بلاول بلا وجہ بھٹو

منگل 23 اپریل 2019

Engr.Iftikhar Chaudhry

انجینئر افتخار چودھری

لوگوں کو اس بات سے غرض نہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اسمبلی میں پی ٹی آئی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں لیکن محب وطن حلقوں کو ان کی تقریر کے ان مندرجات سے شدید اختلاف ہے جس میں وہ پاکستان کے سیاسی لیڈروں کو دہشت گرد تنظیموں کا ساتھی قرار دیتے ہیں۔انہوں نے وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ پر یہ الزام لگایا کہ وہ ڈینئل پرل کے قتل میں ملوث ہیں اور ان کے ہاتھ اس صحافی نما جاسوس کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔

ہمارے ایک دوست روء ف طاہر ہیں کالم نویس بھی ہیں تجزیہ کار بھی۔ انہوں نے جدہ میں قیام کے دوران ایک بڑی خوبصورت بات بتائی کہ وہ ایک بار حکومتی وفد کے ساتھ امریکہ گئے تو انہیں بریفینگ دینے والے نے کہا کہ امریکہ ہر وقت سچ کے ساتھ کھڑا رہتا ہے۔

(جاری ہے)

جس پر صحافیوں نے سوال داغا کہ وہ کون سا سچ ہے جس کے ساتھ امریکہ کھڑا رہتا ہے جواب دینے والے نے ٹکاسہ جواب دیا ہر وہ چیز سچ ہے جو ہمارے ملک کے لئے ٹھیک ہے۔

شائد یہی وجہ ہے کہ امریکیوں کو ویت نام میں جو بد ترین شکست ہوئی ان کے کاغذوں میں اب بھی فتح ہے عراق میں لاکھوں لوگوں کے وحشیانہ قتل کو بھی سچ کہا جاتا ہے اور افغانستان میں بموں کے بادشاہ بم ڈیزی کٹر کو گرانے کو بھی بہتر سمجھا گیا اور تو اور ناگا ساکی اور ہیر وشیما پر امریکی صدر ٹرومین کی جانب سے ایٹمی حملے کو بھی ملکی مفاد کے لئے سچ سمجھا گیا اور بہتر جانا گیا۔


جیسا کہ میں نے کالم کے شروع میں کہا کہ بلاول کا حق بنتا ہے کہ وہ اقتتدار سے باہر ہونے کے بعد بطور ایک پارٹی کے سربراہ کے اسمبلی فلور پر حکومت پر جو تیر برسانا چاہے برسائے مگر ڈینیئل کے قتل کو پاکستان کے وزیر داخلہ سے منسوب کرنا انہیں زیب نہیں دیتا۔اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بی بی نے ان کا نام اس لسٹ میں رکھا جو ایک ای میل میں بتایا گیا ہے تو مجھے صرف یہ بتا دیجئے آپ کت پا پا نے اس لسٹ میں درج ایک نام کو ڈپٹی وزیر اعظم کا درجہ کیوں دیا۔

مطلب تو یہ ہے یا بی بی غلط تھی اور یا پھر آپ کے پا پا ۔کسی ایک مقام پر پاکستان کے ان لیڈروں کو ایک ہونا چاہئے اور وہ مقام پاکستان کی سالمیت کے دفاع کا ہے۔وہ وزیر خزانہ کو اپنا کہہ رہے ہیں لوگوں کو یہ جان لینا چاہئے کہ وزیر خزانہ کسی پارٹی کے نہیں ہوتے یہ بین الاقوامی اداروں کے پسندیدہ لوگ ہوتے ہیں۔یہ بات بھی والد محترم سے پوچھئے کہ موصوف کس کا انتحاب تھا۔

کسی کو پاکستانی معیشت کی بہتری کی امید اسی عطار کے لونڈے سے ہو جس کے سبب بیمار ہوئے تو وہ جھلوں کی دنیا میں رہتا ہے۔شوکت عزیز معین قریشی شوکت ترین حفیظ پاشا اور حفیظ شیخ ہی اگر اس ملک کی قسمت سنوارنے کے اہل ہوتے تو پاکستان کی معاشی بد حالی کے یہ دن ہمیں نہ دیکھنا پڑتے ۔سچ پوچھیں اس ملک میں وزیر اعظم تو عوام بدل سکتے ہیں لیکن وزیر خزانہ وہی ہو گا جو ورلڈ بینک ایشین ڈویلیپمنٹ بینک اور دیگر عالمی معاشی اداروں کا یا تو ملازم رہ چکا ہو گا یا اس جیسی سوچ رکھتا ہو گا۔

میاں نواز شریف کے وزیر خزانہ اسحق ڈار کو پہلے ہی ہفتے میں اربوں ڈالر کیسے ملے ۔شائد اس ملک کے بد نصیب لوگوں کو علم نہیں کہ ڈالر جو مشرف دور میں ساٹھ کا تھا وہ ایک سو چار پر پہنچ گیا۔اور اسے98تک لانے کے لئے مارکیٹ میں ادھار کے22 ارب پھینکے گئے۔۔دو ضرب دو کو پانچ ثابت کرنے والے اس مداری نے قوم کو اس قدر قرضوں میں جکڑ کے رکھ دیا کہ سود کو ادا کرنے کے لئے سود پر قرض لئے جا رہے ہیں۔

اسد عمر یقینا کوئی دنیا کے بہترین اکانومسٹ نہیں تھا لیکن اتنا ضرور تھا کہ اس شخص پر ایک روپے کی کرپشن کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔سادہ سی بات ہے کہ اسحق ڈار کے دبئی میں پلازے کہاں سے آئے وہ لندن میں بھاگ کر بھی وزیر خزانہ کیسے رہے اس پر سوچئے میرا آج کا موضوع اسد عمر نہیں اور نہ پاکستان کی ڈوبتی معیشت ہے۔میں ایک آواز بننا چاہتا ہوں وہ آواز ان محب وطن پاکستانیوں کی ہے جن کا مرنا جینا اس ملک میں ہے جن کسی کے پاس نہ تو سرے محل ہے اور نہ ہی ایون فیلڈز کے فلیٹ ۔

مجھے پورا یقین ہے کہ دنیاوی خداؤں نے اس پاکستان کو جس شکنجے میں جکڑا ہوا ہے اس سے عمران خان تو کیا ساٹھ عمران خان بھی نہیں نکال سکتے اس لئے نہیں کہ ان میں صلاحیت نہیں اس لئے کہ انہیں باندھ کے مارا جا رہا ہے ایسے میں جو کچھ وہ کریں گے وہ شائد کسی کے وہم و گمان میں نہیں ابھی وقت دور ہے لوگ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ انٹر نیشنل اسٹیبلیشمنٹ کیا کر رہی ہے۔

جتنا بڑا چور پکڑا جاتا ہے وہ دو انگلیاں دکھا کر دنیا کو بتا دیتا ہے کہ ہائی کورٹ ہے ناں۔جن کی زبانوں کو مرض اسہال لاحق تھا وہ چپ شاہ بنے بیٹھے ہیں۔چولی کے پیچھے کیا ہے؟یہ جو پبلک ہے سب جانتی ہے۔کون چاہتا ہے کہ مسلمان ملکوں میں حقیقی جمہوریت پنپے اگر کسی کو کوئی خام خیالی ہے تو الجزائر اور مصر کو دیکھ لے۔محمد مرسی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ نوشتہ ء دیوار ہے۔

ادھار کی مئے پینے والوں کو یہ جان لینا چاہئے کہ ہماری صفوں میں ایسے لوگ شامل ہیں جو پاکستان پر معاشی پابندیاں لگوانا چاہتے ہیں ڈان لیکس اپنی جگہ ایک بڑا دھماکہ تھا پھر اس کے بعد نواز شریف نے جو کچھ کہا وہ بھی بلاول ہی کی طرح کی بات ہے انہوں نے کہا ہماری فوج در اندازی کرتی ہے اور ہم انڈیا میں مداخلت کرتے ہیں اس قسم کی سوچ نے ہر اس پاکستانی کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت میں دہشت گرد قرار دی جانے والی تنظیموں کے لوگ شامل ہیں۔

ان ملکوں کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ دنیا کے بڑے ادارے ان کے گھر کی لونڈی ہیں ۔اقوام متحدہ عالمی بینگ آئی ایم ایف یہ سب ان کے اور کوئی مزاحمت کرے تو ایف اے ٹی ایف کے ذریعے اس ملک کو سیاہ لسٹ میں ڈال دو جو اس ملک کا محاصرہ اور مقاطعہ کرنے کے برابر ہے۔ایک ہاتھ میں ڈنڈا اور دوسرے ہاتھ میں من مانی شرائط اور تیسرا ملک کے اندر سے ایک ایسی پارٹی کے سربراہ کے منہ سے ایسی باتیں جس سے ڈر ہے پاکستان کسی بڑی مصیبت میں گر سکتا ہے۔

اگر گھر کے بھیدی ہی لنکا ڈھانا شروع ہو جائیں گے تو کون دفاع کرے گا۔ہار صرف یوسف رضا گیلانی کی بیگم نہیں ہڑپ کر گئی تھی جدہ میں بھی سوناروں نے ایک ہار دیا تھا؟
میں بذات خود جنرل نصیر اللہ بابر کا مداح ہوں کہ جنہوں نے کراچی میں ریاست کے خلاف ایک ریاست بنانے والوں کو لگام دی تھی لیکن یہ بھی یاد رکھئے طالبان جو آج امریکہ بہادر کو ایک آنکھ نہیں بھاتے ان کی بنیاد بی بی شہید کے دور میں رکھی گئی تھی۔

اگر طالبان ملک دشمن ہیں غدار ہیں تو حضور یہ کس نے بنائے بلاول صاحب الزام تو والدہ پر لگے گا ۔اس کی ذمہ داری بے نظیر پر ہے۔ہماری اسمبلیوں میں بیٹھے ہمارے لوگ یہ بات کیوں نہیں کرتے۔
ہمیں بھٹو کو گالی دینے کی ضرورت سے زیادہ اس حاکم علی زرداری کی بات کرنا ہے جس کا خون بلاول کی رگوں میں ہے اس حاکم علی زرداری کی بات کیوں نہیں کی جاتی جس نے قائد اعظم کے بارے میں بے ہودہ گفتگو کی تھی۔

بلاول کس منہ سے مادر ملت کی بات کرتے ہیں جس کے بارے میں ان کے بڑے لغویات بکتے رہے۔
جن تنظیموں کی بلاول بات کر رہے ہیں یہ اقوام متحدہ کی جانب سے بین ہیں اور پاکستانی قانونی طور پر پابند ہے کہ ان پر پابندیاں عائد کرے۔لیکن حافظ سعید پر آج تک عدالتیں یہ ثابت نہیں کر سکیں کہ انہوں نے کوئی دہشت گردی کی ہے۔بس اس ڈر سے انہیں پابند کر دیا گیا کہ دنیا کے جعلی خدا ؤں کو اس لئے چڑ ہے وہ ان کا آلہ ء کار نہیں۔

اسد عمر کو جو سزا دی گئی یہ اسی طرح کی سزا ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کو دی گئی ہنری کسینجر کے وہ الفاظ تاریخ کا حصہ ہیں کہ ہم تمہیں تاریخ میں ایک عبرت ناک کردار سے روشناس کرا دیں گے۔جس کسی نے ناں کی وہ صدام فیصل قذافی اور بھٹو بن گئے۔اللہ کسی اور کو اس کا نشانہ نہ بنائے لیکن اسد عمر نے ہی کہا تھا کہ آمریت والے ملکوں کے سامنے تلواریں پکڑ کر ناچتے ہو اور ہمیں طعنہ دیتے ہو کہ چائینہ سے تعلقات نہ بنائیں۔

اور یاد رکھیں گاؤں کے چودھری کے سامنے اکڑ کے بات کرنے والے کے ساتھ برا سلوک ہوتا ہے۔آئی ایم ایف پاکستان سے چاہتی کیا تھی اس کا کہنا تھا کہ چائینہ کے ساتھ جو معاہدے ہیں وہ ہمیں دکھاؤ۔چلئے یہ کام بھی کر کے دیکھتے ہیں اب تو اسد عمر کو ہٹایا گیا ہے اللہ کرے اس تبدیلی سے ملک بدلے۔ایک اخبار کے ایڈیٹر نے کیا خوب کہا پیسے وی اونہاں دے تے منشی وی۔

یعنی رقم بھی ان کی اور تقسیم کار بھی ان کا۔لوگوں کی زبان کو نہیں روکا جا سکتا ۔
بلاول کئی بار کہہ چکے ہیں کہ دہشت گرد تنظیموں کے کئی لوگ حکومت میں ہیں نوجوان لیڈر سے کہنا ہے کہ طالبان کو بے نظیر دور میں بنایا گیا تو پھر ایک سچے پاکستانی کا ہے کہ بے نظیر پر بعد از موت مقدمہ چلایا جائے جائے اور مدینہ منورہ کے ہوٹل گرین پیلس میں اسامہ بن لادن سے کیش رقم لے کر عیاشی کرنے والے نواز شریف کو بھی اسی الزام میں کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔

اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو فضول کی باتیں نہ کی جائیں۔اس ملک میں سب نے رہنا ہے اور ایک اچھے پاکستانی کی طرح رہنا ہے تو وہ باتیں جو نواز شریف نے کیں اور جس کا تسلسل بلاول کی زبان سے جاری ہے انہیں بند کرنا ہو گا۔بات فالودے والے کے اکاؤنٹس سے ڈینئل پرل کے قتل تک کیوں پنچی؟بلاول جواب دیں۔عمر ایب سے معذرت کے ساتھ بلاول کو بھٹو کے نام کے پیچھے نہ چھپائیں۔

بھٹو غیرت مند تھا پھانسی پر جھول گیا یہ فالودے والے ویلڈر ایان علی کے ڈالروں کے رکھوالے زرداری کی اولاد ہے بھٹو کی نہیں۔
اس سچ پر بھی لعنت جو میرے ملک پاکستان کی سانس بند کرنے کے کام آئے۔کل اسمبلی میں بلاول نے جو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے ۔بس ایک سوال اور بھی اٹھا کہ اس بار انگریزی میں تقریر کیوں نہیں کی گئی ؟کیا وہ اسد عمر سے ڈر گئے ہیں۔

اگر وہ پی ٹی آئی کو طعنہ دے رہے ہیں کہ ہمارا وزیر خزانہ کیوں لیا؟تو جواب یہ ہے کہ جناب
 مرغی آپ کی ہے تو ادھر انڈے کیوں دینے آئی ہے؟
حضور لوگ آپ کے ابا جی کے لچھنوں کی وجہ سے ادھر سے ادھر آئے ہیں۔عمران خان نے اپنی تقریروں میں کہا تھا کہ بھٹو ایک عظیم لیڈر ہے اس کے چاہنے والے میری پارٹی میں شامل ہون اس لئے بھٹو کے قریبی لوگ پی ٹی آئی میں آئے جن میں ان کا سوہنا منڈا کھر بھی شامل ہے۔

دل پر ہاتھ رکھ کر کہئے کہ بھٹو کی پارٹی اور زرداری کی پارٹی میں کیا فرق ہے۔یہ آپ کو وہ جیالا بتائے گا جو ضیاء الحق کے کوڑے کھا چکا ہے۔بی بی کے دور میں تو جناب زرداری کو کسی میٹینگ میں ہی نہیں بلایا جاتا تھا۔لوگ حیران ہیں کہ بی بی کی جعلی وصیت کی بنیاد پر پانچ سال گزارنے والے صدر زرداری کے ساتھ باقی ماندہ منہ مہاندرے والے لوگ کیوں کھڑے ہیں؟
پاکستان پیپلز پارٹی اب جس نہج پر اتری ہے یقینا اسے سیکورٹی رسک قرار دینا ماضی کا فیصلہ درست تھا اسی پارٹی سے الذوالفقار بنی اور اسی پارٹی کے لوگوں کے ہاتھوں اپنے لیڈران کے قتل ہوئے۔

بی بی کی شہادت کیسے ہوئی کس نے کی وہ رحمان ملک کی بجائے ناہید خان سے پوچھیں۔ایسے الفاظ جو اسمبلی فلور پر بولے جائیں جس سے ملک کی سالمیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے سے گریز کیا جائے۔یہ تو سچ ہے کہ روز قیامت بچے اپنے ماؤں کے نام سے پکارے جائیں گے لیکن کیا حاکم علی زرداری اور آصف علی زرداری کا خون پاکستان پر نئی قیامت ڈھانا چاہتا ہے۔پاکستان سوال اس بلاوجہ بھٹو سے یہ ہے کہ تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
ہوئے تم دوست جس کے
 دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :