Episode 21 - Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem

قسط نمبر 21 - باتیں کینیڈا کی (ایک پاکستانی امیگرینٹ کی زبانی) - فرخ سلیم

میں نے نوٹ کیا تھا کہ یہاں ہائی سکول ختم کرنے کے بعد طلباء کی ایک بڑی تعداد تعلیم کو خیرآباد کہہ کر جاب فورس میں شامل ہو جاتی ہے اور بقیہ طلباء مزید تعلیم کے لئے کالجوں اور یونیورسیٹی کا رخ کرتے ہیں۔
ان ہی ضروریات کے پیشِ نظر ہائی سکولوں میں متعدد مضامین مثلاً انگلش، فرنچ، بزنس، کمپیوٹر، اکاؤنٹنگ، سائنس، ٹیکنالوجی اور ریاضی وغیرہ پڑھائے جاتے ہیں۔
اس میں سے کچھ مضامین تو طلباء کو ہائی سکول کے فوراً بعدنوکری حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ جب کہ دیگرمضامین کالج اور یونیورسٹی کی پڑھائی جاری رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔
یہاں طلباء اپنے کیرئیر کاانتخاب عموماً اپنے ذاتی رجحانات ، طبعی میلان، والدین، اساتذہ اور کونسلر کی مشاورت سے کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

اگر آپ بچے کی رپورٹ کا باقاعدہ جائزہ لیتے رہیں تو اس بات کا بہت حد تک اندازہ ہو سکتا ہے کہ آپ کے بچے کا رجحان کس شعبے کی طرف ہے۔

بڑے صاحب زادے کی رپورٹ ان کے کمپیوٹر اور فنی رجحان کا واضح اشارہ دے رہی تھی۔ جب کہ بیٹی کا رجحان اکاوئنٹنگ کے طرف زیادہ لگ رہا تھا۔ مجھے بیٹی کی زیادہ فکر تھی کیونکہ اس نے یہاں اترتے ہی حجاب لینا شروع کر دیا (بیگم حجاب نہیں پہنتیں)۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ حجاب پہننے سے سکول میں کیا پریشانیاں پیش آ سکتی ہیں؟کئی دفعہ میں نے اس موضوع پر گھما پھرا کربات کی، لیکن اندازہ یہی ہوا کہ حجاب کی وجہ سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
بڑے بچوں کی رپورٹ کارڈ کے ساتھ ہی ایک ورکشاپ کا فلائر تھا جس کا عنوان تھا
"مغربی ماحول اور بچوں کی تربیت۔ والدین کو کیا پتہ ہونا چاہئے؟
اگلے ہفتہ یہ ورکشاپ امیگرینٹ خصوساً ساؤتھ ایشن والدین کے لئے منعقد کی جارہی تھی اور اس کی کوئی فیس نہیں تھی۔ اس ورکشاپ میں سکول بورڈ کے سینئر اساتذہ، سکول کونسلر، مقامی پولیس اور سماجی تنظیموں کے نمائندے شرکت کر رہے تھے۔
میں نے اوربیگم نے فوری طور پر اپنے آپ کو اس ورکشاپ کے لئے رجسٹرڈ کروا لیا ۔ ہمارے حساب سے یہ ایک بہت اہم موضوع تھا جس پر ہم لوگوں کو رہنمائی کی ضرورت تھی۔
سکول نے ورکشاپ کے لئے بہت اہتمام کیا تھا۔ شرکاء کے لئے سکول کے بڑے ہال میں کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ مائیکروفون سے آراستہ سٹیج پر کم از کم دس لوگوں کے بیٹھنے کا بندوبست تھا۔
 
ہال کے باہر بے شمار سماجی تنظیموں نے اپنے سٹال لگا رکھے تھے جہاں سے وہ نہ صرف اپنے اشتہاری پرچے اور دیگر تعلیمی مواد تقسیم کر رہے تھے بلکہ لوگوں کے سوالوں کے جواب اور متعلقہ معلومات بھی فراہم کرر ہے تھے۔ شرکاء کے لئے مفت چائے، کافی اور سنیک کا بھی بندوبست تھا۔
ورکشاپ کی منتظمہ مقامی سکول بورڈ سے ایک طویل عرصے سے منسلک تھیں، کئی سکولوں کی پرنسپل رہ چکی تھی اور اس لحاظ سے طلباء اور والدین کے ساتھ کام کرنے کا ان کے پاس ہمہ جہت تجربہ تھا۔
انہوں نے ورکشاپ کی ابتداء میں ہی یہ بات واضح کر دی کہ آج کی اس نشست میں بات چیت یک طرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ ہو گی والدین جب چاہیں ، انہیں روک کر سوال پوچھ سکتے ہیں۔
ایک مقرر نے بتایا کہ بہت سے امیگرینٹ والدین اس بات سے نا بلد ہیں کہ کینیڈ امیں بچوں کی صحیح پرورش اور نگہداشت فقط سماجی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک بہت اہم قانونی مسئلہ ہے۔
پولیس، ڈاکٹر، اساتذہ اور دوسرے متعلقہ افراد قانونی طور پر والدین سے باز پرس کرنے کا حق رکھتے ہیں ۔ اگر وہ محسوس کرتے ہیں کہ کسی گھر میں بچے کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی جارہی ہے یا بچے کو کسی قسم کا نقصان پہنچایا جا رہا ہے یا اسے نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ اگروالدین کا قصور ثابت ہو جائے تو انہیں خاصی کڑی سزا ہو سکتی ہے اور اس بچے کی بہتر پرورش کے لئے اسے اسکے والدین سے علیحدہ بھی کیا جا سکتا ہے اور رضاعی والدین کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔
یہ رضاعی والدین کسی بھی مذہب اور کسی بھی دوسرے کلچر کے ہو سکتے ہیں اور یوں پوری فیملی ایک مستقل کرب کا شکار رہتی ہے۔ اس لئے برائے مہربانی ایسی صورتِ حال ہی نہ پید اہونے دیں۔
آپ میں سے بہت سے والدین ایسے ماحول سے آئے ہیں جہاں والدین بچوں کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں۔والدین ہی بچوں کی کی تعلیم، پیشہ کا انتخاب، اور شادی بیاہ تک کے معاملات خود ہی طے کرتے ہیں۔
والدین ہی طے کرتے ہیں کہ انکے بچوں کو کس کسے ملنا ہے اور کس سے نہیں ملنا ہے۔ کینیڈین معاشرے میں بچوں کی اس طرح کی ملکیت کا کوئی تصور نہیں۔
ایک تجربہ کار سکول کونسلر نے کہا کہ بہت سے امیگرینٹ والدین یہاں کے آزاد کلچر سے اپنے بچوں کو بچانے کی مختلف انداز میں جائز اور ناجائز کوششیں کرتے ہیں ور بعض دفعہ اس چکر میں اپنے گھرانہ پر بہت زیادہ سختی اور نا روا پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے بہت سے غیر ضروری مسائل سر اٹھا لیتے ہیں۔
والدین کو اس سے بچنا چاہئے۔ بیشتر والدین کو دونوں متصادم کلچرز کے درمیان توازن رکھنے میں بہت زیادہ دشواری پیش آتی ہے۔نوجوانوں کے ایک طرف والدین ہوتے ہیں جو ان سے توقع کرتے ہیں کہ نوجوان نسل اپنی روایات کو برقرار رکھے گی اور دوسری جانب ان پر اپنے ساتھیوں کا بہت زیادہ دباؤ ہوتا ہے کہ وہ کینیڈین روایات کے ساتھ چلیں۔
آپ بطور والدین نئے کلچر میں تو کسی حد تک اپنی مرضی استعمال کرتے ہیں کہ کیا سیکھنا ہے اور کیا نہیں؟لیکن کیا آپ کے بچوں یا نئی نسل کے پاس کسی ایسی مرضی کی گنجائش ہے؟ وہ سکول میں اپنے دن کا بڑا حصہ گزارتے ہیں، آزادی، خود مختاری اور اپنی ذات سے متعلق فیصلہ کرنا سیکھتے ہیں اور فیصلہ کرنا پسند کرتے ہیں۔
ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ مغربی انداز کا اثر قبول نہ کریں بالکل ایساہی ہے کہ آپ کسی کو پانی میں پھینک کر یہ توقع کریں کہ اسے بھیگنا نہیں چاہئے ۔
  والدین کی طرف سے پرانی روایات کی پاسداری اور یہ کہ لوگ کیا کہیں گے؟ ایسی باتیں ہیں جنہیں نئی نسل آسانی سے ہضم نہیں کر پاتی۔ بہت سے والدین اس قسم کی آزادی اور خود مختاری کو خاندانی اقدار سے بغاوت تعبیر کرتے ہیں،آپ اس سلسلے میں محتاط رہیں۔

Chapters / Baab of Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem