Episode 37 - Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem

قسط نمبر37 - باتیں کینیڈا کی (ایک پاکستانی امیگرینٹ کی زبانی) - فرخ سلیم

میں سی این ٹاور دیکھ سکتا ہوں!
ہم نے کئی اپارٹمنٹ بلڈنگ والوں کو فون کئے۔ محلِوقوع، کرایہ اور دیگر سہولیات کا جائزہ لیا۔ ہمارے حساب سے ایک بلڈنگ بہت اچھی تھی۔ اپارٹمنٹ سے ملحقہ مال، بس سٹینڈ، سکول اور کالج سب ہی نزدیک تھے۔ پھر بھی جب تک اپارٹمنٹ بلڈنگ دیکھ نہ لی جائے اور انتظامیہ سے بات چیت نہ کر لی جائے فیصلہ مشکل تھا۔
چنانچہ ہم دوسرے دن اپارٹمنٹ بلڈنگ پہنچ گئے۔
 بلڈنگ کے اطراف میں اونچے اونچے درخت ، بچوں کے کھیل کے جھولے اور کشادہ پارک ، ٹینس کورٹ ، ان ڈور سوئمنگ پول اور سکواش کورٹ، مجھے لگا کہ کہیں ان کا کرایہ ہمارے بجٹ سے باہر ہی نہ ہو۔ چلو اب آ ہی گئے ہیں تو بات کر لیتے ہیں۔
 دو بیڈ روم اپارٹمنٹ کا کرایہ ۱۲۰۰ ڈالر ماہانہ۔

(جاری ہے)

کرایہ کی رقم میں بجلی پانی اور گیس شامل ہے ۔

بلڈنگ میں کوائن لانڈری ہے۔ اپارٹمنٹ کے ساتھ پہلی کار پارکنگ کے ۲۵ ڈالر ماہانہ اور دوسری کے ۴۰ ڈالر۔انٹرنیٹ اور ٹیلیفون آپ کا اپنا ۔ دیگر شرائط وہی جو عام طور سے ہوتی ہیں۔ ایک سال کی لیز، جاب لیٹر کی کاپی چاہئے، پہلے اور آخری (فرسٹ اینڈ لاسٹ) مہینہ کا کرا یہ ایڈوانس۔ بلڈنگ والوں کی شرائط کافی مناسب تھیں۔ انہوں نے پیش کش کی کہ وہ ہمیں ایک اپارٹمنٹ کا دورہ کرا سکتے ہیں۔
اس طرح ہمیں کسی فیصلہ تک پہنچنے میں آسانی رہے گی۔
پیشکش بہت مناسب تھی، ہم لوگوں نے فور۱ً حامی بھر لی۔ اپارٹمنٹ بہت اچھا تھا، ہم سب کو ایک نظر میں# پسند آ گیا۔ کشادہ لیونگ روم ،دو بیڈ روم، بالکونی، بیگم کی پسند کا کچن۔ یہ نہیں کہ ہمیں بیسمنٹ میں رہنے کی وجہ سے یہ اپارٹمنٹ پسند آرہا تھا ، بلکہ اپارٹمنٹ تھا ہی اچھا کھڑکیوں اور بالکونی سے بہت دور کے نظارے کئے جا سکتے تھے۔
بلکہ اگر روشن دن ہو تو ٹورانٹو میں واقع سی این ٹاور بھی دکھائی دے سکتا تھا ۔ ہماری طرف سے او کے تھا، اب یہ بلڈنگ والوں پر تھا کہ وہ ہمیں قبول کرتے ہیں یا نہیں۔
دو دن کے بعد جب ہمیں بلڈنگ والوں کا گرین سگنل ملاکہ ہم جاکر کرایہ نامہ پر دستخط کر سکتے ہیں تو گو مگو کی کیفیت ختم ہوئی ،اب ہم یکسوئی سے سامان کی پیکنگ وغیرہ شروع کرسکتے تھے۔
سب سے پہلے ہم نے اپنے مالک مکان کو نوٹس دے دیا کہ ہم اس مہینہ کے آخر میں جا رہے ہیں وہ چاہے تو نیا کرایہ دار ڈھونڈ سکتا ہے۔
ہم نے کینیڈا پوسٹ کے مقامی دفتر میں جاکرنئے ایڈریس کافارممع ۳۰ ڈالر فیس جمع کر دئے ۔ اب اگلے تین مہینے تک ہمارے پرانے والے پتہ پر آنے والی ڈاک ہمارے نئے پتے پر آئے گی۔ یہ مسئلہ بھی حل ہوا کیونکہ ہمیں امید نہیں تھی کہ ہمارے نئے مالک مکان ہماری ڈاک کی کوئی ذمہ داری لیں گے۔

مجھے بیسمنٹ چھوڑنے کا کافی افسوس تھا۔ ہم نے یہاں زندگی کے کئی اہم سال گزارے تھے۔ میں نے اسی بیسمنٹ میں رہتے ہوئے حالات سے لڑنے کا حوصلہ پایاتھا۔ مجھے اس کے روشندان سے ایک طرح کی ا نسیت ہوگئی تھی۔ یہ ایک طرح سے میری تنہائیوں کا ساتھی تھا۔
ہمارے حساب سے گھر میں کوئی ایسا زیادہ سامان نہیں تھا لیکن جب سامان باندھنا کرنا شروع کیا تو اندازہ ہوا کہ سامان اتنا کم بھی نہیں ہے۔
ہم جب آئے تھے تو ہمارے پاس کل ۱۰ سوٹ کیس تھے، یہ اتناسامان کہاں سے آ گیا؟ ہم اسی طرح غیر محسوس طریقے سے اپنے کاروبارِ حیات کو فروغ دیتے رہتے ہیں اور پھر خود ہی حیران ہوتے ہیں کہ سب کچھ کیسے ہوا؟
 بڑے صاحبزادے نے ایک دوست کے ساتھ مل ایک چھوٹا ٹرک پورے دن پر کرایہ پر لے لیا تھا۔ دو پھیروں میں ہی سارا سامان نئے ٹھکانے پر پہنچ گیا۔ بیگم کی فرمایش تھی کہ کچن کا سارا سامان پہلے چکر میں پہنچا دیا جائے تاکہ نئی جگہ کچن جلد از جلد چالو کر دیا جائے۔
بات معقول تھی ، جب دوسرے پھیرے میں باقی ماندہ سامان آیا توکچن پوری آب وتاب سے چل رہا تھا۔ کھانا اور چائے تیار تھی۔ سامان ڈھونے والی پارٹی نے ا پنا کام ختم کرتے ہی کھانے سے انصاف کرنا شروع کر دیا۔
دونوں بڑے بچوں کے کالج اپارٹمنٹ سے نزیک تھے ۔ اسلئے وہ دونوں تو بہت خوش تھے۔ بڑے صاحبزادے تو زیادہ ہی خوش تھے کہ یہاں انکو نیچے کے پارک میں کرکٹ کھیلنے کا موقع مل گیا تھا۔
پاکستاں سے لایا ہو اکرکٹ کا بیٹ اب خوب استعمال ہو رہا تھا۔ اگر کوئی ناخوش تھا تو ہمارے چھوٹے بیٹے تھے۔ انہیں اپنا سکول چھوٹنے کا افسوس تھااور وہ کسی بھی صورت نئے سکول سے ہم آہنگ نہیں ہو پا رہے تھے۔
بیگم نے سکول کونسلر سے بات کی تو اس نے مشورہ دیا کہ موصوف کو دیگر سرگرمیوں مثلٍاً کھیل کود وغیرہ پر لگایا جائے۔ مشورہ مناسب تھا کہ حضرت کم گو ضرور ہیں لیکن کھیل کود کے شوقین ہیں۔
ہم نے بلڈنگ کے سوئمنگ پول میں انہیں بچوں کے ٹریننگ پروگرام میں رجسٹر کرایا اور ساتھ والے جمنیزیم میں آئس سکیٹنگ کے پروگرام میں بھی۔ سکول کونسلر نے بھی انہیں ایک سکول کے ایک دو پروگراموں میں مصروف کرادیااور یوں یہ نیا سکول ان کے دل میں جگہ پانے لگاتو ہمیں بھی یک گونہ اطمینان ہوااور ہم نے بنفسِ نفیس جا کر سکول کونسلر کا شکریہ ادا کیا۔

یہاں سے وہ مسجد اور مدرسہ خاصا دور تھا جہاں ہمارے چھوٹے صاحبزادے قران شریف پڑھنے جاتے تھے۔ ہمیں انہیں یہاں سے قریب ترین ایک اور مسجدکے مدرسے میں داخل کرانا پڑا۔ انہیں نئے مدرسہ میں زیادہ مسئلہ نہیں ہوا کیونکہ وہاں باہر کئی جھولے تھے اور جو بچے جلدی فارغ ہو جاتے تھے، ان کو جھولنے کی آزادی تھی۔ مولانا صاحب بھی ان کو بھا گئے
اس اپارٹمنٹ میں ہم لوگوں کو انڈر گراؤنڈ پارکنگ نہیں ملی ۔
انتظامیہ کا کہنا کہ فی الحا ل کوئی سپاٹ خالی نہیں ہے، جیسے ہی کوئی انڈر گراؤنڈ سپاٹ خالی ہو گا ، وہ ہمیں اطلاع دیں گے۔ مجھے یہ فکر تھی کہ سردیوں کی آمد آمد ہے۔ اگر کوئی سپاٹ خالی نہیں ہوا تو برف میں مسئلہ ہوگا۔ بہرحال جب دوسر ے ہی ہفتہ انتظامیہ کا فون آ گیا کہ جگہ خالی ہو گئی ہے، آکر رجسٹر کر الیں تو میں نے سکون کا سانس لیا۔
 بیگم کو زیرِ زمینپارکنگ سے خوف آتا تھا حالانکہ وہاں چوبیس گھنٹے روشنی رہتی تھی اورسیکوریٹی گارڈ بھی چکر لگاتے رہتے تھے۔
مجھے یہ سسٹم پسند تھا۔ گاڑی موسمی تقاضوں سے محفوظ، صبح اٹھ کر گاڑی سے برف ہٹانے کی ضرورت نہیں ہے، نہہی گاڑی کوگرم کرنے کے لئے دیر تک سٹارٹ رکھنے کی ضرورت۔ سیلف مارا، گیراج کے دروازے کا کوڈ دبایا، گیراج کھلا ور آ پ باہر۔
بیگم کی پسندیدہ جگہ لانڈری تھی۔ یہ خواتین کیے لئے گپ شپ اور غیبت کانفرنس کے لئے بہترین گوشہ تھا۔ جب تک کپڑے دھل رہے ہیں سوکھ رہے ہیں ،خواتین کے لئے دنیا بھر کے موضوعات پر اظہار خیال کے لئے وقت ہی وقت ہے۔
ویسے توخواتین کو بات کرنے کے لئے کسی موضوع کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ میرے حساب سے یہاں کی سب سے اہم چیز یہاں کا نوٹس بورڈ تھا جس پر اس بلڈنگ کے مکین اپنے ہاتھ سے لکھے یا کمپیوٹر سے ٹائپ کئے ہوئے چھوٹے چھوٹے اشتہار لگاتے تھے۔ کسی کو بے بی سیٹر کی ضرورت ہے، کوئی بطور بے بی سیٹر اپنی خدمات پیش کر رہا ہے۔ کوئی اپنے دیس سے لائے ہو ئے کپڑے بیچ رہا ہے، کسی کی گاڑی برائے فروخت ہے۔
کوئی دو مہینے کے باہر جا رہا ہے تو اپارٹمنٹ کو کرایہ پر اٹھا نا چاہ رہا ہے، کوئی سائنس کی ٹیوشن ڈھونڈ رہا ہے وغیر وغیرہ۔انتظامیہ کی طرف سے اشتہار لگانے پر کوئی پابندی نہیں تھی لیکن اشتہار کی زبان شستہ ہونی چاہئے۔
سردیوں کی شروعات کے ساتھ ہی میری ٹہلنے کی مشق میں رخنہ پڑنے لگا تو مجھے فکر ہوئی کہ اب کیا کیا جائے؟یہاں سکوائش،ٹینس، جیم اور تیراکی کی سہولت تھی۔
جیم اور تیراکی تو اپنے بس کی نہیں تھی لیکن ٹینس اور سکوائش کے بارے میں سوچا جا سکتا تھا۔یہاں دو ٹینس کورٹ تھے، لیکن اول تو کورٹ کھلے آسمان کے تلے تھے پھر آپ ٹینس اکیلے تو کھیل نہیں سکتے۔اس حساب سے صرف سکوائش کے بارے میں سوچا جا سکتا تھا۔میں نے وقت ضائع کئے بغیر نیچے آفس میں جا کر خود کو سکوائش کے لئے رجسٹڑ کرا لیا،ان لوگوں نے مجھے ایک مخصوص چابی الاٹ کردی۔
رجسٹریشن کی کوئی فیس نہیں تھی لیکن اگر چابی کھو جائے گی تو جرمانہ کے طور ۲۵ ڈالر بھرنے ہو نگے۔ سودا برا نہیں ہے لیکن چابی کی رکھوالی کرنی پڑے گی۔
اپارٹمنٹ میں الارم زور زور سے اور مستقل بج رہا تھا۔ گھڑی دیکھی تو رات کا دو بجا تھا۔ نیند کی جھونک میں کچھ سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ بچے بھی اٹھ کر آگئے ۔ تھوڑی دیر میں سمجھ میں آیا کہ یہ فائر الارم ہے اور اس کا مطلب ہے ہم سب کو لوگوں اپارٹمنٹ سے نکل کر نیچے بلڈنگ کے لاؤنج میں چلا جانا چاہئے۔
اب لفٹ استعمال نہیں کی جا سکتیں، ہمیں دسویں منزل سے سیڑھیوں سے نیچے جانا ہو گا۔مجبوری تھی، اپارٹمنٹ بند کیا اور سیڑھیوں کاراستہ لیا۔
نیچے لابی میں پہلے سے کافی لوگ موجو دتھے اور کچھ لوگ سیڑھیوں سے اتر کرآرہے تھے۔ کچھ نے چھوٹے بچوں کو گود میں اٹھا یا ہو اتھا، کچھ بچوں کی انگلیاں پکڑ کر لے کر آ رہے تھے، بچے بڑے سب ہی نیند میں تھے۔
سب کے ہی منہ بنے ہوئے تھے ظاہر ہے آدھی رات کا وقت، سیڑھیوں سے اتر کرآنا، اور دوسری صبح اکثریت کو کام پر بھی جانا ہو گا۔
ایک بڑے میاں با آوازِ بلند بڑ برا رہے تھے
" اب فائر بریگیڈ والے آئینگے۔ ڈیڑھ دو گھنٹے برباد کریں گے نکلے گا کچھ نہیں، میرا بلڈ پریشر تو سی این ٹاور کی آخری منزلوں کو چھو رہا ہے۔ یہ کوئی رہنے کی جگہ ہے ۔جہنم میں جائے"
دیکھتے ہی دیکھتے سائرن بجاتے ہوئے دوفائرانجن آ گئے۔
عملہ نے اپنی پوزیشن لے لی۔ دو فائر فا ئٹر اندر آگئے اور پتہ چلانے کی کوشش کرنے لگے کہ آگ کہاں لگی ہے۔ سب کچھ بالکل اسی طرح ہوا جس طرح بڑے میاں کہہ رہے تھے۔ ایک گھنٹے کے بعد پتہ چلا کہ فائرالارم جھوٹا تھا۔ آگ کہیں نہیں لگی لیکن کسی صورت فائر الارم آن ہو گیا تھا۔فائر چیف نے گرین سگنلدیا اور لفٹیں چلنے لگیں۔ لفٹوں پر بے پناہ رش تھا اسلئے ہم لوگوں نے مناسب سمجھا کہ سیڑھیاں استعمال کی جائیں۔
جب میں دسویں منزل پر اپنے اپارٹمنٹ کا دروازہ کھول رہا تھا تو بڑے میاں کی طرح میرا بلڈ پریشر بھی سی این ٹاور کی آخری بلندیوں کو چھو رہا تھا۔
دوسرے دن جب میں اکیلے ہی گھنٹہ بھر سکواش کھیل کر واپس آ یا تو اپنی ڈاک دیکھنے کے لئے رک گیا۔ ڈاک کے ڈبے میں سوائے ایک دو بلوں کے کچھ نہیں تھا ْ لیکن ان بڑے میاں سے ضرور ملاقات ہو گئی جو گزشتہ رات فائر الارم، فائر بریگیڈ اور بلڈنگ انتظامیہ کی ایسی تیسی کرنے میں لگے ہوئے تھے۔

 مجھے دیکھتے ہی انہوں نے اپنی شکائتی اور ملامتی تقریر وہیں سے شروع کر دی جہاں گزشتہ رات چھوڑی تھی ۔ سورج تلے انہیں ہر چیز سے شکائت تھی اور ساتھ ساتھ خود کو بھی ملامت کرتے جا رہے تھے کہ وہ اپنا یکتائے ر وزگار ملک(غالباًکولمبیا ) چھوڑ کر کیوں اس فضول ملک میں آئے۔ یہاں کوئی کسی کو پوچھتا ہی نہیں۔ بیٹا ور بہو بھی یہاں کے رنگ میں رنگ گئے ہیں۔
صبح اٹھ کر نوکریوں پر چلے جاتے ہیں ، شام کو ٹی وی سے چپک جاتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ میری طرف بھی اس طرح دیکھتے جاتے تھے کہ میں ان کی ہاں میں ہاں ملاؤں۔ جب کہ میں صرف ا س انتظار میں تھا کہ بڑے میاں کہیں وقفہ لیں تو میں تو میں بھاگنے کی تدبیر کروں۔اتفاق سے ایک دوسرے کرایہ دار اپنی ڈاک لے کر گزر رہے تھے ،وہ اخلاقاً بڑے میاں کے پاس رکے تو بڑے میاں ان سے چپک گئے اور یوں میری گلو خلاصی ہوئی۔

ٹھیک ایک ہفتے بعد میں کھیل کر آ رہا تھا۔بڑے میاں ایک سیکوریٹی گارڈ کو ہاتھ اٹھا کر اپنی تقریر میں شریک کرنے کی کوشش کر ر ہے تھے کہ ا چانک ان کا ہاتھ بے جان ہو کر اور سر ایک طرف ڈھلک گیا۔
 میرا دل دھک سے ہو گیا۔ ہارٹ اٹیک؟ شائید بڑے میاں گزر گئے۔
سیکیوریٹی گارڈ نے وقت ضائع کئے بغیر ایمرجنسی ۹۱۱ ملایا ۔ٹھیک آٹھویں منٹ پرایمرجنسی میڈیکل ٹیم، پولیس کی گاڑی اور فائیر بریگیڈ کی گاڑیاں (بڑے میاں کی چڑ)گھنٹیاں بجاتی ہوئی پہنچ گئیں، بڑے میاں بالکل بے حس و حرکت تھے۔
میڈیکل ٹیم نے انہیں کچھ ایمرجنسی قسم کی امداد دی اور ایمبولینس میں ڈال کر ہوا ہوگئے۔
ٹھیک تین ہفتے بعد بڑے میاں اسی جگہ اپنی معزوروں والی کرسی پر بیٹھے چہک رہے تھے۔
"کیا حال ہے؟" میں نے جھک کر پوچھا
"بہت عمدہ۔ کیا سروس ہے کیا لوگ ہیں ، ارے بھائی انہوں نے تو مجھے وی آئی پی کی طرح رکھا۔ ہر چیز کا خیال اور دیکھ بھال اور ہر چیز مفت۔
میرا ملک ہوتا تو میں بالکل فوت ہو چلا تھا۔ وہاں تو ایمبولینس آنے میں ہی گھنٹوں لگاتی ہے۔ اور علاج کے اخراجات بھی لاکھوں میں۔ حرام خور!"
مجھے ان کے خیالا ت کی تبدیلی پر بہت خوشی ہوئی۔
میں کئی دنوں سے محسوس کررہا تھاکہ میری بیٹی کے ساتھ کچھ مسئلہ ہے۔ آج کل وہ کچھ اکھڑی اکھڑی سی رہتی ہے۔ بھائیوں سے بھی نوک جھو نک نہیں رہتی۔ مجھے فکر تھی کہ کالج میں کوئی مسئلہ تو نہیں ہے۔
کہیں حجاب کی وجہ سے طلباء تنگ تو نہیں کر رہے؟
 اس وقت رات کے ۱۱ بج رہے تھے۔ میری بیٹی صاحبہ اپنی کتابوں کے درمیان خاموش بیٹھی تھیں ۔
"کیا بات ہے ،کوئیپریشانی ہے "میں نے پوچھا
 "میرا خیال ہے یہ اکاؤنٹنگ میرے بس کی نہیں ہے" جواب ملا
" بس کی نہیں ہے؟ دوسرا سال شروع ہو چکا ہے، ابھی تک توکارکردگی بھی بالکل صحیح تھی۔ اس سال ہم سب لوگوں کے انکم ٹیکس بھی تو خود ہی آ پ نے کمپیوٹر سے بھرے تھے۔
یہ ایک دم سے کیا ہو گیا"
"سب ٹھیک ہے۔ لیکن اکاؤنٹنگ کو بطور پیشہ اخئیار کرنے کا سوچ کر ہی میرا دل الجھنے لگتاہے"
"پھر کیاا رادہ ہے؟" میں نے پوچھا
"میرا ارادہ سوشل ورک میں جانے کا ہے۔ کم ازکم انسانوں کے درمیان تو رہیں گے"
"ٹھیک ہے۔ ایک سال ادھر ادھر کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سٹوڈنٹ والا قرضہ بھی نہیں لیا۔ ویسے بھی کام وہی کرنا چاہئے، پیشہ وہی اختیار کرنا چاہئے جس میں دل لگے۔
مارے باندھے کا سودا زیادہ دیر نہیں چلتا "میں نے کہا
بیٹی کے چہرے پر سکون کی لہر دیکھ کر میں نے اطمینان کی سانس لی۔ دو دونی چار تو ٹھیک ہے۔ لیکن دو اور دو چارتو میرے بھی بس کا روگ نہیں ہے۔
مجھے اس نئے مدرسے میں چھوٹے صاحبزادے کو لے جاتے ہو ئے ایک سال سے زیادہ ہو گیا تھا ایک دن صاحبزادے تو بچوں کے ساتھ قران شریف پڑھنے میں مصروف تھے اور میں اپنی کتاب بند کر کے مسجد کی کتابوں کی الماری میں رکھنے جارہا تھا کہ مجھے ایک شناسا سی شکل نظر آئی۔
ایک دم سے میرے ذہن میں جملہ آیا
"آپ لوگ پلاننگ نہیں کرتے"
وہ ایک لمحے کے لئے ٹھٹھک سے گئے․ پھر میرے طرف لپکے اور کہا
"میں کب سے آ پ کو ڈھونڈ رہا تھا۔ میرے پاس آپ کا فون نمبر بھی نہیں تھا "
"کیا آپ چھٹیوں پر آئے ہوئے ہیں؟" میں نے پوچھا
"نہیں میں اب یہیں رہتا ہوں" انہوں نے بہت طمنایت سے کہا۔ اس کے بعد کی کہانی آپ ان ہی کی زبانی سنئے
جیسا میں نے آپ کو بتایا تھا کہ میں یہاں سال میں دو مرتبہ دو دو ہفتہ کی چھٹی پر آتا تھا۔
دو ہفتے ہوتے ہی کیا ہیں؟ پہلا ہفتہ آرام، بچوں کی فرمائشیں، انہیں گھمانا پھرانا اور خریداری وغیرہ ہی میں گزر جاتا۔ دوسرے ہفتے سے واپسی کی تیاری! کچھ سوچنے اور سمجھنے کا موقع ہی نہیں ملتا
 جب میں تیسرے سال چھٹیوں میں کینیڈا تو دوسرے ہی ہفتہ مجھے ہارٹ اٹیک کاسامنا کرنا پڑا ۔ ہسپتال میں تو تین دن رہا لیکن ڈاکٹروں نے کم از کم دو ہفتے ہوائی سفر کے لئے منع کر دیا۔
میں نے دوبئی میں اپنے دفتر سے تین ہفتے کی بیماری کی رخصت لے لی۔
 بچے تو سکول چلے جاتے تھے۔ بیگم بچوں کو سکول اتار کر ادھر ادھر کے کام کرتے ہو ئے دو تین گھنٹے میں واپس آ تیں۔ میرے لئے وقت گزارنا ایک بڑ ا مسئلہ تھا۔ ایک دن میں گھر کے پچھلے حصے میں چلا گیاجہاں بچوں کے بیڈ روم تھے۔ میں نے سوچا ذرا کمروں کی حالت دیکھ لوں کہیں رنگ و روغن یا مرمت کی ضرور ت تو نہیں۔

بڑے بچے کے کمرے میں گھسا تو دیواروں پر لگے پوسٹر ہی دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ غیر شائستہ تصاویر اور ان پر لکھے ہوئے جملے، میں لاحول ہی پڑھ سکتا تھا۔ پورے کمرے میں بکھرے ہوئے ویڈیو گیمز، ڈی وی ڈی، ٹیبلیٹ اور پتہ نہیں کیا کیا؟ مجھے وحشت سی ہونے لگی۔ پڑھنے لکھے کی میز کا جائزہ لیا تو ایک کباڑخانہ تھا۔ کتابیں اور کاپیاں تو نظر آ نہیں رہی تھیں، اتفاق سے بچے کی سکول رپورٹ میرے ہاتھ لگ گئی۔
رپورٹ کاجائزہ لنے کے بعد میرے رہے سہے حواس بھی جاتے رہے اور میری وحشت دو چند ہو گئی۔ اس سے پہلے کے میرے دل پر دباؤ بڑھ جاتا، میں کمرے سے باہر نکل آیا۔ دو گلاس پانی پیا اور صورتِ حال پر غور کرنے لگا۔
تھوڑی سے غورو فکر کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ چیخنے چلانے اور بچوں پر پابندیاں لگانے سے حالات بہتر ہونے کے بجائے خراب بھی ہو سکتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ یہاں میری ہمہ وقت موجودگی بہت ضروری ہے، صرف باہر رہ کر پیسہ کما کر بھیج کر تویہی کچھ ہو گا ، جس کا ایک نمونہ میں ابھی دیکھ چکا ہوں۔ میں نے بہت ٹھنڈے دماغ سے صورتِ حال سے نبٹنے کا فیصلہ کر لیا۔میں نے اسی وقت اپنے دفتر کو استعفیٰ بھیج دیا اورلکھ دیا کہ صحت کی خرابی کی وجہ سے میں اب مزید کام نہیں کر سکتا، اسلئے میرا استعفیٰ منظور کیا جائے
 شام میں جب سب لوگ گھر میں موجود تھے، میں نے بتایا کہ میری بیماری کی وجہ سے اب اس کمپنی میں میری نوکری مزید نہیں چل سکتی، اسلئے اب میں نوکری پر واپس نہیں جا رہا۔
ہم لوگوں کے پاس دو راستے ہیں۔ یا تو ہم کسی چھوٹے مکان میں چلے جائیں بچے پبلک سکول میں داخل ہوں ، سارے خرچے کم کر دئے جائیں اگر یہ سب نہیں ہو سکتا تو ہم لوگ پاکستان چلے جائیں۔ وہاں گھر بھی ہے اور ساری آرام و آسائش بھی ہے۔
سب نے کہا رہنا یہیں ہے ہم تنگی ترشی میں گزارہ کر لیں گے۔
میں نے سب سے پہلے گھر بیچ کر ایک دوسری جگہ چھوٹا سا ٹاؤن ہاوس خرید لیا، بچوں کو پبلک سکول میں داخل کرا دیا۔
بڑے مکان سے چھوٹے میں آئے تو میں نے صرف ضروری چیزیں رکھیں باقی سارا سامان بیچ دیا۔اس کے بعد میں نے بچوں کی تعلیم پر توجہ دی۔ سکول کا تمام ہوم ورک اپنے سامنے کرواتا تھا۔ شام میں مسجد اور مدرسہ۔ ٹی وی پر صرف خاص اوقات میں منتخب پروگرام دیکھنے کی اجازت۔
 مجھے خود بہت محنت کرنی پڑی لیکن یہ میرے بچوں کے مستقبل کا سوال تھا۔ الحمدو للہ اب صورتِ حال بہت بہتر ہے۔میں نیبھی ایک پرانے دوست کی مشاورت کمپنی میں شراکت کر لی ہے۔ اللہ کا شکر ہے روزی روٹی کا بندو بست ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بروقت خبرادر کر دیا ورنہ تو میں اپنی پلاننگ کی پرستش میں ہی لگا ہوا تھا۔مولا جس کو اور جب راہ دکھا دے

Chapters / Baab of Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem