مودی اور ہندوانتہا پسندوں کا جنگی جنون بھارت کونگل سکتا ہے

مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ کے مقام پر ہونے والے خود کش حملے نے بھارت کو ایک مرتبہ پھر پاکستان پر الزام تراشیوں کا جواز مہیا کیا اور یوں دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت کے درمیان سرد جنگ کی کیفیت پیدا ہوئی جو

بدھ 27 فروری 2019

moodi aur hindu intahaa pasandon ka jungi junoon Bharat ko nigal sakta hai
 محمد انیس الرحمن
مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ کے مقام پر ہونے والے خود کش حملے نے بھارت کو ایک مرتبہ پھر پاکستان پر الزام تراشیوں کا جواز مہیا کیا اور یوں دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت کے درمیان سرد جنگ کی کیفیت پیدا ہوئی جو کسی وقت بھی بھارت کی احمقانہ پالیسی کی بدولت گرم جنگ میں تبدیل ہو سکتی تھی ۔خود کش حملہ افسوس ناک امر ہے لیکن دیکھا یہ جانا چاہئے کہ اس انتہائی انتہا پسندی کے اقدام پر کس نے مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں کو مجبور کیا؟فوری طور پر بڑی قوتوں نے اس بات کا احساس کرتے ہوئے کہ اگر پاک بھارت جنگ کا آغاز ہوتا ہے تو اس سلسلے میں نہ صرف خطے میں بڑی تباہی آسکتی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی یہ جنگ دنیا کو پوری طرح جھنجھوڑدے گی خصوصاً مشرق وسطیٰ کی جو صورتحال ہے اور بڑی قوتیں جس انداز میں اس میں ملوث ہیں یہ جنگ بیک وقت مزید کئی محاذ کھولنے کا سبب بن سکتی ہے اور یہ بھی ایک ایسے وقت میں جب امریکہ افغانستان سے جان چھڑانا بھی چاہتا ہے اور اپنی افغان مٹی میں ملی ہوئی ناک بھی برقرار رکھنا چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ ذرائع کے مطابق امریکی حکومت نے مودی سر کار کو دومرتبہ خفیہ پیغام بھیجا ہے جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہی بنے گا کہ ”کہ لالہ جی پاکستان کے ہاتھوں کہیں اپنے ساتھ ساتھ افغانستان میں ہماری مٹی مزید نہ پلید کروادینا“۔

(جاری ہے)


امریکہ کو اس وقت افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی شدید ضرورت ہے اس لئے وہ یہ نہیں چاہتا کہ بھارت کے ساتھ کشید گی کے دوران وہ افغانستان میں قیام امن کے لئے جو کردار ادا کررہا ہے اس پر سے ہاتھ نہ اٹھالے ،بات یہیں تک نہیں رکی بلکہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان بھی اپنے بھارت کے دورے کو مکمل کرکے جاتے جاتے مودی سر کار کو پیغام دے گئے ہیں کہ ”معاملات مذاکرات سے حل کرنے کی کوشش کی جائے بصورت دیگر خطے میں سعودی سر مایہ کاری کو نقصان پہنچ سکتا ہے “بلاشبہ یہ بھارت کے لئے ایک اہم پیغام تھا جو سعودی عرب نے نئی دہلی کو دیا ویسے بھی سعودی عرب جس انداز کی بھارتی سرمایہ کاری کرنے جارہا ہے وہاں کسی بھی قسم کی عسکری کشیدگی بڑے نقصان کا سبب بن سکتی ہے دوسری طرف چین کھڑا ہے جو پہلے ہی پاکستان میں سی پیک کے نام پر اپنی تاریخ کا اہم ترین قدم اٹھاچکا ہے وہ کسی طور پر بھی چاہے گا کہ بھارتی نیتا اپنا الیکشن بچانے کے لئے پورے خطے کی سلامتی داؤ پر لگادیں اس سارے معاملے میں سب اہم پیغام وزیر اعظم عمران خان کا تھا جنہوں نے واضح انداز میں کہہ دیا کہ اس مرتبہ پاکستان سوچے گا نہیں بلکہ کارروائی کرڈالے گا،اس سارے معاملے کی تشریح پاکستان آئی ایس پی آر کے سر براہ میجر جنرل آصف غفور دنیا کے سامنے ایک پریس کانفرنس کی شکل میں رکھ چکے ہیں ۔


ان تمام باتوں کے ساتھ وہ واضح کر چکے ہیں کہ اگر بھارت کی جانب سے جارحیت ہوئی تو اسے حیران کن جواب کا سامنا کرنا پڑے گا ،دوسری جانب امریکہ ،چین،برطانیہ ،روس اور فرانس کے مصنوعی سیاروں نے اپنے اپنے ممالک میں لاہور اور سیالکوٹ سیکٹر پر بھارتی فوج کی نقل وحمل کی تصاویر بھی ارسال کی ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر ہونے والی سبکی پرپردہ ڈالنے کے لئے بھارتی نیتا کسی وقت بھی کوئی احمقانہ قدم اٹھا سکتے ہیں یہی وجہ ہے پاکستان کی جانب سے پہلے ہی ہائی الرٹ کی پوزیشن ہے ۔


بھارت کی انتہا پسند مودی حکومت اور اس کے حواریوں نے پورے بھارت میں ایک جنگی جنون پھیلانے کی کوشش کی ہے ۔بھارت کے مختلف حصوں میں تعلیم اور روزگار کی غرض سے مقیم کشمیروں کو بھی نہیں بخشا جارہا انہیں پولیس اور سکیورٹی فورسز کی موجود گی میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے دوسری جانب بھارت کے مختلف شہروں میں تعلیم کی غرض سے آئی ہوئی کشمیر ی لڑکیوں کو ہندو غنڈے اغواء کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں یہ صورتحال کہاں جائے گی اس کی سنگینی کا اندازہ بھارتی انتہا پسند قیادت نہیں کررہی،اس ساری صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ بھارتی انتہا پسند حکومت کے بھڑکنے کا سبب صرف پلوامہ میں ہونے والا خود کش حملہ ہی نہیں ہے بلکہ اس حملے کی آڑ میں بھارت نے پاکستان پر جوالزام ترشیاں کی ہیں اور جنگ کی دھمکی دی ہے اس میں پاکستان میں ہونے والی بھاری بین الاقوامی سرمایہ کاری اور افغانستان سے امریکہ کے نامراد ہو کر نکلنے کی کوششوں کا بھی بڑا دخل ہے ،
ممکن ہے ہمارے قارئین کو یاد ہو کہ جس وقت 1974ء میں لاہور کے مقام پر اسلامی ممالک کی سر براہ کانفرنس ہوئی تھی اس کانفرنس کے انعقاد پر امریکہ ،سوویت یونین اور بھارت میں خاصی بھگدڑ مچی تھی کیونکہ1924ء میں خلافت اسلامیہ کے سقوط کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب تمام مسلم امہ کے سر براہان ایک چھت کے نیچے جمع ہو گئے تھے امریکہ سوویت یونین اور بھارت کو نظر آنے لگا تھا کہ شاید کوئی اسلامی بلاک وجود میں آنے لگا ہے اور اگر پاکستان ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس وسائل کے معاملے میں امریکہ اور مغرب سے انحصار ختم ہو جائے گا یہی وجہ ہے کہ امریکہ اشارے پر اس کانفرنس کے محض 4ماہ بعد ہی بھارت نے اپنا پہلا جوہری دھماکہ کیا تھا جو محض جو ہری دھماکہ نہیں تھا بلکہ اس میں پاکستان سمیت تمام مسلم امہ کو یہ پیغام دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان پر جس قسم کا انحصار کرنے جارہے ہیں اسی پاکستان کے پڑوس میں ایک جوہری قوت بھی موجود ہے وہ الگ بات ہے کہ پاکستان نے اس جوہری قوت کے حصول کو اپنی ضد بنالیا اور بالآخر اسے حاصل کرکے دم لیا یہی صورتحال گو ادر کے فعال ہونے اور سی پیک کے قیام کے بعد پیدا ہوئی وہ بھی ایسے وقت میں جب امریکہ افغانستان سے اپنا بوریا بستر لپیٹنے کے چکر میں ہے وہ بھی صورت میں کہ وہ افغان طالبان کے خلاف اپنی ”چار سو برس ایڈوانس خفیہ ٹیکنا لوجی “UFOکو بھی استعمال میں لایا جس کے شواہد کے کلپ اس وقت یوٹیوب پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں ۔

۔۔۔۔
لیکن اس کے باوجود اسے افغان خرقہ پوشوں کے سامنے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اس صورتحال نے بھارتی نتیاؤں کو بد حواس کیا ہوا ہے کہ ایک طرف افغانستان میں بھارت کو کئی بلین ڈالر کی سرمایہ کاری لگا کر بھی اس سر زمین سے نکلنا پڑے گادوسری جانب سی پیک اور گوادر جس وقت پوری طرح فعال ہوں گے تو پاکستان پھر چاروں طرف سے ہن برسے گا جس کے بعد پاکستان کی موجودہ پتلی معاشی صورتحال قصہ پارینہ بن جائے گی دوسری جانب مقبوضہ کشمیر کی عوام بھارت کے خلاف اب نہیں تو کبھی نہیں کی پوزیشن میں آچکی ہے یہ تمام حقائق بھارتیوں کے لئے ایک ڈراؤ نا خواب بن چکے ہیں ۔


نریند مودی توایک کٹھ پتلی ہے بھارت پر حقیقی راج کرنے والے ”برہمن اسٹیبلشمنٹ “آنے والے وقت کی چاپ سن رہی ہے ۔امریکہ اور اسرائیل بھارت کو تھپکیاں دے کو خود بیو قوف بناتے رہے ہیں انہوں نے اپنا عسکری کباڑ خانہ بھارت کو بیچ کراسے یہ تاثر دیا کہ خطے میں پاکستان اور چین کے خلاف اس کی پشت پروہ موجود ہیں لیکن اب خود امریکہ موجودہ صورتحال میں پاک بھارت جنگ کے تصور سے گھبرا رہا ہے کہیں اسے افغانستان میں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں ،اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے مطالبے پر کشمیر کے معاملے پر او آئی سی گروپ کا اجلاس منعقد ہونے جارہا ہے جہاں بھارت بھی مندوب کی حیثیت سے شرکت کر سکے گا۔


اوآئی سی کی تاریخ میں کبھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ عرب لیگ اور او آئی سی کے حوالے سے یہ کہا جائے کہ یہ دونوں تنظیمیں مسلم عوام کو ٹھنڈا کرنے کے لئے قائم کی گئیں تو بے جانہ ہو گا کیونکہ دہائیوں پر پھیلی ہوئی تاریخ میں آج تک ان دونوں پلیٹ فارموں پر کبھی کسی مسلمان ملک کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے ۔اگر ایسا ہوتا تو لیبیا ،عراق ،شام ،مقبوضہ فلسطین،مقبوضہ کشمیر اور یمن میں موجودہ صورتحال ابھر کا سامنے نہ آتی ۔

لیکن اس اجلاس کے بہانے بھارت مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی سبکی سے جان چھڑانے کی کوشش کرے گا۔
اقوام متحدہ ہو یا آو آئی سی انہیں معلوم تو ہو گا کہ 3جون 1947ء میں جب تقسیم ہند کا فارمولا منظور ہو ا تو برصغیر کی 562ریاستوں کو آزاد چھوڑ دیا گیا تھا کہ وہ اپنی جغرافیائی اور معاشیاتی حقائق کے پیش نظر اپنی اپنی آبادی کے خواہشات کے مطابق بھارت یا پاکستان سے الحاق کر لیں ۔

ریاست جموں و کشمیر کی 80فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی اس کی سرحدوں کے600میل پاکستان کی سرحدوں کے ساتھ مشترک تھے ۔ریاست کی واحد ریلوے لائن سیالکوٹ سے گزرتی تھی اور بیرونی دنیا کے ساتھ ڈاک اور تار کا نظام بھی پاکستان سے جڑا تھا۔
ریاست کی دونوں پختہ سڑکیں راولپنڈی اور سیالکوٹ سے گزرتی تھیں اور کشمیر ان سب حقائق کے پیش نظر ریاست جموں وکشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق لازمی طور پر ایک قدرتی اور منطقی فیصلہ ہونا چاہیے تھا لیکن مہاراجہ ہری سنگھ اور کانگریسی لیڈروں کا دلی عزائم اس فیصلہ کے بالکل برعکس تھے مقاصد کو عملی جامعہ پہانے کے لیے انھوں نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ مل کر سازش کا جال بنا جس کے پھندے میں مقبوضہ ریاست کے بے بس اور مظلوم باشندے آج تک بری طرح گرفتار ہیں ،جب 14اگست1947ء کو تقسیم ہند کے منصوبے کا اعلان ہوا تو یڈ کلف نے واضح طور پر جانبداری کامظاہرہ کیا اور نا انصافی پر مبنی کئی فیصلے کئے ،ان سب میں وادی کے حوالے سے اہم یہ تھا کہ گور داسپور کا علاقہ جو مسلم اکثریت تھا اسے بھارت کے ساتھ شامل کر دیا گیا تا کہ بھارت کو ریاست تک پہنچنے کا زمینی راستہ دیا جا سکے ۔


مہاراجہ بھی پہلے ہی یہ سازباز کانگریسی لیڈروں کے ساتھ کر چکا تھا لیکن اس بات کی خبر جب غیور کشمیری باشندوں کو ہوئی تو انہوں نے طے کیا کہ وہ ہرڈو گرہ سے لڑیں گے اور ریاست کا الحاق پاکستان سے کروائیں گے لیکن اس سے قبل ڈوگرہ فوج نے صوبہ جموں میں مسلمان اکثریت کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس کے لیے مسلمانوں کے قتل عام اور ریاست بدری کا طریقہ کار اپنایا گیا چنانچہ اس وقت جموں میں ہزاروں مسلمانوں کو شہید اور اغوا کیا گیا بہت سی عورتیں جنہیں پاکستان لے جانے کے معاملے میں ٹرکوں میں بٹھایا گیاوہ آر ایس ایس کے غنڈوں کے حوالے کردی گئیں جنہوں نے ان کی عصمت دری کی اور بعدازاں انہیں قتل کر دیا یوں جموں میں لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔


جموں کے بعد مہاراجہ کو پونجھ کی فکر سوجھی۔پونجھ میں 95فیصد مسلمان تھے ۔یہاں بہت سے ریٹار ڈفوجی بھی تھے ،ان تک جب مسلمانوں کے قتل عام کی اطلاع پہنچی تو یہ فوراً لڑنے کو تیار ہو گئے یہاں سر دار عبدالقیوم نے دھیر کوٹ سے گوریلا جنگ کا اغاز کیا ۔
وادی کے لوگوں نے عورتوں او ربچوں کو پاکستان منتقل کرنا شروع کیا اور خود سر پر کفن باندھ کر ڈو گرہ فوج سے لڑنا شروع کر دیا چنانچہ راولاکوٹ ،وادی جہلم اور بہت سے علاقوں سے ڈوگرہ فوج فرار ہو گئی ۔

کشمیر کے لوگوں کی رشتہ داریاں افغانوں اور پٹھانوں کے محسود اور دیگر قبائل سے تھیں ۔خواتین اور بچے جب وہاں پہنچے تو ان پر ظلم کی داستانیں سن کر ان کے خون کھول اٹھے چنانچہ ان علاقوں سے لشکر کشمیر کی طرف روانہ ہوتے چنانچہ دنوں ہی دنوں میں مظفر آباد اور ایبٹ آباد کے درمیان ہٹ راوی کے جنگل میں ایک بڑا لشکر جمع ہو گیا۔
خور شید انور نے اس لشکر کی کمان سنبھالی اور انہوں نے ڈو گرہ فوج سے لڑنا شروع کیا چنانچہ مظفر آباد،کوٹلی ،راولاکوٹ اور موجودہ آزاد کشمیر کو نہ صرف ڈو گرہ بلکہ بھارتی فوج سے بھی آزاد کروالیا گیا اور مہاراجہ اس وقت بھارت فرار ہو چکا تھا،اس نے بھارت سے مدد مانگی ۔

بھارت نے اس شرط پر مدد فراہم کی کہ اگر وہ الحاق کی دستاویزات پر دستخط کردے۔
مہاراجہ نے فوراً حامی بھرلی چنانچہ بھارتی فوجیں بھی سرینگر اور وادی کے دیگر حصوں میں پہنچنا شروع ہو گئیں تھیں ،یوں جو حصہ مجاہدین نے آزاد کروالیا وہ آزاد کشمیر کہلایا جبکہ باقی ماندہ کشمیر پر بھارت نے اپنا غاصابانہ قبضہ جما لیا۔چونکہ بھارت اپنی گھناؤنی کارروائیوں سے واقف تھا سو اس نے دنیا کے سامنے یہ اعلان کرنا شروع کیا کہ کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق محض عارضی اور وقتی ہے ۔

الحاق کا حتمی فیصلہ جموں وکشمیر کے باشندوں کی آزاد انہ، منصفانہ اور غیر جانبداز نہ رائے شماری کے ذریعے کر ا لیا جائے گا۔اس بات کا اعلان کیا جواہر لعل نہرو نے کیا۔
چنانچہ اقوام متحدہ میں بھارت کی طرف سے دائر کردہ جنگ بندی کی اپیل منظور کر لی گئی اور بھارت نے اقوام متحدہ میں قرار داد پیش کی کہ کشمیریوں کا فیصلہ استصواب رائے سے کیا جائے گا اور انھیں حق خودارادیت دیا جائے گا۔

یوں 15اگست1948ء کو اقوام متحدہ میں قرار داد حق خود ارادیت منظور کی گئی لیکن بھارت آج تک اس پر عمل کرنے سے گریزاں ہے اور مسلسل وہاں کے مظلوم مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے ۔
تقسیم ہند کے بعد بھی کشمیر یوں نے اپنی جدوجہد آزادی کو جاری رکھا اور اس میں حالات کے مدافق عروج وزوال آتے رہے ۔
1966ء میں محمد مقبول بٹ نے نیشنل لبر یشن فرنٹ کی بنیاد رکھی اس تحریک کا مقصد بھی کشمیریوں کو آزادی دلوانا تھا ۔

سوویت کے ٹوٹنے کے بعد تحریک آزادی کشمیر کو ایک نئی مہلت ملی۔یہاں بھی گوریلا جنگ کا آغاز ہو ا اور بہت سی مسلح آزادی کی تنظیمیں وجود میں آئیں ۔ان کے وجود میں آنے سے 1990ء میں تحریک آزادی کشمیر میں بہت تیزی آئی ۔
جس کے نتیجے میں وادی کے حالات بہت زیادہ خراب ہوئے ۔بھارت سر کار اور فوج نے اس تحریک کو دبانے کے لیے ہر طرح کے مظالم اختیار کیے اور ہلا کووچنگیز خان کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا۔

1999ء میں جب کار گل کے مقام پر جنگ چھڑی تب بھی مسئلہ کشمیر حل ہونے کے قریب تھا لیکن بھارت نے ایک بار پھر اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی دہائی دی جس کو پاکستان نے مان لیا اور یوں تب مسئلہ کشمیر حل نہ ہو سکا ۔
9/11کے بعد جب نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کیا گیا تو امریکہ افغانستان میں آیا بھارت نے خطے میں اس کی موجود گی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سے اقدامات کیے۔

جس کے باعث تحریک آزادی کشمیر کمزور ہوئی لیکن وہ مکمل طور پر ختم نہ کی جا سکی ۔اس کے مظاہرے وقتاً فوقتاً ہمیں دیکھنے کو ملتے رہے ۔آج جب امریکہ اس خطے سے اپنے مشن مکمل کر چکا ہے اور آج بھی کشمیریوں کے حوصلے اسی طرح بلند ہیں ۔
وہ آج بھی بھارت سے اس طرح بیزار اور آزادی کے اسی قدر متوالے ہیں اس کی واضح مثالیں کشمیر میں بھارتی افواج پر ہونے والے حملے ہیں ۔

کشمیریوں نے ایک بار پھر پوری دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہم ہر صورت بھارت سے آزادی حاصل کر کے رہیں گے اور پاکستان سے الحاق ہی کشمیریوں کی منزل ہے ۔
اس حوالے سے بڑی قوتوں کو بھی عقل کے ناخون لینے چائیں کیونکہ اس مرتبہ کشمیر کے مسئلے پر پاک بھارت جنگ چھڑ تو یہ ماضی سے بالکل مختلف ہو گی یہ صرف خطے تک محدود نہیں رہے گی بلکہ بڑی قوتوں کو بھی اس مسئلے پر خاموشی کی قیمتی چکا نا پڑ سکتی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

moodi aur hindu intahaa pasandon ka jungi junoon Bharat ko nigal sakta hai is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 February 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.