وزیراعلیٰ سندھ اور آئی جی کے اختلافات کیا رنگ لائیں گے

جمعرات 19 دسمبر 2019

Mubashir Mir

مبشر میر

سابق صدر آصف علی زرداری ضمانت ملنے پر وزیراعلیٰ سندھ کے طیارے میں ان کے ہمراہ اسلام آباد سے کراچی پہنچے اور ضیاء الدین ہسپتال میں ان کے لیے میڈیکل بورڈ قائم کردیا گیا، ماضی کی طرح وہیں پر ان کا علاج ہوگا۔ بیرون ملک علاج کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے ذرائع فی الحال خاموش ہیں، ایک وقت وہ بھی تھا جب وہ صدر مملکت کے عہدے پر فائز تھے اور اچانک علاج کی غرض سے دبئی منتقل ہوگئے تھے اور کئی ہفتوں تک وہاں مقیم رہے۔

اس وقت ان کی بیماری کے حوالے سے بھی بہت قیاس آرائیاں ہوئیں۔
بہرحال اس مرتبہ بھی قریبی ذرائع ان کی صحت کے حوالے سے بہت پریشان ہیں۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گذشتہ دنوں پیپلز پارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت پر الزامات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی پی پی کی قیادت بدعنوان نہیں ، کبھی ان کے خلاف سازش کے تحت مہم چلائی جارہی ہے ۔

(جاری ہے)

بلاول بھٹو زرداری نے کوئٹہ میں بھی ورکرز کنونشن سے خطاب کیا ہے، وہ بلوچستان کے عوام کے حقوق کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ وفاقی حکومت پاک چین اقتصادی راہداری کے فوائد بلوچستان کے عوام کو دینے میں سنجیدہ نہیں، ان کی اس گفتگو میں بہت وزن ہوتا، اگر وہ اس کی کوئی مثال بھی دیتے یا پھر اس بات کا اعلان کرتے کہ سی پیک کے حوالے سے جہاں بھی زیادتی ہوئی ، ان کی پارٹی وہاں دیوار بن جائے گی۔

صوبہ سندھ میں بھی حکومتی مسائل ان کی توجہ کے منتظر ہیں۔ الیکشن 2018ء کے موقع پر انہوں نے بہتر گورننس کا وعدہ کیا تھا، لیکن مسائل جوں کے توں ہی نظر آرہے ہیں۔کراچی کے عوام ہوں یا اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے لوگ سب کے لیے مشکلات دن بدن بڑھتی جارہی ہیں۔ جس کو انصاف چاہیے وہ دردر کی ٹھوکریں کھا رہا ہے، تعلیم کا معیار دنیا بھر سے پست ہے، صحت کا تو الله ہی حافظ ہے۔

 
بلاول بھٹو زرداری تقاریر اور تقاریب کے لحاظ سے بہت متحرک ہیں۔ لیکن مسائل کے حل اور احکامات پر عملدرآمد کے حوالے سے ان کا آفس فالواپ میں بہت کمزور ثابت ہوا ہے۔ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے بھی تقاریر اور بیانات پر بھی انحصار کیا جارہا ہے۔ اسی وجہ سے پنجاب اور کراچی شہر میں ان کی پذیرائی میں اضافہ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ 
سندھ حکومت اور پولیس میں تنازع اس کی ایک اہم مثال ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ اور آئی جی سید کلیم امام کے درمیان اعتماد کی فضا پیدا نہیں ہوسکی۔ ایک ٹارگٹ کلر کا بیان ، ایس ایس پی اظفر مہیسر کا تبادلہ اور اب دو اور افسران کے تبادلے پر اختلافات شدت اختیار کرچکے ہیں۔ 
ڈاکٹر رضوان ایس ایس پی نے پریس کلب میں سیاسی افراد کے پولیس کے کام میں مداخلت کا ذکر کیا تھا جس پر ان کی خدمات وفاق کے سپرد کرنے کا کہا گیا، لیکن آئی جی سندھ نے انہیں روک لیا۔

بہرحال اب عدالت نے ان کو سندھ میں ہی خدمات انجام دینے کے احکامات جاری کردیے ہیں۔ 
بعض اطلاعات کے مطابق سندھ حکومت نے آئندہ سال ہونے والے بلدیاتی اداروں کے الیکشن کے متعلق سنجیدگی سے سوچنا شروع کردیا ہے۔ اگست 2020 میں نئے الیکشن متوقع ہیں۔ بلدیاتی اداروں کے الیکشن صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ ان اداروں کو مالی اور انتظامی امور میں اختیارات تفویض کرنا بھی صوبائی حکومتوں پر منحصر ہے۔

یہی وجہ ہے کہ یہ اہم ترین ادارے صوبائی حکومتوں کی غیر سنجیدگی اور بیڈ گورننس کی وجہ سے اپنی کارکردگی دکھانے سے قاصر رہے ہیں۔ 
صوبہ سندھ میں بلدیاتی ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں۔وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا طرز حکومت بلدیاتی اداروں کے حوالے سے کم و بیش یکساں ہے۔ الیکشن سپریم کورٹ کے حکم سے کروائے گئے لیکن انہیں فعال نہیں بنایا گیا،اب آخری چھ ماہ کے لیے انہیں فعال بنانے پر غور شروع کردیا گیا ہے۔

 
میئر کراچی نے گلہ شکوہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ گذشتہ چار سالوں میں شہر کراچی کو صرف 10 ارب روپے ترقیاتی فنڈز کے نام سے دیئے گئے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی جیسے اہم ترین شہر کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا۔ اب اگر اختیارات تفویض کرنے کے احکامات دے بھی دیئے جائیں تو پھر بھی اتنے کم عرصے میں یہ بلدیاتی ادارے کوئی بڑا کارنامہ سرانجام نہیں دے سکیں گے اور پھر انہیں تنقید کی زد میں لایا جائے گا کہ اختیارات ملنے کے باوجود یہ ناکام رہے۔

ابھی ناجائز تجاوزات ہٹانے کا عمل جاری ہے، بعض علاقوں میں اسے بھتہ خوری کیلئے استعمال کرنے کی اطلاعات بھی ہیں، عارضی طور پر قائم کی گئی مارکٹیں گرانے کا سلسلہ جاری ہے۔ سکھر کے مقام پر دریائے سندھ کے کنارے آباد کئی کچی آبادیاں بھی مسمار کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس پر علاقہ مکینوں کا سڑک بلاک کرکے احتجاج کرنے کا سلسلہ بھی ابھی تھما نہیں ، الغرض توڑ پھوڑ کے عمل کے ساتھ ساتھ تعمیرات کا عمل بہت سست ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان یادگار شہداء کے مسمار ہونے پر سراپا احتجاج ہے۔ خالد مقبول صدیقی وفاقی وزیر نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ اس پر غم و غصے کا اظہار کیا اور اس کی دوبارہ تعمیر کے حوالے سے بھی مختلف بیانات آرہے ہیں۔سابق ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے بھی اپنے ایک ویڈیو پیغام میں اس پر اظہار افسوس کیا ہے۔
اسی دوران بانی ایم کیو ایم کے انڈین چینلز کو دیئے گئے انٹرویوز بھی سیاسی حلقوں میں زیربحث رہے، انڈین چینلز کے ایک اینکر کی فرمائش پر انہوں نے بندے ماترم ترانہ بھی گا کر سنایا۔

اقتصادی اعشاریوں کے حوالے سے اسٹاک ایکسچینج کی کارکردگی بہتر جارہی ہے۔ موجودہ سال میں ابھی تک 3850 پوائنٹس کا اضافہ شمار کیا گیا ہے جو کہ 10.39 فیصد اضافہ ہے۔ فیول کی قیمتوں میں 31.62 فیصد اضافہ شمار کیا گیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق 2020میں بہتری کا انحصار زرعی پیداوار ، برآمدات اور بیرون ملک سے ترسیلات میں اضافہ سے مشروط ہے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :