
''رانگ نمبر''
پیر 8 فروری 2021

سید عباس انور
(جاری ہے)
ابتدائی خطاب میں مولانا نے 26 مارچ کو راولپنڈی کی بجائے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے۔26 مارچ کی تاریخ بھی ہر پاکستانی کے دل میں ایک رستے زخم کی مانند یاد رکھی جاتی رہی ہے۔ کیو نکہ 26 مارچ کو بنگلہ دیش اپنا یوم آزادی مناتا ہے اور اسی روز پاکستان کا ایک حصہ کاٹ دیا گیا تھا۔
دو روز قبل پی ڈی ایم کے اجلاس میں مبینہ طور پر پتہ چلا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے بلاول بھٹو سے استفسار کیا کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے کچھ ایسی چیزیں ہیں جو جمود کا شکار ہیں، اور وہ کچھ باتوں کو ہمارے سامنے واضح نہیں کیا جا رہا، اس کے جواب میں بلاول نے مولانا سے کہا کہ آپ بھی اپنے ماضی کے بیانات اور موجودہ بیانات پر کلیئر نہیں ہو پا رہے، پہلے آپ اپنے ہر بیان میں پاکستان آرمی چیف باجوہ اور ڈی آئی جی آئی ایس آئی جنرل فیض کے خلاف بیان بازی کرتے نظر آتے تھے اور صرف ایک رات میں ہی ایسا کیا ہوا کہ اب آپ بیان دے رہے ہیں کہ ہماری لڑائی اسٹیبلشمنٹ سے نہیں ، اس سے قبل نواز شریف، مریم صفدر اور مولانا کی توپوں کا رخ ہمیشہ پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی کی طرف ہوا کرتا تھا کہ لیکن اب ان توپوں کے منہ خاموش کیوں ہو گئے ہیں، کیا ایسا تو نہیں کہ آپ سب کا سوفٹ ویئر اپ ڈیٹ کر دیا گیا ہے؟ اگلے بیان میں مولانا نے اعلان کیا کہ سینٹ کے انتخابات ہم مشترکہ طور پر لڑیں گے، جو کہ بڑی عجیب سی صورتحال لگتی ہے،کیونکہ جب سے اپوزیشن کی گیارہ جماعتو ں نے ایک اکٹھ بنایا ہے اور بھرپور طریقے سے عمران خان اور پی ٹی آئی کی حکومت کو گھر بھیجنے کے عزم سے میدان میں کودی ہیں، جلسے جلوسوں اور ریلی میں عمران خان کے استعفے کیلئے برسرپیکار نظر آئی ہیں، اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستانی عوام کو عمران خان کے استعفے کیلئے کئی بار تواریخ دی ہیں، اس سے تو ان کے اپنے کارکنوں میں اوازارگی پھیلی ہوئی ہر دیکھنے والے کو نظر آرہی ہے۔ آخری تاریخ31 جنوری تھی جو انہوں نے اپنے کارکنوں کو دی تھی کہ 31 جنوری تک عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہو جائیگا، تو اس تاریخ کے گزرنے کے بعد گویا پی ڈی ایم کے اپنے ہی پھولائے ہوئے غبارے سے ہوا نکل گئی، اب اس غبارے کی پھوک نکلتے ہوئے گیارہ پارٹیوں کا وہ حال ہوتا نظر آ رہا ہے کہ گویا کوئی یہاں گرا ، کوئی وہاں گرا کی صورت چاروں سمت پھیل چکا ہے اورخود گیارہ پارٹیوں نے اب کیا کرنا ہے ان کو خود سمجھ نہیں آ رہی کہ اب کیا کرنا ہے کس کے خلاف کرنا ہے۔اب یہ سب یہ سوچنے پر مجبور ہو چکے ہیں کہ اسی حکومت کے بہتے دھارے کے ساتھ بہا جائے اور جہاں جہاں ان کو موقع ملے اس دھارے کو روکنے اور نا بہنے دینے کی پالیسی اپنائی جائے۔ نا کھیلیں گے اور نا کھیلنے دیں گے پر عمل کرتے ہوئے موجودہ حکومت کو ٹف ٹائم دیا جائے۔مولانا فضل الرحمان کو شرم نہیں آتی کہ جلسے جلوسوں کے سٹیج پر کھڑے ہو کر کشمیر پر بات کرتے ہوئے ایسے مخاطب ہوتے ہیں کہ جیسے یہ کشمیر کے مسئلے کو حل کر چکے تھے یا کرنیوالے تھے لیکن ان کو ان کے عہدے سے ہٹا کر ان سے زیادتی کی گئی حالانکہ پچھلی کئی دہائیوں تک یہی مولانا کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے اس مسئلے کی اے بی سی سے ناواقف ہوتے ہوئے صرف اور صرف کروڑوں روپے کی لسی پی کریہی شخص خواب خرگوشاں میں غرق رہا۔اور جب ہوش آیا تو نااس کی چیئرمینی رہی اور ناسرکاری عیاشیاں، اب بات کر رہا ہے کشمیر کی آزادی کی۔ انہوں نے براڈشیٹ کمیٹی کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ سعید عظمت پر بھی اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس کمیٹی کو بھی پی ڈی ایم مسترد کرتی ہے۔ کیونکہ بہت جلد اسی کمیٹی کے ذریعے اپوزیشن کے ساتھ ساتھ بے شمار کرپٹ بیورو کریٹس، ریٹائرڈ سرکاری آفیسر اور خود پاکستان آرمی کے جنرلوں کے نام بھی پوری قوم کے سامنے آنے والے ہیں۔ انتظار کریں اور صبر سے صرف انتظار کریں۔دو روز قبل ہی وزیراعظم پاکستان نے کچھ دیر کیلئے دنیا بھر کے پاکستانیوں کے مسائل کو ٹیلی فون پر سنا، اور اس ساری ٹیلی فون سروس کو سننے اور اس کا جواب یا اس کے حل کیلئے موقع پر احکامات دینے کا سلسلہ پاکستان ٹیلی ویژن نے دنیا بھر کے پاکستانیوں کو جوں کا توں دکھانے کیلئے انتظامات کر رکھے تھے۔ لیکن مبینہ طور پر کہا جا رہا ہے کہ یہ سارا سلسلہ دونمبر تھا، '' رانگ نمبر'' تھا ۔ اس نمبر پر وزیراعظم عمران خان تک وہی کال تھرو ہوتی تھی جو ان کی اپنی پسند کی ہوتی تھی۔ یعنی پہلے تو نمبر ہی اتنا مشکل سے ملتا تھا اس کے بعد فون اٹھانے والا پہلے ہی پوچھ لیتا تھا کہ آپ کون ہیں کہاں سے بول رہے ہیں اور آپ نے کیا بات کرنی ہے، کس موضوع پر بات کرنی ہے، وغیرہ وغیرہ ۔۔ اور پورے پاکستان کے عوام کو یہ تاثر دیا گیا کہ وزیراعظم پاکستان پوری دنیا کے پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے کیلئے بیٹھ چکا ہے، جس کی جو جو شکایت ہے اسے ان کے گوش گزار کیا جائے لیکن ایسا بالکل نہیں ہوا۔ اس مقررہ وقتی سیشن میں صرف ان سائلوں کی ہی بات ہو سکی جو پہلے ہی پی ٹی آئی کے کارکن، ووٹر اور ایسے افراد تھے جن کو پاکستان میں یا بیرون ملک کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا۔ ان ٹیلی فون کال کرنیوالوں میں صرف ایک کال پر کافی بحث ہو رہی ہے جوسعودی عرب پلٹ دیر چترال سے پی ٹی آئی کے ہی کسی کارکن گل خان کی تھی جس نے اپنی مختصر سی کال میں عمران خان کو ان کے پرانے وعدے اور دعوے کچھ اس انداز میں یاد کرائے کہ عمران خان کے چہرے کے تاثرات دیکھنے کے قابل تھے۔ہماری رائے میں ایک تو کسی بھی ملک کے وزیراعظم کا یوں ٹیلی فون پر 45/50 منٹ فون پر بات کرنا اور وہ بھی وہی کالیں سننا جو صرف اور صرف ان کی تعریفوں سے بھری ہوئی ہوں بالکل بھی ٹھیک نہیں۔ مزہ تو تب تھا کہ وزیراعظم اس کوتقریباً روزانہ نہیں تو ہفتے میں 2/3 دفعہ ٹیلی فون پر 2/3 گھنٹوں کیلئے عوام کے سامنے بیٹھیں اورعوام کے مسائل اس درمیان والے آپریٹر اور دوسرے عملے کے سوالوں کے جواب دینے کے بغیر، فرض کریں اگر وزیراعظم پاکستان ہفتے میں 3 روز بیٹھیں تو ٹی وی یا اخبار پر ایک اشتہار کے ذریعے منادی کرا دی جائے کہ اس دن وزیراعظم صاحب عوام کیلئے عدالت لگائیں گے اور ان کے مسائل کا جواب دیں گے، عوام سے کہا جائے کہ وہ صرف ان مقررہ موضوع یا محکموں کے متعلق شکایات و مشکلات پر ہی بات کریں، اس سے پولیس، مہنگائی ، ذخیرہ اندوزی، قبضہ مافیا، کرپشن ، تعلیم اور قومی وصوبائی محکمہ صحت کے حوالے فون پر سوالات کریں۔ اور وزیراعظم صاحب کے سامنے صوبائی چیف سیکرٹری حضرات ،متعلقہ محکموں کے قومی و صوبائی آئی جی عہدیداران، قومی و صوبائی بیورو کریٹ بھی بٹھائے جائیں جو اسی وقت وزیراعظم صاحب کے احکامات پر عملدرآمد کرتے ہوئے سائل کا مسئلہ حل کریں۔اس سے ایک تو وہی لوگ کال کریں گے جن کو واقعی حقیقت میں مسئلہ ہو گا اور انہیں بھی پتہ چلے گا کہ مسائل حل ہو بھی رہے ہیں یا نہیں۔دوسرا اگر کسی سائل کا مسئلہ حل نہیں ہوتا وہ اگلے دن دوبارہ فون کر کے وزیراعظم کے نوٹس میں لائے گا کہ آپ نے پچھلے ہفتے جو حکم جس بیورو کریٹ کو دیا تھا اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔اور یہ جو دو روز پہلے وزیراعظم کی جانب سے کیا گیا فون سیشن بالکل بھی کسی کے لئے ہرگز بھی فائدہ مند نہیں بلکہ پاکستانی باشعور عوام کو صاف پتہ چل رہا تھا کہ یہ سارا عمل '' رانگ نمبر '' ہے۔ یہ سارا ڈرامہ وزیراعظم جیسے اہم اور سب سے بڑے عہدے کے وقت کا ضیاع صاف دکھائی دے رہا تھا۔
پچھلے ہفتے بھارت کے دارلحکومت دہلی میں عین انڈیا کے یوم جمہوریہ 26 جنوری کے دن سکھ کسان اتحاد نے ایک بہت بڑی ٹریکٹر ریلی کی، جس میں بھارت کے سکھ کسان اتحاد تنظیم کے تقریباً د و لاکھ ٹریکٹروں نے ہندوستانی پولیس کو تگنی کا ناچ نچا دیا۔ اس تنظیم کے دو لاکھ ٹریکٹر دہلی میں داخل ہو گئے اور پہلے تو انہوں نے بھارت کے دوسرے مختلف اضلاع سے منگوائی ہوئی اضافی پولیس کی پروا نہ کرتے ہوئے انہیں بھاگنے پر مجبور کر دیا ، اور اسی طرح آگے بڑھتے بڑھتے انہوں نے گویا لال قلعہ دہلی پر خالصتان کا پرچم لہرا کر وہ کام کر دکھایا جس پر یہ تنظیم شاباش کی مستحق ہے۔ اس سارے عمل کو دیکھتے ہوئے امریکہ اور کینیڈا میں مقیم لاکھوں سکھوں کی جانب سے لال قلعہ دہلی پر پرچم لہرانے والے سکھ سرداروں کو 3 لاکھ یو ایس ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے۔ ویسے تو دیکھا جائے تو سکھوں کی پوری دنیا میں مجموعی تعداد 12 کروڑ ہے، لیکن دنیا بھر کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں ایسا کوئی شعبہ موجود نہیں جس میں سکھ لیڈ نہ کر رہے ہوں۔ سپورٹس، میڈیکل ، انجینئرنگ، فلم ، سیاست اور فنون لطیفہ میں سکھوں کی نمائندہ کسی نا کسی صورت میں لازمی موجود ہے۔لال قلعہ دہلی پر خالصتانی پرچم کا لہرایا جانا مودی حکومت کیلئے سخت دھچکا ثابت ہوا اور اس اقدام کو مدنظر رکھتے ہوئے ہندوستانی حکومت نے دہلی کے اردگرد دھرنا دیئے ہوئے سکھوں کے اگلے اقدام سے نبردآزما ہونے کیلئے فوج کو بلا لیا ہے اور دہلی کے ہی چند ایک مقامات پر کنکریٹ اور سریا کی مدد سے دیواریں تعمیر کر دی گئی ہے تاکہ اگلی مرتبہ اگر سکھ دہلی کے اندر داخل ہونے کی کوشش کریں تو انہیں ایسی مضبوط رکاوٹوں کو پھلانگنے کیلئے مشکل پیش آئے، لیکن مودی حکومت کو نہیں پتہ کہ اتنی بڑی تعداد میں موجود سکھوں کے جوش اور ولویلے کے سامنے ایسی کئی کنکریٹ کی دیواریں بھی کاغذ کی دیواریں ثابت ہونگی، اس کے بعد عالمی میڈیا میں بھی انڈین حکومت کی خوب جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ اس سارے اقدامات کے بعد بھی مودی حکومت کسانوں کے خلاف لائے گئے بل پر نظرثانی کرتے نظر نہیں آتے، جو اس وقت تک اپنے مطالبات منوانے کیلئے دارلحکومت دہلی کو گھیر میں لئے بیٹھے ہیں، اور دن بدن بڑھتی شدید سردی کے بعد بھی سکھوں کی تعداد میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آ رہی بلکہ دوسری سٹیٹس سے بھی بڑی تعداد میں کسان چاہے وہ سکھ ہیں یا کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے کسان، وہ بھی اس احتجاج میں سکھوں کا ساتھ دینے کیلئے جمع ہو رہے ہیں۔ اب تو خود ہندوستانی میڈیا نے بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر اس معاملے کو سلجھانے کیلئے فوری اقدامات نا کئے گئے تو کہیں ایسا نا ہو آنے والے وقت میں دنیا کے نقشے پر ایک نہیں کئی اور ممالک کے نئے نقشوں کا اضافہ ہو سکتا ہے۔کیونکہ اگر خالصتان کی حد تک دیکھا جائے تو سوشل میڈیا پر سکھوں نے اپنے نئے ملک خالصتان کیلئے خالصتانی کرنسی، خالصتانی پاسپورٹ ، خالصتان کا نقشہ اور اپنا قومی ترانہ تک ترتیب دے دیا ہے۔اور اگر خالصتان معرض وجود میں آ گیا تو جموں کشمیر بھی خودبخود بھارت سے کٹ جائیگا اور جو پہلے ہی اپنی آزادی کے دھانے پر کھڑا ہے۔ اور اس کی دیکھا دیکھی پورے بھارت میں بیسیوں بائیں بازو کی چھوٹی بڑی تحریکیں موجود ہیں جو ایسے ہی وقت کا انتظار کر رہی ہیں جب بھارت میں ایسی فضاء پیدا ہو جب پورے بھارت کا نقشہ کئی ممالک کے معرض وجود میں آنے کے بعدایسی انقلابی تبدیلی ہو جس کو دیکھ کر پوری دنیا روس کو بھول جائے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
سید عباس انور کے کالمز
-
خان صاحب !ٹیلی فونک شکایات یا نشستاً، گفتگواً، برخاستاً
منگل 25 جنوری 2022
-
خودمیری اپنی روداد ، ارباب اختیار کی توجہ کیلئے
منگل 4 جنوری 2022
-
پاکستان کے ولی اللہ بابے
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
''پانچوں ہی گھی میں اور سر کڑھائی میں''
ہفتہ 30 اکتوبر 2021
-
کورونا کی تباہ کاریاں۔۔۔آہ پیر پپو شاہ ۔۔۔
جمعہ 22 اکتوبر 2021
-
تاریخ میں پہلی بار صحافیوں کااحتساب اورملکی صورتحال
اتوار 19 ستمبر 2021
-
کلچر کے نام پر پاکستانی ڈراموں کی '' ڈرامہ بازیاں''
پیر 13 ستمبر 2021
-
طالبان کا خوف اور سلطنت عثمانیہ
اتوار 5 ستمبر 2021
سید عباس انور کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.