جے آئی ٹیزکے آفٹر شاکس جاری

جمعرات 16 جولائی 2020

Mubashir Mir

مبشر میر

عزیر جان بلوچ، سانحہ بلدیہ فیکٹری اور نثار مورائی جے آئی ٹی کے آفٹر شاکس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی کئی پرانی ویڈیوز جن میں عزیر بلوچ کے ہمراہ ان کی گفتگو، اور قائم علی شاہ، شرمیلا فاروقی اور فریال تالپور کے ساتھ تصاویر سوشل میڈیا کے ذریعے وائرل ہورہی ہیں۔ اسی دوران سب سے اہم واقعہ لیاری سے تعلق رکھنے والے حبیب جان بلوچ کی ویڈیو ہے۔


ا سکے بعد حبیب جان بلوچ نے متعدد انٹرویوز بھی دیئے وہ آج کل لندن میں مقیم ہیں۔ ان کے انکشافات میں حیران کن ہیں ۔ انہوں نے عزیر جان بلوچ اور تحریک انصاف کے درمیان ملاقاتوں اور سیاسی تعاون کا احوال بی ان کیا ہے۔
یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ جرائم کی دنیا سے تعلق رکھنے والے کسی پارٹی یا جماعت کے نظریاتی کارکن نہیں ہوتے بلکہ ان کا کردار کرائے کے بدمعاش سے زیادہ کا نہیں۔

(جاری ہے)


ایسے بہت سے جرائم پیشہ افراد کی تاریخ دیکھی جائے تو ہمیں ان کے متعدد گروہوں اور پارٹیوں سے تعلقات کا انکشاف ہوگا چنانچہ عزیر جان بلوچ جسے پیپلز امن پارٹی کے نام پر ایم کیو ایم سے تعلقات رکھنے والے تشدد پسند گروہ کے خلاف متحرک کیا گیا تھا ، نجانے اور کس کس کیلئے کام کرتا رہا۔
عزیر جان بلوچ ہو یا اس سے پہلے دیگر پارٹیوں کے تشدد پسند گروپ جن کا ذکر سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی بدامنی کیس میں کیا کہ یہاں ہر پارٹیوں کی ایماپر مخالفین کا گرم تعاقب کرنے والے گروہ موجود ہیں، ان کی کاروائیوں کے دوران سیکورٹی کے ادارے قیام امن کی کوششوں میں بھی کامیاب نہیں ہو پائے، پولیس جس انداز سے سیاسی اثرورسوخ کے دبا میں تھی اور ہے اور اسی طرح دیگر اداروں کی کامیابی کا گراف بہت کم رہا۔


2014کا کراچی آپریشن آج کسی رحمت سے کم دکھائی نہیں دیتا، ورنہ ان تشدد پسند سرگرمیوں نے شہر کراچی کو مکمل تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔
سندھ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان نوک جھونک جاری ہے۔ حلیم عادل شیخ بھی کرپشن ا لزامات کے حوالے سے سخت تنقید کی زد میں تھے، تحریک انصاف ، سندھ حکومت کے خلاف نیب میں جانے کا ارادہ ظاہر کررہی ہے، لیکن عوام اپنی جگہ اپنے مصائب خود ہی جھیلنے پر مجبور ہیں ۔

کراچی میں بارش کے بعد کوڑا کرکٹ کا جگہ جگہ پڑے رہنا، پانی اور بجلی کی کمی اور بارش کا پانی جگہ جگہ کھڑے ہوجانا گویا کراچی میں میونسپل ادارے مکمل ناکام ہیں۔
کے الیکٹرک کے دروازے پر تحریک انصاف اور جماعت اسلامی دھرنے دینے کا وظیفہ کررہے ہیں۔ دونوں کو علم ہے کہ موجودہ انتظامیہ اپنے حصص شنگھائی الیکٹرک کو فروخت کرنے کے عمل سے گذر رہی ہے۔

عوام کے شور کے بعد نیپرا نے آن لائن پبلک ہیئرنگ بھی کی لیکن کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ نیپرا نے بجلی کے دام بڑھانے پر کوئی بات نہیں کی، صرف لوڈ شیڈنگ زیربحث رہی، جب شنگھائی الیکٹرک یہاں کا انتظام سنبھالے گی تو اسے بجلی کی قیمت کے حوالے سے مشکل پیش نہیں آئی گے، عوام نے وہ ویڈیو بھی دیکھی کہ سندھ اسمبلی کے قائد حزب اختلاف کے الیکٹرک کے دروازے کے باہر پریشانی کے عالم میں کھڑے تھے۔


مولانا فضل الرحمن نے آل پارٹیز کانفرنس کرکے موجودہ حکومت کو ہدف تنقید بنایا وہ صرف وزیراعظم عمران خان کو حکومت سے ہٹانے کی بات نہیں کررہے بلکہ تحریک انصاف کو ہی حکومت سے بیدخل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ان کی کراچی آمد اس حوالے سے اہم تصور کی گئی کہ بلاول بھٹو زرداری کی موجودگی میں سابق صدر آصف علی زرداری سے ان کی ملاقات کروائی گئی۔

تصویر میں آصف علی زرداری مکمل ایس او پیز کا لحاظ رکھتے ہوئے نظر آرہے ہیں لیکن مولانا فضل الرحمن نے ایسے کسی پروٹوکول کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔ پیپلز پارٹی کے مخالفین نے ایک مختلف تصویر وائرل کی ہے جس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مذکورہ تصویر میں سا بق صدر نہیں کوئی اور ہے۔ بہرحال پیپلز پارٹی ذرائع نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔


مولانا فضل الرحمن سے سابق صدر کی ملاقات سے گذشتہ چند ماہ ان کی صحت کے حوالے سے کئی افواہوں کا خاتمہ ہوگیا ۔ وہ خوش قسمت ہیں کہ جن سے ملاقات کروائی گئی، پارٹی کے کئی رہنما تو اس سہولت سے محروم ہیں۔
کورونا وائرس کی وجہ سے پورے ملک میں پانچ ہزار سے زائد اموات ہوچکی ہیں ، لیکن جولائی کے پہلے عشرہ میں ان میں کمی واقع ہونا شروع ہوچکی ہے۔

جون میں اموات کی شرح بہت زیادہ تھی۔ کورونا بحران نے ملک کی اقصادی اور سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سماجی سرگرمیوں کو بھی معطل کردیا ہے۔
شہر کراچی میں بیروزگاری کی شرح تمام شہروں سے زیادہ ہوچکی ہے۔ اس وقت گیس ، لوڈ شیدنگ کی وجہ سے انڈسٹری بری طرح متاثر ہے۔ کسی سیاسی جماعت کی جانب سے اس بڑھتی ہوئی بیروزگاری کے نتیجے میں ہونے والی عوام سطح پر پریشانی کا ادراک دکھائی نہیں دیتا۔

تنقید تو ہر کوئی کررہا ہے لیکن اس کا حل سامنیلانے کی سوچ مفقود ہے۔
اس وقت ڈالر کا ایکسچینج ریٹ بھی دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ اس سے تمام صورتحال کے باوجود باخبر ذرائع سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر میں گذشتہ سال کی نسبت چھ گنا اضافہ ہوا ہے۔ اطلاعات کے مطابق بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے اس سال 23 ارب ڈالر سے زائد کی رقومات بھجوائی گئیں۔


کراچی کے شہریوں کے لیے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے کا ایک حصہ جو تقریبا 6 کلومیٹر تک متاثر تھا، وہ بحال کروالیا گیا ہے۔ کمشنر کراچی افتخار علی شہلوانی کے مطابق اس حصے پر آزمائشی ٹرین چلائی جاسکتی ہے جبکہ 8 کلومیٹر کا متاثرہ حصہ ابھی ٹھیک ہونا باقی ہے۔
تھرپارکر میں غذائی قلت نے پھر سے بچوں کی جان لینی شروع کردی ہے۔

اس ہفتے دو بچوں کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔ بات پھر اختیارات اور وسائل کی تقسیم کی آجائے گی۔ اضلاع کی سطح پر اگر اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں ہوگی تو پورے ملک میں ہمیں ایسی ہی خبروں کا سامنا ہوگا۔
اس وقت عملا پورے ملک میں بحران ہے اور بلدیاتی نظام موثر اور فعال نہیں ، اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی کہ لوگ اپنے وقت اور پیسے کا ضیاع کرتے ہوئے اپنے مسائل کے حل کیلئے صوبائی دارلحکومتوں میں ذلیل و خوار ہوتے رہتے ہیں۔ جب تک سیاسی جماعتیں ایک بہترین بلدیاتی نظام کو رائج کرنے پر متفق نہیں ہوتیں، عوام مسائل کی دلدل میں پھنسے رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :