= اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 جون2025ء)وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نی175 کھرب سے زائد کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا،ایف بی آر محصولات کا تخمینہ 14ہزار 131 ارب روپے لگایا گیا ہے، دفاعی بجٹ کیلئے دو ہزار 550ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ،8 ہزار 207 ارب روپے سود کی ادائیگی ،جاری اخراجات کا تخمینہ 16 ہزار 286 ارب روپے،حکومت کی خالص آمدنی 11 ہزار 72 ارب روپے،نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 5 ہزار 147 ارب روپے،ترقیاتی پروگرام کے لیے ایک ہزار ارب روپے ،پنشن کیلئے ایک ہزار 55 ارب روپے ،بجلی و دیگر شعبوں کے لیے سبسڈی کے طور پر ایک ہزار 186 ارب روپے ،گرانٹس کی مد میں ایک ہزار 928 ارب روپے ،جاری اخراجات میں سے آزاد کشمیر کیلئے 140 ارب، گلگت بلتستان کیلئے 80 ارب، خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کیلئے 80 ارب اور بلوچستان کے لیے 18 ارب روپے رکھنے ، تنخواہوں میں 10، پنشن میں 7 فیصد اضافہ، انکم ٹیکس میں کمی کی تجویز پیش کی گئی ، تنخوادار طبقے اور پراپرٹی پر ریلیف ملے گا ،سولر پینل پر 18فیصد ٹیکس عائد ہوگا ،تمام گاڑیوں کے سیلز ٹیکس کو یکساں کیا جائیگا ،پٹرول،ڈیزل استعمال کرنے والی یا ہائبرڈ گاڑیوں پر سیلز ٹیکس میں یکسانیت لائی جائیگی، اٹھارہ فیصد سے کم سیلز ٹیکس والی تمام گاڑیوں پر بھی 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے،ای کامرس پلیٹ فارمزترسیل کرنے والے کوریئر اور لاجسٹک خدمات فراہم کرنے والوں سے 18 فیصد سیلز ٹیکس وصول کرکے جمع کرائیں گے جبکہ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اور نگزیب نے کہا ہے کہ منی بجٹ کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا تھا مگر کوئی منی بجٹ نہیں آیا نا کوئی نیا ٹیکس لگایا گیا،کے پی اور بلوچستان کے ضم اضلاع کی ٹیکس چھوٹ ختم کر دی گئی ،شریک حیات کے انتقال کے بعد پنشن 10 سال تک محدود،دس وزارتوں کی رائٹ سائزنگ کی منظوری ، چھ ڈویژنز کو ضم کر کے تین ڈویژن بنادیئے گئے، پینتالیس کمپنیوں اور اداروں کو پرائیوٹائز، ضم یا ختم کیا جائیگا، چالیس ہزار پوسٹیں ختم ، اگلی دس وزارتوں کی رائٹ سائزنگ کی سفارشات حتمی شکل دیدی گئی ہے ، نئی انرجی وہیکل پالیسی منظور کی گئی ہے جس کے تحت الیکٹرک گاڑیوں کو ترجیح دی جائے گی، الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری اور فروخت کو فروغ دینے کیلئے لیوی عائد کرنے کی تجویز ہے، لیوی معدنی تیل استعمال کرنے والی گاڑیوں کی فروخت اوردرآمد پرانجن کی طاقت کے مطابق عائد ہوگی،سالانہ 20کروڑ سے 50 کروڑ روپے آمدنی پر سپر ٹیکس میں 0.5 فیصد کمی کا فیصلہ کیا ہے،جائیداد کی خریداری پر ٹیکس میں کمی ہوگی ، پیٹرولیم مصنوعات پر کاربن لیوی لگانے اور تعمیراتی شعبے میں ٹیکس کم کرنے کی تجویز ہے ،کم آمدن طبقے کو گھر خریدنے یا تعمیر کیلئے سستے قرضوں کا وعدہ ہے ،حکومت نے سستی بجلی کے حصول کے لیے جامع منصوبہ بندی کر لی ہے جس سے آنے والے دنوں میں سستی بجلی کا حصول ممکن ہو گا۔
(جاری ہے)
منگل کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے شدید احتجاج اور شورشرابہ کے دور ان بجٹ تقریر کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ اس معزز ایوان کے سامنے مالی سال 26-2025 کا بجٹ پیش کرنا میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے، اس مخلوط حکومت کا یہ دوسرا بجٹ ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کی قیادت خصوصا میاں محمد نواز شریف ، بلاول بھٹو، خالد مقبول صدیقی، چوہدری شجاعت حسین، عبدالعلیم خان اور خالد حسین مگسی کی رہنمائی کے لیے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
انہوںنے کہاکہ یہ بجٹ نہایت اہم اور تاریخی موقع پر پیش کیا جارہا ہے، قوم میں حالیہ دنوں میں غیر معمولی اتحاد، عزم اور ہمت کا عملی مظاہرہ پیش کیا ہے، بھارتی جارحیت کے مقابل ہماری سیاسی قیادت، افواج پاکستان اور پاکستان کے غیور عوام نے جس جواں مردی، دانشمندی اور یکجہتی کا ثبوت دیا، وہ تاریخ کے سنہری اوراق میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ کامیابی ایک شاندار عسکری کامیابی کے علاوہ پوری قوم کے اجتماعی شعور، قومی وقار اور غیرت کا مظہر تھی، میں یہاں پر پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔انہوںنے کہاکہ ہماری افواج نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت، شجاعت اور جذبہ قربانی سے دشمن کو مؤثر اور بھر پور جواب دیا جس سے نہ صرف ہماری سرحدوں کا دفاع ناقابلِ تسخیر بنا بلکہ عالمی برادری میں پاکستان کا وقار بھی بلند ہوا، اس عظیم کامیابی نے یہ پیغام دیا کہ پاکستانی قوم ہر آزمائش میں متحد ہے اور مادر وطن کے دفاع کیلئے سیسہ پلائی دیوار بن جاتی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ اسی قومی عزم اور یکجہتی کو بروئے کار لاتے ہوئے اب ہماری توجہ معاشی استحکام، ترقی اور خوشحالی کے حصول کی جانب مرکوز ہے، ہم نے جس جذبے سے قومی سلامتی کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا ہے، اٴْسی خلوص اور حوصلے کے ساتھ ہمیں اپنی معیشت کو مستحکم اور عوام کی فلاح کو یقینی بنانا ہے۔وزیر خزانہ نے کہاکہ ہم نے پچھلے لگ بھگ سوا ایک سال کے دوران قومی اتحاد اور عزم کے جذبے کے ساتھ معاشی بحالی، اصلاحات اور ترقی کا سفر کامیابی سے طے کیا ہے اور معاشی اصلاحات، مالیاتی نظم و ضبط، اور ترقیاتی منصوبہ بندی کو یکجا کرتے ہوئے نہ صرف معیشت کو استحکام بخشا ہے بلکہ مستقبل کی بنیادیں بھی مضبوط کی ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ یہی ویژن ہمیں آگے بڑھاتا ہے، ایک ایسے پاکستان کی طرف جہاں ترقی ہر فرد کی دہلیز تک پہنچے اور قوم بحیثیت مجموعی خوشحال ہو، راہ پر قائم، خوشحالی دائم یہی ہمارا عزم، ہماری حکمت عملی اور ہمارا نعرہ ہے۔وزیر خزانہ نے کہاکہ ہم نے گزشتہ سال معیشت کی بہتری کے لیے کئی اہم اقدامات کیے، جن کے نتیجے میں مالی نظم و ضبط میں نمایاں بہتری آئی اور ہمیں کئی کامیابیاں حاصل ہوئیں، جن میں سے کچھ کا ذکر کرنا چاہوں گا جس کے مطابق جی ڈی پی کے 2.4 فیصد کے برابر پرائمری سرپلس کا حصول،افراط زر میں نمایاں کمی 4.7 فیصد،پچھلے سال کے 1.7 ارب ڈالر خسارے کے مقابلے میں اس سال سرپلس کرنٹ اکاؤنٹ 1.5 ارب ڈالر متوقع،روپے کی قدر میں استحکام شامل ہے ۔
وزیر خزانہ نے کہاکہ ترسیلات زر موجودہ مالی سال کے پہلے 10 ماہ میں 31 فیصد اضافے کے ساتھ 31.2 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، ہم پر امید ہیں کہ موجودہ مالی سال کے اختتام تک ترسیلات زر کا حجم 38 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔انہوںنے کہاکہ اسٹیٹ بنک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں دو ارب ڈالر کا اضافہ ہو چکا ہے، موجودہ سال کے اختتام تک یہ ذخائر 14 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔
سینیٹر محمد اور نگزیب نے کہاکہ اقتصادی بہتری کیلئے حکومت کو سخت فیصلے لینے پڑے، پاکستان کے غیور عوام نے بھی متعدد قربانیاں دیں جن کے مثبت نتائج سامنے آئے، ہمارے مائیکرو اکنامک اسٹیبلائزیشن پروگرام کی کامیابی کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیاگیا، اسی طرح گلوبل فنانشل ادارے، ریٹنگ ایجنسیز اور ملکی و غیر ملکی سروے معیشت میں بہتری کی گواہی دے رہے ہیں،اسی طرح پی ڈبلیو سی کے مطابق کاروباری اداروں کے سربراہان کا معیشت میں بہتری پر اعتماد 49 فیصد سے بڑھ کر 83 فیصد تک پہنچ چکا ہے، اسی اعتماد کی بازگشت اورسیز چیمبرز کے تحت پاکستان میں کاروبار کرنے والے بیرونی سرمایہ کاروں میں بھی سنی جاسکتی ہے جہاں بزنس کانفڈینس انڈیکس میں تاریخی بہتری آئی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ گیلپ کیمطابق بھی پاکستانی معیشت میں واضح بہتری آئی ہے اور ہاؤس ہولڈ فنانشل آؤٹ لک میں صرف پچھلی سہ ماہی میں 27.5 فیصد اضافہ ہوا ہے، آئی پی ایس او ایس سروے کے مطابق پاکستان کے بہتر مستقبل کے حوالے سے عوام اور مقامی صارفین کی توقعات میں اضافہ ہوا ہے اور یہ 6 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔انہوں نے کہا کہ فچ نے پاکستان کی ریٹنگ کو ٹرپل سی پلس سے بڑھا کر منفی بی کرتے ہوئے معاشی مستقبل میں بہتری کی نوید دی ہے، موڈیز نے بھی معیشت میں بہتری کی نشاندہی کی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ کے مطابق ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بینک اور آئی ایف سی نے نہ صرف پاکستانی معیشت کے مستقبل پر اعتماد کا اظہار کیا ہے بلکہ پاکستان کے لیے خطیر فنڈنگ کا اعلان بھی کیا ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمارا سب سے اہم معاشی مسئلہ محصولات کے نظام کی مسلسل کمزوری تھی، پاکستان کی ،ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو‘ 10 فیصد تھی جو کہ ترقیاتی اخراجات اور ریاست کے انتظامی معاملات چلانے کے لیے ناکافی تھی۔
مزید برآں ایف بی آر کے مطابق پاکستان میں ٹیکس گیپ کا تخمینہ 5.5 ٹریلین روپے لگایا گیا، یعنی ہم آدھے سے زیادہ ممکنہ ٹیکس سے محروم تھے، یہ صورت حال ناقابل قبول تھی، اس خلا کو پر کرنا نہ صرف ضروری تھا بلکہ ملک کو 14 فیصد،ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو کی پائیدار ترقی کی راہ پر ڈالنا ناگزیر تھا۔انہوںنے کہاکہ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی تھی کہ ایف بی آر اس حل کا محض ایک حصہ نہیں بلکہ بنیاد ہے، ایف بی آر میں اصلاحات کیے بغیر معیشت کو مستحکم کرنا اور قومی اہداف حاصل کرنا ممکن نہ تھا، اسی لیے وزیر اعظم کی سربراہی میں ایف بی آر اصلاحاتی پلان کا آغاز کیا گیا، یہ کوئی روایتی مشق نہیں تھی بلکہ وزیراعظم کی براہ راست نگرانی میں ایک تفصیلی مشاورت کے ذریعے تیار کیا گیا منصوبہ تھا جس کی ستمبر 2024 میں منظوری دی گئی، اس منصوبے کی بنیاد 3 ستونوں پر ہے، (عوام، ترقی اور ٹیکنالوجی)۔
انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کا محور ڈیجیٹل اصلاحات ہے، پاکستان میں پہلی مرتبہ معیشت اور ٹیکس نظام کے درمیان جامع ڈیجیٹل ہم آہنگی کا آغاز کیا گیا۔ اس منصوبے کے تحت اٹھائے گئے اہم اقدامات میں (ڈیجیٹل پروڈکشن ٹریکنگ) کا آغاز چینی کے شعبے سے کیا گیا جسے اب سیمنٹ، مشروبات، کھاد اور ٹیکسٹائل تک توسیع دی جا رہی ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ہم انسانی وسائل کی ترقی پر بھی بھر پور سرمایہ کاری کر رہے ہیں، آڈیٹرز کی صلاحیت سازی کے لیے کے لیے نئی بھرتیاں کی گئی ہیں جبکہ شعبہ جاتی ماہرین اور آڈٹ مینٹورز کو کلیدی اکائیوں میں تعینات کیا گیا ہے تاکہ تربیت اور پیشہ ورانہ رہنمائی کا تسلسل برقرار رکھا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ افسران کو آڈٹ، قانون اور ڈیجیٹل مہارتوں پر مبنی منظم تربیتی پروگرامز کے ذریعے مہارت دی جارہی ہے، پیچیدہ قانونی مقدمات کی پیروی کے لیے صف اول کی قانونی فرموں کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب افسران کو انعامات محض سینارٹی سے نہیں بلکہ ان کی کارکردگی، پیشہ ورانہ رویے اور دیانت داری سے مشروط کیا گیا ہے۔
انہوںنے کہاکہ میں ایوان کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس منصوبے کے ابتدائی نتائج نہایت حوصلہ افزا رہے ہیںجس کے مطابق چینی کے شعبے سے محصولات میں 47 فیصد اضافہ ہوا،ڈیٹا انٹیگریشن کے ذریعے 3 لاکھ 90 ہزار ہائی ویلیو نان فائلرز کی نشاندہی ہوئی، جس سے 30 کروڑ روپے کی وصولی ممکن ہوئی،فراڈ اینالیٹکس کے ذریعے 9.8 ارب روپے کے جعلی رقم کی واپسی کے دعوؤں کو بلاک کیا گیا،مصنوعی ذہانت پر مبنی آڈٹ سسٹم کے تحت 200 سے زائد کیسز کی نشاندہی کی گئی جن کی مالیت 13.3 ارب روپے سے زیادہ ہے،فیس لیس کسٹم آڈٹ کے ذریعے قانون پر عمل پیرا امپورٹرز کو سہولت فراہم کی گئی،فائلنگ اور ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد میں 100 فیصد اضافہ ہوا اور محاصل 45 ارب سے بڑھ کر 105 ارب روپے تک پہنچ گئے۔
انہوںنے کہاکہ یکم جولائی سے 800 کالم والا ریٹرن سادہ فارمیٹ میں تبدیل کر دیا جائے گا جس میں صرف 7 بنیادی معلومات درکار ہوں گی، یہ آسان اور صارف دوست ریٹرن، خاص طور پر تنخواہ دار افراد اور چھوٹے کاروباروں کے لیے متعارف کروایا جا رہا ہے، جس کے بعد کسی وکیل یا ماہر کی مدد کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔وزیر خزانہ نے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار آئی ایم ایف نے قوانین کے نفاذ کے ذریعے 389 ارب روپے کے محصولات کو باضابطہ تسلیم کیا ہے، یہ غیر معمولی اعتراف ہمارے اصلاحاتی اقدامات کی طاقت، وسعت اور ساکھ کا واضح ثبوت ہے، دوسرے الفاظ میں یہ آئی ایم ایف کا پاکستان کی اصلاحات پر اعتماد کا مظہر ہے، جو لوگ منی بجٹ کا ڈھنڈورا پیٹ رہے تھے، میں بڑے ادب سے ان دوستوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کوئی منی بجٹ نہیں آیا اور نہ ہی کوئی اضافی ٹیکس لگایا گیا۔
انہوںنے کہاکہ کئی ٹیکس دہندگان مقدمات کے ذریعے ٹیکس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کیسز کی کمزور پیروی کی وجہ سے حکومتی محاصل طویل عرصے تک التوا کا شکار رہتے ہیں۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ موجودہ حکومت کی کامیاب حکمت عملی کی وجہ سے اس سال ایف بی آر نے کامیاب قانونی چارہ جوئی کے ذریعے 78.4 ارب روپے کے محاصل وصول کر لیے ہیں، اس اہم کامیابی پر میں قانونی ٹیم اور معزز عدلیہ کا تہہ دل سے مشکور ہوں، اس کے علاوہ عدالتوں میں اے ڈی آر سے متعلق ایک مقدمے کو مذاکراتی تصفیہ کے ذریعے حل کیا گیا جس سے قومی خزانے کو 77 ارب حاصل ہوئے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ معاشی ترقی کے لیے پاور سیکٹر کے شعبے کی اہمیت مسلمہ ہے، ہم نے معاشی ترقی کے حصول اور ملکی صنعت کے لیے بجلی کی اہمیت کے پیش نظر صنعتی شعبے کے لیے بجلی کی قیمت میں 31 فیصد سے زائد کمی کی ہے جب کہ ایک کروڑ 80 لاکھ مستحق اور پروٹیکٹڈ صارفین کے لیے بجلی کی قیمت میں کمی 50 فیصد سے بھی زائد ہے۔انہوںنے کہاکہ ہم نے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر بھی نظرثانی کی ہے جس کے نتیجے میں 3 ہزار ارب روپے سے زیادہ کی بچت ہوگی، اس طریقہ کار پر عمل کرکے ہم ماحول کے لیے نقصان دہ 3 ہزار میگاواٹ گنجائش سے زائد فرنس آئل پاور پلانٹس کو بند کرنے میں کامیاب ہوئے۔
انہوںنے کہاکہ ہمیں احساس ہے کہ مستقل بنیادوں پر بہتری لانے کے لیے پاور سیکٹر میں گہری اور بنیادی اصلاحات لانا ضروری ہیں، ہم نے آگے بڑھتے ہوئے فیصل آباد، گوجرانوالہ اور اسلام آباد کی 3 ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نجکاری کا تقریباً آدھا عمل مکمل کر لیا ہے اور ان کی نجکاری کے تمام ضروری لوازمات پورے کر لیے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے بجلی کی ترسیل کے ادارے این ٹی ڈی سی کو موثر بنانے کے لیے اس کی تنظیم نو کی ہے اور اسے 3 نئی کمپنیوں میں تقسیم کردیا ہے، یہ کمپنیاں مستقبل کے پراجیکٹس کی منصوبہ بندی اور ان پر عملدرآمد کی ذمے دار ہوں گی تاکہ بجلی کے ترسیلی نظام میں رکاوٹیں دور کی جا سکیں۔
اِن اداروں کو چلانے کے لیے عالمی معیار کے افراد تعینات کیے جائیں گے۔انہوںنے کہاکہ مجھے یہ بتاتے ہوئی خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ اب بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا انتظام پروفیشنل بورڈز کے سپرد ہے، ہم نے ان بورڈز میں سیاسی مداخلت کو ختم کر دیا ہے، پروفیشنل بورڈز کے آنے سے ان کمپنیوں نے صرف 9 مہینوں میں اپنے نقصانات میں 140 ارب روپے کی کمی کی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ انشااللہ ہمارا عزم ہے کہ اگلے 5 سالوں میں کمپنیوں کے ان نقصانات کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا جبکہ بجلی کے شعبے میں مسابقتی اور آزاد مارکیٹ کے قیام کے لیے قانون سازی اور ضوابط کو حتمی شکل دے دی گئی ہے ،اگلے 3 ماہ میں اس پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار توانائی بچت کے اصولوں پر مبنی بلڈنگ کوڈز منظور کیے گئے ہیں اور وفاقی و صوبائی اداروں کو ان ضوابط پر مکمل عملدرآمد کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ مستقبل میں بننے والی تمام تعمیرات توانائی کے اعتبار سے مؤثر اور فعال ہوں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے سستی بجلی کے حصول کے لیے جامع منصوبہ بندی کر لی ہے جس سے آنے والے دنوں میں سستی بجلی کا حصول ممکن ہو گا، اس منصوبے کے تحت اب تک 4 ہزار ارب روپے سے زائد کی بچت کی ہے اور 9 ہزار میگاواٹ گنجائش کے مہنگے بجلی گھر جنہیں نیشنل گرڈ میں شامل کیا جانا تھا، ترک کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے بجلی کی پیداوار کے ایسے تمام پلانٹس کو بند کر دیا ہے جو جنریشن کمپنیوں کی شکل میں سرکاری ملکیت میں تھے، ان پلانٹس کے فالتو آلات کی فروخت کا عمل شروع ہو گیا ہے تا کہ ان اداروں کے باعث ملکی خزانہ پر 7 ارب روپے سالانہ سے زائد کے بوجھ کا خاتمہ ہو سکے۔
سینیٹرمحمد اورنگزیب نے کہا کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران ہم نے پاکستان کے تیل اور گیس کے شعبے میں ہدف پر مبنی اصلاحات کیں جن سے سرمایہ کاری میں اضافہ، اور اسٹریٹیجک تنوع کے بل بوتے پر نمایاں ترقی ہوئی ہے جب کہ ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن (ای اینڈ پی) کے شعبے میں مسابقتی بولیوں میں خاص طور پر ترک پیٹرولیم سمیت بین الاقوامی کمپنیوں کی خاصی دلچسپی رہی، جو طویل عرصے کے بعد آن شور سیکٹر میں قابل ذکر بیرونی سرمایہ کاری کی علامت ہے۔
,انہوںنے کہاکہ پاکستان آف شور ایکسپلوریشن بڈ 2024 کا آغاز ایک دہائی سے زیادہ عرصے کے بعد عمل میں آیا، جس سے آف شور سیکٹر میں ای اینڈ پی سرگرمی بحال ہوئی جب کہ تیل اور گیس کی کی متعدد دریافتوں سے درآمدات کے متبادل میں مدد ملی اور انرجی سیکیورٹی میں بہتری آئی، ای اینڈ پی کمپنیوں نے مستقبل میں تیل اور گیس کی تلاش کے لیے 5 ارب امریکی ڈالرز سے زیادہ کی سرمایہ کاری کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے جب کہ پہلے سے رواں فیلڈز پر جدید ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتے ہوئے ان کی استعداد بڑھانے کے منصوبوں پر بھی توجہ مرکوز کی گئی۔
پیٹرولیم پالیسی 2012 ٹائٹ گیس پالیسی میں ترامیم، مناسب قیمتوں سمیت متعدد پالیسی اصلاحات سے مسابقت میں بہتری آئی۔انہوں نے کہا کہ ریفائننگ اور ڈاؤن اسٹریم سیکٹر میں پاکستان ریفائنگ پالیسی 2023 کے ذریعے تحرک دیکھنے میں آیا ہے، جس سے یورو-وی اپ گریڈز اوراستعداد میں توسیع لانے میں معاونت ملی، ایندھن کی قیمتوں کی ڈی ریگولیشن کی جانب اقدامات کا مقصد مسابقت اور نجی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے۔
انہوںنے کہاکہ ریکوڈک میں واقع تانبے اور سونے کی کانیں ہمارے مستقبل کا ایک اہم اثاثہ ہیں، حکومت اس اثاثے کو مفید بنانے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے، اس منصوبے کی فزیبلٹی سٹڈی جنوری 2025 میں مکمل کی گئی اور اس منصوبے کی متوقع کان کنی کی مدت 37 سال ہے جس کے دوران ملک کو 75 ارب ڈالر سے زائد کے کیش فلوز حاصل ہوں گے جب کہ اس منصوبے کے تحت تعمیراتی کام میں 41 ہزار 500 ملازمتیں فراہم ہوں گی۔
وزیر خزانہ نے کہاکہ منصوبے سے کمیونٹی پروگراموں، مقامی خریداری ماحولیاتی حفاظتی اقدامات اور معاونت کے ذریعے نمایاں سماجی و اقتصادی ترقی کا حصول ممکن ہو گا، اس منصوبے سے 7 ارب ڈالر کے ٹیکس اور 7.8 ارب ڈالر کی رائلٹی متوقع ہے جب کہ برآمدات میں آسانی پیدا کرنے کے لیے ریکوڈک سے پورٹ قاسم اور گوادر تک سڑک اور ریل کے ذریعے نقل وحمل کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر جاری ہے، یہ منصوبہ پاکستان کی معیشت کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہوگا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت سازگار کاروباری ماحول پیدا کرنے، سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور برآمدات کو بڑھانے کے لیے پٴْر عزم ہے، وزارت تجارت نے مسابقتی ، متنوع اور برآمدات پر مبنی ملکی معیشت کے فروغ کے لیے کئی اہم اقدامات کیے ہیں، حکومت معاشی ترقی، کاروبار کو سپورٹ کرنے اور برآمدات کو فروغ دینے کے واضح ویڑن کے ذریعے ایک جامع ٹیرف ریفارمز پیکچ متعارف کروا رہی ہے، جس کا مقصد موجودہ ٹیرف کو مناسب بنانا ہے تاکہ برآمدات کو بڑھا کر معاشی ترقی کو تیز کیا جاسکے۔
انہوںنے کہاکہ وزیراعظم کی ہدایات کے مطابق درج ذیل ٹیرف اصلاحات کو نیشنل ٹیرف پالیسی 30-2025 کا حصہ بنایا جا رہا ہے جس کے تحت 4 سال میں اضافی کسٹم ڈیوٹی کا خاتمہ،5 سال میں ریگولیٹری ڈیوٹیز کا خاتمہ،کسٹم ایکٹ 1969 کے 5 ویں شیڈول کا 5 سالوں میں اختتام،کل چار کسٹمز ڈیوٹی سلیبز (0 فیصد، 5 فیصد، 10 فیصد، اور 15 فیصد )،زیادہ سے زیادہ کسٹم ڈیوٹی کی حد 15 فیصد۔
انہوں نے کہا کہ ان ٹیرف اصلاحات کو مرحلہ وار لاگو کیا جائے گا تاکہ کاروبار کسی خلل کے بغیر اس تبدیلی کے ساتھ ایڈجسٹ کرسکیں اور ان کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو کم سے کم کیا جاسکے جب کہ معیشت کے تقریباً تمام شعبے ان اصلاحات سے مستفید ہوں گے جن میں فارماسیوٹیکل، آئی ٹی اور ٹیلی کام، ٹیکسٹائل، انجینئر نگ وغیرہ شامل ہیں۔انہوںنے کہاکہ ورلڈ بینک کے مطابق ان اصلاحات کے کامیاب نفاذ کے بعد پاکستان کے اوسط ٹیرف، خطے میں سب سے کم ہو جائیں گے اور ہم ویت نام اور انڈونیشیا جیسے ممالک کی صف میں شامل ہو جائیں گے، ہمیں یقین ہے کہ ان اصلاحات کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے اور یہ ملک کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کریں گی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ پچھلی دو دہائیوں سے ہماری معیشت قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے، مالیاتی نظم ونسق کو بہتر بنانے سے ہماری معیشت کے تناسب سے قرضوں کے حجم میں کمی آئی ہے، آج سے دو سال قبل ہمارے قرض اور جی ڈی پی کا تناسب 74 فیصد تھا جو کہ اب 70 فیصد سے بھی نیچے آ گیا ہے جسے ہم آگے چل کر مزید کم کریں گے، اس ضمن میں ہمیں اہم کامیابیاں ملی ہیں۔
انہوںنے کہاکہ پاکستان کے پہلے ڈیبٹ بائے بیک پروگرام کے تحت ایک ہزار ارب کے قرض بائے بیک کیے گئے،ایک فعال ری فنانسنگ پروگرام کے تحت مارک اپ میں ریکارڈ 850 ارب روپے سے زائد کی بچت کی گئی،قرضوں کے میچورٹی کا اوسط وقت میں 66 فیصد اضافہ کیا گیا جس سے ہمارا ری فنانسنگ رسک کم ہوا اور مالیاتی استحکام میں اضافہ ہوا۔انہوںنے کہاکہ قرض کی مصنوعات کو متنوع کیا جارہا ہے تاکہ انویسٹر بیس بڑھایا جاسکے، اس سلسلے میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے ذریعے سکوک بانڈ کا اجرا کر دیا گیا ہے ،مزید پراڈکٹس کو لانچ کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔
انہوںنے کہاکہ عالمی طریقہ کار کے مطابق ڈی ایم او کی تنظیم نو کی جارہی ہے، پہلے پانڈا بونڈ کے اجرا کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے جس کا مقصد دنیا کی سب سے بڑی اور گہری چینی کیپٹل مارکیٹ تک پاکستان کی رسائی ممکن بنانا ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ایس او ایز حکومتی خزانے پر 800 ارب روپے سے زیادہ کا سالانہ بوجھ ڈالتی ہیں، سبسڈیز، گرانٹس اور ایکویٹی کی مد میں دی گئی حکومتی امداد کو شامل کیا جائے تو یہ تخمینہ ایک ٹریلین روپے سالانہ سے تجاوز کر جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایس او ای ریفارمز مالیاتی نظم و ضبط کے لیے انتہائی اہم ہیں، حکومت نے ایس او ایز کے حوالے سے کئی اہم اقدامات کیے ہیں۔
انہوںنے کہاکہ ایس او ای ریفارمز کا ایک اہم ستون ان کی مختلف اقسام میں تقسیم ہے جس کے ذریعے اٴْن کی مستقبل کی سمت یعنی نجکاری کی تنظیم نو یا پی پی پی ماڈل کا تعین کیا جاتا ہے، کابینہ کی ایک کمیٹی کے ذریعے درجہ بندی کو مکمل کر لیا گیا ہے۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ عوامی شعبے کی کارکردگی کو بہتر بنانے، مالی بوجھ کو کم کرنے، اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے حکومت ایک جدید اور متحرک نجکاری حکمت عملی پر عمل پیرا ہے، یہ حکمت عملی غیر ضروری سرکاری اداروں کی شفاف اور مؤثر نجکاری پر مرکوز ہے تاکہ مختلف شعبوں، بالخصوص توانائی اور مالیاتی شعبے میں مسابقت، کارکردگی اور نجی سرمایہ کاری کو فروغ دیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ مالی سال 26-2025 میں ہمارا ہدف ہے کہ ہم پی آئی اے اور روزویلٹ ہوٹل جیسی اہم ٹرانزیکشن مکمل کریں، اور ڈسکوز اور جینکوز جیسے کلیدی اثاثوں کی نجکاری کے لیے پالیسی اور ضابطہ جاتی اصلاحات کو آگے بڑھائیں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم نجکاری کو صرف ایک مالی اقدام نہیں بلکہ پاکستان کی سرمایہ منڈیوں کو وسعت اور گہرائی دینے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ منتظم پبلک لسٹنگ اور آفرز کے ذریعے ہمارا مقصد یہ ہے کہ سرکاری اثاثوں کو اسٹاک مارکیٹ میں شامل کیا جائے تاکہ مارکیٹ میں شفافیت بڑھے، سرمایہ کاروں کی شرکت ممکن ہو اور عوام کی معیشت میں شمولیت کو فروغ دیا جا سکے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے وفاقی حکومت کی ادارہ جاتی تشکیل کو وزیراعظم کی ویڑن کے مطابق درست منتظم اور جدید بنانے کے اقدام کا آغاز کیا ہے، یہ اہم اور بنیادی اصلاحات اس اصول پر مبنی ہے کہ حکومت عوامی سہولیات کی فراہمی کے لیے ٹیکس دہندگان پر کم سے کم بوجھ ڈالے، حکومتی اسٹرکچر میں جدید خیالات کے لیے ساز گار ماحول دستیاب ہو اور حکومت کاروباری معاملات میں حصہ نہ لے بلکہ یہ معاملات نجی شعبے کے حوالے کرنے چاہیں۔
انہوںنے کہاکہ اب تک کابینہ نے 10 وزارتوں کی رائٹ سائزنگ کے منصوبوں کی منظوری دے دی ہے، جو اب عملدر آمد کے مرحلے میں ہیں، 6 ڈویژنز کو ضم کر کے 3 بنا دی گئی ہیں، 45 کمپنیوں اور اداروں کو پرائیویٹائز ضم یا بند کیا جارہا ہے ،تقریباً 40 ہزار خالی آسامیوں کوختم کر دیا گیا ہے، اگلی 10 وزارتوں کے لیے رائٹ سائزنگ کی سفارشات کو حتمی شکل دی جاچکی ہے جبکہ مزید 8 وزارتوں کے حوالے سے تجاویز زیر غور ہیں۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ پینشن، ریٹائرڈ ملازمین کا بنیادی حق ہے، پچھلی کچھ دہائیوں میں پینشن اسکیم میں ایگزیکٹو آڈرز کے ذریعے تبدیلیاں کی گئیں جس کی وجہ سے سرکاری خزانے پر بوجھ بڑھا، پنشن اسکیم کو درست کرنے اور سرکاری خزانے پر بوجھ کو کم کرنے کے لیے حکومت نے پنشن اسکیم میں اصلاحات کی ہیں۔جیسے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی حوصلہ شکنی،پینشن اضافہ (کنزیومر پرائس انڈیکس) سے منسلک،شریک حیات کے انتقال کے بعد فیملی پنشن کی مدت 10 سال تک محدود ایک سے زائد پنشنز کا خاتمہ،ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ملازمت کی صورت میں پنشن یا تنخواہ میں سے کسی ایک کا انتخاب شامل ہے ۔
انہوںنے کہاکہ ماحولیاتی تبدیلی پاکستان کے لیے خطرہ ہے، یہ ہماری بقا کا مسئلہ ہے، پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہے، ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کا سد باب حکومت کی اہم ترجیحات میں سے ایک ہے، ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے بیش بہا وسائل کی ضرورت ہوتی ہے، اسی لیے حکومت نے گذشتہ 16 ماہ میں کلائمیٹ فنانس پر خصوصی توجہ دی ہے اور اس سلسلے میں نمایاں کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ ورلڈ بینک اور آئی ایف سی، اپنے کنٹری پارٹنر شپ فریم ورک کے تحت پاکستان کو اگلے 10 سال میں 40 ارب ڈالر کے وسائل مہیا کریں گے جب کہ ماحولیاتی تبدیل سے نمٹنا اس فریم ورک کی اہم ترجیح ہے،اسی طرح ایک سال کی انتھک محنت کے بعد آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے 1.4 ارب ڈالر کی پائیداری سہولت فراہم کی ہے، حکومت پاکستان نے پہلے گرین سکوک کا بھی اجرا کیا ہے، جس کے ذریعے ماحولیاتی تبدیلی سے متعلقہ منصوبوں کے لیے مقامی مارکیٹ سے وسائل کی فراہمی ممکن ہوئی ہے، ان وسائل کی دستیابی پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی سے محفوظ بنانے میں مددگار ثابت ہوگی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ہماری حکومت ایک جامع اور مؤثر سماجی تحفظ کے نظام کے ذریعے معاشرے کے کمزور ترین طبقات کے تحفظ کے لیے پر عزم ہے، مالی سال 25-2024 کے دوران، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام نے کم آمدنی والے خاندانوں کو معاشی مشکلات سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا، 592 ارب روپے کے مختص فنڈز میں سے ایک کثیر رقم کے ذریعے 99 لاکھ مستحق خاندانوں کو غیر مشروط نقد امداد فراہم کی گئی۔
انہوںنے کہاکہ اس کے علاوہ ایک کروڑ 16 لاکھ بچوں کو تعلیمی وظائف کی صورت میں مالی معاونت فراہم کی گئی، نشوونما پروگرام کے تحت 15 لاکھ حاملہ مائیں اور ان کے 16 لاکھ بچوں کو نقد امداد اور غذائیت پر مبنی خصوصی خوراک فراہم کی گئی۔ انہوںنے کہاکہ آئی ٹی کا شعبہ اپنی برآمدات کی صلاحیت کی وجہ سے ملکی معیشت کا ایک انتہائی اہم حصہ بن چکا ہے، ڈیجیٹل گورننس اور سائبر سیکیورٹی کے حوالے سے پاکستان کی خدمات کا بین الاقوامی سطح پر اعتراف کیا گیا ہے، گلوبل سائبر سیکورٹی انڈیکس 2024، یو این-ای گورنمنٹ انڈیکس اور آئی سی ٹی ڈیولپمنٹ انڈیکس میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی رینکنگ ملک کے آئی ٹی شعبے کی ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی آئی سی ٹی برآمدات میں متاثر کن اضافہ ریکارڈ کیا گیا، سال کے 10 مہینوں میں یہ ایکسپورٹس 3.1 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جو پچھلے سال کی نسبت 21.2 فیصد زیادہ ہیں، یہ نمایاں اضافہ حکومتی پالیسی کے نتیجے میں ہوا۔ اگلے مالی سال بھی اس شعبے میں ترقی کا سفر جاری رکھا جائے گا جب کہ اگلے 5 سالوں میں آئی سی ٹی ایکسپورٹ کو 25 ارب ڈالر تک بڑھانے کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ایس ایم ایز ہماری معیشت کی خوشحالی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم پاکستان نے ایس ایم ایز کے فروغ پر خصوصی توجہ دی ہے اس سلسلے میں وزیر اعظم نے ایک اسٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دی ہے تاکہ تمام سرکاری اداروں کی مربوط کوششوں سے اس شعبے کو فروغ دیا جا سکے۔انہوںنے کہاکہ ایس ایم ای ڈی اے نے 27-2024 کے لیے 3 سالہ کاروباری منصوبہ تیار کیا ہے جس کے اہم اجزاء میں ایس ایم ای فنانسنگ میں اضافہ برآمدات کا فروغ ، صنعتوں کے مابین روابط، خواتین کی کاروباری شراکت اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے تحفظ شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری ایک بڑی کامیابی ایس ایم ای رسک کور ریج اسکیم ہے جس کے تحت مئی 2025 تک 95 ہزار سے زیادہ ایس ایم ایز کو 311 ارب روپے سے زائد کی مالی معاونت فراہم کی گئی، اس کے نتیجے میں کل ایس ایم ای فنانسنگ 471 ارب روپے سے بڑھ کر 641 ارب روپے ہو گیا ہے جب کہ مستفید ہونے والے کاروباروں کی تعداد ایک لاکھ 74 ہزار سے بڑھ کر 2لاکھ 62 ہزار تک پہنچ گئی ہے، حکومت کا عزم ہے کہ انشا اللہ 2028 تک ایس ایم ای فنانس کو 1100 ارب روپے تک بڑھایا جائے اور مستفید کاروباروں کی تعداد 7 لاکھ 50 ہزار تک پہنچائی جائے۔
انہوںنے کہاکہ وزیراعظم پاکستان سماجی و اقتصادی ترقی کی اسکیموں کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں جن کا عوام کی فلاح و بہبود پر گہرا اثر مرتب ہوگا، معاشرے کے کم آمدنی والے طبقے کو گھروں کی خرید یا تعمیر کے لیے ستے قرضوں کی فراہمی کی جائے گی۔ اس اسکیم سے کئی شعبوں میں معاشی سرگرمیاں آگے بڑھیں گی اور ہنر مندوں کے لیے نئے روزگار پیدا ہوں گے۔
اس منصوبے کی تفصیلات کا اعلان جلد ہی اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی جانب سے کیا جائے گا۔وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ہمارا ایک اہم اثاثہ ہیں، بیرون ملک مقیم بہن بھائیوں نے موجودہ مالی سال کے پہلے 10 ماہ میں 31.2 ارب ڈالر کی ترسیلات زر پاکستان بھیجی ہیں جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں 31 فیصد زیادہ ہیں، جب کہ پچھلے 2 سالوں میں ترسیلات زر کے حجم میں 10 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے جس کے لیے ہم اپنے بیرون ملک مقیم پاکستانی بہن بھائیوں کے تہ دل سے شکر گزار ہیں، اس سے کرنٹ اکاؤنٹ میں بہتری آئی ہے، ہماری حکومت بیرون ملک پاکستانیوں کو مزید سہولیات دے گی تا کہ وہ ملکی ترقی میں اپنا فعال کردار ادا کرتے رہیں۔
انہوںنے کہاکہ وزیراعظم پاکستان کے احکامات کی روشنی میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے متعدد اقدامات کیے جارہے ہیں، جیسا کہ خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، مقدمات کی رجسٹریشن اور شواہد اکھٹا کرنے کے لیے آن لائن سسٹم متعارف کروایا جائے گا اور جھوٹے مقدمات سے بچاؤ کے لیے متعلقہ قوانین میں تبدیلی کی جائے گی۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے بچوں کے لیے وفاقی حکومت سے چارٹرڈ یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجز میں کوٹہ متعین کیا جارہا ہے، اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک کے ذریعے زیادہ ترسیلات بھیجنے والے 15 افراد کو ہر سال 14 اگست کو سول ایوارڈز دیے جائیں گے۔
ذراعت وزیر خزانہنے کہا کہ زراعت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، زراعت کا ملکی معیشت میں 24 فیصد ہے۔ جس سے ملکی معیشت کے لیے زراعت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا، اس شعبے کی اہمیت کے پیش نظر وزیر اعظم نے ایک نیشنل کمیٹی تشکیل دی ہے جو زراعت کے فروغ کے لیے صوبوں کے ساتھ بامقصد مشاورت کرے گی۔ مزید برآں، زرعی شعبے کو قرض کی فراہمی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور یہ رقم پچھلے مالی سال کے پہلے 10 مہینوں میں ایک ہزار 785 ارب روپے سے بڑھ کر اس مالی سال کے پہلے 10 مہینوں میں دو ہزار 66 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ زراعت کے شعبے خصوصاً چھوٹے کسانوں کو قرض کی فراہمی کے لیے کئی نئے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ ایک نیا پروگرام شروع کیا جارہا ہے جس کے تحت بینک چھوٹے کسانوں کو بغیر کسی ضمانت کے ایک لاکھ روپے تک کے قرضے فراہم کریں گے، یہ رقم ڈیجیٹل سسٹم کے ذریعے کسانوں کے ای-والٹس میں ٹرانسفر کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان نے بیج کے شعبے کی بہتری کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں جن میں نیشنل سیڈ ڈویلپمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام شامل ہے تاکہ معیاری، موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق بیجوں کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے جب کہ وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے بیج کے نظام کو ڈیجیٹل بنیادوں پر منظم کرنے کا عمل شروع کیا ہے، جس میں کمپنی رجسٹریشن، تجدید، بیج کی تصدیق، نگرانی اور نفاذ شامل ہیں، نجی شعبے کی تحقیق اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کپاس کی فصل کی بحالی کے لیے بھی مربوط کوششیں کی گئی ہیں، جو پاکستان کی معیشت اور ٹیکسٹائل صنعت کا ستون ہے، اگرچہ حالیہ برسوں میں کپاس کی پیداوار میں کمی ہوئی، تاہم 2023 میں مثبت پیش رفت دیکھنے میں آئی اور 2024 میں حکومتی کوششوں کے باوجود موسمی مسائل کے باعث پیداوار متاثر ہوئی جب کہ حکومت ہر ممکن کوشش کرے گی کہ کپاس کی کاشت کے اعتماد کو بحال کیا جا سکے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ اس کونسل کے تحت توانائی، معدنیات، زرعی کاروبار، آئی ٹی، فین ٹیک، انفراسٹرکچر، افرادی قوت کی ترقی اور سیاحت سمیت مختلف شعبوں میں 100 سے زائد اسٹریٹجک گرین فیلڈ اور براؤن فیلڈ منصوبوں کو تیز رفتاری سے آگے بڑھایا گیا، جس کے نتیجے میں مالی سال 25-2024 میں براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ ہوا، نجکاری اور پبلک پرائیویٹ پاٹنرشپ اور نجی شعبے کے فروغ میں بھی سرمایہ کاری کونسل نے اہم کردار ادا کیا۔
انہوںنے کہاکہ 60 بین الصوبائی اور بین الوزارتی روابط میں بہتری اور غیر ضروری ضابطہ جاتی رکاوٹوں کے خاتمے کے باعث کونسل نے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کیا، نقل وحمل اور لاجسٹک کا نظام بہتر بنایا اور مالی سال 26-2025 کے لیے برآمدات پر مبنی صنعتی ترقی کے ایجنڈے کی مضبوط بنیاد رکھی۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ مالی سال 26-2025 کے لیے اقتصادی ترقی کی شرح 4.2 فیصد رہنے کا امکان ہے، افراط زر کی اوسط شرح 7.5 فیصد متوقع ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 3.9 فیصد جب کہ پرائمری سر پلس جی ڈی پی کا 2.4 فیصد ہوگا، اسی طرح ایف بی آر کے محصولات کا تخمینہ 14 ہزار 131 ارب روپے ہے جو رواں مالی سال سے 18.7 فیصد زیادہ ہے۔انہوںنے کہاکہ وفاقی محصولات میں صوبوں کا حصہ 8 ہزار 206 ارب روپے ہو گا، وفاقی نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 5 ہزار 147 ارب روپے ہو گا جبکہ وفاقی حکومت کی خالص آمدنی 11 ہزار 72 ارب روپے ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 17 ہزار 573 ارب روپے ہے، جس میں سے 8 ہزار 207 ارب روپے مارک اپ کی ادائیگی کے لیے مختص ہوں گے، وفاقی حکومت کے جاری اخراجات کا تخمینہ 16 ہزار 286 ارب روپے ہے۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ وفاق کے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے لیے ایک ہزار ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے، جبکہ ملکی دفاع کے لیے 2 ہزار 550 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے اسی طرح سول انتظامیہ کے اخراجات کے لیے 971 ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پنشن کے اخراجات کے لیے ایک ہزار 55 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، بجلی اور دیگر شعبوں کے لیے سبسڈی کے طور پر ایک ہزار 186 ارب روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ گرانٹس کی مد میں ایک ہزار 988 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں جو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ( بی آئی ایس پی ) ، آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے نئے ضم شدہ اضلاع وغیرہ کے لیے ہیں۔
انہوںنے کہاکہ حکومت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نمایاں اقدامات کا دائرہ کار وسیع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے کفالت پروگرام کو ایک کروڑ خاندانوں تک پہنچایا جائے گا، اور تعلیمی وظائف پروگرام کو مزید وسعت دی جائے گی تاکہ تقریباً ایک کروڑ بچوں کو فائدہ پہنچایا جا سکے،اگلے مالی سال میں بی آئی ایس پی کے لیے 716 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے جو کے پچھلے سال کے مقابلے میں 21 فیصد زیادہ ہے۔
جاریہ اخراجات سے آ سے آزاد جموں وکشمیر کے لیے 140 ارب روپے، ، گلگت بلتستان کے لیے 80 ارب روپے، خیبر پختونخوا اور ضم شدہ اضلاع کے لیے 80 ارب روپے اور بلوچستان کے لیے 18 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔وزیرخزانہ نے کہا کہ موجودہ مالی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے، نیشنل اکنامک کونسل (این ای سی ) نے مالی سال 2025-26 کے لیے 4224 ارب روپے کے قومی ترقیاتی اخراجات کی منظوری دی ہے، جس میں ایک ہزار ارب روپے وفاقی ترقیاتی پروگرام ( پی ایس ڈی پی ) اور 2869 ارب روپے صوبائی ترقیاتی پروگراموں کے علاوہ سرکاری ملکیتی اداروں ( ایس او ایز ) کی اپنے وسائل سے تین 355 ارب روپے کی سرمایہ کاری شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی پی ایس ڈی پی 26-2025 کا محور بنیادی انفرا اسٹرکچر کے منصوبے ہیں، جن پر 60 فیصد سے زائد وسائل صرف کیے جا رہے ہیں تاکہ پورے ملک کو فائدہ پہنچے۔ جبکہ صوبائی ترقیاتی پروگراموں کی ترجیح سماجی شعبے ہیں جن کے لیے 60 فیصد سے زائد رقوم مختص کی گئی ہیں،اس کے علاوہ جاری اور نئے اقدامات کو قومی منصوبوں جیسے کہ ’اٴْڑان پاکستان اور ’ ایز 5 ’ پر مبنی نیشنل اکنامک ٹرانسفارمیشن پلان سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
وزیرخزانہ نے کہا کہ فیڈرل پی ایس ڈی پی 26-2025 کے تحت ٹرانسپورٹ انفراا سٹرکچر معیشت کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ایک کلیدی محرک کے طور پر ایس ای ایس فریم ورک کے تحت نمایاں شعبوں میں سے ایک ہے، تاکہ اٴْڑان پاکستان اور ایس ڈی جی ایس کے اہداف حاصل کیے جاسکیں۔اس شعبے کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی حکومت نے پی ایس ڈی پی 26-2025 کے مجموعی ایک ہزار ارب روپے میں سے 328 ارب روپے کی سب سے بڑی رقم ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر منصوبوں کے لیے مختص کی ہے، جس میں خصوصی توجہ سڑکوں کے شعبے پر مرکوز کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی خصوصی ہدایت پر کراچی سے چمن جانے والی بلوچستان کی 813 کلومیٹر طویل این-25 شاہراہ جو کراچی، بیلہ، خضدار، قلات، کوئٹہ اور چمن سے گزرتی ہوئی افغانستان تک جاتی ہے، کی دو دور رویہ تعمیر کے لیے 100 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ شمال جنوب موٹروے نیٹ ورک کی تکمیل اور رابطہ کی غرض سے چھ رویہ سکھر۔
حیدرآباد موٹروے کی تعمیر کے لیے 15 ارب روپے رکھے گئے ہیں، تھر کول ریل کنیکٹیوٹی پروجیکٹ کی بروقت تکمیل کے لیے 7 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔وزیرخزانہ نے کہا کہ میری ٹائم سیکٹر میں، گڈانی شپ بریکنگ کی سہولیات کی اپ گریڈیشن کے منصوبے کو بھی اہمیت دی گئی ہے اور اس کے لیے 1.9 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، گوادر پورٹ انفرااسٹرکچر منصوبوں کے لیے پی ایس ڈی پی سے امداد کا تسلسل برقرار رکھا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی ٹرانسپورٹ منصوبوں کے لیے مالیاتی خلا کو پورا کرنے کے لیے بھی امداد جاری رکھی گئی ہے اور صوبائی منصوبوں کے لیے نمایاں فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ حالیہ دنوں میں پاک-بھارت جنگ کے بعد بھارت نے پاکستان کے پانی کو روکنے کی دھمکی دی ہے، بھارت پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے، میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ پانی پاکستان کی بقا کا ضامن ہے اور اس میں کسی قسم کی رکاوٹ کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے بھارت کے ناپاک عزائم کا بھر پور توڑ کیا جائے گالیکن اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ ہم اپنے آبی ذخائر میں جنگی بنیادوں پر اضافہ کریں، حکومت محدود وسائل کے باوجود پانی کے ذخائر کے منصوبوں پر عمل درآمد یقینی بنائے گی، جلد ہی اس حوالے سے ایک تفصیلی حکمت عملی کا اعلان کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بھارتی آبی جارحیت کے ساتھ ساتھ پانی کی قلت، فوڈ سیکیورٹی، پہاڑی ندی نالوں سے آنے والے طغیانی ریلیوں کی روک تھام، سیلاب کی روک تھام کے اقدامات اور موسمیاتی تبدیلی کے مسائل جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔
انہوںنے کہا کہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے حکومتِ پاکستان نے نیشنل واٹر پالیسی 2018 کے تحت جامع آبی وسائل کے نظم ونسق کے طریقہ کار کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف اہداف مقرر کیے ہیں جن میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں 10 ملین ایکڑ فٹ کا اضافہ، پانی کے ضیاع میں 33 فیصد کمی، پانی کے کفایتی استعمال میں 30 فیصد اضافہ، اور سندھ طاس آبپاشی نظام سے پانی کے اجرا کی ریئل ٹائم مانیٹرنگ شامل ہیں۔
وزیرخزانہ نے کہا کہ گزشتہ سال 59 آبی منصوبوں میں سے 34 منصوبے مکمل کیے گئے جن کی مجموعی لاگت 295 ارب روپے رہی ، موجودہ مالی سال میں آبی وسائل ڈویڑن کے لیے کل 133 ارب روپے مختص کیے گئے، جن میں 34 ارب جاری آبی منصوبوں میں مزید سرمایہ کاری کے لیے 102 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جن میں سے 95 ارب روپے 15 اہم منصوبوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں جو پانی ذخیرہ کرنے، سیلاب سے تحفظ، انڈس بیسن پر ٹیلی میٹری سسٹم اور پانی کے تحفظ سے متعلق ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دیامر بھاشا ڈیم کے لیے 32.7 ارب روپے، مہمند ڈیم کے لیے 35.7 ارب روپے، کراچی بلک واٹر سپلائی ( کے فور) منصوبے کے لیے 3.2 ارب روپے، کلری باغار فیڈر کینال کی لائننگ کے لیے 10 ارب روپے، اور انڈس بین سسٹم پر ٹیلی میٹری سسٹم کے لیے 4.4 ارب روپے رکھے گئے، اسی طرح پٹ فیڈر کینال کے لیے 1.8 ارب روپے اور کچھی کینال فلڈ ڈیمیجز پروجیکٹ کے لیے 69 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہاکہ آواران، پنجگور، گروک، اور گیشکور ڈیمز کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت اس امر کے لیے پر عزم ہے کہ تمام شہریوں کو سستی اور قابلِ اعتماد انرجی کی فراہمی یقینی بنائی جائے، اس مقصد کے حصول کے لیے مالی سال 26-2025 کے ترقیاتی پروگرام میں انرجی سیکٹر کی 47 ترقیاتی اسکیموں کے لیے 90.2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں،اس مختص رقم کا ایک بڑا حصہ بڑے پن بجلی منصوبوں سے بجلی کی ترسیل کے لیے مختص ہے، جیسے تربیلا میں پانچواں توسیع منصوبہ، جس کے لیے 84 کروڑ روپے، داسو پن بجلی منصوبہ کے لیے 10.9 ارب روپے، سوکی کناری کے لیے 3.5 ارب روپے اور مہمند پن بجلی منصوبے کے لیے 2ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
وزیرخزانہ نے کہا کہ ملک میں بجلی کی ترسیل کے نظام کو مضبوط بنانے کے لیے 500 کے وی مٹیاری-مورو- رحیم یار خان ٹرانسمیشن لائن بچھانے کے لیے 1 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔اسی طرح نمایاں مختص رقوم میں 4.4 ارب روپے علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی گرڈ اسٹیشن کے لیے اور 1.1 ارب روپے قائداعظم بزنس پارک کے 220 کے وی گرڈ اسٹیشن کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔بجلی کے تقسیم کے نظام کو جدید بنانے کے لیے 100 اور 200 کے وی اے ٹرانسفارمرز پر ’ ایسٹ پرفرمارمینس مینجمنٹ سسٹم ’ کی تنصیب کے لیے 1.6 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جبکہ آئیسکو میں ایڈوانس میٹرنگ انفرااسٹرکچر منصوبے کے لیے 2.9 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں،اس کے علاوہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ملتان الیکٹرک پاور کمپنی کو 1.8 ارب روپے ، حیدر آباد الیکٹرک پاور کمپنی کے لیے 1.9 ارب روپے اور پشاور الیکٹرک پاور کمپنی کے لیے 2.4 ارب روپے دیے جائیں گے۔
واپڈا کی جانب سے شروع کیے گئے صاف، قابل تجدید اور پن بجلی کی پیداوار کے منصوبوں کے لیے 67.2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔انہوںنے کہاکہ کلیدی اقدامات میں 2,160 میگاواٹ داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ (مرحلہ -1) شامل ہے جس کے لیے 20 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، تربیلا پانچویں توسیعی ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لیے 3.4 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، مہمند ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لیے 35.7 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کی توانائی کی ضروریات کو محسوس کرتے ہوئے ان علاقوں میں پن بجلی کی پانچ اسکیموں کے لیے 3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، ان اسکیموں میں ضلع نیلم آزاد جموں و کشمیر میں 48 میگاواٹ جاگران II اور 40 میگاواٹ ڈواریان ہائیڈرو پاور پراجیکٹس شامل ہیں،اسی طرح ضلع گلگت میں 26 میگاواٹ شکر تھنگ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اسکردو ، 16 میگاواٹ نلتر III اور 20 میگاواٹ ہنزل ہائیڈرو پاور پراجیکٹس شامل ہیں، گلگت بلتستان میں علاقائی گرڈز بنانے کے فیز 1 کے لیے 1.2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جس کا مقصد چار اضلاع گلگت، ہنزہ نگر، اسکردو اور استور میں بجلی کی طلب کو پورا کرنا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت پاکستان زراعت کے شعبے کی ترقی کے لیے کوشاں ہے اور زرعی شعبے کی ترقی کے لیے مستعدی کے ساتھ کئی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں جن میں ’ گرین پاکستان انیشی ایٹو’ ، شامل ہے جس کے تحت جدید کاشتکاری کے طریقوں اور قابل کاشت زمین کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ دیگر اہم اقدامات میں پیداواری صلاحیت کو بڑھانے، پید�