Episode 43 - Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem

قسط نمبر43 - باتیں کینیڈا کی (ایک پاکستانی امیگرینٹ کی زبانی) - فرخ سلیم

 کینیڈین معاشرہ
 کینیڈا ایک کثیرالثقافتی ( ملٹی کلچرل) ملک ہے۔ ایک جائزہ کے مطابق یہاں کے 96 فیصد لوگ یا تو خود امیگرنٹ ہیں یا انکے باپ دادا امیگرنٹ تھے۔
مختلف ممالک سے ترکِ وطن کر کے آنے والے لوگ یقینا مختلف رسم ورواج اورعادات و خصائل رکھتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ لوگ آپس میں اس طرح گھل مل گئے کہ اب کینیڈین معاشرے کا اپنا ایک علیحدہ اور مجموعی تشخص قائم ہو چکا ہے۔
بطور قوم آپ کینیڈین عوام میں خوش اخلاقی، بے تکلفی، دھیما پن اور قانون کے احترام جیسی چیزیں پائیں گے ۔
 جب ہم پہلی دفعہ کینیڈا آئے اور ائر پورٹ پر اترے تو امیگریشن اور کسٹم تک تو ٹھیک تھا کہ وہ ہمیں کسی بھی نام سے پکاریں لیکن جب ہوٹل میں ٹھیرنے گئے اور استقبالیہ کاؤنٹر پر موجود خاتون نے میرے نام سے مخاطب کیا ۔

(جاری ہے)

کیا بدتمیزی ہے مسٹر وغیرہ کچھ نہیں۔

مجھے تو بڑا غصہ آیا۔بعد میں اندازہ ہوا کہ کینیڈا کے لوگ عموماً لوگوں کو ان کے پہلے نام سے پکارتے ہیں۔
کینیڈین عمومی طور پر خوش مزاج، مددگار ، ایمان دار اور با ا خلاق ہیں اور میل ملاپ کے آ داب کا پوری طرح خیال رکھتے ہیں۔ یہ لوگ بات کرتے وقت چہرے کے تاثرات، آوازکا اتار چڑھاؤ ، اور ہاتھ پاؤں کو بھی گفتگو کے ساتھ ساتھ پوری طرح متحرک رکھتے ہیں۔
شروع میں تو ایسا لگتا تھا کہ ہر شخص اداکاری کر رہا ہے
ابتداء میں مجھے دفتری نظام بھی بڑا عجیب سا لگا۔نہ کوئی چپراسی نہ کوئی چائے پلانے والے، نہ دربان نہ چوکیدار نہ سرکاری ڈرائیور نہ سرکاری گاڑی۔بڑے سے بڑا باس بھی اپنا آفس کا بیگ خود ہی اٹھاتا ہے مجھے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہاں افسر ی کس طرح چلتی ہے۔ باس کے بچوں کو سکول کون چھوڑتا ہے؟ بیگمات کس طرح شاپنگ کرتی ہیں؟ چل چکی افسری!
 کینیڈا میں کافی کو وہی اہمیت حاصل ہے ، جو و طنِ عزیز میں چائے کو حاصل ہے۔
کام پر جاتے یا کام شروع کرنے سے پہلے اور کا م کے دوران بھی عام طور سے لوگ کافی پینا پسند کرتے ہیں۔ کافی کی دکان میں پتہ ہی نہیں چلتا کہ باس کون ہے اور بلڈنگ کی صفائی کرنے والا کون ہے؟ایک ہی میزپر بیٹھے ہیں۔ ایک دوسرے کو نام سے پکار رہے ہیں۔ لوگوں کے کام بھی باآسانی ہو جاتے ہیں ' چائے پانی' کا بھی کوئی مطالبہ نہیں ۔
کینیڈا میں لوگ کھانے پینے کے بہت شوقین ہیں۔
کثیرالثقافتملک ہونے کے سبب یہاں اطالوی، انگریز، پرتگیزی، جاپانی، چینی، عربی اور ساؤ تھ انڈین غرضیکہ ہر ملک اور قوم کے کھانے دستیاب ہیں اور اسی شوق سے کھائے جاتے ہیں۔کھانوں کے علاوہ بھی آپ کو لوگ ہروقت کچھ نہ کچھ کھاتے اور مختلف مشروبات سے لطف اندوز ہوتے نظر آئینگے۔ سنیک بار، ریسٹورا ں اور ہوٹل وغیرہ کے علاوہ گرمیوں میں آپ کو سڑکوں کے کنارے مخصوص جگہوں پر کیبن وغیرہ بھی نظر آئینگے جہاں اس طرح کی چیزیں فروخت ہوتی ہیں
 قانوناًیہاں رنگ، نسل ، مذہب ، زبان اور ثقافت میں کسی قسم کا کوئی امتیاز نہیں برتا جاسکتا ۔
یہاں ہر شخص کو اپنے اپنے مذہب کو اوراپنی مذہبی تقریبات کو منانے کی پوری آزادی ہے ۔ ایسی آزادی کہ آپ کسی دوسرے کی آزادی میں خلل انداز نہ ہوں۔
کینیڈا امن وامان کے حوالے سے بھی ایک مثالی ملک ہے ، یہاں جرائم کی شرح بہت کم ہے۔ قانون مضبوط ہے اور اسکا نفاذ مضبوط تر۔ برطانیہ کی پولیس کو پوری دنیامیں کارکردگی کے حوالے سے ایک منفرد حیثیت حاصل ہے لیکن کینیڈاکی پولیس بھی کارکردگی کے حوالے سے کسی لحاظ سے کم نہیں ہیجو شہریوں کی مدد کے لئے ہر وقت کمربستہ رہتی ہے۔
چھوٹے چھوٹے بچوں کو اسکول میں پولیس کا نمبر یاد کرایا جاتا ہے تاکہ کسی بھی ناگہانی صورت حا ل میں پولیس انکی مددحاصل کرسکیں۔ اور پولیس انکی ٹیلیفون کال پر ان کی مدد کو آتی ہے۔ کسی بھی جانی خطرہ کی صورت میں یہاں ایمرجنسی امداد ملنے کے دورانیہ کا اوسط فقط آتھ منٹ ہے۔ یوں تو قانون بھی بہت سخت ہے لیکن ویسے بھی ایک عام کینڈین لڑائی جھگڑے اور مارپیٹ سے دور ہی رہتا ہے۔
روز مرّہ کی زندگی میں آپ شاذونادر ہی لوگوں کو آپس میں بر سرِپیکار یا گتھم گتھا دیکھیں گے
 کینیڈ ین ،دیگر مغربی اقوام کی طرح نظم و ضبط کا بہت خیال رکھتے ہیں ۔ چاہے وہ بینک کا کاؤنٹر ہو، کیش رجسٹر پر رقم کی ادائیگی ہو، لاٹر ی کا ٹکٹ ہو، غرض ہر جگہ لوگ قطا ر بنا ئے اپنی بار ی کا انتظار کرتے نظر آتے ہیں۔ قطا ر کی پابندی نہ کرنے والوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔
آپ یہاں بسوں اور ریل کے ٹکٹ گھر پر، سنیما گھر پر، بینک میں لوگوں کی لمبی لمبی قطاریں دیکھیں گے لیکن لوگ سکون سے کھڑے ہیں۔ کوئی کسی کو دھکا نہیں دے رہا ہے،آگے نکلنے کی کوشش نہیں کرتا، کاوئنٹر والے پر پیچ وتاب نہیں کھا تا، اور نہ اس پر آوازے کستا ہے۔ کاوئنٹرپر بیٹھا ہوا شخص بھی نہایت اطمینان سے اپنی ذمہ داری نبھا تا ہے۔ اگرآپ قطار میں کھڑے ہیں تو قطار توڑ کر کوئی آپ سے آگے کھڑے ہونے کی ہمت نہیں کر سکتا، چاہے وہ کتنا ہی طاقت ور ، امیر کبیر، ذی حیثیت سیاسی شخص ، بھلے وہ ملک کا وزیرِ اعظم ہی کیوں نہ ہو ۔

 کینیڈ میں روزمّرہ کے معمولات، ویک ڈیز(پیرسے جمعہ) اور ویک اینڈ(ہفتہ اتوار) کے درمیان تقسیم رہتے ہیں۔پہلے تو مجھے ویک اینڈ والے معاملات تو ڈھکوسلہ اورچونچلے ہی لگے۔ لیکن وقت کے ساتھ اس کی افادیت نظر آنے لگی۔ پورے ہفتہ کام کرنے کے بعد ویک اینڈکے دو دن سودا سلف ، لانڈری، تفریحات اور میل ملاقات کے لئے وقف کرنے سے ہی کام بنتا ہے۔

 جمعہ کی شام سے ہی لوگوں، سڑکوں اور شہروں کا مزاج بدلنے لگتا ہے۔ویک اینڈ پر بازاروں خاص طور سے سپر مارکیٹ و غیرہ میں رش بہت بڑھ جاتا ہے۔ چھٹی کے موڈ کے باعث ٹریفک اور لوگ بھی بے ہنگم ہونے لگتے ہیں تو پولیس بھی زیادہ چوکس ہو جاتی ہے۔ اسی مناسبت سے پیر کا دن لوگوں پر کافی بھاری ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ زیادہ تر نروس بریک ڈاؤن اور ہارٹ اٹیک پیر کے ہی دن ہوتے ہیں۔
دروغ بر گردنِ را وی۔
 کتابیں، رسالے اور اخبار پڑھنا ایک قومی عادت ہے۔ بسوں ، ٹرینو ں، انتظار گاہوں اور ا کثر قطاروں میں کھڑے ہوئے افراد بھی آپ کو کچھ نہ کچھ پڑھتے ہوئے نظر آئینگے ۔صبح اور شام کے مفت اخباروں کے علاوہ لوگ اخبار خرید کر بھی پڑھتے ہیں۔ اکثر جگہوں پر سڑک کے کنارے اور فٹ پاتھ پر اخباروں اور رسالوں کے ڈبے لگے ہوتے ہیں۔
سیل فون کے بڑھتے ہوئے استعمال سے اب کتابیں اور خاص طور سے اخبار پڑھنے کا رجحان کچھ کم ہوتا نظر آرہا ہے۔
 کینیڈین ، دوسری مغربی اقوم کی طرح وقت کے بہت پابند ہیں۔ کسی جگہ دیر سے پہنچنے کوایک قسم کی نا اہلی یا غیر اخلاقی تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن پابندئی وقت کا خیال کرنے والی اس قوم کے بہت کم افراد کے ہاتھوں پر آپ کو گھڑیاں نظر آیئں گی۔ اگر آپ گھڑی لگائے ہیں اور کسی پبلک مقام پر ہیں تو اس وقفے میں کئی لوگ آپ سے وقت پوچھ لیں گے۔ وقت پوچھنے کا بھی ان کا ایک منفرد سٹائیل ہے۔ یہ آپ سے پوچھیں گے
Do you have time?
 ایک نو وارد اس کا یہ مطلب بھی نکال سکتا ہے کہ کیا آپ کے پاس کچھ فالتو وقت ہے؟

Chapters / Baab of Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem