دھرنا دھرنا کردی نی میں آپے دھرنا ہوئی

بدھ 20 نومبر 2019

Hasnat Ghalib Raaz

حسنات غالب راز

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بچے نے اپنی ماں سے ضد کی کہ میرے دودھ میں چینی ڈالو۔ ماں نے چینی ڈال کر دودھ کو شیر و شکر کردیا تو بچے نے کہا: ’ میں نے چینی والا دودھ نہیں پینا ،چینی کو دودھ سے نکالو ۔‘ ماں ایسا نہ کر سکی تو بچے نے رونا چلانا شروع کردیا۔ ماں نے بچے کو بہت سمجھایا ،آخر تنگ آکر اس نے بچے کی پٹائی کر دی ۔ بچہ مزید چیخا اورسسک سسک کر سو گیا ، جب بچے کی آنکھ کھلی تو وہ سار ا جھگڑا بھول چکا تھا ۔

وہ کافی حد تک بہتر ہوچکا تھا ۔ اب وہ ماں سے چینی ڈالنے کی خواہش کم سے کم کرتا اور اگر کبھی کرتا تو اسے واپس نکالنے کی ضد نہ کرتا ۔ یہ کہانی پڑھ کر اہلِ ادب نے چند کہاوتیں ایجاد کیں ، مثلاً لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ،استاد اور ماں باپ کی مار سنوار ہوتی ہے، پولیس کی مار خوفناک اور حوصلہ افزا ہوتی ہے، خلوص کی مار دھوکے باز ہوتی ہے ۔

(جاری ہے)

پیار کی مار تعمیر ہوتی ہے ۔اللہ کی مار عذاب ہوتی ہے ۔مزید یہ کہ مچھلی پتھر چاٹ کے ہٹتی ہے۔ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں ۔وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا وغیرہ وغیرہ
پاکستان کی سیاست میں دیکھا جائے تو اس میں اس طرح کے کئی ضدی بچے دکھائی دیتے ہیں ۔مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ 300میں سے 162نشستوں میں کامیاب ہونے کی بناپر اکثریتی جماعت تھی ۔

اس کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن تھے ،جنھوں نے اپنے 6نکات پیش کیے۔ دوسری جانب مغربی پاکستان خصوصاًپنجاب اور سندھ کی نمایندہ پارٹی کے سربراہ اور پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹوتھے ،دونوں مجموعہ اضدادتھے دونوں نے ایک دوسری کے نکات وخیالات کو ماننے سے انکار کر دیا ۔ ہر دو جانب کی ضد کا نتیجہ یہ نکلا کہ خانہ جنگی ہو ئی اور 16دسمبر 1971میں پاکستان دو لخت ہو گیا ،یوں پاکستان کو اپنے مشرقی حصہ کی جدائی کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زخم سہنا پڑا ۔


جنرل ضیا اور بھٹو میں ٹھن گئی ،جوبالآخر 4اپریل 1979کے دن بھٹو کی پھانسی پر منتج ہوئی ۔بے نظیر نے 21جون 1953ء کوجمہوری گھرانے میں آنکھ کھولی اور 1988سے 1990ء تک پاکستان اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کے طور پر منظر عام پر تشریف لائیں ۔ بابا غلام اسحق کے ہاتھوں معزول ہوئیں ۔1993تا 1996دوسری بار فاروق لغاری کی اٹھارویں ترمیم کا نشانہ بنیں ،جب کہ پرویز مشرف دورمیں 27دسمبر 2007ء راولپنڈی میں 54سال کی عمر میں کسی نامعلوم شخص کی گولی کا نشانہ بنیں ۔

کیا سچ کا زمانہ تھا کہ جب عشق ،مشک اور قتل چھپے نہیں رہتے تھے مگر کچھ دنیا کے نین و نقش پر کچھ ایسا حجاب آیا کہ حقائق چھپنے لگے مگر انسان بے پردہ ہونے لگے ۔
20جون 2001ء میں پاکستان کے دسویں صدر مشرف اور نواز شریف میں باہم ٹھن گئی ۔مشرف نواز شریف کے لیے آسماں سے عذاب کی صورت میں نازل ہوئے ۔نواز شریف نے اپنے راستے کی رکاوٹ سمجھتے ہوئے آرمی چیف مشرف کے طیارے کی پرواز کو لینڈنگ سے روکنے کی کوشش میں ناکامی پر خود کو اغواکار برائے قتل کی مقدمے میں پھنسا لیا ۔

بھٹو کی طرح پھانسی کے پھندے سے بچانے کے لیے سعودی عرب کی سفارشات پردسمبر 2000ء میں نواز شریف اور صدر مشرف کے مابین معاہدہ طے پایا اور نواز شریف اپنے اہل ِخانہ کے ساتھ سرزمین ِحجازہجرت فرما گئے ۔سوچا کیاہوا کیا ، کسی کو دھرنا تھا دھرے گئے آپ خود ، عجب فیصلے ہیں تقدیر کے ،وہ چاہے تو شاہوں کو گدا کردے وہ چاہے تو فقیروں کو بادشاہ کردے ۔


پرویز مشرف کی ہزارو ں خواہشوں کی تکمیل ابھی باقی تھی ، انھوں نے صدر رہنے کے لیے پیپلز پارٹی کے آگے دستِ حاجت دراز کیامگر آصف زرداری نے 6ستمبر 2008ء کو اپنی پارٹی کو دفاع عطا فرمایا اور صدر مشرف کو چلتا کیا ۔صدر زرداری کی حکومت نے پانچ سال پورے کرنے والی پہلی جمہوری حکومت کا اعزاز اپنے نام کیا ۔
پھر سے عوام نے نواز شریف کو منتخب کیااور تیسری بار وزیر اعظم بننے کا اعزاز انھی کے سرسجا ۔

پہلی بار 1990ء سے 1993ء ،دوسری بار 1997ء سے 1999ء اور تیسری بار 2013ء تا 2017ء پاکستان کے وزیراعظم کے طور پر ہیٹرک مکمل کی لیکن سادہ طبیعت ،انا پرست اور بادشاہ مزاج نواز شریف ایک بار بھی اپنے پانچ سال پورے نہ کر پائے اور بدقسمتی سے تینوں بار کسی نہ کسی سیاسی کوتاہی سے اپنی وکٹ لے اڑے ۔آخری دورِ حکومت میں عمران خان نے سال 2014ء میں میاں نواز شریف کا تعاقب کرنا شروع کردیا۔

عمران خان نے ایک ضدی بچے کی طرح 126دنوں پر محیط آزادی مارچ المعروف سونامی مارچ 14اگست تا 17دسمبر 2014ء جاری رکھا لیکن دودھ سے شکر نکلوانے میں ناکام رہے ۔ اللہ بھلا کرے پانامہ لیکس کا، جن کے باعث جولائی 2018ء ، نواز شریف کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے عوامی عہدے کے لیے ناصرف نااہل قرار دیا بلکہ ایوین فیلڈ ریفرنس کے تحت دس سال قید کی سزا بھی سنا ئی ۔

شریف فیملی کے ہر فرد پر کرپشن کے داغ لگنا شروع ہوئے اور اڈیالہ اور کوٹ لکھپت جیل زیارت گاہِ عاشقانِ مسلم لیگ ن قرار پائی ۔ ابھی ان دنیاوی سزاؤں کا سلسلہ رکا نہیں ،آسمانی آفات نے آ گھیرا ، میاں نواز شریف دورانِ قید بیمار ہوگئے۔ بقول بہادر شاہ ظفر
بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ
قسمت میں قید لکھی تھی فصلِ بہار میں
کے مصداق اپنے مقدرکا لکھا دکھ شام و سحر سہنے پر مجبور ہوگئے ۔

کچھ اپنے غیر ملک میں جاگزیں ہوئے اور کچھ یہاں بے بسی میں گرفتار ہوئے ،جن میں خاص طور پران کی عزیز بیٹی مریم نواز شریف پابندِ سلاسل ہوگئی ۔ پلیٹ لٹس کی کمی بیشی توکبھی انجائنا کا دردِ دل ، کبھی ذیابیطس تو کبھی تناؤ،کبھی گردے کی پیچیدگیاں تو کبھی تھرومبو سیٹوپینیا ، کبھی لوپرن کے استعمال سے خون کا پتلا پن تو کبھی بلڈ پریشر اور شوگر کے غم اور اس پر مستزاد میڈیا پر تبصرے تو کبھی پی ٹی آئی کی طرف سے NROنہ دینے کی دھمکیاں ،کبھی انڈیمنٹی بانڈ کی شرائط تو کبھی خدا ترسی کے قصے ۔

، قرآن فرماتا ہے:
وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآ ءُ و َ تَذِلُّ منْ تَشِآء
 اوروہ جسے چاہے عزت دے، جسے چاہے ذلیل و رسوا کردے
 بادشاہوں پربھی برا وقت آتا ہے، یہ ایک حقیقت ہے ،بہادر شاہ ظفر کے بعد میاں نواز شریف اس کی تازہ مثال ہیں ۔ اللہ اللہ کر کے لاہور ہائی کورٹ نے حلفیہ بیان کے عوض آخر کار ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دی ،رخت سفر باندھ لیا گیا ،قطر سے آمدہ ائیر ایمبولنس کا انتظام ہو چکا اور دیار غیر سے شفا پانے کے لیے ملک کے تین بار کے وزیر اعظم بروز منگل 19نومبر 2019ء ، اپنے برادرِ حقیقی شہباز شریف ، خصوصی معالج ڈاکٹر عدنان سمیت سات لوگوں کی بنات النعش کے ساتھ لندن کے لیے روانہ ہوچکے ۔

ان کے خلاف دھرنا دینے والے اپنی حکومت چلارہے ہیں۔ اس امید کے ساتھ کی نواز شریف صحت مند ہو کر آئیں گے اور پھر سے ہم ان کے ساتھ پنجہ آزمائی کریں گے ۔فردوس عاشق اعوان کا خیال ہے کہ بیمارآدمی کے ساتھ ہاتھا پائی کرنا بری بات ہوتی ہے ۔
جس طرح فضل الرحمن کے ذکر میں میڈیایرغمال ہوگیا اسی طرح کچھ دنوں سے میاں نواز شریف کی بیماریٴ دل کے ہاتھوں ہائی جیک رہا ۔

میڈیا دکھی انسانیت کا خیر خواہ ادارہ ہے ،جہاں کافی لوگ انسانی ہمدردی کے جذبے سے سرشار ہو کر اپنے معاوضے وصول کرتے ہیں ۔ ان میں اینکر پرسن نامی افراد انسانیت کے وہ ہمدرد مسیحا ہیں کہ کسی کو کانٹا بھی چبھے تو درد ان کے پاؤں میں ہوتا ہے ۔یہ بڑے عظیم لوگ ہیں ،یہ بڑے ھوصلہ مند لوگ ہیں ۔ ان کے لیے تازہ خبر ایسے ہی ہوتی ہے جیسے شیر اور چیتے کے لیے تازہ لہو ،یہ شاہین کی طرح کبوتر پر جھپٹنے کو اس کے لہو سے زیادہ قیمتی جانتے ہیں ۔

یہ بڑے فراخ دل ہوتے ہیں ، یہ چاہیں تو 72برسوں کے کشمیر کا دکھ بھلا کر مولانا فضل الرحمن کا غم بانٹنا شروع کردیں ۔ یہ چاہیں تو ڈینگی اور کتوں کے کاٹنے سے مرنے والوں کا دکھ بھول کر کسی عام سی خبر کا میک اپ شروع کردی ۔ہم نہیں کہتے لوگ کہتے ہیں کہ میڈیا والوں کا تو کام ہی یہی ہے ۔ اس سے آگے کے حالات وواقعات اللہ جانتا ہے ۔ یہ کہانی پھر سہی، ابھی ہمیں اپنی موضوع کی طرف جانا ہے ۔


پچھلے دنوں کی بات ہے مولانا فضل الرحمن نامی باریش بزرگ اور نوجوان نے دھرنے کا پروگرام بنایا ۔ دھرنے کاکیا مقصد تھا ،دھرنا ختم ہونے کے باوجود ابھی تک اس کا مقصد واضح نہیں کیا گیا ۔کسی بزرگ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ ’ راز راز رہے تو رازہے، وگرنہ ان دھرنوں میں رکھا کیا ہے ‘ الغرض مولوی صاحب المعروف مولانا فضل رحمن نے محترم عمران احمد خان نیازی المعروف عمران خان ، جوکہ پہلی بار وزارتِ عظمیٰ کا ذائقہ چکھ رہے ہیں کی حکومت کا دھرن تختہ کرنے کے لیے 27اکتوبر 2019ء کے دن کا انتخاب کیا ۔

یہ وہی دن ہے ،جب 27اکتوبر 1947ء کو راجہ ہری سنگھ نے کشمیر کا الحاق بھارت سے کیا تھا اور پاکستان میں اس دن کو یومِ سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ فضل الرحمن کاآزادی مارچ ،جسے بعد میں دھرنا اور مزیدبعد میں اڑن کھٹولے کا روپ دھارناتھا،کئی لوگوں نے منع کیا کہ آپ اس دن کے بجائے کوئی اور دن مقرر کریں ۔ مگر وہ پہلے نہ مانے، پھر یوں مانے کہ ہ اپنے آزادی مارچ کاآغاز اسی دن ہی سے کریں گے مگر کشمیر پر اتنا ترس کریں گے کہ اسلام آباد 31اکتوبر پہنچیں گے ۔

اتنی رعایت کافی ہوتی ہے کوئی سمجھے نہ سمجھے ۔
 خیر قافلہ چلا ،رسمی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں ، تصادم نہ کرنے کے مشوروں پر عمل ہوا اور خیر سے اہلِ دھرنا اسلام آباد تشریف لائے ۔ دو دن کے اندر عمران خان کو استعفا دینے کا حکم امتناہی جاری کیا گیا ،جو عمران خان کی سمجھ میں نہ آیا ،جس کی وجہ سے ابھی تک وہ استعفا دینے سے غافل ہیں ۔ دودن کو اٹھارہ دن میں بھی نہ سمجھنا ،نہ سمجھنے کی بھی کوئی حد ہونی چاہیے!بقول فضل الرحمن اکثر احباب نہیں جانتے کہ فضل الرحمن کیا ہے ، کتنا طاقتور ہے ۔

ایک پاکستانی شہری کی حیثیت سے ان کی شخصیت کا اندازہ کیا جانا چاہیے ۔
فضل الرحمن دائیں بازو کے سخت گیر اور مفاہمت گیرسیاست دان ہیں ۔یہ جمعیت علمائے اسلام کے صدر ہیں ۔انھی کی وجہ سے اس جماعت کے ساتھ ’ ف ‘ کا لاحقہ لگایا جاتا ہے ۔ ان کی ابتدائی زندگی کا مختصر جائزہ لیں تو یہ عیسوی کیلنڈر کے مطابق 19جون 1953ء میں ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک مذہبی اور سیاسی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔

الازہر یونی ورسٹی سے ماسٹر کیا، ان کے والد محترم مفتی محمود بیک وقت اسلامی سکالر اور سیاست دان تھے،جو 1972سے 1973ء تک پشاور (موجودہ خیبر پختونخواہ) میں وزیراعلیٰ کے عہدے پرفائز رہے ۔ گھرانے کا مذہبی جھکاؤ اور تعلق دیوبند تحریک سے ہے۔فضل الرحمن نے اپنے والد کی وفات کے 27سال بعد جمعیت علمائے اسلام کے سیکرٹری جنرل کے طور پر سیاسی زندگی کا آغاز کیا ۔


1988سے مئی 2018ء تک قومی اسمبلی کے ممبر رہے ہیں ۔2001میں افغان امریکا جنگ میں امریکی صدر کو تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ پرویز مشرف کو اس کا تختہ الٹ دینے کی دھمکی دی ۔مشرف نے اس کے صلہ میں ان کو اکتوبر 2001میں نظر بند کرا دیا ۔2002میں رہا فرما کر ان کے خلاف مقدمات کو واپس فرمادیا ۔ اسی سال یہ تیسری بار قومی اسمبلی کے ممبر بنے ۔ وزیرعظم بننے کی کوشش کی ،مگرنہ بن سکے ۔


2004ء سے 2007ء تک حزبِ اختلاف کے قائد بھی رہ چکے ہیں ۔بعض حلقے انھیں طالبان نواز سیاست دان بھی قرار دیتے ہیں لیکن ان کے ہاں اعتدال پسند ہونے کا برانڈ بھی مستعمل ہے ۔انھوں نے پاکستان میں شریعت کانظام نافذ کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا، مگر مناسب جانتے ہوئے سکولر سیاست کے ساتھ ضم ہوگئے۔ 2008ء میں قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بنے۔

اسی اثنا میں انھوں نے طالبان سے خود کو دور کرکے اعتدال پسند قراردے دیا ۔مئی 2014ء میاں نواز شریف نے قومی اسمبلی کی کشمیر سے متعلق کمیٹی کے خصوصی چیئرمین ہونے کی حیثیت سے وفاقی وزیر کا درجہ دے دیا ۔اگست 2017ء شاہد خاقان عباسی نے انھیں ریفریش کردیامگر 31مئی2018ء قومی اسمبلی کی مدت ختم ہونے پرمولوی ساحب نے اپنے اس عہدے کو خیرباد کہ دیا۔

مارچ 2018ء میں متحدہ مجلسِ عمل کے صدر قرار پائے ۔ اسی سال ڈیرہ اسماعیل خان سے این اے 38اور 39سے الیکشن لڑا لیکن ناکام ٹھہرے ۔مسلم لیگ ن سمیت متعدداپوزیشن جماعتوں نے انھیں ایم این اے کے بجائے صدر کے عہدے کے لیے مناسب سمجھا اور 27اگست 2018ء عارف علوی کے مقابلے میں لاکھڑا کیا ۔لیکن پی پی پی نے اپنا امیدوار اعتزاز احسن کھڑا فرمادیا ۔ اعتزاز نے 124، عارف علوی نے 352جب کہ فضل الرحمن نے 184ووٹ لے کر دوسری پوزیشن حاصل کی ،مگر صدر نہ بن سکے ۔

یوں ایک اور بڑی کوشش رائیگاں گئی مگر مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا ۔
اس کے بعد عمران خان کی حکومت براجمان ہوئی ،جسے مولوی صاحب نے 14ماہ بادل نخواستہ برداشت کیا لیکن بالآ خر 27اکتوبر 2019ء سے آزادی مارچ کے نام سے دھرنا کے لیے سکھر سے اسلام آباد کی جانب رختِ سفر باندھا ۔ 31اکتوبر کو وزیراعظم کو دودن کے اندر استعفا کا حکم دیا اور اداروں کو حکومت کی حمایت سے باز رہنے کی تلقین کی ۔

حکومت کی طرف سے مذاکراتی ٹیم اور دھرنا گروپ کی طرف سے رہبر کمیٹی نامی کمیٹی معرض وجود میں آئی ۔استعفا کے بغیر مذاکرات نہ کرنے پر اتفاق ہوامگر مذاکرات ہوتے رہے ۔ منجھے ہوئے سیا ستدانوں نے کردار اد ا کرنے کی ٹھانی ۔ لہٰذا پرویزالٰہی اور نہایت سنجیدہ وجہاں دیدہ سیاستدان چودھری شجاعت نے اصلاح احوال کا بیڑا اٹھایا ۔مذاکرات کی ناکامیابی بتائے جانے کے باوجود کامیابی ہوگئی ۔

بالآ خر 13نومبر تک فضل الرحمن نے 31کے ہندسے کو فیثا غورث کی مدد سے کروٹ دے کر 13کے ہندسے میں تبدیل کردیا اور اپنے طے شدہ پلان Aکے خاتمے کا اعلان فرمادیا اور پلان Bکے لیے اپنے تابع فرمان مجاہدین کو مختلف شاہراؤں کو بند کر کے عوام الناس کو ذلیل کرنے کی ذمہ عطا فرمائی، جو پلان C کی پیدائش تک جاری رہے گی ۔ اس کے بعد Cکو Dسے, Dکو Eسے اورE کو F تک لے جایا جائے گا ۔

اس طرح یہ پراجیکٹ کوFیعنی فیل کر دیا جائے گا یا آیندہ کے لیے کوئی اور حکمت عملی طے کی جائے گی ۔ امکان ہے کہ نئے آزادی مارچ المعروف دھرنا کو پلان Aکی بجائے G سے شروع کیا جائے گا اور Z تک لے جایا جائے گا۔ اگر پھر بھی کامیابی نہ ہوئی تو الف ،ب ،ج سے چھوٹی ’ی ‘ بڑی ’ے‘ تک پلان بنائے جائیں گے ، عربی حروف کے استعمال سے ایک حرف کے بدلے میں دس نیکیوں کا فائدے اور برکات سے استفادہ بھی کیا جائے گا ۔


بات طویل ہورہی ہے ،تاہم اتنا ضرورہے کہ فضل رحمن عمران خان کے دھرنے کی طرح اپنے دھرنے سے وہ اہداف تو حاصل نہیں کر پائے جو انھوں نے فرمائے، مگر دوربین نگاہوں سے اگر عمیق نظارہ کیا جائے تو اس دھرنے نے کچھ گل ضرور کھلادیے ہیں۔ کچھ ابھی کھلنے کی کوشش میں ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ سانپ کو مارنے کے لیے لازم نہیں کہ چوٹ اس کے سرپر ماری جائے ، بلکہ جہان لگتی ہے لگنے دی جائے تو چہ جائیکہ اس سے سانپ نہ مرے مگر اس کی رفتار ضرور کم ہوجاتی ہے اور اسے مارنا آسان ہوجاتا ہے ۔


 عمران خان نے NROنہیں دوں گا ،کسی کو معاف نہیں کروں گا ۔کرپشن ختم کردوں گا ، نیا نظام لے کر آؤں گا مگر ملکی قرضوں میں دبے ملک میں مہنگائی اور بدنظمی کے سر اٹھا لیا ، حتیٰ کہ ٹماٹروں نے اعلانِ بغاوت کردیا ،اسے کہتے ہیں ’ مر ے کو مارے شاہ مدار ‘ ، عمران خان کو شاید یہ معلوم نہیں کی موسم اور حکومتیں تو بدل جاتی ہیں ۔ یو ٹرن سے بیان تو بدل جاتے ہیں ،مگر فطرت کبھی نہیں بدلتی ، سیاست کی فطری بیماری خدا کی طرف سے کسی معجزے کے سوا بدلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے ۔

اہلِ سیاست نے کسی سے وفا کی ہو محض دیونے کا خواب ہے ۔ہر پارٹی میں پارٹی بدلنے والے جنھیں عرف عام میں ’لوٹا ‘ایسے برے لقب سے ملقب کیا جاتا ہے،راج کر رہے ہیں ۔ سیاست کے باورچی خانے میں ہر دور میں ایسی کھچڑی پکتی ہے ،جس کی خوشبوباہر نہیں نکلتی ، غیر محسوس وفادار ،جب نگاہیں بدلتے ہیں تب پتا چلتا ہے کون کتنا مخلص تھا ۔جناب وزیر اعظم ٓپ اپنی صور ت میں طیب اردگان م مہاتیر محمد سے نیلسن منڈیلا اور محمد علی جناح بننے کے خواہاں ہیں مگر یہ پاکستان ہے ،یہاں ہزارون رنگ کی رنگا رنگی ہے۔

یہاں تو بقول غالب ان لفظوں ہی میں ٹھنڈی سانس بھری جاسکتی ہے :
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہرخواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے
یہ ڈھکی چھپی بات نہیں کہ عمران خان نے 2014ء میں طویل دھرنے کا ریکارڈ قائم کیا ، لوگوں کو بیداری،شعور اور تفریح مہیا کیا ، مشہور بھی ہوگئے ، وعدے بھی کیے ، وعدے پورے کرنے کے لیے مزید وعدے بھی کیے، مگر پورا نظام اور حالات کی تلخی آپ کے تعاقب میں ہے ۔

کہیں انجینئر تو کہیں ڈاکٹر ، کہیں اساتذہ تو کہیں نابینا افراد ، کہیں اُستانیاں تو کہیں نرسیں، کہیں سیاست دان تو کہیں علما کرام ، کہیں بلاول کا ٹرین مارچ تو کہیں فضل الرحمن کا آزادی مارچ ،کہیں ق لیگ کے بدل جانے کا خدشہ تو کہیں ایم کیو ایم کی بے وفائی کا ڈر ، کہیں پاکستان آرمی کے ساتھ چھوڑ دینے کی افواہیں تو کہیں شاہ محمود قریشی کو وزیراعظم بنائے جانے کے سپنے ، کہیں شہباز شریف کو اقتدار کی ترسیل تو کہیں پرویز الٰہی کے عثمان بزدار پر شب خون مارنے کی قیاس آرائیاں ، جتنے منھ اتنی باتیں ، مگر مشتری ہوشیار باش !کیا کیا نہیں ہوریا ،کیا کیا نہیں ہوا ،کیاکیا نہیں ہوگا ، کیا کیا نہیں ہونے والا ۔

دانے پہ دانا،دھرنے پہ دھرنا دیکھ رہے ہیں۔ کل تمھارا دھرنا تھا، آج ہمارا دھرنا ہے ،کل زید کا ،آج بکر کا دھرنا ہے ۔ہائے کیا کیجیے پاکیزہ لوگوں کے ملک کوہم نے خود ہی ’ دھرنستان‘ بنا رکھا ہے اور بقول شاعر ’ سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے‘ ۔
سوچنا یہ ہے کہ ہم بحیثیت پاکستانی کس سے دشمنی کر رہے ہیں؛ عمران خان سے، پاکستان سے ، ملک کے کر پٹ سیاست دان سے یا غریب ریڑھی بان سے ، کیا ہم اپنے مفاد کی جنگ لڑ رہے یا ریاست کے مفاد کی، ہم دھرنوں سے عوام الناس کے لیے مشکلیں پیدا کررہے ہیں یا حکومت کے لیے ، کیا دھرنوں سے ہمارا ملک ترقی کرے گا یا باہمی اتحاد ویگانگت سے ، کیا دھرنا کرنے ولے فاتح قرار پائیں یا دھرنا جھیلنے والے ، ایک عجب اضطراب کی کیفیت ہے ایک اندوہ ناک صدمہ ہے ۔

کیا ہم ’ گھر پھونک تماشا دیکھ ‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ،کیا ہم کسی حکومت کو کمزورکرنے نکلے ہیں یا کشمیر کی ٓآزادی کی بربادی پر تلے ہوئے ہیں ۔ ہم معیشت کی تباہی میں کردار ادا کر رہے ہیں یا مہنگائی میں اپنا اپنا حصہ ڈال کررانجھے کی ہیر کی طرح ’دھرنا دھرنا کردی نی میں آپے دھرنا ہوئی ‘ کا راگ الاپ رہے ہیں ۔
ہم امن اور سلامتی کے مذہب کے پیروکار اور مبلغ اقوامِ عالم کو بدامنی اور اپنے انتشارکے گورکھ دھندے سے کیا بتانا چاہتے ہیں،ہم اقتدار اعلیٰ کے ماننے والے کس اقتدار کی جستجو میں سرگم عمل ہیں ۔

کیا دھرنوں پہ اترانے اور عوام کو ستانے والے ذاتی مفادات اور اقتدار کی جنگ لڑ رہے یا فلاحی ریاست کے قیام کی#۔کیاہم دشمن کو نیچا دکھا رہے یا اپنی ریاست کو کمزور کررہے ہیں۔ہم خارجہ پالیسی کو بربادکر کے داخلی انتشار کی آگ پر تیل کیوں چھڑکتے ہیں ۔ ہم کرسی اور اقتدار کو ملک کے سلامتی پر ترجیح دیتے ہیں اور جب ہم ایک دوسرے کو بیہودہ گالیاں دیتے ہیں، ٹانگیں کھینچتے ہیں، گریبان چاک کرتے ہیں ، منھ نوچتے ہیں تو کیا کبھی کسی تنہا شام میں یہ سوچتے ہیں کہ ہم کیسے مہذب لوگ ہیں ؟ ایک تشنہ لب سوال ہے جو ملک کے ہر’ دھرنا باز ‘ کے نام ہے اور اپنے جواب کا منتظر ہے !!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :