Episode 15 - Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem

قسط نمبر 15 - باتیں کینیڈا کی (ایک پاکستانی امیگرینٹ کی زبانی) - فرخ سلیم

کہانی پہلے سو دن کی
آج ہمیں کینیڈ ا میں سو دن پورے ہوگئے ہیں۔ میں خرچہ کا حساب کتاب لگا رہا تھا۔ ہمارے لئے سب سے بڑا خرچہ رہائشی کرایہ تھا۔اسکے بعد بس ٹکٹ، گھر کاسودا سلف، ٹیلیفون اور دیگر اخراجات۔
کسی ایک طرف بھی بس سے جانے کیلئے تین ڈالر کا ٹکٹ۔
ہم دو آدمی روزانہ 12 ڈالر صرف بس کے کرایہ کی مد میں خرچ کر رہے ہیں۔ گویا دو ڈھائی سو ماہانہ۔ اگر ہمارے پاس گاڑی ہو تو اتنا ہی اس کا خرچہ ہو اور سہولت کی سہولت۔
بسوں میں کافی وقت ضائع ہوتا ہے، اور بعض وقت خصوصاً ملازمت کی تلاش میں بسوں سے پہنچنا اور وقت سے پہنچنا اکثر اوقات ناممکن ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

کیا کریں فی الحال تو جیب اجازت نہیں دیتی۔

کوئی ملازمت مل جائے تو گاڑی کا بھی سوچیں۔
ا س عرصے میں جہاں اور کام ہوئے وہاں ہم نے ڈرائیونگ لائنس بنوانے کی بھی کوشش کی۔ لگے ہاتھوں یہ کہانی بھی سن لیں۔ 
یہاں ڈرائیونگ لائسنس کے تین درجے ہیں۔پہلا درجہ 'جی ون' کہلاتا ہے( اسے اپنا پاکستانی لرنرزڈرائیونگ لائسنس سمجھ لیں) ۔ اس کا ٹیسٹ تحریری یا کمپیوٹر سے ہوتا ہے۔
اسکے بعد دوسر ا مرحلہ روڈ ٹیسٹ کا آتا ہے جسے پاس کرنے کے بعد آپ کو 'جی ٹو'لائسنس مل جاتا ہے، اور آپ سڑک پر گاڑی چلا سکتے ہیں۔ کچھ عرصے کے بعد آپ ہائی وے کا ٹیسٹ دے سکتے ہیں یہ 'جی' کہلاتا ہے۔ 
گوکہ ہم وطنِ عزیز میں کئی سال سے گاڑی چلا رہے تھے اور ہمارے پاس مصدقہ ڈرائیونگ لائسنس تھا لیکن یہاں کے قوانین کے مطابق ہمیں پہلے ہی مرحلہ یعنی سے 'جی ون ' سے شروع کرنا تھا۔
بیگم بھی پاکستان میں ڈرائیونگ کرتی رہی تھیں، انکے پاس بھی لائسنس تھا لیکن انکو بھی اس مرحلے سے گزرنا تھا۔
جی ون ٹیسٹ میں زیادہ تر سڑکوں پر لگے ہوئے ٹریفک کی علامات اور روڈ سیفٹی کے بارے میں سوالات ہوتے ہیں۔ اس ٹیسٹ کی تیاری کیلئے حکومت کی منظور شدہ کتاب بھی ہے۔ بیگم نے تو کتاب کا "گھوٹا "لگاناشروع کیا اور ہم سے بھی کہا کہ کچھ پڑھ لیں۔
 
" بھئی آپ ہی پڑھیں، آپ کو ضرورت ہے، میں بیس سال سے گاڑی چلا رہا ہوں مجھے ضرورت نہیں" میں نے کہا
اگلی صبح ہم لوگ ڈرائیونگ لائسنسکے دفتر پہنچ گئے۔ ٹیسٹ کے فارم بھرے اور فی آدمی سوڈالرفیس جمع کروائی۔ کاوئنٹروالی نے ہماری تصویریں اتاریں اور ہمیں ایک پرچی دے کرٹیسٹنگ روم کا راستہ دکھا دیا۔
یہاں ذرا رش تھا، اسلئے ہم لوگوں کو کچھ دیر بیٹھنا پڑا۔ جیسے جیسے کمپیوٹر خالی ہوتے جاتے تھے، نئے آنے والوں کا نمبر آتا جاتا تھا۔کچھ وقفے کے بعدہم لوگوں کا نمبر بھی آ گیا۔ 
ٹیسٹ شروع ہوا۔ پہلے مرحلے پر ٹریفک کی کچھعلامات شناخت کرنی تھیں ۔ میرے لئے کچھ علامات تو بالکل نئی تھیں، اس لئے اٹکل پچو جوابات دے دیئے۔
اگلے مرحلے میں کچھ روڈ سیفٹی کے سوالات تھے، جس میں سے بیشتر سوالات میرے لئے اجنبی تھے۔ اس میں بھی تکے سے کام لیا۔ کل ملا کر چالیس سوالات کے جوابات دینے تھے۔ سوالنامہ ختم ہوا۔
  کمپیوٹر نے اسی وقت نتیجہ بتا دیا۔ بندہ فیل تھا۔مجھے زبردست جھٹکا لگا ۔کمبخت نے میرے بیس سال کے تجربہ کو بھی گھاس نہیں ڈالی ۔ میں نے دل میں سوچا کہ جب میراا یہ حال ہے تو بیگم کاتوکباڑا ہی ہو گیا ہوگا۔
  باہر نکلے تو دوسرا جھٹکا لگا، بیگم پاس تھیں۔معاملہ صاف تھا۔ وہ تیاری کر کے گئی تھیں اور ہمیں ہماری بے جاخود اعتمادی لے بیٹھی۔ خیر صاحب، بہت شرمندہ اور دل گرفتہ واپس آئے۔
بہرحال اس واقعہ سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آگئی کہ یہاں کھیل کے اصول وطنِ عزیز سے بالکل مختلف ہیں۔ میں نے تہیہ کر لیا کہ اب ہر چیز کو آسان سمجھنا چھوڑ دونگا، اور حقیقت پسندی سے کام لونگا۔
پدرم سلطان بود والا زمانہ ختم ہو گیا۔ یہ کینیڈا ہے اور یہاں زندگی نئے سرے سے شروع کرنی ہو گی اگرپرانے تجربے کی عینک سے چیزوں کو دیکھتے رہے تو آئندہ بھی وہی حال ہو گا جو ڈرائیونگ ٹیسٹ کا ہوا۔ 
اس عرصے میں ہم لوگوں کے ہیلتھ کارڈ بھی بن گئے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا ذہنی دباؤ تھا کہ ہم سب بغیرہیلتھ انشورنس کے گزارا کر رہے ہیں۔
اللہ کا کرم رہا کہ کوئی بیمار نہیں پڑا اور کسی کو کوئی چوٹ وغیرہ نہیں لگی اور اس طرح یہ وقت بخیر و خوبی گزر گیا۔ میں اس بات کے قطعی حق میں نہیں تھا کہ بغیر انشورنس کے رہا جائے، لیکن مالی حالات ایسے تھے کہ انشورنس لینا مشکل تھا۔ خود میں کسی کو یہ مشورہ نہیں دونگا کہ اگر جیب اجازت دے تو اس قسم کا خطرہ مول لینے سے پرہیز کیا جائے۔ 
ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ بیگم کو سکول میں لنچ روم سپر وائزرکی ملازمت مل گئی ہے ۔
روزانہ ایک گھنٹہ کی مصروفیت ہے۔ ۱۰ڈالرفی گھنٹہ کے حساب پر سے دو سو ڈالر ماہانہ کی لگی بندھی آمدنی ہے۔ کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔ سکول پاس میں ہے ا س لئے ٹرانسپورٹ کا کوئی خرچہ نہیں ہے۔ سکول کے عملے اور دیگر افراد سے ملاقات رہتی ہے جس سے معلومات میں خاصہ اضافہ ہوتا ہے ۔روزانہ آنے جانے سے سکول کے ماحول کا اندازہ ہو رہا ہے جو کہ کافی چونکانے والا ہے۔
ایک ٹیچر نے بتایا کہ وہ کئی دن سے ایک بچے کی حرکات اور سکنات پرنظر رکھے ہوئے تھی۔ یہ بچہ دوپہر کے بعد بہت سست ہو جاتا تھا اور اکثر اونگھنے لگتا تھا۔ٹیچرکی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ایسا کیوں ہے؟ اگر بیمار ہے تو اسے دن بھر ہی سست رہنا چاہئے۔ ہو سکتا ہے ؛لنچ بریک میں سکول کے میدان میں بہت زیادہ بھاگتا دوڑتا ہو اور خود کو تھکا لیتا ہو؟ بہرحال سستی کی وجہ کچھ بھی ہو اس کا پتہ ہونا چاہئے اور اس کا مناسب تدارک کرنا چاہئے۔
لنچ بریک ہو ا تو سب طلباء باہر بھاگے۔ اس بچے نے اپنے بیگ سے کھانے نے کا ڈبا نکالا اورباہر چلا گیا۔ ٹیچر نے کھڑکی سے دیکھا کہ بچے نے ادھر ادھر دیکھ کر سارا کھانا ایک کوڑے کے ڈبے میں خالی کر دیا اور جلدی سے آگے بڑھ گیا۔ بعد کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ بچے کی ماں روزانہ رات کابچا ہو ادیسی کھانا لنچ کے نام پر پیک کر دیتی تھی ، جس سے مصالحوں کی تیز مہک آ رہی ہوتی تھی۔ سب بچے طرح طرح سے اس لڑکے کا مذاق اڑاتے تھے اور اس بچے کا نام ہی سپائسی مین رکھ دیا تھا۔ٹیچر نے دوسرے ہی دن بچے کی ماں کو بلایا اور مناسب الفاظ میں تنبیہ کی۔

Chapters / Baab of Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem