انتخابات 2018ء : خواتین کے ٹرن آؤٹ کی لٹکتی تلوار

10فیصد کم ٹرن آؤٹ پرتحریک انصاف 3 اورمسلم لیگ ن ایک نشست گنوا سکتی ہے، این اے 10، این اے 39، این اے 42، این اے 44 اوراین اے 48 سمیت دیگرکے نتائج کو کالعدم قراردیا جا سکتا ہے۔رپورٹ

اتوار 29 جولائی 2018 22:06

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ اتوار 29 جولائی 2018ء): عام انتخابات 2018ء میں الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت خواتین کے ووٹوں کا ٹرن آؤٹ 10فیصد کم ہونے کی بناء پرتحریک انصاف 3 اور مسلم لیگ ن ایک نشست گنوا سکتی ہے، این اے 10، این اے 39، این اے 42، این اے 44 اور این اے 48 کے نتائج کوکالعدم قراردیا جاسکتا ہے۔ قومی اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کوخواتین کے کم ٹرن آؤٹ کے باعث تین نشستوں میں خسارے کا سامنا ہے۔

عام انتخابات 2018ء میں پانچ حلقوں میں خواتین کا ٹرن آؤٹ 10 فیصد سے کم رہا۔ خواتین کے کم ٹرن آؤٹ کے باعث مسلم لیگ ن بھی ایک نشست گنوا سکتی ہے ۔ اسی طرح خواتین کے کم ٹرن آؤٹ کے باعث پاکستان تحریک انصاف کی قومی اسمبلی میں 3نشستیں کم ہوسکتی ہیں۔

(جاری ہے)

انتخابات 2018ء میں ملک بھر میں پانچ حلقے ایسے سامنے آئے ہیں جہاں خواتین کا ٹرن آؤٹ الیکشن کمیشن کے خواتین ووٹرز کیلئے طے کردہ فارمولے سے کم ہے،الیکشن کمیشن نے تمام حلقوں میں خواتین کے ووٹرز کی تعداد کم از کم 10 فیصد تک تھی تھی کہ ہرحلقے میں خواتین ووٹرز کی تعداد 10 فیصد ضروری ہونی چاہیے الیکشن کمیشن نے خبردار کیا تھا کہ اگر کسی حلقے میں خواتین کا ٹرن آؤٹ 10فیصد سے کم ہوا تو اس حلقے کے الیکشن کو کالعدم قراردیا جائے گا۔

تاہم الیکشن کمیشن کے ایکٹ 2017ء کے تحت ہرانتخابی حلقے میں خواتین ووٹرزکے لیے کم ازکم ٹرن آؤٹ 10 فیصد ضروری تھا۔ مسلم لیگ ن کے این اے 10سے کامیاب امیدوار عباداللہ خان کے انتخاب کو بھی خواتین کے 10 فیصد کم ٹرن آؤٹ کی بناء پرکالعدم قراردیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح این اے 39، این اے 42، این اے 44 اور این اے 48کے انتخابات کوکالعدم قراردیا جاسکتا ہے۔

این اے 39میں تحریک انصاف کے امیدوار محمد یعقوب شیخ ، این اے42 ساجد خان،این اے 44 سے حمیداللہ جان آفریدی، این اے 48 سے اورنگزیب خان رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔ واضح رہے تحریک انصاف نے عام انتخابات میں 115، مسلم لیگ ن 64، پیپلزپارٹی40نشستیں لینے میں کامیاب ہوسکی ہے۔ دوسری جانب عام انتخابات 2018ء میں مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی ، اے این پی ، ایم کیوایم ، پی ایس پی ،جماعت اسلامی ، جمعیت علماء اسلام سمیت دیگر جماعتوں نے بدترین دھاندلی کا الزام عائد کیا ہے۔

اپوزیشن جماعتوں نے دھاندلی کیخلاف اسمبلیوں میں حلف نہ اٹھانے کا فیصلہ کیا جس پر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے انحراف کرتے ہوئے پارلیمانی سیاست میں جانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ پارلیمانی سیاست کے ساتھ دھاندلی کیخلاف احتجاجی تحریک بھی چلائی جائے گی۔ مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کے درمیان آج وفاق میں حکومت سازی اور اپوزیشن میں بیٹھنے کے آپشنز استعمال کرنے پر مشاورت ہوئی۔

اجلاس میں پیپلزپارٹی کے وفد فرحت اللہ بابر، نوید قمر، قمر زمان کائرہ، شیری رحمان ودیگر نے شرکت کی۔ ذرائع کے مطابق فرحت اللہ بابر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کےعہدیدارفوری طورپراستعفیٰ دیں۔ ہمارا وفد ایم کیوایم سے بھی ملاقات کرےگا۔ ن لیگ سےدرخواست ہےکہ پارلیمانی فورم نہ چھوڑیں۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کا وفد جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کیلئے بھی پہنچ گیا ہے۔ ملاقات میں پیپلزپارٹی ،مولانا فضل الرحمن کوحلف نہ اٹھانے کی تجویز واپس لینے کیلئے قائل کررہی ہے۔