
کہانی مائنس ون کی!
جمعہ 10 جولائی 2020

حسان بن ساجد
(جاری ہے)
اسی طرح کبھی ان سیاسی جماعتوں کی نالائقیوں کی وجہ سے آمریت کا راج ہوتا۔ جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں ہم نے ترقی کی منازل طے کیں۔
پھر پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی قائد ذولفقار علی بھٹو کی پارلیمنٹ میں کم سیٹیں اور شیخ مجیب الرحمن کو نا تسلیم کرنے کی ضد۔ "ادھر ہم ادھر تم" کے نعرے نے اس ملک کو 1970 میں دو ٹکڑے کیا۔ اسی طرح 1977 پاکستان نیشنل الائنس کے لانگ مارچ اور ملک میں عدم استحکام کی وجہ سے جنرل ضیا الحق کو مارشل لا کا موقع ملا اور ایک کیس کے نتیجے میں بھٹو کو پھانسی دی گئی۔ بے نظیر بھٹو کی جلا وطنی اور پھر پاکستان میں انکے عظیم الشان استقبال نے سیاست کا رخ بدل دیا۔ دفن پیپلزپارٹی ایک مرتبہ پھر عروج کی جانب بڑھ رہی تھی۔ 1988 میں بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی وزیراعظم بنیں تو 1990 میں کرپشن کے الزامات کی وجہ سے صدر۔غلام اسحاق خان نے مائنس ون بھی کیا اور انتخابات کا اعلان کیا۔ 1990 کے انتخابات کو تاریخ کے سیاہ ترین انتخابات کہا جاتا ہے۔ 1990 میں نوازشریف کی واپسی کے بعد 1993 میں نوازشریف صاحب بھی مائنس ون هوے اور انتخابات کے بعد محترمہ پھر دوسری مرتبہ وزیراعظم بنیں۔ محترمہ کی یہ حکومت بھی لمبی نا چل سکی انکے بھائی مرتضیٰ بھٹو کی شہادت کے بعد صدر نے ایک مرتبہ پھر حکومت ختم کر دی جبکہ 1997 میں نوازشریف کو دوبارہ حکومت ملی اور وہ بھی میاں صاحب کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے 1999 میں جنرل پرویز مشرف کی آمریت کی نظر ہوئی۔ 2008 سے 2018 آصف علی زرداری و نواز شریف حکومتوں میں بھی اکثر ان ہاؤس چینج تو کبھی تبدیلی و انقلاب کے نعرے لگے۔ 2013 میں ڈاکٹر طاہر القادری کے اسلام آباد پڑاؤ اور آرٹیکل 62، 63 کے نفاذ اور شفاف انتخابات کے مطالبہ کو حکومت نے احسن طریق سے معاہدہ کرکہ نبٹ لیا اور بعدازاں کہانی مختصر ہوئی اور زرداری نے حکومت کے 5 سال پورے کیے۔ نواز شریف دور میں ڈان لیکز، سانحہ ماڈل ٹاؤن، اسلام آباد آزادی و انقلاب مارچ اور اکثر ایسا محسوس ہوا کہ مائنس ون ہونے کو ہے، پھر پانامہ لیک کے ہنگامہ اور سپریم کورٹ کیس میں نواز شریف کو تاحیات نا اہلی کا سامنا کرنا پڑا اور شاہد خاقان عباسی کو وزارت عظمیٰ کا قلمدان سونپا گیا۔ 2018 میں محترم وزیراعظم عمران خان منتخب هوے تو قرضوں کا پہاڑ تھا جبکہ دوسری جانب غربت، بے روزگاری اور کرپشن بھی نظر آئ۔ قوم کو نئی قیادت سے امید تھی اور کچھ کو آج بھی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے اسلام آباد دھرنا دیا جو بعد ازاں اپنا بوریا بستر باندھ کر گھر گیا۔ پیپلزپارٹی، ن لیگ، JUI ایف اور دیگر جماعتوں نے چیئرمین سینٹ کو تبدیل کرنا چاہا تو ان ہاؤس چینج کی جگہ ان ہاؤس سیٹلمنٹ هوگئی اور اپوزیشن تقسیم هوگئی۔ اب آٹا، چینی، پیٹرول، کرونا وائرس، کرپشن، کشمیر محاذ، مہنگائی اور بے روزگاری کے اس دور میں عمران خان صاحب کے خلاف ایک مرتبہ پھر اپوزیشن اپنی صفیں سیدھی کررہی ہے۔ ادھر سردار اختر مینگل کی حکومت سے علیحدگی نے ایک الگ پنڈورا بکس کھول دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے سردار اختر مینگل سے اور دیگر جماعتوں سے ملاقاتیں کی ہیں جبکہ ن لیگ و پیپلزپارٹی بھی ان ہاؤس چینج کے لیے صف آرا ہیں۔ وزیراعظم عمران خان صاحب کے مائنس ون کے ذکر سے ایسا محسوس ہوا کہ انھیں کسی حد تک حکومت جانے کا خطرہ ہے۔ تمام اتحادی جماعتوں کو عشائیہ پر بلا کر اعتماد میں لینا اہم پیغام دیتا ہے۔ دوسری طرف اس دعوت میں ایم۔کیو۔ایم پاکستان، ق لیگ اور شیخ رشید کے علاوہ دیگر لوگوں نے بھی شرکت نہیں کی تھی۔ اطلاعات کے مطابق اگست میں اپوزیشن اپنا آخری کارڈ چلنے کو ہے۔ حکومتی اتحادیوں کو ملا کر اپوزیشن عمران خان کی جگہ کسی اور کو منتخب کرنا چاہتی ہے۔ اس دور میں جب پاکستان کی معاشی ترقی 5 سے منفی 0.25 هوچکی هو ایک وزیراعظم کو ہٹا کر ان ہاؤس چینج کسی طرح بھی ملکی ترقی و استحکام کے حق میں نہیں ہے۔ حالیہ کچھ دنوں میں کراچی اسٹاک ایکسچینج پر دہشتگردوں نے حملہ کرنے کی کوشش کی جس کو 8 منٹ میں سیکورٹی اداروں نے خاک میں ملا دیا اور دنیا میں کو پیغام دیا کہ پاکستانی سیکورٹی ادارے چاک و چوبند ہیں۔ یقینا" ان دہشتگردوں کے پیچھے عالمی قوتیں تھیں جنہوں نے انکو فنڈنگ کی تھی۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق اس کے پیچھے بھارت تھا جبکہ انکی تربیت افغانستان میں ہوئی تھی۔ یقینا" دشمن کا مقصد پاکستانی کو معاشی اور اندرونی طور پر کمزور کرنا ہے۔ پارلیمنٹ کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے برملا کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی اسٹاک ایکسچینج حملہ کے پیچھے بھارت ملوث ہے۔ بروقت کاروائی پر سندھ پولیس اور پاک فوج، انٹیلی جنس اداروں کو سلام ہے۔ میری ذاتی راۓ میں اس وقت وزیراعظم عمران خان کو ہٹا کر کسی کو لانا انتہائی نقصان دہ ہوگا۔ ملک پہلے ہی معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ میرے تجزیہ کے مطابق اپوزیشن کے تابوت آخری کیل آنے والی ممکنہ تحریک عدم اعتماد کھونپ دے گی۔ اسی طرح میرے ذاتی تجزیہ کے مطابق اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لانے پر ہی متحد نہیں ہوگی کیونکہ ہر کسی کا رخ مختلف سمتوں میں ہے۔ جماعتوں کو ماضی سے سیکھنا چاہئیے اور آگے بڑھنا چاہئیے۔ انشااللہ وہ وقت دور نہیں جب یہ ملک ان مشکلات سے نکل کر ترقی، امن اور سلامتی کی طرف گامزن ہوگا۔ بے شک ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔ گویا ہمیں ثابت قدم رہنا ہوگا اور پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہوگا۔ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
حسان بن ساجد کے کالمز
-
مہنگا نظام اور عوام
بدھ 2 فروری 2022
-
محبت اور آج کی محبتیں!
جمعرات 1 اپریل 2021
-
23 مارچ "یوم پاکستان" کیا ہم آزاد ہیں؟
جمعرات 25 مارچ 2021
-
کیا تبدیلی آنے والی ہے؟
پیر 8 مارچ 2021
-
اساتذہ پر لاٹھی چارج و گرفتاریاں!
جمعرات 24 دسمبر 2020
-
پی۔ڈی۔ایم اور کرونا وائرس
اتوار 29 نومبر 2020
-
پھر تم سا نا کوئی ہوا
جمعرات 22 اکتوبر 2020
-
نواز شریف اور 12 اکتوبر 1999
پیر 12 اکتوبر 2020
حسان بن ساجد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.