گورنر سندھ کراچی کے مسائل کے حل کیلئے متحرک

بدھ 10 جولائی 2019

Mubashir Mir

مبشر میر

گورنر سندھ عمران اسماعیل کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک مرتبہ پر متحرک دھائی دینے لگے ہیں۔ کراچی کے منصوبوں پر وزیراعظم عمران خان کو بریفنگ دینے کیلئے اسلام آباد گئے اور پھر وزیراعظم کی جانب سے دورہٴ کراچی کا اعلان ہوا۔ اس دوران کراچی کی تاجر تنظیموں کے الائنس نے وفاقی بجٹ کے خلاف شٹر ڈاون ہڑتال کا اعلان کررکھا تھا، گورنر سندھ سے ملاقات میں تاجر نمائندے اس شرط پر ہڑتال مؤخر کرنے پر تیار ہوئے کہ دورہٴ کراچی میں وزیراعظم عمران خان ان سے ملاقات کریں گے اور ہمارے مسائل حل کرنے کا وعدہ کریں گے، توقع کی جارہی ہے کہ اس موقع پر وزیراعظم کے ہمراہ ان کی اقتصادی ٹیم کے اہم اراکین، چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی بھی آئیں گے کیونکہ تاجروں کو وفاقی حکومت کے بجٹ میں ٹیکس کے نفاذ کے حوالے سے تحفظات ہیں۔

(جاری ہے)


گورنر سندھ عمران اسماعیل نے کراچی کے مسائل کے حل کیلئے میئر کراچی کے اختیارات میں اضافہ کی بھی بات کی ہے، اس حوالے سے پہلے بھی بات ہوتی رہی ہے، لیکن سندھ حکومت بلدیاتی نمائندوں کو بااختیار اور بلدیاتی نظام کو فعال بنانے کی فلاسفی پر گامزن نہیں ہے۔ اس حوالے سے پی پی پی سے تعلق رکھنے والے اندرون سندھ سے بلدیاتی نمائندے بھی سراپا احتجاج ہوئے تھے لیکن سندھ حکومت کے طرز حکومت میں تبدیلی نہیں آئی۔

تھر میں بچے مسلسل مررہے ہیں، کراچی کے عوام پانی اور ٹرانسپورٹ نہ ہونے سے بلبلا رہے ہیں، لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی، سیاسی جماعتوں پر انحصار کرنے کی بجائے اب شہر کراچی کے عوام کو خود سڑکوں پر آنا پڑے گا ، لیکن سول سوسائٹی منظم نہیں ہے۔ اس لیے حکومت کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتی۔
چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری کی قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران ایم کیو ایم کے نمائندوں نے اپنے کارڈز اٹھا کر کراچی کی عوام کے لیے پانی کی کمی کے مسئلے کو اجاگر کرنے کی کوشش کی تھی ، جس کے نتیجے میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ایک واٹر کانفرنس کا انعقاد کیا، لیکن اس پر پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال کا نقطہ نظر درست ہے کہ دنیا بھر میں صاف پانی کی فراہمی وہاں کی بلدیات کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

جب تک واٹر بورڈ کو کراچی میونسپل کارپوریشن کے حوالے نہ کیا جائے گا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
ہم نے اپنی تحریروں میں اسی بات کا اعادہ کیا تھا کہ میونسپل مسائل ”کے ایم سی “ ہی حل کرسکتی ہے۔ 2008ء سے پہلے سندھ، رینجرز کراچی میں واٹر بورڈ کے انتظامات سنبھالے ہوئے تھی، تقریباً دس برس تک انتظامات رینجرز کے پاس رہے۔ تقریباً ایک ٹینکر 325روپے میں دستیاب تھا، اور لائن واٹر بھی وافر مقدار میں ملتا تھا۔

2008میں پی پی نے اقتدار سنبھالا ، اس وقت ایم کیو ایم اور اے این پی بھی سندھ حکومت کا حصہ تھیں، واٹر بورڈ ، وزارت بلدیات کو سپرد کیا گیا اور کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بھی صوبائی وزارت کے ماتحت کی گئی، وزیر بلدیات آغا سراج درانی تھے۔ اسی دن وہی ٹینکر 1200روپے قیمت میں ملنے لگا، پانی فروخت کرنے وا لی کمپنیاں یہ وضاحت دیتی رہیں کہ تینوں سیاسی جماعتوں کے کارندے اپنے مفادات کی خاطر واٹر بورڈ کے معاملات میں ملوث ہوگئے ہیں۔

آج 2019ء میں اسی تعداد کا ٹینکر 6سے 8ہزار میں مل رہا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 2008سے 2019 تک پانی کی مد میں سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے افراد نے بہتی گنگا میں کس طرح ہاتھ دھوئے ہیں اور یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں لوٹ مار کا نظام بھی ڈھکا چھپا نہیں، منظور قادر کاکا کے کارنامے زبان زد عام ہیں۔ اس وقت سندھ حکومت میں تبدیلی کی افواہیں بھی گردش میں ہیں۔

صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ کے مستعفی ہونے کے بعد بہت سے سوالات نے جنم لیا تھا، لیکن ان کی جانب سے باقاعدہ وضاحت نہیں آئی۔ اگر وفاقی حکومت کوئی ایسا ایڈونچر کرتی ہے تو سیاسی طور پر پی پی کو فائدہ ہوگا۔ اور گرفتار قیادت کا سیاسی گراف بھی بلند ہوگا۔ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ سندھ حکومت سے بلدیاتی نظام کو مؤثر بنانے کی حکمت عملی پر بات چیت کرے لیکن اس کا فیصلہ فقط وزیراعلیٰ سندھ کرنے کے مجاز نہیں۔

صوبائی مالیاتی کمیشن بھی اسی وجہ سے مؤثر نہیں۔ وفاقی حکومت کے لیے دن بدن کراچی کے شہریوں کی جانب سے اخلاقی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ ابھی تک کراچی کے عوام کو کوئی ریلیف نہیں دے پائے۔
وفاقی مشیر صحت ظفر مرزا نے صحت انصاف کارڈ کا سندھ میں اجراء نہ ہونے کی وجہ بھی سندھ حکومت کو قرار دیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے دورہٴ کراچی میں کراچی پیکج اور سیاسی صورتحال کے حوالے سے کیا پیشرفت ہوتی ہے۔


وفاقی اور صوبہ سندھ کی حکومت میں ورکنگ ریلیشن شپ مؤثر نہ ہونے کی وجہ سے کراچی کے عوام مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور کئی وفاقی وزراء جن کا تعلق شہر قائد سے ہے وہ بھی ان مشکلات کو کم کرنے میں مؤثر کردار ادا نہیں کرپائے۔ یہ بات بھی باعث دلچسپی ہے کہ پاکستان کی دفاعی صورتحال کے حوالے سے کراچی سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو آئی ایس پی آر جیسا ادارہ بھی نظر انداز کرتا آرہا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کراچی میں کبھی میڈیا بریفنگ کا اہتمام نہیں کیا کہ یہاں کے صحافتی نمائندوں کو ملک کی دفاعی اور سلامتی کے مسائل پر براہ راست بتایا جائے اور ان کے سوالات کے جواب دیئے جائیں۔ حال ہی میں ایک خبر سامنے آئی کہ آمنہ مسعود جنجوعہ سے ملاقات کے بعد لاپتہ افراد پر افواج پاکستان میں ایک خصوصی سیل تشکیل دیا گیا ہے، گذشتہ دنوں کراچی کے بھی کئی نوجوان لاپتہ افراد کی فہرست میں دکھائی دیے۔

اور صدر مملکت کی ذاتی رہائش گاہ پر دھرنا بھی د یا گیا۔ امید کی جاسکتی ہے کہ افواج پاکستان کی جانب سے بنائے گئے اس خصوصی سیل کے ذریعے کراچی کے لاپتہ افراد کے اہل خانہ سے بھی رابطہ کیا جائے گا ۔ اور ان کی بازیابی بھی یقینی بنائی جائے گی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اراکین اسمبلی کی جانب سے ڈیکلیئر اثاثوں کی تفصیلات جاری کیں اور بہت سی خبریں میڈیا پر سنائی دیں۔

اگر دیکھا جائے تو اراکین اسمبلی نے جو اثاثے ظاہر کیے ہیں ان کی مالیت بہت ہی کم دکھائی دیتی ہے اور ان معزز اراکین کا طرز زندگی اس سے مطابقت نہیں رکھتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایف بی آر یا الیکشن کمیشن یا وزیراعظم کی جانب سے بنایا گیا سیل تمام اراکین اسمبلی کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کرے گا یا پھر اسی پر اکتفا کرلیا جائے گا۔
اگر وفاقی حکومت ایمنسٹی اسکیم کے بعد یہ خواہش رکھتی ہے کہ دوسرے لوگوں پر ہاتھ ڈالا جائے تو ضروری ہے کہ اراکین اسمبلی کی اثاثوں کی مکمل تحقیقات کا بھی اعلان کرے یا کم از کم الیکشن کمیشن آف پاکستان اس میں پیشرفت کرے اور متعلقہ اداروں کے ذریعے ان تفصیلات کا غیر جانبدارانہ جائز ہ لے۔


کرکٹ ورلڈکپ میں پاکستان نے سیمی فائنل کیلئے کوالیفائی نہیں کیا۔ لیکن سوشل میڈیا پر تعصب زدہ پوسٹیں آتی رہیں کہ کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز احمد کو کراچی سے تعلق رکھنے کی سزا دی جارہی ہے کیونکہ وہ کراچی سے تعلق رکھنے والے واحد کھلاڑی ہیں اور کپتان بھی ہیں جبکہ دیگر کھلاڑی پنجاب اور خیبرپختونخواہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ فوراً اپنی مرضی کا فیصلہ سناتے ہوئے کسی کی تعریف یا تذلیل شروع کردیتے ہیں۔

سوشل میڈیا کے اس رویے پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی اپنے ٹویٹ میں توجہ دلائی ہے۔ سوشل میدیا کے بہتر استعمال کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ نوجوانوں میں اس کی تربیت پر زیادہ سرمایہ کاری کی جائے۔ نوجوان ملک کا سرمایہ ہیں، سیاسی ، مذہبی اور کسی بھی نوعیت کی پوسٹ لگاتے وقت حقیقت پسندی کو ملحوظ خاطر رکھنے کی جانب بڑھنے کا بہترین طریقہ تربیت ہے۔ جس پر وزرات اطلاعات کو منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :