرہی ہے اور اسی طرح چلتی جا رہی ہے لیکن اس کے باوجود بھی انسانوں نے \'\' تو شب آفریدی چراغ آفریدم... \'\' کے مصداق ہر سطحُ پر بڑے جتن کئے ہیں یہ چند اشعار بلاواسطہ ابراز و اظہار وجود اور اس سے متعلق ہیں، دیکھئے:
مرا دو پل ٹھہر کر سانس لینا
سر آب رواں لکھا گیا ہے
طریر اک بار جینا چاہتاہوں
جو سب آئندگا ں کی کیفیت ہے
بلاجواز نہیں ہے فلک سے جنگ مری
اٹک گئی ہے ستارے سے ایک پتنگ مری
اتنا آسان نہیں میرا جنونی ہونا
تیری تصویر بھی مہتاب میں رکھی جائے
اور بھی کوئی روح ہے شاید
اور بھی ہے کوئی بدن مجھ میں
میں سورج ہوں آگ اگلنا کب چھوڑوں گا
کتنی برف میں کتنے پانی میں رکھوگے
خلا میں غیب کی آواز نے چھوڑا ہے مجھ کو
میں سمجھا تھا مجھے اس پار لے کر جارہی ہے
کیا عجب شرطیں رکھیں ہم پر ہدایت کار نے
مسخرے کا روپ دھاریں مسکرائیں بھی نہیں
مرے بدن کی ضیا بڑھ گئی تھی سورج سے
لہو میں رات ملانی پڑی ہے آخرکار
تو بھی کھوج میں مست مگن ہے دھن میں رہتا ہے
میں بھی ڈھونڈ رہا ہوں اپنی منزل اے صحرا
کیسی لایعنی خواہش ہے یہ خواہش
موت سے پہلے چکھتا ہوں خاموشی کو
ابھی جاگا ہوا ہوں میں کہ تھک کر سوچکا ہوں
دیئے کی لو سے کوئی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
دانیال طریر کے خواب کمخواب کے چند مزید اشعار پڑھئیے اور لطف اندوز ہوجایئے:
وہ اپنے بھیڑیوں کو سیر پر لایا تھا بن میں
غزالوں کو ڈرانے کا ارادہ ہی نہیں تھا
بانجھ دھرتی مجھے عنایت ہو
سرخ پھولوں بھری بناؤ ں میں
جتنی پیاس ہو اتنا پانی کون دکھاتا ہے
کون ہے جگ میں تیرے جیسا عادل اے صحرا
تماشے کے سبھی کردار مارے جاچکے ہیں
کہانی صرف اک تلوار لے کر جارہی ہے
دل زدہ شہر کے آلام کو پر لگ جائیں
مے کدے ناچ اٹھیں جام کو پر لگ جائیں
زمیں کے داغ بہت پڑگئے تھے خون کے داغ
فلک کو برف گرانی پڑی ہے آخر کار
کوہ قاف ایک میرا اپنا ہو
ایک اپنی پری بناؤ ں میں
تیری آنکھوں کی اجازت سے اٹھیں گی پلکیں
میں حیرتوں سے لڑا اور جنگ جیت گیا
تو کیا یقین کی اجلی پری ہوئی میری؟
مہردر ، انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ پبلی کیشن کوئٹہ کے زیراہتمام شائع شدہ دانیال طریر کی یہ کتاب اردو غزل میں نیا اضافہ ہے اور اس کی غزلوں سے نئے مباحث اور مفاھیم کے امکانات سامنے آئینگے۔یہ بات یقین اور وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ دانیال طریر اپنی تخلیقی کاوشوں کو جاری و ساری رکھتے ہوئے شعر و ادب کے پیاسوں کو سیراب کرتا رہے گا۔دانیال طریرکا سنجیدہ رویہ اور انہماک اس کے لیے بدرقہ ء راہ ہے۔ایک دانشمند نے کہا ہے کہ\'\' تخلیقی آدمی \'\' اجتماعی آدمی ہوتا ہے اس اجتماعی آدمی کے دوش پر ماضی حال مستقبل کی مسؤلیت کا بار بھی ہے
(3120) ووٹ وصول ہوئے
Related Poet
Related Articles
کئی زمانوں کا شاعر ۔۔۔ افضل خان
Kaee Zamanoon Ka Shaair ..afzal Khan
بھینسیں پالنے والا شاعر
Bhaensain Palnay Wala Shaer
ادب نامہ کی جانب سے عمدہ شاعر اظہر فراغ کی شاعری سے انتخاب
Adan Nama Ki Taraf Se Azhar Faragh Ki Shaeri Se Kiya Gaya Intikhab
عذرا عباس کی نظمو ں کا مو ضوعا تی تنوع
Azra Abbas Ki Nazmoon Ka Maozuati Tanao
اداسی کا خا لق ۔ابرار احمد۔ از ۔فہیم جوزی (معروف شاعر، نقاد و براڈ کا سٹر
Udasi Ka Khaaliq Abrar Ahmed By Faheem Jozi
ادب نامہ کی طرف سے عمران عامی کی شاعری سے انتخاب
Imran Aami Ki Shaeri Se Intikhab
ادب نامہ کی طرف سے شاہین عباس کی شاعری سے انتخاب
Adab Na Ma Ki Taraf Se Shaheen Abbas Ki Shairi Se Intikhab
پروین شاکر کی شاعری میں رقیب کا کردار
Parveen Shakir Ki Shayari Me Raqeeb Ka Kirdar
قیس کے قبیلے کا فرد ۔۔ مبشر سعید
Qais K Qabeelay Ka Fard
ظفر گورکھپوری ۔۔۔۔۔۔ ایک عہد، ایک شاعر
Zafar Gurakhpuri .... Aik Ehd, Aik Shair
گلزار صاحب کا تعارف اور کچھ منتخب کلام
Gulzar
ادب نامہ کی طرف سے فیاض اسود کی شاعری سےانتخاب
Fiaz Aswad Ki Shaeri Se Intikhab
خواب کمخواب
Khawb Kamkhawb
فہمیدہ ریاض سے ملاقات ( بشکریہ: بی بی سی اردو منظرنامہ)
Fehmida Riaz Sahiba Se Aik Mulaqat
صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام
Khuwaja Ghulam Farid
ضیا المصطفی ترک کی شاعری میں سے انتخاب
Zia Turk Ki Shairi Me Se Intekhab By Hammad Niazi
Khawb KamKhawb - Read Urdu Article
Khawb KamKhawb is a detailed Urdu Poetry Article in which you can read everything about your favorite Poet. Khawb KamKhawb is available to read in Urdu so that you can easily understand it in your native language.
Khawb KamKhawb in Urdu has everything you wish to know about your favorite poet. Read what they like and who their inspiration is. You can learn about the personal life of your favorite poet in Khawb KamKhawb.
Khawb KamKhawb is a unique and latest article about your favorite poet. If you wish to know the latest happenings in the life of your favorite poet, Khawb KamKhawb is a must-read for you. Read it out, and you will surely like it.