افغانستان امریکہ اور چین کی مخاصمت کا میدان

مشرق وسطیٰ میں انتہاء پسندی کی دہکتی آگ اب جنوبی ایشیاء کو لپیٹ میں لے رہی ہے

ہفتہ 12 جون 2021

Afghanistan America Aur China Ki Mukhasmat Ka Maidaan
محبوب احمد
امریکی تاریخ کی افغانستان میں طویل ترین جنگ کے اختتام کے آثار ابھی دور تک دکھائی نہیں دے رہے کیونکہ بھارتی ایماء پر افغان حکومت کا امن مذاکرات سے راہ فرار پر تشدد کارروائیوں کو مزید تقویت دینے کا سبب بن رہا ہے،یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اشرف غنی اور مودی خطے سے امریکی افواج کا انخلاء نہیں چاہتے۔

افغان صدر کے بیانات اور پرتشدد واقعات کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ایک چیز واضح ہو جاتی ہے کہ امریکہ بھی اپنے اتحادیوں کے ذریعے جان بوجھ کر خطے کے حالات کو مزید خراب کرکے چین اور پاکستان کیخلاف گھیرا تنگ کر رہا ہے تاکہ اقتصادی راہداری ”ون بیلٹ ون روڈ“ منصوبے کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے دیا جائے۔

(جاری ہے)

اس میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ امریکہ خطے میں امن نہیں چاہتا اور غیر ملکی طاقتیں افغانیوں کو باہم لڑا رہی ہیں کیونکہ افغانستان میں امن کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان اور چین کو ہی ہو گا۔


بیجنگ سی پیک کے ذریعے ہی وسط ایشیاء اور پھر دنیا کے دیگر ممالک تک رسائی حاصل کر رہا ہے لہٰذا اب اس کے گرد بحرانوں کے قوسین بنائے جا رہے ہیں جس کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک طرف امریکہ افغانستان سے اپنی فوج کو واپس بلانے کیلئے مذاکرات کر رہا ہے لیکن دوسری طرف پاکستان سے اڈوں کی فراہمی کا مطالبہ کرکے طالبان کو ایک نیا محاذ کھولنے کا جواز بھی مہیا کیا جا رہا ہے۔

اشرف غنی کی امریکی بے وفائی کے شکوے کے بعد بے اعتنائی کی باتیں بھی اس کا کھلم کھلا ثبوت ہیں کہ انہوں نے اپنی ناکامیوں کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈال کر مزید امداد حاصل کرنے کیلئے ایک مرتبہ پھر واشنگٹن اور یورپ کی طرف ”کشکول“ بڑھا دیا ہے۔طالبان کے ساتھ مفاہمت کے لئے جان بوجھ کر کڑی شرائط رکھ کر عید الفطر کے فوری بعد طول و عرض میں جو جنگ چھیڑی گئی اس سے ایک نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے۔

سابق افغان صدر حامد کرزئی نے بھی اس امر کا برملا اعتراف کیا ہے کہ”امریکہ نے سوویت یونین کے لئے مشکلات پیدا کرنے کی غرض سے ہی جذبہ جہاد کا استحصال کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب افغانستان امریکہ،روس اور چین کی مخاصمتوں کا میدان بن چکا ہے“۔
دہشت گردی کیخلاف نام نہاد امریکی جنگ میں تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق جہاں ایک لاکھ سے زائد افغانی لقمہ اجل بنے وہیں تقریباً 4 ہزار امریکہ اور اس کے اتحادی جبکہ افغان سکیورٹی فورسز کے 50 ہزار کے لگ بھگ اہلکار ہلاک ہوئے۔

افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں اس وقت اضافہ ہوا جب واشنگٹن نے طالبان کی شورش کا مقابلہ کرنے اور تعمیر نو کے لئے اربوں ڈالرز خرچ کئے۔ایک اندازے کے مطابق اکتوبر 2001ء سے ستمبر 2019ء تک مجموعی طور پر 2 ہزار ارب ڈالرز کا نقصان برداشت کرنا پڑا اس کے علاوہ امریکی محکمہ خارجہ،امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) اور دیگر سرکاری ایجنسیوں نے تعمیر نو کے منصوبوں پر 44 ارب ڈالرز خرچ کئے۔

2010ء سے 2012ء کے درمیان جب امریکہ کے ایک لاکھ سے زائد فوجی افغانستان میں موجود تھے تو اس جنگ پر آنے والی لاگت ایک کھرب ڈالر سالانہ تک بڑھ گئی تھی،2016,18ء تک سالانہ اخراجات 40 ارب ڈالر کے لگ بھگ تھے جبکہ 2019ء میں تخمینہ 38 ارب ڈالر رہا۔
دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے ”امن مذاکرات“ میں پاکستان نے جو اہم کردار ادا کیا اسے پوری دنیا نے سراہا ہے۔

پاکستان کو افغانستان میں امریکی جنگ کا بلاوجہ شراکت دار بننے کے بعد ہزاروں جانوں اور اربوں ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا ہے لیکن اس کے باوجود آج بھی امریکہ کی طرف سے ”ڈومور“ کے تقاضے کئے جا رہے ہیں۔امریکہ کی خطے میں عدم موجودگی سے مودی کی بے چینی روز بروز بڑھ رہی ہے کیونکہ اس کے خدشات طالبان کے عروج اور ان سب کے درمیان پاکستان اور چین کے کردار سے وابستہ ہیں۔

بھارت کو یہ بھی بڑا خدشہ لاحق ہے کہ آنے والے دنوں میں افغانستان کے اندر پاکستان کی سیاسی مداخلت بڑھے گی یہی وجہ ہے کہ کئی دہائیوں کی جنگ کے بعد امریکی فوجیوں کے انخلاء کے فیصلے پر نریندر مودی سخت تشویش کا شکار ہیں۔مشرق وسطیٰ کئی دہائیوں سے سامراجی جنگوں کی جس آگ میں جل رہا تھا وہ اب جنوبی ایشیاء تک پہنچ چکی ہے جہاں پاکستان اور بھارت کے درمیان مخاصمت کی ایک طویل تاریخ ہے۔


 خطے میں امریکہ اور چین کے شدت پکڑتے اسٹریٹجک اختلافات کو مدنظر رکھنا بھی نہایت ضروری ہے۔1991ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکی بالادستی کے تحت قائم ہونے والا ورلڈ آرڈر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔جنوبی ایشیاء اور اس کے نواح میں علاقائی اور عالمی سامراجی ریاستوں کے مابین تعلقات میں ایسی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں کہ ماضی کے اتحاد ٹوٹ کر نئی دوستیاں جنم لے رہی ہیں۔

نئی عالمی قوتیں سر اٹھا رہی ہیں جن میں چین اور روس سرفہرست ہیں جبکہ ترکی،سعودی عرب اور پاکستان جیسے پرانے اتحادی بھی نئے تعلقات استوار کر رہے ہیں۔لینن نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ”سرمایہ داری ایک نہ ختم ہونے والی وحشت ہے“۔افغانستان کی صورتحال بھی اس بات کا بین ثبوت ہے۔سامراجی جارحیت کے 21 برس میں سینکڑوں ارب ڈالر پھونکنے کے باوجود امریکہ اس خطے میں اپنا کوئی ایک بھی اسٹریٹجک ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔

ریاست ہائے متحدہ امریکہ جو اگرچہ آج بھی دنیا کی سب سے بڑی سامراجی طاقت ہے لیکن افغانستان اور عراق میں ناکامی اور وسطیٰ ایشیاء سے بے دخلی کے بعد اس کا ماضی والا رعب و دبدبہ نہیں رہا۔
دنیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور ”ون بیلٹ ون روڈ“ منصوبے کی وجہ سے سامراجی طاقتوں کے مابین ایک نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔امریکہ کیلئے چین کی بڑھتی ہوئی دفاعی صلاحیت اور اقتصادی و معاشی ترقی و بال جان بنی ہوئی ہے۔

بیجنگ سرمایہ کاری،تجارت اور سفارتکاری کو استعمال کرتے ہوئے ایشیاء میں ذرائع آمد ورفت اور اداروں کا ایک ایسا جال بچھا رہا ہے کہ جس سے ہر ایک پالیسی آنے والے منصوبے کو اس طرح تقویت دے کہ پورا خطہ اس کی بانہوں میں سمٹ آئے۔پاکستان اور چین کے درمیان اربوں ڈالرز کے ترقیاتی منصوبوں کے معاہدوں پر جہاں بعض حلقے اطمینان اور خوشی کا اظہار کر رہے ہیں وہیں چند ممالک اقتصادی راہداری کی تعمیر اور گوادر بندرگاہ معاہدوں پر تشویش کا شکار ہیں۔

سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنے کیلئے بھارت ایک طرف ورکنگ باؤنڈری اور کنٹرول لائن پر فائرنگ اور گولہ باری کرکے پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کر رہا ہے جبکہ دوسری جانب افغانستان اور ایران کے راستے دہشت گردی کو پروان چڑھانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہا۔اس میں کوئی شک و شبے کی گنجائش نہیں ہے کہ قدرت نے سر زمین پاکستان کو بیش بہا نعمتوں اور بے پناہ خوبیوں سے نوازا ہے۔

پاکستان وسطیٰ ایشیائی ممالک یعنی ”ایک وسیع دنیائے ارض“ کے گیٹ وے کا درجہ رکھتا ہے اور اس پر خدا تعالیٰ کی ایسی خصوصی عنایات ہیں کہ محل و قوع کے لحاظ سے دنیا کے تمام ممالک کا ہمیشہ سے مملکت خداداد کی طرف جھکاؤ رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ملک دشمن عناصر خصوصی طور پر بھارتی حکمرانوں،سیاستدانوں،انتہاء پسند ہندوؤں اور ”را“ کے گھناؤنے کارنامے اور سازشیں ایسی رہی ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف وطن عزیز کو نقصان سے دوچار کرنا ہے۔


افغانستان تباہی کے ایک طویل دور سے گزرا ہے۔1979ء سے 1989ء تک 15 لاکھ افغان باشندے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ سوویت یونین یہاں سے نکلا تو سانحہ نائن الیون کے بعد جہاں لاکھوں افراد دہشت گردی کیخلاف نام نہاد جنگ کی بھینٹ چڑھے وہیں دربدر ہونے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔واشنگٹن اب ایک نیا میدان تیار کرنے کے چکر میں ہے۔ افغانستان کا مسئلہ اب پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے،لسانی اور علاقائی عصبیت کی خونیں تاریخ رکھنے والے جس معاشرے میں غیر ملکی مداخلت عروج پر ہو وہاں مرکزی نظام قائم کرنا کوئی آسان کام نہیں کیونکہ ایسا معاشرہ انار کی اور مسلسل تصادم کا شکار رہتا ہے۔

شام،عراق،کویت،لیبیا،برما،یمن، شمالی کوریا کانگو،روانڈا اور صومالیہ کے حالات اسی حقیقت کی گواہی دے رہے ہیں۔ٹرمپ نے افغان مسئلے کے سیاسی حل کے لئے جو کچھ کیا وہ محض صدارتی الیکشن جیتنے کے لئے تھا لیکن اگر یہ عمل نیک نیتی سے جاری رکھتے ہوئے دوحہ معاہدے پر عمل کیا جاتا تو اس کے آج مثبت نتائج دیکھنے کو ملتے۔یکم مکئی 2021ء تک افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے حوالے سے کئے گئے معاہدے کی شق پر جوبائیڈن کی طرف سے نظرثانی کا اعلان ”امن مذاکرات“ پر کاری ضرب ثابت ہوا ہے۔

روس بھی افغانستان میں تمام افغان گروپس پر مشتمل حکومت چاہتا ہے لیکن جوبائیڈن افغانستان سے جاتے جاتے پورے خطے کو ایک تباہ کن خانہ جنگی کے حوالے کرنا چاہتے ہیں جس کے لئے اب ضروری ہے کہ ماسکو،بیجنگ،تہران،ترکی اور پاکستان موٴثر سفارتکاری کے ذریعے افغان متحارب گروپوں کو اعتماد میں لیں تاکہ امریکہ، بھارت اور ان کے اتحادی ممالک کی سازشوں کو بروقت ناکام بنایا جا سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Afghanistan America Aur China Ki Mukhasmat Ka Maidaan is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 June 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.