Episode 4 - Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem

قسط نمبر 4 - باتیں کینیڈا کی (ایک پاکستانی امیگرینٹ کی زبانی) - فرخ سلیم

ہوٹل کا کرایہ خاصہ مناسب تھا ۔ 80 ڈالر روز اور دو اضافی بیڈ کے دس ڈالر۔ ہم نے کمرے میں سامان رکھ کر ہوٹل کے ڈائننگ ہال کا رخ کیا ۔میری تو بھوک سے بری حالت تھی، سارا ذہنی اضطراب اور بے چینی رخصت ہو چکی تھی۔ انڈے کے سینڈوچ،بیسکٹ اور کافی نعمت لگ رہی تھی، ہم نے احتیاطاً گوشت کی بنی ہوئی کسی چیز پر توجہ نہ دی۔ کھانے کے بعد کمرے کا رخ کیا ،ہفتہ بھر کی ذہنی اور جسمانی مشقت اب اپنا اثر دکھا رہی تھی۔
 
  صبح سویرے ہی آنکھ کھل گئی تھی۔ باقی لوگ سوئے ہوئے تھے۔ میں کھڑ کی سے شہر کا نظارہ کرنے لگا۔ میں ابھی تک جٹ لیگ کے زیرِ اثرتھا ، تھوڑی دیر بعد میری آنکھ دوبارہ لگ گئی۔ جب اٹھا تو گھڑی دس بجا رہی تھی۔ بچے آہستہ آہستہ اٹھ رہے تھے۔ اتنی دیر میں بیگم بھی اٹھ کرآچکی تھیں۔

(جاری ہے)

فون پر ہی روم سروس کو ناشتہ کے آرڈر دے دیا۔

ناشتہ کے بعد تھوڑی دیرمقامی اخبار دیکھنے کی کوشش کی ارادہ تھا کہ کرائے کے مکانوں کے اشتہار دیکھیں گے لیکن نیند کا ایسا جھونکا آیا کہ میں نے بسترپر آکر دم لیا۔ دوبارہ شور سے آنکھ کھلی تو اندازہ ہوا کہ کچھ کھانے کا بندوبست ہورہا ۔ ٹیلی ویژن چلنے کی بھی آواز آ رہی تھی۔ گھڑی دیکھی تو چار بج رہے تھے۔ میں کاہلی سے اٹھا اور منہ ہاتھ دھو کربیڈ روم میں واپس آ گیا۔
 فش برگر، فرنچ فرائز، ٹماٹوکیچپ، کوک اور سیون اپ کے بڑے بڑے گلاس، بچے کھانے پر ٹوٹ پڑے۔
ہم ہوٹل میں بیٹھے رہائشی جگہ کے اشتہار دیکھ رہے تھے اور کرایہ کے مکانوں کی صورتِ حال کا اندازہ لگا رہے تھے کوشش یہ تھی کہ جلد از جلدکسی مکان کا معاملہ طے ہو جائے تاکہ ہوٹل کا خرچہ بچے۔ ہمارے بجٹ میں ہوٹل کی تین دن سے زیادہ کی گنجائش نہیں تھی۔
ابتدائی چھان بینکے مطابق اپارٹمنٹ اور مکان اس وقت ہماری پہنچ سے باہر تھے۔ایک بیڈ روم اپارٹمنٹ کا کرایہ نو سو ڈالر اور مکانوں کا کرایہ توگیارہ بارہ سو ڈالر سے کم نہیں اور اوپر سے بجلی پانی وغیرہ کے بل یعنی تقریباّ دو سو ڈالر کا مزید خرچہ۔
زیادہ تر مالک مکان ایک مہینہ کا پیشگی اور ایک مہینے کا ڈپازٹ مانگ رہے تھے۔
ایک دفعہ کمائی شروع ہو جائے تو مسئلہ ہی نہیں ہے۔اس تلاش کے دوران صرف تجربہ کی خاطرمیں نے ایک اپارٹمنٹ بلڈنگ کے دفتر میں فون کیا ۔
ذرا ان کی سنئے۔ گیارہسو ڈالر ماہانہ کرایہ ، جس میں بجلی پانی سب شامل ہے۔ ٹیلی ویژن کیبل، ٹیلی فون سب آپ کا اپنا اور کار پارکنگ کے چالیس ڈالر الگ۔پہلے مہینہ کا کرایہ پیشگی، اور آخری مہینہ کا کرایہ ڈیپازٹ ۔
ایک سال کے کرایہ نامہ جسے وہ لیز کہہ رہے ہیں، دستخط کرنے ہونگے۔اگر سال بھر سے پہلے آپ اپارٹمنٹ چھوڑیں تو بقیہ لیز کے پیسے ادا کریں یا آپ خود کسی اور کو سب لیز کریں۔ اس کے علاوہ انہیں آپ کی نوکری کے کانٹریکٹ کی کاپی بھی چاہئے ۔ 
ان لوگوں نے یہ سنتے ہی کہ ہم نئے امیگرینٹ ہیں اور"بے کار " ہیں، انتہائی بے مروتی سے صاف جھنڈی دکھا دی کہ جناب اس صورتِ حال میں تو ہم آپ کو اپارٹمنٹ تو دے ہی نہیں سکتے۔
چلئے اللہ اللہ خیر صلا
مناسب کرایہ میں کوئی رہائشی جگہ ڈھونڈنا کافی بڑامسئلہ لگ رہا تھا۔ ایسی جگہ جس کا کرایہ ہماری جیب کے مطابق ہو، سکول ، بس سٹاپ، اور دیگر ضروریات بھی گھر کے نزدیک ہوں۔یہ اندازہ کرنے کے بعد کہ فی الحال اپارٹمنٹ وغیرہ ہماری استطاعت سے باہر ہیں ہمیں کوئی سستی جگہ دیکھنی چاہئے جہاں زیادہ بکھیڑے نہ ہوں۔
 
میں نے ایک اور جگہ فون کیا ۔ بیسمنٹ اپارٹمنٹ ہے۔
بیسمنٹ اپارٹمنٹ؟کیاکوئی تہ خانہ ہے؟ بات کچھ سمجھ میں نہ آئی ۔ 
چھ سو ڈالر ماہانہ کرایہ۔ بجلی اورپانی کے پچاس ڈالر الگ۔ تیرا سو ڈالر پیشگی۔ لیز کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ایک مہینہ کے نوٹس پر جگہ خالی کر سکتے ہیں۔
جب چاہیں فون کر کے دیکھنے آ جائیں۔ پسند ہو تو کسی وقت بھی رہائش اختیار کر سکتے ہیں۔
شرائط تو معقول لگ رہی تھیں۔ خیر جگہ دیکھ لیتے ہیں۔آگے اللہ مالک ہے۔ اندازِ گفتگو سے لگا کہ کوئی دیسی فیملی ہے۔لگتا ہے پھر دیسیوں میں ہی پھنس رہے ہیں۔ 
یہطے ہوا کہ ذرا باہر کا چکر لگا لیتے ہیں بیسمنٹ بھی دیکھ لیں گے، بس کے سفر کا تجربہ بھی ہوجائے گا اور راستوں کی بھی معلومات ہو جائے گی۔
ہوٹل سے نکل کرہم لوگ بس سٹینڈ پر آ گئے۔ٹکٹ کی کھڑکی پر پہنچے اور بتایا کہ ہم نئے امیگرینٹ ہیں، پہلی دفعہ بس سے گھومنے نکلے ہیں کچھ رہنمائی چاہئے۔ خاتون نے ہمیں ایک نقشہ تھما دیا اور بتایا کہ نقشہ کے مطابق ہم کہاں کھڑے ہیں ۔ اس نے ہمیں یہ بھی بتایا 
۔بسوں کے اندر ٹکٹ نہیں ملتے ، آپ کو ٹکٹ یہاں سے ہی لینا پڑیں گے
۔
ڈرائیور پیسوں کا لین دین نہیں کرتا،مشین میں پورے پیسے ڈالنے پڑتے ہیں
۔ایک ٹکٹ میں ہم ایک ہی سمت میں جتنی دور تک جانا چاہیں جا سکتے ہیں
۔ بس بدلنی ہو تو ٹرانسفر ٹکٹ مل جائے گا، کوئی نیا ٹکٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔
ہمیں لگا کہ یہاں پبلک ٹرانسپورٹ کاا نتظام سرکار کے اپنے ہاتھ میں ہے۔
ٹکٹ خریدے اور ایک ایسی بس میں سوار ہو گئے، جو ہمیں بیسمنٹ کے قریب اتار سکتی تھی۔ بس بہت لمبی تھی ،لگ رہاتھا کہ دو بسوں کو جوڑ کر بنائی ہے ۔ جب مُڑتی تو بس کے اندر ہی اسکا آدھا حصہ مُڑ جاتا تھا، ٹیکنا لوجی کا بہت اچھا استعمال کیا گیا تھا۔ بس میں رش بالکل نہیں تھا، اگلی کچھ سیٹیں بزرگوں اور معذوروں کے لئے وقف معلوم ہو رہی تھیں۔
چڑھنے والے اگلے دروازے سے چڑھ رہے تھے اور اترنے والے پچھلے دروازے سے اتررہے تھے۔ دروازہ کھولنے اور بند کرنے کا کنٹرول بھی ڈرائیور کیپاس تھا۔ بس کے اندہی ایک الیکٹرانک ڈسپلے بورڈ تھا، جو نہ صرف تاریخ، وقت بلکہ آنے والے بس سٹاپ کے نام بتا رہاتھا۔ اگلے بس سٹاپ کے نام نشر بھی ہو رہے تھے۔ اگر کسی مسافر کو اترنا ہوتا تھا تو اپنے سٹاپ سے پہلے گھنٹی بجا دیتا۔
سارا انتظام بہت معقول تھا۔یہاں کی زبان میں یوزر فرینڈلی۔
میں بس کی کھڑکی سے باہر کا نظارہ کر رہا تھا۔ زیادہ تر رہائشی آبادیاں سڑک سے ذرا ہٹ کر بنی ہوئی تھیں، مکان ایک جیسے تھے اور بعض آبادیوں کے گرد تو چار دیواری بھی نظر آ رہی تھی۔ زیادہ تر سدا بہار کے پیڑ لگ رہے تھے جو سردی کے موسم میں ترو تازہ تھے۔ کہیں کہیں تو اتنا زیادہ سبزہ اور پیڑ تھے کہ محسوس ہوتا کہ کسی پارک کے اندر مکان بنا دئے گئے ہیں۔
یہی حال شاپنگ مال کا تھا۔ لگتا تھا کہ بڑے بڑے پارکنگ لاٹ کے بیچ میں شاپنگ مالتعمیر کر دئیے ہیں۔ مجھے کسی بھی جگہ ادھ بنا یا نا مکمل مکان نظر نہیں آیا جس میں لوگ رہائش پذیر ہوں۔مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے اس جگہ اترے جہاں سے کرایہ کا بیسمنٹ نزدیک معلوم ہو رہا تھا۔
چھوٹا سا دو کمروں کا صاف ستھرا بیسمنٹ تھا۔
اس کا رنگ و روغن اور نیا قالین بتا رہا تھا کہ اسے پہلی دفعہ کرایہ پر اٹھایا جا رہا ہے۔ ہم نے دل کو سمجھایا کہ کوئی سار ی عمر تو یہاں رہنا نہیں ہے بس اچھی ملازمت ملتے ہی کسی بہتر جگہ نکل لیں گے۔
جیسا کہ اندازہ تھا،مالک مکان دیسی نکلے۔ ہمارا کافی طویل انٹرویو لیا گیا۔کب آئے؟ کہاں سے آئے ؟ نوکری ہے یا نہیں ہے؟ کرایہ کس تاریخ کو دیا کرو گے؟ ( دے بھی سکو گے یا نہیں) ، کتنے بچے ہیں؟ مہما ن ہر وقت تو نہیں آئیں گے؟ سگریٹ تو نہیں پیتے؟ سامان کتنا ہے؟ 
کرایہ چھہ سو ڈالر طے ہوا ۔
12 سو ڈالر دیں گے۔ ماہانہ بلوں کا ایک تہائی ہم دیں گے۔ کرایہ ہر مہینے کی پانچ تاریخ یا اس سے پہلے دیں گے ۔ کرایہ نقد یا چیک کی صورت میں ہو سکتا ہے۔ ایک گاڑی کی پارکنگ کی سہولت ، ہر ہفتہ ایک کوڑے کا تھیلا (گاربیج بیگ )رکھ سکتے ہیں۔ زیادہ مہمان داری نہیں ہو گی۔ ہمارے ساتھ کوئی اور دوسرا نہیں ٹھہرے گا۔ بجلی کم سے کم جلائیں گے۔ پانی بھی دیکھ بھا ل کر استعمال کریں گے وغیرہ وغیرہ ۔
یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ ایک کار کی پارکنگ کی سہولت سے کیا مطلب ہے؟ارے بھائی کھلی جگہ ہے، ہم سڑک پر گاڑی پارک کر دیں گے۔ یہ کینیڈا ہے کوئی گاڑی چوری تو نہیں ہو جائے گی۔اور ہاں یہ گار بیج بیگ کا کیا چکر ہے؟ میرا خیال تھا کہ مالک مکان ہمیں نیا امیگرینٹ سمجھ کر ذرا سمارٹ بننے کی کو شش کر رہے ہیں۔
موصوف مجھے بالکل پسند نہیں آئے۔
دورانِ گفتگو حضرت یہ بھی فرمانے لگے کہ وہ اپنی فیکٹری میں مجھے ورکر بھرتی کروا سکتے ہیں۔ نو ڈالر فی گھنٹہ ملیں گے۔ میرا خون کھول کر رہ گیا ۔ میں ، جس کے وطنِ عزیز میں درجنوں ماتحت لوگ تھے اسے فیکٹری میں مزدوری کی پیشکش کی جارہی ہے۔ کیا سمجھتے ہیں یہ حضرت اپنے آپ کو؟ ہم بس ذرا نئے ہیں ۔ تھوڑے قدم جمنے دو۔ اس کے بعد تو ان جیسے کئی ہمارے آگے پیچھے پھریں گے۔
بیگم میری کیفیت سمجھ گئیں، بات بدل دی ورنہ شاید بات بڑھ جاتی اور مکان میرا مطلب ہے بیسمنٹ بھی ہاتھ سے جاتا۔
باہر نکلے تو ڈالر اور روپے میں فرق کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ۔جب ہم نے جیب سے نکلنے والی رقم کاپاکستانی کرنسی میں حساب کتاب کرنا شروع تو ہاتھوں کے طوطے اڑنے شروع ہو گئے،ایک چھوٹی کافی سو روپے کی، ڈونٹ پچاس روپے کا،بس کاایک طرف کا کرایہ تین سو روپے۔ بہرحال یہ سوچ کر ذرا اطمینان ہوا کہ چونکہ ابھی وطنِ عزیز سے لائے ڈالر جو روپے میں خریدے تھے، خرچ کر رہے ہیں، اس لئے ایسا لگ رہا ہے۔ جس دن ڈالر میں کمانا شروع کریں گے یہ مسئلہ نہیں رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Chapters / Baab of Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem