Episode 19 - Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem

قسط نمبر 19 - باتیں کینیڈا کی (ایک پاکستانی امیگرینٹ کی زبانی) - فرخ سلیم

 نیا زمانہ نئے انداز
کہنے کو توگھر میرا مطلب ہے بیسمنٹ چھوٹا ہے لیکن دیکھا جائے تو سینکڑوں کام ہیں۔ کھانا پکانا، برتن دھونا اور گھر کی صفائی ستھرائی ، گروسری کا لانا اور اسے اپنی جگہ رکھنا کی طرح کے چھوٹے چھوٹے کام ہی بہت زیادہ وقت لے لیتے ہیں۔
  یہ ٹھیک ہے یہاں گرد مٹی کا ایسا مسئلہ نہیں ہے، جیسا وطنِ عزیز میں ہے، لیکن اگر گھر میں گھستے ہوئے یہاں جوتوں کو صاف نہ کیا جائے، تو اچھا خاصا کچرا گھر میں آجاتا ہے۔
قالین کو ہر وقت صاف ستھرا رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ ہم اسی پر لیٹتے بیٹھتے ہیں۔
بہت سا کام چیزوں کو اپنی جگہ پر نہ رکھنے سے بھی بڑھ جاتا ہے، مثلاً بچے سکول سے آئے، بیگ ادھر ڈال دیا، کپڑے کہیں ڈال دیئے، بیگ سے لنچ باکس نہیں نکالا، پڑھنے کے بعد کتابیں ادھر ادھر ڈال دیں۔

(جاری ہے)

یہ سب چیزیں دوسری صبح سکول جاتے وقت پریشانی کا باعث ہوتی ہیں۔

ہم لوگ کچھ دنوں سے یہ غور کررہے ہیں کہ گھر میں افر تفری بڑھتی جا رہی ہے۔ جگہ کم ہے ، ا سلئے اور بھی بد انتظامی لگتی ہے۔ بچوں کے سکول بیگ کہیں پڑے ہیں، شام تک بستر سمیٹے نہیں گئے، نل کے نیچیگندے برتنوں کا ڈھیر ہے۔ ایک دو دفعہ ڈانٹ پھٹک کی گئی لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا۔ وطنِ عزیز میں تو گھر بڑا تھا، نوکر تھے، سب کام ہو جاتا تھا، لیکن یہاں صورتِ حال قطعی مختلف ہے۔
بیگم کا کہنا یہ تھا کہ اس ملک میں رہنا ہے تو ہمیں اس کی اچھی باتیں سیکھنی ہونگی ، اور اپنی اور بچوں کی تربیت اس طرح کرنی ہوگی اور وہ انداز اختیار کرنے ہونگے جس سے آنے والا و قت انکے لئے بھی اور ہمارے لئے بھی آسان ہو جائے۔جس طرح اس معاشرے میں لوگ اپنا کام خود کرتے ہیں، ہمیں بھی اپنا کام خود کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے اور بچوں کی بھی۔
چنانچہ ہم لوگوں نے مل جل کرطے کیا کہ
# کھانے کے بعد ہر شخص اپنے کھانے کے برتن اٹھائے گا اور انہیں دھو کر ان کی جگہ رکھے گا
# باہر سے آنے کے بعد ہم لوگ اپنی جیکٹ ادھر ادھر نہیں ڈالیں گے بلکہ قاعدے سے الماری میں ٹانگیں گے، اسی طرح جوتے بھی جوتوں کی الماری میں رکھیں گے
# بچے سکول سے آنے کے بعد اپنا بیگ ، صحیح جگہ رکھیں گے اور لنچ باکس دھو کر رکھیں گے
# میلے کپڑے لانڈری بیگ میں ڈالے جائیں گے۔
بیگم ہفتے کے ہفتے لانڈری کریں گی اوربچے ان کی مدد کریں گے
# اگر آپ باہر سے آ رہے ہیں تودروازہ میں داخل ہونے کے بعد باآوازِ بلند سلام کریں گے اور اسی طرح جاتے وقت اللہ حافظ کہیں گے
# جب سو کر اٹھیں تو اپنا کمفرٹر (رضائی)تہہ کریں گے اور تکیہ اور کمفرٹر کو اسکی جگہ رکھیں گے۔
# ہفتہ کو کوڑا جانے کا دن ہوتا ہے۔
باری باری ہر بچہ ہفتے کے دن کوڑے کا تھیلا گھر کے باہر رکھے گا۔ دوسرے دن جو بھی پہلے گھرواپس آئیگا، وہ انہیں اٹھا کر لائیگا
ہمیں امید تو نہیں تھی کہ اس ضابطہ اخلاق پرسو فیصد عمل ہو گا، لیکن اس پر تھوڑا بہت بھی عمل درآمد شروع ہو جائے تو آہستہ آہستہ چیزیں کنٹرول میں آ سکتی ہیں۔ 
  بچوں کو اس نظام سے کم لیکن آپس میں شکایتیں زیادہ ہوتی تھیں۔
آج ہی میری بیٹی اپنے بھائیوں پر خفا ہورہی تھی
"یہ کیا تم لوگوں نے میرے بستر کوبھنگی پاڑا بنایا ہوا ہے۔ساری کتابیں اور سکول کے بیگ اس پر ڈھیر ہیں، میرا لیٹنا بیٹھنا مشکل کر دیا ان دونوں نے، چلو اٹھاؤ سارا سامان"
ہم لوگ جہاں جہاں ممکن ہوتا ان لوگوں کی آپس کی شکایتیں دور کرنے کی کوشش کرتے۔
پھر بھی جس بچہ کا جہاں موقع لگتا ، ڈنڈی مارنے کی کو شش کرتا۔ ہم لوگ بھی موقع کی مناسبت سے بعض دفعہ نظر انداز کر دیتے، بچے آخربچے ہیں۔بہر حال ہمارا تجویز کردہ یہ نظام لولی لنگڑی شکل میں آہستہ آہستہ چلنے لگا۔
بعد میں ہمیں اندازہ ہوا کہ بیشتر گھروں میں اس طرح کا نظام کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ اس کا تجربہ ہمیں اس طرح ہوا کہ ایک دفعہ ہم لوگ کسی فیملی سے ملاقات کرنے پہنچے،سب لوگ تو بہت اچھی طرح ملے لیکن ایک بچے کا موڈ بہت خراب تھا۔
ہماری بیگم نے ازراہِ ہمدردی اس بچے کی ماں سے پوچھا
" کیا اس بچہ کی طبیعت خراب ہے؟ "بچے کی ما ں مسکرائیں اور کہنے لگیں
" ہمارے گھر میں سب لوگوں کی برتن دھونے کی باری لگی ہے۔ آج ان حضرت کی باری ہے۔ آپ لوگوں کو دیکھ کرسمجھ گئے ہیں اب زیادہ برتن دھونے پڑیں گے۔
اس لئے موڈ خراب ہے"
ہمارا خیال تھا کہ ہمیں بھی بعض معاملات میں خود اپنی تربیت کرنے کی ضرورت ہے۔ٹیلیفون، انٹرنیٹ، بینک، اور انکم ٹیکس جیسے معاملات کی فائلیں بنائی جائیں، بلوں کی ادائیگی بر وقت کی جائے اور یہ دھیان رکھا جائے کہ کوئی بل ا داہونے سے رہ نہ جائے۔ تمام اہم ٹیلی فون نمبر ایک جگہ نوٹ کر لیں، تاکہ کسی بھی ہنگامی ضرورت کے وقت مسئلہ نہ ہو۔
اہم دستاویزت مثلاً ایس آئی این کارڈ،ہیلتھ کارڈ وغیرہ کی فوٹو کاپیاں کرالی جائیں۔ گھر کی ایک سے زیادہ چابیاں بنوا لی جائیں۔
ایک دوسرے کی غیر موجودگی میں پیغام رسانی کے لئے ہم نے فرج کے اوپر ایک چھوٹا سا نوٹس بورڈ لگا لیا تھا جس پر فوری نوعیت کے پیغامات یاہدایات درج کر دی جاتیں۔ 
اس طرح ہم لوگوں نے کوشش کی کہ ملازمت ڈھونڈنے اور لوگوں سے ملنے ملانے کے لئے جہاں تک ممکن ہو کوئی نظام الاوقات مقرر کر لیا جائے۔
بغیر کسی منصوبہ بندی کے ادھر ادھر ہاتھ مارنے سے ہمارے پاس جو بھی محدود وسائل ہیں انکے زیاں کا زیادہ احتمال ہے۔ کسی نے کہا ہے کہ باہر کی دنیا کا مقابلہ کرنے کے لئے آپ کو گھر میں اور اپنی ذات کے اندر منظم ہونے کی ضرورت ہے۔ خود منظم ہوئے بغیر باہر کی جنگ میں ہارنے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔
اس تنظیمی بندوبست کا ہمیں کافی فائدہ ہوا۔
ایک دفعہ دورانِ سفر میرا بٹوہ کہیں گر گیا۔ مجھے احساس اس وقت ہوا جب میں گھر کے بس سٹاپ پر بس سے اترا اور گھر کی چابی کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو بٹوا ندارد تھا۔ اس میں پیسے توکچھ زیادہ تھے نہیں لیکن ہیلتھ کارڈ ا، ڈرا ئیونگ لائسنس اور بینک کے کارڈ وغیرہ جیسی اہم چیزیں تھیں۔ میں نے وقت ضائع کئے بغیر گھر سے تمام کارڈز کی فوٹو کاپی لیں اور پولیس سٹیشن پہنچ گیا۔
  رپورٹ لکھاتے وقت جب میں نے تمام کارڈز کی فوٹو کاپی پیش کیں تو رپورٹ درج کرنے والی خاتون نے کہا
"تم بہت منظم شخص معلو م ہوتے ہو، تمہارے پاس تما م کارڈزکی فوٹوکاپیاں موجود ہیں"
" آج تک میرا بھی یہی خیال تھا، لیکن جب سے میرا بٹوا کھویا ہے، اس سے میرا اعتماد ختم ہو گیا ہے"میں نے کہا
" یہ تو کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے، اور اس کا تمہاری انتظامی صلاحیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ہمارے پاس تو ایسے کیسز بھی آتے ہیں جن کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ایسے معاملات میں بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔ تمہارا کیس سیدھا سادا ہے۔ ایک دو روز میں تمہارا بٹوا مل جائے گا۔ میں اطلا ع بھجوا دیتی ہوں"

Chapters / Baab of Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem