ایم کیو ایم کی مخالفت کے باوجود کراچی میں تاجروں کی کامیاب ہڑتال

بدھ 17 جولائی 2019

Mubashir Mir

مبشر میر

وزیراعظم عمران خان کے دورہٴ کراچی میں تاجر تنظیموں کے نمائندوں سے ملاقات میں واضح طور پر بتادیا گیا کہ 50ہزار روپے سے زائد کی خریداری پر شناختی کارڈ کی شرط ختم نہیں ہوسکتی، اس کے بعد شٹر ڈاون یقینی تھا۔ ایم کیو ایم کے تین دہائیوں سے زائد کے عرصہ میں ہڑتال کرنا اور کامیاب کروانا صرف اور صرف نائن ز یرو کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ 22 اگست کے واقعہ کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب کراچی میں ہڑتال کے حوالے سے ایم کیو ایم (موجودہ) جو وفاقی حکومت کی اتحادی ہے، ہڑتال کے حق میں نہیں تھی، لیکن ہڑتال ہوئی بھی اور کافی حد تک کامیاب بھی رہی، لیکن تاجر تنظیمیں اپنے مقصد میں کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتیں۔

دیکھا جائے تو پچاس ہزار روپے اس وقت تین سو امریکی ڈالر کی رقم بنتی ہے جس سے کوئی بہت بڑی چیز خریدنا ممکن نہیں ہے۔

(جاری ہے)

حکومت اس رقم کو بڑھا سکتی ہے یا پھر پچاس ہزار سے زائد کی خریداری پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر لے تو پھر بھی قابل قبول حل نکل آئے گا۔ حکومت کو ضد پر اترنے کی بجائے مسئلے کو حل کرنے کی جانب بڑھنا چاہیے۔ 

گورنر سندھ عمران اسماعیل جب سے سندھ حکومت کے خلاف متحرک ہوئے ہیں، ان کے سیاسی بیانات میں بھی اضافہ ہوا ہے، گذشتہ دنوں بھی انہوں نے مکمل طور پر ایک سیاسی نوعیت کا ٹویٹ کیا جس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں کو مخاطب کیا گیا تھا کہ اس وقت ابوبچاؤ مہم چلائی جارہی ہے۔

میرا خیال ہے کہ گورنر کا منصب اس بات کا متقاضی ہے کہ آپ عوامی مسائل پر بات کرسکتے ہیں لیکن سیاسی بیانات دینا آپ کے منصب کے منافی ہے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اس حوالے سے بہت محتاط ہیں ۔ انہوں نے ٹی وی انٹرویوز بھی دیئے ہیں ،لیکن سیاسی مخالفین کے متعلق بات کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیا، گورنر سندھ کو بھی انہی کی روش کو اپنانا چاہیے۔

کراچی اور سندھ کے مسائل کیا کم ہیں کہ بات کرنے کو موضوع نہیں ہے، کیونکہ معاملات بیانات کی حد تک ہی ہیں، شہر کراچی کے مسائل کے حل کی طرف پیشرفت حوصلہ افزائی دکھائی نہیں دیتی۔ آئندہ بلدیاتی الیکشن میں تحریک انصاف کو مشکل صورتحال کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اگر پانی، ٹرانسپورٹ اور دیگر مسائل جوں کے توں رہے۔ 
ضلع گھوٹکی میں NA-205 پر ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی نے بھرپور مقابلہ کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا ہے۔

سندھ حکومت اپنے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو بھرپور سپورٹ فراہم کررہی ہے۔ انہوں نے سکھر میں بھی جلسہ کیا اور ر یلی نکالی۔ سندھ حکومت کے وزراء کی کھیپ آج کل بالائی سندھ میں موجود ہے۔ وفاقی وزیر علی محمد مہر کے اچانک انتقال سے یہ نشست خالی ہوئی تھی، اس وقت انہی کے خاندان کے لوگ مختلف سیاسی پلیٹ فارم سے ایک دوسرے کے مقابل ہیں، کوئی بھی پارٹی جیتے حقیقت میں مہر خاندان کا فرد ہی قومی اسمبلی کا ممبر بنے گا۔

یہ نظام بھی خوب ہے اس علاقے سے کوئی دوسرے خاندان کا فرد اس منصب کے لیے سوچے بھی تو خواب شرمندہٴ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
پاکستانی سیاست ایسے ہی گرداب میں پھنسی ہوئی ہے، کئی علاقوں میں کچھ خاندان مختلف سیاسی پارٹیوں کے پلیٹ فارم استعمال کرتے ہوئے ممبر پارلیمنٹ بن جاتے ہیں بلکہ ان کا اپنا نظام مقامی طور پر اتنا مضبوط ہوچکا ہے کہ سیاسی پارٹیاں ان کی محتاج نظر آتی ہیں ۔

گذشتہ دنوں منی لانڈرنگ کیس میں سندھ بینک کے سابق صدر بلال شیخ اور موجودہ صدر طارق احسن کو ایگزیکٹو نائب صدر کے ہمراہ گرفتار کرلیا گیا۔ ان پر الزام ہے کہ اومنی گروپ کی جانب سے منی لانڈرنگ ان کے ذریعے سے کی گئی ، اس سے پہلے سمٹ بینک کے چیئرمین حسین لوائی بھی گرفتار ہیں۔ منی لانڈرنگ کیس دن بدن سیاستدانوں کے علاوہ بینکنگ سیکٹر کی اہم شخصیات کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔

کمرشل بینکوں کا سارا کام مرکزی بینک اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی نگرانی میں ہوتا ہے۔ کوئی غیر معمولی نوعیت کی ترسیل زر اسٹیٹ بینک کے علم میں بھی آتی ہے تو فوراً نوٹس لیا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سندھ اور سمٹ بینک اومنی گروپ کے ساتھ مل کر منی لانڈرنگ کررہے تھے تو اس وقت اسٹیٹ بینک کا کردار کیا تھا۔ کیا اس کے متعلقہ ڈپارٹمنٹ اس سے لاعلم تھے۔

ان سوالات کے جواب بھی حاصل کرنا ضروری ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس وقت ان کے خلاف اگر کارروائی رکوائی گئی تھی تو اس میں کس کا ہاتھ تھا، اگر مسلم لیگ ن کی قیادت نے ایسا کیا تھا تو پھر وہ بھی اس میں پھنس سکتے ہیں۔ 
کیا پاکستانی عوام بہت امیر ہیں ؟ یہ تاثر اس وقت اور پختہ ہوجاتا ہے جب کوئی کروڑوں کے فراڈ سامنے آتے ہیں کہ عوام نے اتنی رقم غلط سرمایہ کاری میں لگائی اور فراڈ ہوگیا۔

اگر چہ یہ تاثر درست نہیں کہ پاکستانی عوام زیادہ تر امیر ہیں، لیکن جو واقعی امیر ہیں وہ بہت زیادہ امیر نظر آتے ہیں۔ حال ہی میں کراچی میں ایک ٹی وی نیوز اینکر مرید عباس کے قتل کے محرکات سامنے آئے تو اندازہ ہوا کہ انہوں نے جس گینگ کے ساتھ سرمایہ کاری کررکھی تھی وہ اسمگلنگ میں ملوث تھا اور تقریباً 300کروڑ کا فراڈ ہوا ہے۔ ان کے ہمراہ ٹی وی کی اور بھی شخصیات شامل ہیں جن کے نام صیغہٴ راز میں ہیں، عوام میں یہ تاثر ابھرا ہے کہ ٹی وی جرنلسٹ اتنی رقم کہاں سے حاصل کررہے ہیں جبکہ یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کو وقت پر تنخواہ بھی نہیں ملتی۔

وہ لگژری لائف اسٹائل کیسے اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ خبر بھی سامنے آئی کہ ان میں سے بیشتر ایمنسٹی اسکیم سے استفادہ بھی کرنا چاہتے تھے۔ ابھی سندھ میں 25 این جی اوز کی جانب سے منی لانڈرنگ کا کیس بھی سامنے آگیا ہے ، گویا ملک کی چیدہ چیدہ لوگ پس پردہ کیا کچھ کررہے ہیں، بہت حیران کن ہے۔ 
گذشتہ دنوں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمہٴ قتل میں سزا کے حوالے سے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر میاں رضا ربانی نے مطالبہ کیا کہ ہم اس مقدمہ کے ذمہ دار کرداروں کے خلاف علامتی سزا کا اطلاق چاہتے ہیں۔

گویا ان کرداروں کا ٹرائل ہونا چاہیے۔ پیپلز پارٹی کا اپنا مطالبہ بہت وزن رکھتا ہے لیکن صرف ایک کیس ہی کیوں جس کا ٹرائل ہونا چاہیے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کئی اور ایسے واقعات ہیں جن پر خاموشی ہے یا حقیقت عوام کے سامنے نہیں لائی گئی۔ دنیا کے کئی ممالک میں ایک مقررہ وقت کے بعد گذشتہ ریکارڈ (Declassified) کیا جاتا ہے گویا عوام تک اس کی رسائی یقینی بنادی جاتی ہے۔

ایک وقت میں وہ (State secret) ہوتا ہے لیکن تقریباً چوتھائی صدی کے بعد حالات یکسر تبدیل ہوجاتے ہیں اور سچ سامنے لایا جاتا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کا قتل ہوا، سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی بیروت کے ہوٹل میں مردہ پائے گئے تھے۔ اس سے پہلے اس وقت کے وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے ان سے ملاقات کی تھی، ان کی نماز جنازہ ڈھاکہ میں ادا ہوئی اور اسلام آباد کو قصور وار قرار دیا گیا ۔

صدر ایوب خان کا دورحکومت تھا ان کے خلاف نماز جنازہ میں بہت نعرے بازی ہوئی۔ 1971ء میں سانحہ مشرقی پاکستان ہوا۔ اس کے کرداروں کا تعین بھی ایمانداری سے نہیں ہوا،حمودالرحمن کمیشن رپورٹ ادھوری ہے، کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو کو استثنیٰ حاصل تھا، ان سے تحقیقات نہیں ہوئیں تھیں۔ 
جنرل ضیاء الحق کا طیارہ تباہ ہوا، اس پر بھی خاموشی ہے ، سابق وزیراعظم بینظیربھٹو کا قتل ابھی تک ایک معمہ ہے۔

ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن جس پر ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ تیار ہے، اس پر بھی خاموشی ہے۔گویا کئی ایسے واقعات ہیں جن کی وجہ سے ملک انتشار کا شکار ہوا۔ ہم نے دانستہ پردہ پوشی کرتے ہوئے حقائق چھپائے۔ اگر تاریخ درست کرنی ہے تو پورے پاکستان کی کی جائے ۔ حق اور سچائی کا سامنا کرنے کی جرأت اپنائی جائے تاکہ آئندہ نسلیں منافقانہ سوچ کی بجائے سچائی کے ساتھ زندگی گزاریں اور آگے بڑھیں۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :