Episode 50 - Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem

قسط نمبر50 - باتیں کینیڈا کی (ایک پاکستانی امیگرینٹ کی زبانی) - فرخ سلیم

امیگرینٹ سے امیگرینٹ تک
مجھے کمیونٹی ایجنسیمیں کام کرتے ہوئے اب ۵سال سے زیادہ ہو گئے تھے۔شروع میں تو ادارہ کے کام میں بتدریج اضافہ ہوا ، ْ لیکن وقت کے ساتھ اب پروجیکٹس میں کمی آتی جا رہی تھی۔ اس کا ایک بڑا سبب میڈم کا اس ادارے سے رخصت ہو جانا بھی تھا، انہیں کسی بڑے ادارے نے اپنے ہاں بہتر شرائط پر بلا لیا تھا۔
ان کے رخصت ہوتے ہی تھوڑے ہی عرصے میں اس ادارے میں امحطاط کے واضح آثار نظر آنے لگے۔
 نئی ایکزیکٹیو ڈائریکٹر اور خاص طور سے نئے بورڈ میں نہ تو وہ صلاحیتیں تھیں اور نہ ہی تجربہ تھاکہ فنڈرز کو متاثر کرسکیں اور مزیدپروجیکٹس لا سکیں۔اس کے علاوہ بورڈ میں سیاست اور ذاتی پسند نا پسند کا بھی عنصر شامل ہوگیا تھا۔

(جاری ہے)

مجھے محسوس ہو رہا تھاکہ اب یہاں نہ صرف میرے سیکھنے سکھانیکے مواقع محدود ہو گئے ہیں، بلکہ نوکری چلتے رہنے کے بھی آثار کم ہیں۔

یہ ادارہ ایک کل وقتی ویب ڈیزائنر کو مزیدرکھنے کی گنجائش نہیں رکھتا۔ اس سے پہلے کہ یہ مجھے الوداع کہیں میں خود ہی انہیں بائی بائی کر دوں۔ یوں بھی میں بھی کئی سال سے ہر روز ٹورنٹو کا سفر کرتے کرتے کچھ تھک سا گیا تھا۔ سینئرز کے پنشن والے پروجیکٹ کی ناکامی سے بھی میرا دلٹوٹ سا گیا تھا اور اب میں بھی اس ماحول سے نکلنا چاہتا تھا
اس بدلتی ہوئی صورتِ حال میں اب مجھے یہ بھی فیصلہ کرنا تھا کہ میں ویب ڈیزائنگ کے شعبے میں نوکری تلاش کروں یا سوشل ورک میں چلا جاؤں۔
میرے پاس انتخاب کی کوئی زیادہ گنجائش نہیں تھی۔ میں نے سوچا کہ دونوں جگہ کوشش کرتے ہیں جہاں پہلے اور مناسب نوکری مل جائے۔
میں نے دونوں شعبوں میں ملازمت کی درخواستیں دینا شروع کر دیں ۔ایک دو جگہ انٹرویو بھی ہوئے لیکن کچھبات بنی نہیں۔ دو تین ہفتے بعد مجھے اپنے ہی شہر کے ایک ادارہ میں سیٹلمنٹ کونسلر کی پوزیشن کے لئے انٹرویو کا بلاوا آ گیا۔

انٹرویو میں جانے سے پہلے میں نے اس ادارہ کی ویب سائٹ کو اچھی طرح کھنگال لیا ، ان کے پروگرام اورخدمات کے متعلق مکمل معلومات حاصل کر لیں۔ اس ایجنسی کا سربراہ نہ صرف سوشل ورک میں پی ایچ ڈی تھا، بلکہ اس کے ساتھ متعلقہ ڈگریوں کی ایک لمبی لائین تھی۔ میں نے سوچا کہ اگرڈاکٹر صاحب میرے انٹرویو میں بیٹھ گئے تو ملازمت ملنے کے امکانات بہت زیادہ روشن نہیں رہیں گے۔

ہوا وہی جس کا دھڑکا تھا، موصوف میرے انٹرویو میں موجود تھے، پر ان کی شخصیت میری ذہن میں تراشی ہوئی تصویر کے بالکل برعکس تھی۔ دبتا ہو ارنگ، طویل قامت، لمبے بال، نیچے کی طرف جھکی ہوئیں مونچھیں، جینز، قمیض کے اوپر کے دو بٹن کھلے ہوئے تھے، فقط ہاتھ میں گٹار کی کمی تھی۔ شکل صورت تو اللہ کی دین ہے لیکن حلیہ تو انسان خود بناتا ہے۔ مجھے وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ سوشل ورکر کے معیار سے کوسوں دور لگے۔
ان کی پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی میرے شبہ کی زد میں تھی۔میں نے بہت پہلے خود سے وعدہ کیا تھا کہ میں لوگوں کے حلئے سے ان کی شخصیت کا اندازہ نہیں لگاؤنگا ، لیکن اس دفعہ یہ کلیہ کام کرتا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ میں نے ایک لمبی سی سانس لی اور' دیکھوا ور انتظار کرو کی' پالیسی پر عمل شروع کر دیا۔
انٹرویو کا پہلا حصہ ایک عام انٹرویو کی طرح تھا۔
آپ اپنے متعلق بتائیں، آپ اس ادارے سے کیوں وابسطہ ہونا چاہ رہے ہیں، آپ خود کو دوسرے لوگوں کے مقابلے میں اس آسامی کے لئے کیوں زیادہ اہل سمجھتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ موصوف اس عرصے میں ایک لفظ بھی نہیں بولے تھے۔ انٹرویو تقریباً ختم ہونے والا تھا جب ان کے طرف سے پہلا سوال آیا
"کینیڈا میں تعصب ہے، آپ کیا سمجھتے ہیں؟"
کینیڈا میں تعصب ،میں گڑبڑا سا گیا۔
میں تو اب ذہنی طور پر باہر کا راستہ دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ بلا وجہ آج دفتر سے چھٹی کی ، حاصل نہ حصول،خواہ مخواہ ایک چھٹی ماری گئی۔
"ہرمعاشرہ کی طرح کینیڈین معاشرہ میں بھی تعصب ہے ، لیکن انفرادی سطح پر۔ ادارے اورحکومتی سطح پر نہیں۔ پھر بھی کہیں کہیں ایسی پالیسی نظر آتی ہیں جن سے کمزور اور کم حیثیت لوگ زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، لیکن اکثر اسے تعصب کے حوالے سے ثابت کرنا مشکل ہے " میں نے لڑکھڑاتے ہوئے انداز میں کہا
کوئی مثال؟" ڈاکٹر صاحب براہِ راست میری آنکھوں میں دیکھ رہے تھے
میں نے ساوئتھ ایشین سینئرز کی پنشن کی مثال دی
"اسی کو تو سسٹم کی رکاوٹیں کہتے ہیں، ایسا تعصب جو نظام کا حصہ ہو ، جس کی تاویلیں تو ہوں لیکن اسے ثابت کرنا مشکل ہو۔
کینیڈا کے چارٹرڈ آف رائٹ سیکشن ۱۷ کے تحت۔۔۔۔۔۔"
ڈاکٹر صاحب کی تقریر جاری تھی اور انسانوں کوپہچاننے کا میرا فارمولا ایک بار پھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا، اس کے باجود میں سوچ رہا تھا کہ اگر ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل گیا تو میری تربیت کا سلسلہ وہیں سے دوبارہ شروع ہو سکتا ہے جہاں میڈم کے چلے جانے کی وجہ سے ٹوٹا تھا۔
میں نے اس انٹرویو سے کوئی خاص توقعات وابسطہ نہیں کیں۔
نہیں ملے تو کوئی مسئلہ نہیں، ابھی تو دوسری نوکری چل ہی رہی ہے، مل گئی تو ڈاکٹر صاحب کی رفاقت ایک انعام ہوسکتی ہے۔ میں نے اپنے خیالات کی پرواز کو آزاد چھوڑ دیا۔ ٹھیک ایک ہفتہ بعد مجھے اس ادارہ سے تقرری کا پروانہ مل گیا۔ میں نے اپنی ٹورانٹو والی نوکری کوخیرآباد کہا اور اس ادارے میں کام شروع کر دیا۔
میری یہ نئی ملازمت گھر سے بہت نزدیک تھی۔
گاڑی سے صرف ۱۰ منٹ کا راستہ تھا۔ یہ ادارہ میرے پچھلے ادارہ سے کافی بڑا تھا۔ نئے آنے والے امیگرینٹس کی رہنمائی کے علاوہ انگلش سکھانے کی کلاسز، چائلڈ کئیر، سینئرز ، خواتین اور نوجوانوں کے پروگرام کے علاوہ اور بھی بہت سارے پروگرام تھے۔ سٹیلمنٹ کونسلر کی حیثیت سے میرا زیادہ تر واسطہ نئے امیگرینٹس اور پناہ گزین ( ریفیوجی) سے تھا۔ میرا خیال تھا کہ میں خود ایک امیگرینٹ ہوں اور مجھے امیگرینٹس کے ساتھ کام کرنے کا کافی اچھا تجربہ ہے ا سلئے مجھے یہاں کام کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔
لیکن یہ احساس ایک خوش فہمی سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ مجھے چند دن میں ہی اندازہ ہو گیا کہ امیگرینٹ میرے پاس ایسے بہت سارے ایسے مسائیل لے کر آرہے تھے جن کے بارے میرا تجربہ بالکل صفر تھا جب کہ وہ میرے سامنے بیٹھ کر یہ سمجھتے کہ میرا کمپیوٹر ایک الہ دین کا چراغ ہے، ادھر میں بٹن دباؤں گا اور ادھر ان کا مسئلہ حل۔ نمونے کا طورپر چند مسائیل کی فہرست کچھ اس طرح ہے
۔
میں ایک ریفیوجی ہوں، مجھے کمپیوٹر کی مفت ٹرینٰنگ کہا ں سے مل سکتی ہے
۔ میں نیا امیگرینٹ ہوں۔ ابھی میرے پاس گورنمنٹ کا ہیلتھ کارڈ نہیں لیکن بچے کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی ہے۔ مجھے کہاں جانا چاہئے؟
۔ میرا مستقل سکونتی کارڈ کھو گیا ہے اور مجھے اگلے ہفتہ اپنے و طن چھٹیوں پر جانا ہے، میں کیا کروں؟
۔ جھیاپنے وطن سے پنشن ملتی ہے۔ وہ لوگ ایک سرٹیفیکٹ مانگ رہے ہیں کہ میں ابھی زندہ ہوں۔
آپ مجھے ایسا سرٹیفیکٹ بنا کر دے سکتے ہیں؟ وکیل تو کافی پیسے جھٹک لے گا!
۔ مجھے اپنا ریزیومے ٹھیک کرانا ہے، دو گھنٹے بعد میرا نٹرویو ہے
۔ میں اپنے بھائی کو کینیڈاسیاحتی ویزا پر بلانا چاہتا ہوں، ایک دعوتی خط بنا دیں۔ کتنی دیر لگے گی؟ آپ کے پاس تو کمپیوٹر ہے
۔ مجھے سوشل ویلفیئر کے لئے درخواست دینی ہے۔ مجھے ماہانہ کتنی رقم مل جایا کرے گی؟آپ کچھ ایسا کر دیں کہ مجھے زیادہ رقم ملنے لگے۔
میرا سگریٹ کا خرچہ بہت ہے
۔ مجھے نوکری سے بلا وجہ نکال دیا ہے، کیا مجھے ایمپلائمنٹ انشورنس مل سکتی ہے
۔ میں پنشن کی درخواست دینا چاہ رہا ہوں، ذرا مدد کردیں
اس صورتِ حال کو مزید پیچیدہ بناے کے لئے وہ درجنوں فارم تھے جو مختلف خدمات کے لئے بھرے جاتے تھے۔
میں حیران و پریشان تھا کہ کیا کروں؟ معلومات اکٹھا کرنے میں بھی وقت لگتا ہے ، لیکن آپ کو کم ازکم یہ توپتہ ہو کہ معلومات ہیں کہاں ؟ یہاں اپا ئنمنٹ بک کرنے کا کوئی سسٹم نہیں تھا۔
ہر کوئی منہ اٹھائے چلا آ رہا ہے۔ ادھر کلائنٹ آیا، ادھر استقبالیہ پر موجود لڑکی نے اسے کو نسلر کے پاس روانہ کیا۔ ایک کلائنٹ آپ کے کمرے میں ہے، ایک باہر ٹہل رہا کہ کب یہ کلائنٹ فارغ ہو تو وہ اندر جائے، دو باہر انتظار میں سوکھ رہے ہیں۔
 میرا پانچ سال کا نام نہاد سوشل ورک کا تجربہ میرے ماتھے سے پانی کے قطروں کی صورت میں دفتر کے قالین میں جذب ہوتا جا رہا تھااور میرا بلڈ پریشر ایک مرتبہ پھر سی این ٹاور سے اونچا جا رہا تھا۔
قریب تھا کہ اس ڈرامے کا ڈراپ سین ہو جائے کہ ایک سینئر کونسلر جو میرے آنے سے پہلے چھٹیوں پر گئی ہوئی تھی ، واپس آ گئیں۔ ا نکے آنے سے ایک تو کام بٹ گیا دوسرے انہوں نے ہنگامی بنیادوں پر میری ٹریننگ شروع کر دی اور یوں میری گاڑی چلنے لگی۔
میرے سامنے ایک نئی امیگرینٹ فیملی بیٹھی تھی۔ میں نے ان کے فارم پرنظر ڈالی، انہیں یہاں آئے ہوئے فقط ایک ہفتہ ہوا تھا۔
ماں باپ اور دو بچے۔ ایک بچہ دو سال کا دوسرے کی عمر ۶سال تھیکرایہ کا بیسمنٹ مل گیا تھا۔ سوشل انشورنس کارڈ نمبر مل گیا تھا ، چائلڈ ٹیکس کی درخواست دینی تھی ۔باپ پیشہ کے اعتبار سے ٹول، ڈائی میکر تھا ، اور نوکری کی تلاش میں ہمارے ادارے میں آیا تھا۔ میں نے ان کو چائلڈ ٹیکس کا فارم بھرنے میں مدد دی اور باپ کو جاب سرچ ورکشاپ میں رجسٹر کرا دیا۔

"آپ یہ بتائیں مجھے کیا کرنا چاہئے؟ میری مالک مکان کہتی ہے کہ میں اسی فیکٹری میں جاب شرو ع کر دوں جہاں وہ کام کرتی ہے۔ وہ وہاں نجھے آسانی سے فٹ کر ادے گی" خاتون نے پہلی دفعہ زبان کھولی
میں نے فارم پر دوبارہ نظر ڈالی۔ خاتون کا نام نیلم تھا
"آپ یہ بتائیں، آپ کینیڈا کیوں آئی ہیں؟"
" جی صرف بچوں کی وجہ سے۔ ورنہ ہمیں تو وہاں کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا"
"بچوں کی خاطر آئی ہیں، تو ان کی تعلیم وتربیت پر توجہ دیں۔
فی الحال نوکری کا ارادہ دل سے نکال دیں"
"میں بھی ان سے یہی کہہ رہا تھا " میاں فوراً بول پڑے
"اس کا مطلب ہے میں کینیڈا آکر بھی گھر میں ہی بند رہوں"
 "میں نے آپ سے گھر میں بند رہنے کو تو نہیں کہا۔ میں تو بچوں کی تعلیم کی بات کر رہا ہوں"
 "بچوں کو میں کیا تعلیم دے سکتی ہوں، یہاں تو سب کچھ انگلش میں ہوتا ہے۔ میں نے تو بارہویں جماعت مشکل سے پاس کی ہے، وہ بھی اردو میڈیممیں"

Chapters / Baab of Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem