
پریشان مودی سرکار اور پاکستانی مافیاز
پیر 29 جون 2020

سید عباس انور
(جاری ہے)
اس وقت بھارتی بارڈر پر چینی افواج کی پیش قدمی کے باعث پیدا ہونیوالی کشیدگی نے مودی سرکار کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔
روزانہ کوئی نا کوئی ایسی خبر سننے کو مل رہی ہے جس کے باعث بھارت کی عالمی دنیا میں ناک کٹتی ہوئی صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ چند ہفتے قبل چینی افواج نے انڈین آرمی کے 20 فوجی جوانوں کو جہنم واصل کیا اور اس ہفتے کی سب سے بڑی خبر جو دو روز قبل انڈیا ٹوڈے اخبار نے شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کی ہے کہ انڈیا کے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کے زیر اثر کام کرنیوالے ایک ادارے این آئی ٹی پر سرائبر حملہ ہو گیا ہے ، انہوں نے اس اخباری خبر کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس حملہ کے پیچھے چین، نارتھ کوریا اور پاکستان کے ہیکرز شامل ہیں جنہوں نے ہندوستان کے دفاعی نظام کو تہس نہس کر کے ان کے بہت اہم دفاعی رازوں پر پر مشتمل دستاویزات چرا لیں ہیں۔ جس پر انڈیاکی مودی سرکاری سخت پریشانی اور کوفت میں مبتلا ہے۔ اس خبر کو خود انڈیا کے اخبارات ہی دے رہے ہیں کہ اس آئی ٹی ڈیفنس سسٹم کے اوپر سرائبر حملہ سے سارا سسٹم ان ہیکرز نے اپنے ہاتھ میں لیکراس کا کنٹرول سنبھال لیا ہے اور وہی اسے چلا رہے ہیں جس پر بھارت نے امریکہ اور انگلینڈ سے مدد مانگی جس کے نتیجے میں ان ملکوں نے انہیں بتایا ہے کہ اس سارے سسٹم کو ہینک کرنے اور آئی ٹی ڈیفنس سسٹم پر قبضہ کرنیوالے ممالک چین، نارتھ کوریا اور پاکستان کے ہیکرز شامل ہیں، اس سسٹم پر انڈیا کو بہت غرور تھا کہ ہمارا یہ سسٹم بہت مربوط اور مثالی سسٹم ہے جس کا کنٹرول چین ، نارتھ کوریا اور پاکستان کے ہیکرزنے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔مبینہ طور پر بتایا جا رہا ہے کہ چین میں موجود ایک سٹون پانڈہ نامی فرضی گروپ میں شامل کچھ نامعلوم ہیکرز نے سسٹم میں گھس کر انڈیا کے ٹریڈ سیکریٹس چوری کر لئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور چین کا فرضی نام سے قائم ہونیوالا گروپ گوسیو پانڈہ ہے جس نے بھارت کے ڈیفنس سسٹم ، انجیئرنگ سسٹم ، اور کنسٹرکشن کے علاوہ اور بہت سے سسٹم کو ہینک کرنے کے بعد دفاعی اور ترقیاتی کاموں سے متعلق بہت ضروری معلومات نکال لی ہیں۔جس کا ظاہر ہے انڈیا کی معیشت اور دفاعی سسٹم کے رازوں کے افشا ہونا جبکہ پوری دنیا میں پھیلی ہوئی کرونا وائرس کی وبا اور دوسری طرف بھارت انڈیا لائن آف ایکچول کنٹرول پر چینی فوج کی پیش قدمی کے موقع پر ایسی معلومات ان کے احساس سسٹم سے نکال لینا چین کیلئے فائدہ مند اس طرح سے ہو سکتا ہے کہ چین اس کے بدلے میں انڈیا کو بلیک میل کرتے ہوئے اپنا دباؤ برقرار رکھ سکتا ہے۔اسی اخبار نے پاکستانی ہیکرز پر بھی اپنے الزامات کو جاری رکھتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستانی نامعلوم ہیکرز انڈین دفاعی سسٹم سے انڈین فوج کی ساری نقل و حرکت اور اس بارڈر ایریا میں تعمیراتی کام کی نہایت اہم دستاویزات کو ہینک کرنے کے بعد اس کی تمام تر معلومات چین کو فراہم کر دی ہیں۔اس بارے میں مزید تفصیلات چند روز تک پورے سوشل میڈیا پرہر پاکستانی اور دنیا بھر میں سوشل میڈیا کے ساتھ جڑے لوگوں کی نظروں میں آ جائیں گی۔کرونا وائرس کے حوالے سے پوری دنیا کا کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہا، اور اس وباء سے دنیا کا ہر ملک متاثرہوا، اور ابھی تک اس کے اثرات کے باعث متاثر ہو رہا ہے ۔ پاکستان بھی اسی وباء کے باعث متاثر بھی ہوا اور ابھی تک پاکستان بھر کے مختلف شہروں میں جزوی لاک ڈاؤن جاری ہے، جن علاقوں میں اس کے اثرات زیادہ ہیں ان کو مکمل بند بھی کیا ہوا ہے اور اس وباء کے باعث سارے پاکستانی ذہنی کوفت اور پریشانی میں مبتلا ہیں۔ پاکستانی وزیراعظم عمران خان پہلے دن سے ہی اس حق میں نہیں تھے کہ پورے ملک کو لاک ڈاؤن یا کرفیو لگا کر بند کر دیا جائے۔اور بعض اوقات اسٹیبلشمنٹ ، اپوزیشن پارٹیوں اور میڈیا کے دباؤ کے باعث چند روز کیلئے انہیں سخت لاک ڈاؤن کے نام پر بند بھی کرنا پڑا لیکن کچھ ہی روز میں وہ علاقے دوبارہ کھول دیئے گئے۔مختلف طبقہ فکر کے لوگوں سمیت پورے پاکستان کے افراد نے یہی مطالبہ کیا کہ مکمل کرفیو لاک ڈاؤن لگایا جائے لیکن وزیراعظم عمران خان اپنی اس بات پر ڈٹے رہے کہ مکمل لاک ڈاؤن نہیں لگانا چاہئے۔پوری دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان کی معیشت پر بھی بڑے گہرے اثرات پڑے ہیں۔ لیکن اگر ان سب اثرات کے پڑنے کا تقابلی جائزہ دنیا بھر کی مختلف جائزہ رپورٹوں کی نظر سے کیا جائے تو اب پتہ چل رہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنی جگہ درست تھے، آج بھی ہر پاکستانی وہ کچھ نہیں دیکھ سکتا جس کا وزیراعظم عمران خان کو اندازہ یا خدشہ تھا۔ کیونکہ کسی بھی ملک کی معیشت کی ترقی کو ناپنے کیلئے اس کی GDP گروس ڈومیسٹک پروڈک کو دیکھنا بہت ضروری ہے۔ اس کی اوپر نیچے ہوتی پوزیشن سے پتہ چلایا جا سکتا ہے کہ ملکی معیشت کا پیمانہ کس طرف جا رہا ہے۔یعنی قومی سطح پرپورے سال میں چھوٹے سے چھوٹے کام کرنے کے عوض کمائی جانیوالی دولت اور اسی سال میں پورے ملکی سطح پر نئے ذرائع سے پیدا ہونیوالے روزگار کے نتیجہ میں کمائی جانیوالی دولت کو اگر جمع کیا جائے تو اس کا حاصل شدہ جواب جی ڈی پی کہلاتا ہے۔ کرونا وائرس کی وباء کے آغاز کے پہلے سپل میں مریضوں کی تعداد بڑھتی رہی اور اسی حساب سے کرونا کی وجہ سے اموات میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔جب عوام کو کچھ شعور آیا تو اس تعداد میں کمی دیکھنے میں آئی اور کچھ پاکستانی عوام نے اس بیماری پر غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے سنجیدہ نہیں لیااور اس دوران عیدالفطر سے پہلے اور بعد میں اس بیماری کے اثرات میں بے حد اضافہ دیکھنے میں آیا اور اس وبا ء کے دوسرے سپل میں دوبارہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور دوبارہ مریضوں میں اموات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔لیکن الحمداللہ اس وقت موجودہ صورتحال کے نتیجہ میں اموات کی تعداد کا گراف نیچے کی طرف جا رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے سمارٹ لاک ڈاؤن بھی کیا، جزوی لاک ڈاؤن بھی کیا، سخت لاک ڈاؤن بھی کروایا، اور نرمی لاک ڈاؤن کے نام سے بھی عوام کو اس جانب راغب کیا، وہ اس لئے کہ ملکی معیشت کا پہیہ چلتا رہے۔ اب عالمی سطح پر پاکستان اور دوسرے ملکوں کا تقابلی ڈیٹا 2020ء جو ورلڈ اکنامک فنڈ اور آئی ایم ایف کی جانب سے اندازاً پیش کیا ہے، اپنے قارئین کرام کیلئے پیش کر رہا ہوں جو انٹرنیٹ پر انہی کی ویب سائیڈ پر دیکھا جا سکتا ہے۔ کرونا وائرس کی وجہ سے امریکہ کا جی ڈی پی _8% ہو گیا، برطانیہ کا جی ڈی پی گروتھ _10.2% ہے، تھائی لینڈ کا جی ڈی پی _7.7% گروتھ، سعودی عرب _6.7% ہو گئی، سپین کا جی ڈی پی _12.8%، سنگاپور _3.2% ، سوئٹرزلینڈ _6% ، قطر _4.3% ، نیوزی لینڈ _7.2%، جاپان _5.8%، بھارت _4.5%، ایران _6% ، اٹلی جہاں ابتداء میں کرونا کے باعث بہت تباہی پھیلی میں جی ڈی پی _12.8% ، اسرائیل _6.3% ، چین جہاں سے اس وباء کا آغاز ہوا، اس نے کرونا کو بااحسن طریقے سے سنبھالا کی جی ڈی پی گروتھ +1%، اسی طرح بنگلہ دیش نے بھی اچھی کارکردگی دکھاتے ہوئے +2% جی ڈی پی رکھی، آسٹریلیا _4.5% ، اب آخر میں پاکستان کی باری آتی ہے جس میں آئی ایم ایف اور ورلڈ اکنامک فورم کی ڈیٹا رپورٹ کے مطابق پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ 2020ء میں _0.4% ہے۔ یہ ڈیٹا میں نے خود ترتیب نہیں دیا بلکہ IMF اور ورلڈ اکنامک فنڈ کی ویب سائیڈ پر ہر خاص و عام کیلئے دستیاب ہے۔ کرونا وائرس سے پہلے بھی پاکستان کی جی ڈی پی کوئی اتنی اچھی نہیں تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کی پرانی حکومتوں کی طرف سے پاکستان کا ایک ایک ادارہ قرضوں میں ڈوب چکا تھا اور ابھی تک موجودہ وزیراعظم پاکستان کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے، اور اس وباء کے بعد پورے ملک میں لاک ڈاؤن اور معیشت پر کھلتے بند ہوتے کاروبار کے باعث پھر بھی دنیا بھر کے دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں قدرے بہتر رہی۔ اس کا مطلب تو یہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے کرفیو اور لاک ڈاؤن نا لگانے کے دانشمدانہ فیصلوں نے ملکی معیشت کو کسی حد تک ڈوبنے سے بچایا۔
2020 ء شروع ہوتے ہی پاکستانی سیاست میں آئے روز ایک نیا '' کٹا'' کھل جاتا ہے، اس موجودہ سال میں جتنے مافیاز دیکھنے اور سننے میں آئے ہیں شائد ہی کبھی ان کے متعلق سنا ہو۔ ابھی چند ماہ قبل ایم کیو ایم کے ایم این اے اپنی پٹری سے اتر گئے اور ابھی تک اپنے مطالبات کے چکر میں پاکستان پر قومی سطح پر سیاسی وار کرنے سے باز نہیں آ رہے۔ اس کے بعد آٹا اور چینی مافیاز نے سر اٹھایا اور اس بارے میں قوم کے سامنے رپورٹ آنے اور کرپشن کے الزامات ثابت ہونے کے باوجود سزا سے بچے ہوئے ہیں، اور یورپ جا بیٹھے ہیں اور ٹھنڈی ہواؤں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اپوزیشن تو ویسے ہی بلیک میلنگ کا کوئی داؤ کھیلنے سے باز ہی نہیں آ رہی۔ مرغی مافیا، آٹا مافیا، چینی مافیا، کرپشن مافیا، اور تو اور پاکستان کی عدلیہ میں عدلیہ مافیا گھسی ہوئی ہے۔ ابھی چند روز پہلے ہی بلوچستان کے اختر مینگل بھی اپنی دو انیٹوں کی مسجد بنا کر الگ جا بیٹھے ہیں، اور ناراض بھی ایسے کہ کسی کے منانے سے بھی نہیں مان رہے۔ اس کے بعد بلوچستان کے شاہ زین بگتی نے بھی آج ہی دو روز کا الٹی میٹم دے ڈالا ہے ، اب دیکھیں بلوچستان کے یہ سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھتے ہیں۔پہلے دنیا بھر میں پٹرول سستا ہوا تو پاکستان میں بھی پٹرول کی قیمتوں میں کمی دیکھنے میں آئی اور اسی پٹرولیم مافیا نے پورے ملک میں پٹرول کا ایسا قحط پیدا کیا کہ پٹرول ملنا ہی بند ہو گیا، حسب سابق وزیراعظم عمران خان نے پٹرول مافیا پر پکا اور مضبوط ہاتھ ڈالنے کیلئے احکامات تو جاری کئے لیکن ایک بھی پٹرول پمپ کا نا ہی لائسنس کینسل ہوا اور نا کوئی پٹرول کا ذخیرہ کرنیوالا پکڑا گیا ۔ اوپر سے ہماری پاکستانی عوام یہ چاہتی ہے کہ اگر پٹرول سستا کیا ہے تو ہر پٹرول سٹیشن پر عمران خان خود پٹرول بیچتا ہوا نظر آنا چاہئے۔ آنے والے برسات کے موسم کے بعد اگر کہیں ناقص سیوریج کے باعث بارش کا پانی اکٹھا ہو گیا تو خود عمران خان ہی آئے اور ان کے محلوں اور گلیوں میں سے پانی کا اخراج یقینی بنائے۔ اگر آٹا چینی مقررہ ریٹس پر دستیاب نہیں ہو رہا تو خود وزیراعظم آٹے اور چینی کی ملوں میں یا یوٹیلیٹی سٹورز میں آٹا چینی بیچتا ہوا نظر آئے۔وزیراعظم صاحب کی کابینہ میں اور ٹی وی ٹاک شوز میں انکی اپنی پارٹی کے وزیر مشیر اور ارکان اسمبلی حضرات اپنے ہی ساتھی ممبران پر الزام تراشیاں کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ اور اس ساری صورتحال کو میڈیا اور ٹی وی چینلز اپنی اپنی خبروں ایسے بڑھا چڑھا کر بیان کر رہے ہیں جس کو سن کر پاکستانی عوام میں غیریقینی کی سی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ اللہ ہمارے پاکستان کو ان مافیاز سے محفوظ رکھے اور پاکستانی عوام کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
سید عباس انور کے کالمز
-
خان صاحب !ٹیلی فونک شکایات یا نشستاً، گفتگواً، برخاستاً
منگل 25 جنوری 2022
-
خودمیری اپنی روداد ، ارباب اختیار کی توجہ کیلئے
منگل 4 جنوری 2022
-
پاکستان کے ولی اللہ بابے
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
''پانچوں ہی گھی میں اور سر کڑھائی میں''
ہفتہ 30 اکتوبر 2021
-
کورونا کی تباہ کاریاں۔۔۔آہ پیر پپو شاہ ۔۔۔
جمعہ 22 اکتوبر 2021
-
تاریخ میں پہلی بار صحافیوں کااحتساب اورملکی صورتحال
اتوار 19 ستمبر 2021
-
کلچر کے نام پر پاکستانی ڈراموں کی '' ڈرامہ بازیاں''
پیر 13 ستمبر 2021
-
طالبان کا خوف اور سلطنت عثمانیہ
اتوار 5 ستمبر 2021
سید عباس انور کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.