Afzal Khan Aor Ik Umr Ki Muhlat

افضل خان اور اک عمر کی مہلت

Afzal Khan Aor Ik Umr Ki Muhlat

تحریر: نذیر خالد

افضل خان او ر ؛ اک عمر کی مہلت؛

نذیر خالد

اپنے حلیے سے سخن ساز نہ لگنے والے ہم یہاں دوسرے شاعر ہیں عدم پہلے تھے
(افضل خان شاعر ہیں مگر لگتے نہیں اور کتنے ہی ایسے ہیں جو شاعر لگتے ہیں مگر شاعر ہیں نہیں )
بہاولپور میں رہنے والے معروف شاعر افضل خان یوں تو ایک عرصہ سے جدیدغزل کہنے کی بنا پر ملکی سطح پر علمی و ادبی حلقوں میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں لیکن حال ہی میں ان کا جو دوسرا شعری مجموعہ " اک عمر کی مہلت "( پہلا مجموعہ "توبھی میں بھی" کے نام سے چند سال پہلے شائع ہوا تھا) چھپ کر قارئین کے سامنے آیا ہے، نے مزید حیرت زدہ کیا ہے۔

وہ اس طرح کہ بیشتر شعراء کے مجموعوں میں فقط چند ایک ہی کام کی غزلیں ہوتی ہیں اور ان غزلوں میں اکا دکا اشعار ہوتے ہیں لیکن افضل خان کے مذکورہ شعری مجموعے میں ہر غزل گرفت کرنے والی اور ہر شعر دل کو چھونے والا ہے،میرے استاد مکرم پروفیسر غلام جیلانی اصغر صاحب (مرحوم) فرماتے تھے کہ جو شعر آپ کو پکڑ نہ لے وہ کہاں کا شعرہے۔

(جاری ہے)

افضل خان کے اس مجموعہ میں بیسیوں نہیں سینکڑوں ایسے اشعار موجود ہیں جو آپ کی سوچ کو مہمیز لگاتے ہیں،آپ کو گرفت کرتے ہیں ،آپ پر ایک خوشگوار لمحہ وارد کرتے ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ آپ کوسوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔


نئے سے نئے ردیف قافیے کا استعمال،مضامین کا تنوع،موضوعات کی کہکشاں اور ہر شخص کی روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے حالات،تجربات اور واقعات ہر صفحے پر بکھرے پڑے ہیں اور کتاب پڑھنے والے کوایک لمحے کیلئے بھی اس مر کا احساس نہیں ہوتا کہ وہ محض کسی دوسرے شخص کی زندگی کے واقعات یا قلبی واردات کا مطالعہ کر رہا ہے بلکہ اسے یوں لگتا ہے جیسے وہ اپنی ہی کتاب حیات کی ورق گردانی کررہا ہے البتہ اندازبیان ایسا ہے کہ یہ ہر ایک کو نصیب نہیں۔


شاعروں کے ہاں جو اندھا دھند محبت ،جنوں اور عشق و محبت کا مضمون جس خاص پیرائے میں بیان کیا جاتا ہے،افضل خان کے ہاں ایسا نہیں ہے،معاشرے کا ایک سلجھا ہوا فرد جسے اپنے گھر،معاشرے اور اپنے ذریعہ معاش ،کی بہتر فکر ہے،کے ہاں محبت کا بیان ضرور ہے مگر پاگل پن والا معاملہ نہیں ہے۔یوں بھی ان کی کسی بھی غزل کو اٹھا لیجئے،اگر اس میں عشق و محبت کا بیان ہے بھی تو محض شعری روائت کو نبھاتے ہوئے بڑے ہی لطیف اشارے کنائے میں اور وہ بھی بہت جچے تلے اور سلجھے ہوئے انداز میں۔

مختصراً یہ کہ ان کے شعری مجموعے میں محبت کا کوئی ایسا شعر یا مصرعہ مشکل سے ہی تلاش کیا جا سکے گاجو کسی ٹین ایجر کے کام آسکتا ہو،بالفاظ دیگر میری دانست میں یہ تمام کا تمام مجموعہ پختہ اذہان اوربالغ النظر لوگوں کے لئے ہے۔ اب چلتے ہیں ان کے اشعار سے لطف اندوز ہونے کے لئے ۔ کتاب کے آغاز میں حمد اور نعت رسول مقبول دی گئی ہیں،حمد کے دو اشعار دیکھئے ؛
پائے گا کون بھلا تیرے سوا راز ترا
جب کہ معلوم نہیں نقطہ ءِ آغاز ترا
تیری دنیا مجھے کافر نہیں ہونے دے گی
ذرہ ذرہ تری دنیا کا ہے غماز ترا
اور جب رسالت مآب صلعم کے حضور ہدیہ عقیدت کی باری آئی تو یوں گویا ہوئے :
یہ جو اس دل کو جنوں میں بھی سکوں ہے،یوں ہے
ذہن پر اسم محمد کا فسوں ہے ، یوں ہے
میں مدینے سے پلٹنا ہی نہیں چاہتا تھا
"تو نے پوچھا تھا نمی آنکھ میں کیوں ہے ،یوں ہے "
غزل تو خیر وہ خاص میدان ہے جس میں افضل خان بہت آزادی کے ساتھ ،کھل کر کھیلتا ہے ،ملاحظہ فرمائیں :
مجھے رونا نہیں آواز بھی بھاری نہیں کرنی
محبت کی کہانی میں اداکاری نہیں کرنی
تحمل اے محبت ! ہجر پتھریلا علاقہ ہے
تجھے اس راستے پر تیز رفتاری نہیں کرنی
وصیت کی تھی مجھ کو قیس نے صحرا کے بارے میں
یہ میرا گھر ہے اس کی چاردیواری نہیں کرنی

افضل خان کے ہاں غزل کے بارے میں ایک عجب اپنائیت اور محبت کا جذبہ نمایاں ہے :
کہتے ہیں : غزل کو کم نگاہوں کی پہنچ سے دور کھتا ہوں
مجھے بنجر دماغوں میں شجر کاری نہیں کرنی
ایک دوسری جگہ کہتے ہیں : مری شاعری مرے ناقدین پہ کیا کھلے
مجھے باندھنے کو خیال خام نہیں ملا
غزل سے اپنی جذباتی وابستگی کا اظہار یوں کرتے ہیں : اپنی دم توڑتی سانسیں بھی غزل کو دے دوں
یونہی ممکن ہے کہ آئے مرے اشعار میں جان
ایک جگہ غزل کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے : کیا مجھ سے غزل کا پوچھتے ہو
بوڑھی تھی جوا ن ہو چکی ہے
۔

۔۔۔
ہمارے ہجر کو نہ تول وصل کی امید سے
یہ قیمتِ فروخت کم ہے قیمتِ خرید سے
ارادہء غزل ہو ا تو خود بخود اتر گئے
جدید سی زمین میں خیال کچھ جدید سے

اپنے مخالفین کو یوں زچ کرتے ہیں : یار لوگوں نے بہت خود کو اچھالا اوپر
ہو سکا پھر بھی مرے قد سے نہ افضل کوئی اور

پھر یہ اعلان کرتے بھی نظر آتے ہیں : رگوں میں اب جو لہر ہے وہ خوں نہیں ہے زہر ہے
ضروری ہو چکے ہیں سانپ آستین کے لئے
مرا گواہ آ گیا ہے عین فیصلے کے وقت
برا شگون ہے مرے مخالفین کے لئے
میں انتقام لوں گا دوستوں میں پھوٹ ڈال کر
سزا تو ہونی چاہئے منافقین کے لئے
اور یہ پیغام بھی یقیناً مخالفین کے لئے ہی ہو گا : دوغلے پن کا ہنر سیکھ لیا ہے میں نے
اب مجھے شہر میں آنے کی اجازت دی جائے
۔

۔۔۔۔
ندرت خیال ملاحظہ ہو ،عام سے مضامین میں بھی اپنے اندازبیان سے کیسے جان ڈال دیتے ہیں :
اب اس لڑائی میں ممکن ہے سر چلا جائے
جسے بھی جان ہو پیاری وہ گھر چلا جائے
بضد رہا جو بغاوت پہ میرا دل تو پھر
اسے کہوں گا بدن چھوڑ کر چلا جائے
بچھڑنے والے اکھٹے نہ دل کو یاد آئیں
شکستہ پل پہ قدم توڑ کر چلا جائے
۔

۔۔۔۔۔۔
ختم ہوئی آخر بے خوابی دریا میں
ڈوب گئی ہے اک مرغابی دریا میں
میں تو کب سے اس کو آگ لگا دیتا
لیکن کچھ مخلوق ہے آبی ، دریا میں
اپنے کنارے خود ہی کاٹنے لگتا ہے
پڑ جاتی ہے روز خرابی دریا میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگ جب زعم کے جنجال میں آجاتے ہیں
اوج افلاک سے پاتال میں آجاتے ہیں
تو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں
ہم بھی سادہ ہیں اسی چال میں آجاتے ہیں
جتنے غم پالے ہیں اے دامن دنیا تو نے
اتنے غم تو مرے رومال میں آجاتے ہیں
۔

۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور خوبصورت غزل جس کا ہر شعر دل کو چھو لیتا ہے۔ملاحظہ ہو: مکیں سے ترسے ہوئے غار کومبارک باد
میں گھر میں ہوں درو دیوار کو مبارکباد
سزائے موت پہ فریاد سے تو بہتر ہے
گلے لگا کے کہوں دار کو مبارکباد
وگرنہ تیر کسی کا نہ چھو سکا تھا مجھے
مری طرف سے مرے یار کو مبارکباد
۔۔۔۔۔۔۔
یہ حقیقت ہے کہ محمد افضل خان نیظاہری وضع قطع، لباس اور بالوں کی تراش خراش کے ذریعے اپنے آپ کو شاعروں کے گیٹ اپ میں نہیں ڈھالا،یہی نہیں انہیں اپنے آپ کو جگہ جگہ بطور شاعر متعارف کروانے یا اپنا کلام سنانے کا شوق بھی نہیں اور مشاعروں میں بھی ایک آدھ غزل پڑھ کر سٹیج کو چھوڑ دیتے ہیں،ان کے یہ سارے رویے غیر شاعرانہ ہیں اور انہیں خود بھی اس امر کا واضح شعور ہے اسی لئے وہ کہہ اٹھے ہیں : ا اپنے حلیے سے سخن ساز نہ لگنے والے ہم یہاں دوسرے شاعر ہیں عدم پہلے تھے
ان کی یہ غزل کافی مدت تک مقامی ادبی حلقوں اور ان کے احباب میں توجہ کا مرکز بنی رہی ،دیکھئے : تبھی تو میں محبت کا حوالاتی نہیں ہوتا
یہاں اپنے سوا کوئی ملاقاتی نہیں ہوتا
گرفتار وفا ٰ ! رونے کا کوئی ایک موسم رکھ
جو نالہ روز بہہ نکلے وہ برساتی نہیں ہوتا
بچھڑنے کا ارادہ ہے تو مجھ سے مشورہ کر لو
محبت میں کوئی بھی فیصلہ ذاتی نہیں ہوتا
تمہیں دل میں جگہ دی تھی نظر سے دور کیا کرتے
جو مرکز میں ٹھہر جائے ، مضافاتی نہیں ہوتا
اور اب اس بات پر بھی مجھ سے میرے یار الجھتے ہیں
کہ میں ہر بات سن لیتا ہوں ، جذباتی نہیں ہوتا
ندرت خیال ملاحظہ ہو : کچھ تو ہے تجھ میں بات کہ تجھ کو ہر ایک شخص
پھر دیکھتا ضرور ہے اک بار دیکھ کر
وہ آنا چاہتا تھا مرے خواب میں مگر
واپس چلا گیا مجھے بیدار دیکھ کر
۔

۔۔
ہمارے خون کے پیاسے پشیمانی سے مر جائیں
اگر ہم ایک دن اپنی ہی نادانی سے مر جائیں
کہیں ایسا نہ ہویا رب کہ یہ ترسے ہوئے عابد
تری جنت میں اشیا کی فراوانی سے مر جائیں
افضل خان نے زندگی کو ایک سٹیج اور لوگوں کو اس کے کرداروں کی صورت میں دیکھا ہے اور اس موضوع پر انہوں نے مختلف غزلوں میں بہت عمدہ اشعار کہے ہیں جیسے :
تجھ کو راس آئے گا مر ا پس پردہ ہونا
میرے مرنے سے پڑے گی ترے کردار میں جان
ایک اور شعر میں یوں اظہار کرتے ہیں : کہانی میں کوئی رد و بدل کر
مرا مرنا ابھی بنتا نہیں ہے
۔

۔۔۔
بولنا اور ہے کچھ، صورتِ حال اور ہے کچھ
میرا کردار نہیں میری کہانی کی طرح
شاعر بنیادی طور پر دیگر لوگوں کی نسبت زیادہ حساس ہوتا ہے وہ جو منظر دیکھتا ہے اس پر ان الفاظ میں طنز کرتا ہے : اک وڈیرہ کچھ مویشی لے کے بیٹھا ہے یہاں
گاؤں کی جتنی بھی آبادی ہے ، آبادی نہیں
محبت کے مضمون کو انہوں نے متعددباربیان کیا ہے اور ہر بار ایک نئے رنگ میں اسے باندھا ہے :
یہ محبت کے محل تعمیر کرنا چھوڑ دے
میں بھی شہزادہ نہیں ہوں تو بھی شہزادی نہیں
تجربے کے طور پرتیری طرف آیا ہوں میں
عشق کرنے کاسبب کوئی بھی بنیادی نہیں
۔

۔۔
یہ محبت ہے بند غار میاں
ہو رہے ہو کہاں فرار میاں
۔۔۔
اب جو پتھر ہے آدمی تھا کبھی
اس کو کہتے ہیں انتظار میاں
۔۔۔۔۔
تبھی تو حالِ زبوں نہیں ہے
یہ عشق میر ا جنوں نہیں ہے
۔۔۔۔۔۔
ہمارے تجربے کی روشنی میں
جدا ہو کر کوئی مرتا نہیں ہے
سود سے بڑھ کے خسارہ ہے تبھی ڈرتا ہوں
عشق میں عمر کا سرمایہ لگاتے ہوئے میں
۔

۔۔
خبر نہیں تھی محبت کا بیج بوتے ہوئے
کہ فصل اٹھانے سے پہلے لگان پڑتا ہے
۔۔۔
اس لئے میں نے محبت کا ارادہ باندھا
چند لفظوں کے معانی کی طلب تھی مجھ کو
۔۔۔
تو میرے حال سے انجان کب ہے اے دنیا
جو بات کہہ نہیں پایا سمجھ رہی ہے نا
اسی لئے ہمیں احساسِ جرم ہے شاید
ابھی ہماری محبت نئی نئی ہے نا
۔

۔۔۔
تری مسند پہ کوئی اور نہیں آسکتا
یہ مرا دل ہے کوئی خالی اسامی تو نہیں
۔۔۔۔۔
کسی کی آنکھ میری آنکھ سے ہے محو گفتگو
سماعتوں کا کام بھی لیا گیا ہے دید سے
۔۔۔۔
پرندوں اور درختوں کا ہمیشہ سے ساتھ چلا آتا ہے،ان کی اس دیرینہ باہمی محبت کے حوالے سے بھی کتاب میں کئی اشعار موجود ہیں ،دیکھئے :
اب یہ آنگن کا شجر دل کی طرح سونا ہے
کل پرندوں کو اڑانا ہی نہیں چاہیے تھا
۔

۔۔۔
یہ پرندے ہیں کہ روحوں کا بسیرا سر شام
جب یہ آتے ہیں تو آ جاتی ہے اشجار میں جان
۔۔۔۔
جانے کیا کیا ظلم پرندے دیکھ کے آتے ہیں
شام ڈھلے پیڑوں پر مرثیہ خوانی ہوتی ہے
۔۔۔۔۔
افضل خان کا یہ شعر بھی قابل غورہے :
جو یہ کہتے ہیں کوئی پیش نظر ہے ہی نہیں
کون سی ذات کے منکر ہیں اگر ہے ہی نہیں
افضل خان کی یہ غزل خالد احمد (مرحوم ) کوبہت پسند تھی اور انہوں نے دل کھول کر اس پر انہیں داد دی تھی ملاحظہ ہو :
نہیں تھا دھیان کوئی توڑتے ہوئے سگریٹ
میں تجھ کو بھول گیا چھوڑتے ہوئے سگریٹ
سو یوں ہوا کہ پریشانیوں میں پینے لگے
غم حیات سے منہ موڑتے ہوئے سگریٹ
مشابہ کتنے ہیں ہم سوختہ جبینوں سے
کسی ستون سے سر پھوڑتے ہوئے سگریٹ
کل اک ملنگ کو کوڑے کے ڈھیر پر لاکر
نشے نے توڑ دیا جوڑتے ہوئے سگریٹ
ہمارے سانس بھی لے کر نہ بچ سکے افضل
یہ خاک دان میں دم توڑتے ہوئے سگریٹ

افضل خان نے ایک غزل ظفر اقبال کی نذر کی ہے دیکھئے : بھلے ہیں درد کی شامیں پتنگ اڑتی ہے
ہوائے کرب و بلا میں پتنگ اڑتی ہے
میں کامیاب ہوا اپنے حاسدوں کے طفیل
کہ کھینچنے سے لگا میں پتنگ ا ڑتی ہے
سخن کے حبس میں لہر ا رہا ہے تیرا خیال
نہ جانے کیسے خلا میں پتنگ اڑتی ہے
بہار میرے دکھوں پر ہے خوش بہت شاید
تبھی جہان خدا میں پتنگ اڑتی ہے
میں چل سکا نہ زیادہ خلاف فطرت کے
ہمیشہ سمت ہوا میں پتنگ اڑتی ہے
کسے خبر یہ اسیری ہے یا نہیں افضل
یہ پنکھ ہے کہ فضا میں پتنگ اڑتی ہے

جب کوئی کیس عدالت میں زیر سماعت ہوتا ہے تو قارئین کرام یہ جانتے ہیں کہ اس پر میڈیا یا کسی دیگر ذریعے سے بحث یا تبصرے کی اجازے نہیں ہوتی اس لئے کہ اس طرح کے تبصرے عدالت کے فیصلے پر اثر انداز ہوسکتے ہیں،جج صاحب کی رائے کو پراگندہ کر سکتے ہیں ،لہذا اس کے لئے توہین عدالت کا قانون بنایا گیا ہے،مقصد ہے کہ عدلیہ خود انصاف تک پہنچے اور اسے وہاں تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے۔

افضل خان نے بھی اپنی کتاب میں کچھ ایسا ہی بندوبست کر دیا ہے،ان کی خواہش اور کوشش ہے کہ قاری جب یہ کتاب پڑھے ،اسکے اشعار سے لطف اندوز ہو تو وہ خالصتاًً اپنی رائے قائم کرے ،اس غرض سے افضل خان نے کسی بڑے شاعر ،تبصرہ نگار ،یا نقاد سے کوئی توصیفی نوٹ نہیں لکھوایا اور خود اپنی جانب سے بھی کوئی تبصرہ ،دلیل یا وضاحت تحریر نہیں کی،وہ چاہتے ہیں کہ اس کتاب کو جو ناپسند کریں وہ بھی اپنی رائے اور مرضی سے اور جو اس کو پسند کریں وہ بھی کسی کے کہنے پہ نہیں بلکہ صرف اور صرف اپنی اسیسمنٹ پر۔

اس طرح کا رسک ہر کوئی نہیں لے سکتا،جس کے پلے کچھ ہوتا ہے وہی اس طرح کے اعتماد کا مظاہرہ کرتا ہے۔

اب چند اور غزلوں میں سے چیدہ چیدہ اشعار : عیاں اگرچہ تھکاوٹ ہے بال و پر سے مرے
اتر سکا نہ جنوں ہجرتوں کا سر سے مرے
میں بے مراد سہی ،نقش پا تو چھوڑ گیا
یہ کم ہے کیا کہ بنا راستہ سفر سے مرے
ہمیں یہ آگ لگاتے بھی ہیں بجھاتے بھی ہیں
یہ سارے لوگ ادھر سے ترے ادھر سے مرے
یہ غزل بھی کیا خوب ہے :
اتر گیا مرے دل کا غبار ہا ہا ہا
ہنسا ہوں رو کے میں زار و قطار ہا ہا ہا
میں جب سے ذات کے عشر ت کد ے میں آیا ہوں
نہار و لیل ہیں لیل و نہار ہا ہا ہا
علاج ہجر کا دیوانگی سے ممکن ہے
ان آنسووں پہ فقط ایک بار ہا ہا ہا
مجھے قبول ہے جو بھی کہے ، کہے دنیا
ذلیل ، مسخرہ ، جاہل ، گنوار ہا ہا ہا
نہ جذب و کیف پہ ہے مجھ کو دسترس یا ہو
نہ قہقہوں پہ مرا اختیار ہا ہا ہا
ہر اک طرف سے مجھے گھورتی محبت ! سن
نکال لوں گا میں راہ فرار ہا ہا ہا
پہنچ گیا ہوں بالآخر میں پانچویں جانب
خبر ملی تھی کہ سمتیں ہیں چار ہا ہا ہا
ذرا سی بات پہ یوں دل برا نہیں کرتے
میں ٹھیک ٹھاک ہوں ، چل چھوڑ یار ہا ہا ہا

ایک اور موضوع ان کے ہاں کئی انداز لئے ہوئے سامنے آیا ہے،ملاحظہ ہو: اس کہانی میں نہیں میرے علاوہ کوئ
اور مجھے اپنے ہی کردار سے خوف آتا ہے
ایک دوسری غزل میں مزید ُٰٓ کہانی میں کوئی رد و بدل کر
مرا مرنا ابھی بنتا نہیں ہے

ان کی شاعری ، خاصکرغزل کا فہم و شعور نہ رکھنے والوں کو سناتے نظر آئے ہیں : غزل کو کم نگاہوں کی پہنچ سے دور کھتا ہوں
مجھے بنجر دماغوں میں شجر کاری نہیں کرنی
ایک دوسری جگہ کہتے ہیں : مری شاعری مرے ناقدین پہ کیا کھلے
مجھے باندھنے کو خیال خام نہیں ملا
اپنے مخالفین کو یوں زچ کرتے ہیں : یار لوگوں نے بہت خود کو اچھالا اوپر
ہو سکا پھر بھی مرے قد سے نہ افضل کوئی اور
پھر یہ اعلان کرتے بھی نظر آتے ہیں : میں انتقام لوں گا دوستوں میں پھوٹ ڈال کر
سزا تو ہونی چاہئے منافقین کے لئے

اور یہ ہیغام بھی یقیناً مخالفین کے لئے ہی ہو گا : دوغلے پن کا ہنر سیکھ لیا ہے میں نے
اب مجھے شہر میں آنے کی اجازت دی جائے
غزل سے اپنی جذباتی وابستگی کا اظہار یوں کرتے ہیں : اپنی دم توڑتی سانسیں بھی غزل کو دے دوں
یونہی ممکن ہے کہ آئے مرے اشعار میں جان
ایک جگہ غزل کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے : کیا مجھ سے غزل کا پوچھتے ہو
بوڑھی تھی جوان ہو چکی ہے


ایک اور مضمون ایک کو دل میں بٹھانے کے برعکس :بچھڑنے والے اکھٹے نہ دل کو یاد آئیں
شکستہ پل پہ قدم توڑ کر چلا جائے


جدید غزل کی آبیاری اور پرورش جس انداز میں بہاولپور میں ہو رہی ہے ،پاکستان کے شاید ہی کسی شہر میں ہو رہی ہو۔

نوجوانوں کا ایک گروپ ہے جو آپس میں مل بیٹھتا ہے ،صلاح مشورہ کرتا ہے،ایک دوسرے سے اصلاح لینے،مشورہ قبول کرنے،مثبت تنقید کرنے ، اسے خوشدلی کے ساتھ روبہ عمل لانے کے جذبے کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ان کی ہفتہ وار ادبی نشست میں بے جا تنقید و مغالطے کا طریقہ نہیں بلکہ فقط مثبت و مقصدی بحث ہی کو روا رکھا گیا ہے۔اس کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ نو آموزگار نوجوان بھی اچھے اشعار کہنے کے قابل ہو رہے ہیں ۔مذکورہ گروپ کے روح رواں افضل خان کا پہلا شعری مجموعہ اک عمر کی مہلت کے نام سے حال ہی میں سامنے آیا ہے۔

(2804) ووٹ وصول ہوئے

Related Poet

Related Articles

Afzal Khan Aor Ik Umr Ki Muhlat - Read Urdu Article

Afzal Khan Aor Ik Umr Ki Muhlat is a detailed Urdu Poetry Article in which you can read everything about your favorite Poet. Afzal Khan Aor Ik Umr Ki Muhlat is available to read in Urdu so that you can easily understand it in your native language.

Afzal Khan Aor Ik Umr Ki Muhlat in Urdu has everything you wish to know about your favorite poet. Read what they like and who their inspiration is. You can learn about the personal life of your favorite poet in Afzal Khan Aor Ik Umr Ki Muhlat.

Afzal Khan Aor Ik Umr Ki Muhlat is a unique and latest article about your favorite poet. If you wish to know the latest happenings in the life of your favorite poet, Afzal Khan Aor Ik Umr Ki Muhlat is a must-read for you. Read it out, and you will surely like it.