اپوزیشن کا معاشی امور پر حکومت کوپارلیمنٹ میں ٹف ٹائم دینے کافیصلہ

اگر اپوزیشن کو ’’سانس‘‘ لینے کا موقع نہ دیا گیا تو اس کے ملکی سیاسی صورتحال پر منفی اثرات مرتب ہوں گے جو بالآخر تحریک چلانے کا باعث بنیں گے۔

بدھ 13 فروری 2019

oppostion ka muashi umoor par hukoomat ko parlimnt mein tough time dainay ka faisla
نواز رضا
قومی اسمبلی کے اجلاس کے باعث پارلیمنٹ ہائوس میں غیر معمولی سرگرمیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے سربراہ آصف علی زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف اور اپوزیشن کے دیگر رہنمائوں سے پارلیمنٹ ہائوس میں ملاقاتوں کے لئے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔

قومی اسمبلی کے اجلاس کی پہلی نشست میں ہی اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کی ایوان میں ملاقات ہوئی۔ دوران دونوں اطراف سے ایک دوسرے کے لئے محبت بھرے جذبات دیکھنے میں ملک کے سیاسی ماحول نے ماضی کے مخالفین کو باہم ’’شیر و شکر‘‘ ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔

(جاری ہے)

دونوں جماعتوں کے قائدین کے درمیان پائی جانے والی ’’تلخی‘‘ اب قصہ پارینہ بن گئی ہے۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے آصف علی زرداری کی تقریر سننے کے لئے اپنی فزیو تھراپی موخر کر دی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے اپنی تقریر کے بعد اپنے گھر جانا تھا،شہباز شریف کی فزیو تھراپی کے لئے فزیوتھراپسٹ ان کا انتظار کر رہے تھے لیکن شہباز شریف آصف علی زرداری کی تقریر سننے کے لئے بیٹھ گئے اور تقریر سننے کے بعد ایوان سے اٹھ کر گئے۔

اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان قربتیں کس قدر بڑھ گئی ہیں۔ اسی طرح میاں شہباز شریف نے آصف زرداری کی ایوان میں آمد پر ڈیسک بجا کر ان کا استقبال کیا ۔ میاں شہباز شریف اپنی نشست اٹھ کر آصف علی زرداری کے پاس گئے تو دونوں کے درمیان پرجوش مصافحہ ہوا اور دونوں کے درمیان راز و نیاز کی باتیں ہوئیں ، سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے آصف زرداری کا پیغام میاں شہباز شریف کو پہنچایا اور بعد ازاں ان کی کافی دیر آصف علی زرداری سے بات چیت ہوئی، جس کے بعد ایاز صادق دوبارہ میاں شہباز شریف کے پاس آگئے اور ان کو آصف زرداری کا پیغام پہنچایا۔

آصف علی زرداری کی قومی اسمبلی میں دبنگ ’’انٹری‘‘ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنی تقریر میں پاکستان تحریک انصاف کو آڑے ہاتھوں لیا۔ انھوں نے بین السطور ان تمام قوتوں کو جارحانہ پیغام دیا جو انھیں نیب کی تحویل میں دیئے جانے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ انھوں نے اپنی تقریر میں حکمرانوں پر واضح کر دیا کہ’’ میں نیب سے نہیں ڈرتا، میں نے بڑے نیب دیکھے ہیں‘‘ ۔

آصف علی زرداری نے کہا کہ ’’چیئرمین نیب کے سامنے ہم کیوں جائیں انہیں خود پارلیمنٹ میں پیش ہونا چاہیے، حکومت کو اندر سے دیمک کھارہی ہے ہم اس حکومت کو نہیں گرائیں گے اسے تو خود گرنا ہے‘‘۔ انھوں نے موجودہ حکومت کو ’’مانگے تانگے کی حکومت قرار دیا اور کہا کہ ’’نہ جانے یہ حکومت کتنے دن چلے ‘‘۔ انھوں نے کہا کہ ’’میری عمر64سال ہے،70سال جیوں یا80یہ میرے مالک کو پتہ ہے،جب تک میں زندہ ہوں پارلیمنٹ کو مضبوط دیکھنا چاہتا ہوں۔

یہ جو لوگ نئے نئے حکومت میں آئے ہیں انکوبھی سکھانا چاہتا ہوں‘‘۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کی پہلی نشست میں ہی اپوزیشن جماعتوں کے غیر معمولی اجلاس کا انعقاد طے پا گیا،ا گلے روز قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی دعوت پر اپوزیشن جماعتوں کے سربراہان کا اجلاس ان کے چیمبر میں ہوا جس میں آصف زرداری، بلاول بھٹو، نوید قمر نے خصوصی طور پر شرکت کی۔

اجلاس میں جے یو آئی (ف) کی نمائندگی مولانا اسعد الرحمان اور عوامی نیشنل پارٹی کے امیر حیدر خان ہوتی نے شرکت کی، اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال اور رانا تنویر بھی موجود تھے۔ حکومت کی جانب سے سندھ میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں ن لیگی قیادت کو ٹف ٹائم دیئے جانے کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے سربراہان کی یہ پہلی باضابطہ ملاقات تھی جس میں موجودہ سیاسی صورتحال، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے امور، بلوچستان میں حکومت سمیت دیگر معاملات پر بات چیت کی گئی۔

اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں پہلی بار میاں شہباز شریف ،آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے شرکت کی۔ اجلاس کے شرکاء نیحکومت کو فری فری ہنڈ نہ دینے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ اس سے ملک خطرے سے دوچار ہوسکتا ہے۔ جبکہ اپوزیشن رہنماؤں نے معاشی امور پر حکومت کو پارلیمنٹ میں ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا گیا اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں آصف علی زرداری نے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع اور منی بجٹ کی مخالفت پر زور دیا تاہم اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے اس ایشو پر متفقہ پالیسی اختیار کرنے پر اتفاق کیا اور فیصلہ کیا کہ اس معاملے پر حکومت سے باضابطہ رابطے کے بعد پالیسی واضح کی جائے گی۔

قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے اجلاس کے بعد صحافیوں سے مختصر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ تمام امور پر بات چیت ہوئی ہے اور کہا کہ تمام ایشوز پر اپوزیشن کی مشترکہ حکمت عملی تیار ہوگی۔ معاشی حکمت عملی ہو یا میڈیا کی آزادی مشترکہ حکمت عملی تیار کی جائے گی، اس مقصد کے لیے کمیٹی بنا دی ہے جس میں تمام اپویشن کی نمائندگی ہوگی جو حکومت سے ڈائیلاگ کرے گی جب کہ فوجی عدالتوں کے معاملے پہ بھی یہ کمیٹی بات کرے گی، حکومت کی جانب سے اپوزیشن کو ’’چور‘‘ کہا جاتا ہے اور ایسے الفاظ استعال کئے جاتے ہیں کہ دہرائے بھی نہیں جا سکتے۔

اے این پی کے رہنما امیر حیدر ہوتی نے کہا کہ آج کا دن بہت اہم تھا، غیر معمولی اجلاس تھا ، تمام معاملات پر متحد ہوں گے۔ اسی طرح ایک صھافی نے آصف علی زرداری سے استفسار کیا کہ کیا اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد ہوسکتا ہے تو انھوں نے برجستہ جواب دیا کہ ’اتحاد‘‘ ہوگیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں نے مشترکہ کمیٹی تشکیل دینے پر اتفاق کیا ہے۔

جب آصف علی زرداری سے این آر او کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ ہم این آر او لینا چاہتے ہیں نہ ہی حکومت دینے کی پوزیشن میں ہے، وزیراعظم کے پارلیمنٹ آنے پر بات کریں گے۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا کہ غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان آنے کیلئے تیار نہیں، ملک میں معاشی حالات ابتر ہیں، مہنگائی روز بروز بڑھ رہی ہے، ادویات اور بجلی کی قیمتوں تک میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔

اپوزیشن کی کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ ہوا ہے جس کے ناموں کا اعلان جلد کر دیا جائے گا، تمام اپوزیشن پارٹیز کی کمیٹی ملٹری کورٹس سمیت تمام معاملات دیکھے گی۔ پاکستان کی چیدہ چیدہ سیاسی جماعتوں کے غیر معمولی اجلاس پر وزیر اعظم عمران خان اپنا ردعمل دیئے بغیر نہ رہ سکے اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے اکٹھا ہونے کا مقصد این آر او مانگنے کی کوشش ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ کیا جمہوریت منتخب سیاسی رہنمائوں کو کرپشن اور لوٹ مار کی کھلی چھوٹ کا نام ہے؟ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک جو شخص عوام کے ووٹ لے کر منتخب ہو جائے اسے قومی خزانے پر ڈاکہ زنی کا لائسنس مل جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے واک آوٹ کا مقصد ’’این آر او‘‘ مانگنا ہے۔ سپریم کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی سزا کالعدم قرار دینے کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب)کی اپیل خارج کردی ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے میاں نواز شریف اور مریم نواز کو ملنے والا ریلیف ملکی سیاسی صورتحال پر مثبت اثرات مرتب کرے گا۔ اس فیصلے کا حکومت کی جانب سے بھی وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد حسین چوہدری نے خیر مقدم کیا ہے۔ میاں نواز شریف العزیزیہ سٹیل مل ریفرنس میں سات سال سزا سنائے جانے کے بعد کوٹ لکھپت جیل میں قید کاٹ رہے ہیں، العزیزیہ سٹیل مل ریفرنس میں سزا اور ان کیفلیگ شپ ریفرنس میں بریت کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیلیں زیر سماعت ہیں۔

آنے والے دنوں میں میاں نواز شریف کی سزا اور بریت کے بارے میں فیصلے ملکی سیاست کا رخ متعین کریں گے۔ میاں نواز شریف جس جرات و استقامت سے جیل کاٹ رہے ہیں، اس سے ان کے سیاسی وقار میں اضافہ ہوا ہے۔ میاں نواز شریف کوئی این آر او مانگ رہے ہیں اور نہ ہی کوئی انھیں این آر او دے سکتا ہے۔ میاں نواز شریف سے ملنے والے مسلم لیگی رہنمائوں نے بتایا ہے کہ میاں نواز شریف کا مورال بلند ہے اور وہ ہر قسم کی صورتھال کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اپوزیشن کے جارحانہ کردار سے حکومت دبائو میں آ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کے اکٹھے ہونے کو این آر او سے تشبیہ دے رہی ہے۔ حکومت نے اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کے طرز عمل نے ہی اپوزیشن کو یکجا ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اگر اپوزیشن کو ’’سانس‘‘ لینے کا موقع نہ دیا گیا تو اس کے ملکی سیاسی صورتحال پر منفی اثرات مرتب ہوں گے جو بالآخر تحریک چلانے کا باعث بنیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

oppostion ka muashi umoor par hukoomat ko parlimnt mein tough time dainay ka faisla is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 13 February 2019 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.