Episode 45 - Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem

قسط نمبر45 - باتیں کینیڈا کی (ایک پاکستانی امیگرینٹ کی زبانی) - فرخ سلیم

 پاکستانی برادری
کینیڈا میں پاکستانیوں کی آمد۱۹۴۹ئسے ہی شروع ہو گئی تھی۔ لیکن اس زمانے میں آنے والے زیادہ تر طلباء تھے جو میک گل یونیورسٹی مونٹریال میں داخلہ لے رہے تھے۔ آنے والے سالوں میں کچھ طلباء نے یونیورسٹی آف ٹورنٹو میں بھی داخلہ لیا ۔
کچھ طلباء اپنی تعلیم مکمل کر کے پاکستان واپس لوٹ گئے اور کچھ نے کینیڈا میں ہی رہنے کا فیصلہ کر لیا۔
۱۹۵۰ء کی دہائی میں مونٹریال میں چند ہی پاکستانی گھرانے تھے۔ اور غالباً کینیڈا میں پاکستانیوں کی سب سے بڑی تعدا یہی تھی۔ یہ لوگ زیادہ تر کم عمر اور تعلیم یافتہ تھے۔
۱۹۶۰ تک کینیڈا میں پاکستانیوں کی کل تعداد۱۰۰۰ کے لگ بھگ تھی۔ زیادہ تر لوگ بہتر معیارِ زندگی کی تلاش میں یہاں آئے تھے۔

(جاری ہے)

یہ زمانہ اچھا تھا اوراس زمانے میں آنے والوں کو آسانی سے اچھی ملازمتیں مل جاتی تھیں۔


شروع میں پاکستانیوں کا امیگرینٹ کوٹہ فقط ۱۰۰تھا اور وہ بھی بمشکل تمام پورا ہوتا تھا ، لیکن ۱۹۶۷ میں جب برطانیہ نے اپنے دروازے امیگرینٹس پر بند کئے تو بہت سے پاکستانیوں نے کینیڈ اکا رخ کرنا شروع کیالیکن ۱۹۸۰میں ٹیوشن فیس میں اضافے اور ہنر مندوں کے لئے سخت قوانین کی وجہ سے پاکستاینوں کی تعداد میں واضح کمی ہونا شروع ہو گئی۔
۱۹۷۰ء کی ابتداء تک آ نے والے پاکستانیوں کی زیادہ تعداد اساتذہ، ڈاکٹر، انجیئنر، اکاؤنٹینٹ، اور سایئنٹسٹ کی تھی۔
امید افزا بات یہ ہے کہ پاکستانی پیشہ وروں کی آمد کایہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے،اور اب اس میں ایک بڑی تعداد امریکہ سے بھی آ رہی ہے۔
۱۹۷۰ئکے بعد سے اس میں کچھ تیزی آئی اور۱۹۸۳ء میں پاکستانیوں کی تعداد25,000تک پہنچ گئی ۔ ا ۱۹۹۶ء میں تقریباً۸ہزارپاکستانی امیگرینٹ کینیڈاآ ئے․ ۱۹۹۷ء میں یہ تعداد سوا گیارہ ہزار کے قریب تھی ستمبر۱۹۹۸ء تک سوا ۶ہزار کے قریب مزید پاکستانی کینیڈا آ چکے تھے۔
اس میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جو۷۰ء کی دہائی میں سعودی عرب اور گلف کی ریاستوں میں ملازمتوں کے لئے گئے اور اب بچوں کی بہتر تعلیم کے لئے کینیڈا آ رہے تھے۔ ۲۰۰۵ء میں پاکستان سے ۱۳۵۷۶ امیگرینٹس کینیڈا آئے۔
ابتدا ء میں آنے والے لوگ زیادہ تر انٹاریو اور کیوبک میں مقیم ہوئے جب کہ آ ج کل آ نے والے رہنے کے لئے ٹورنٹو کو ہی ترجیح دے رہے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت صرف ٹورنٹو اور اسکے اطراف میں ڈھائی ، تین لاکھ پاکستانی آ باد ہیں ۔شروع میں آنے والے زیادہ تر لوگ انفرادی طور پر زندگی کی جدو جہد میں مصروف رہے لیکن جیسے جیسے ان کی اور پاکستانی گھرانوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگااور پاکستانی برادری کے خدوخال ابھرنے لگے۔
کسی زمانے میں سکاربورو کو پاکستانیو ں کا گڑھ سمجھا جاتا تھااور جیراڈ سٹریٹ کو ساؤتھ ایشین کمیونٹی بشمول پاکستا نی کمیونٹی ، کھانے پینے اور شاپنگ کے لئے مرکزی حیثیت حاصل تھی۔
وقت کے ساتھ ساتھ پاکستانی، سکاربرو کے علاوہ نارتھ پارک،مسی ساگا،ایٹوبیکوک، رچمنڈہل،برامپٹن،مارکھم،ایجیکس اور دوسرے علاقوں میں بھی رہا یُش پذیر ہونا شروع ہو گئے، اور جیراڈ بازار کی طرح کے بازار ہر علاقہ میں کھل گئے ہیں۔
کینیڈا میں پاکستانیوں کی تعداد پہلے بہت کم تھی لیکن گزشتہ چند سالوں سے اس میں بتدریج اضافہ ہو ا ہے ۔ ابتدائی طور پر تعداد میں کمی اور شہروں کے پھیلاؤکے سبب پاکستانی ابھی تک بہت منتشر تھے لیکن ادھر کچھ عرصے سے یہ منظم ہو رہے اور کینیڈین معاشرے میں بطور کمیونٹی ان کے خدو خال رفتہ رفتہ واضح ہو رہے ہیں۔
ویسے بھی کینیڈا میں اس کا شمار ایک ہنر مند اور اعلی تعلیم یافتہ کمیونٹی میں ہوتاہے، اورمسلمان ہونے کے ناطے یہ دنیا بھر سے آئے ہوئے کینیڈین مسلم کمیونٹی کا ایک موثّر حصّہ سمجھے جاتے ہیں۔
۱۹۵۰ ء میں پاکستانیوں کے کینیڈا آنے سے قبل یہا ں کے شہر ایڈمنٹن میں الراشد مسجد تھی جو۱۹۳۰ء میں لبنانیوں نے تعمیر کی تھی۔ پاکستانیوں نے اس مسجد کو نئے سرے سے آباد کیا اور اس طرح سے ا جتماعی سرگرمیوں کی ابتداء کی۔
ایک اندازہ کے مطابق الحمدللہ اس وقت کینیڈا میں ۱۰۰کے قریب مسجدیں اور دینی مراکز موجود ہیں جن کو بنانے اور چلانے میں زیادہ تر پاکستانی پیش پیش ہیں۔ ان میں سے مدینہ مسجد، الفلاح مسجد، نگٹ مسجد، مسجد فاروق،کوپر مسجد، اوربرامپٹن کی مسجد قابل ذکر ہیں۔ ان مسجدوں اور دینی مراکز کے علاوہ دس بارا اسلامی اسکول بھی مستقل بنیا دوں پر چل رہے ہیں۔
دیکھا جائے تو ان مسجدوں، اسلامی مرکزوں اور مدرسوں کی بدولت پاکستانی کمیونٹی کو اپنے آپ کو منظم کرنے میں بہت مدد ملی ہے
حلال گوشت اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی میں اب کوئی دقت نہیں ہے جیسے ابتداء میں ہوتی تھی۔پاکستانی لباس،دیسی دوائیں اور روز مرہ کے استعمال کی دیگردیسی چیزیں بھی ا ب وافر مقدار میں ، اور مناسب داموں میں باآسانی دستیاب ہیں۔
اور اس سلسلے میں اب کمیونٹی ہر طرح سے بے فکر ہے۔
 شروع شروع میں لوگوں کی ضروریات اور وقت کے تقا ضوں کو محسوس کرتے ہوئے کافی لوگوں نے محدود پیمانہ پر مختلف قسم کے کاروبار کا آغاز کیا، اور ان میں سے بیشتر اب بہت کامیابی سے کینیڈین مارکیٹ میں قدم جما چکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت صرف ٹورنٹواور اسکے نواح میں کمیونٹی کی۹۰۰سے زیادہ دکانیں اورمختلف طرح کے ذاتی کارو بار ہیں۔

پرنٹ میڈیا لوگوں کو منظم کرنے کا ایک بہت موثر ذریعہ ہے ۔ اس حوالے سے پاکستانیوں نے کا فی پیش رفت کی ہے ۔اس وقت ۲۰ کے قریب اخبارات نکل رہے ہیں ۔ ایک پاکستانی اردو ہفتہ وار اخبار اپنے اجراء کے پچیس سال پورے کر چکا ہے جو ہر لحاظ سے قابلِ تحسین ہے۔ گو کہ اخبارات کی تعداد کافی ہے لیکن زیادہ تر اخبارات ابھی تک مقامی خبروں کو بہت کم جگہ دیتے ہیں۔
بلکہ زیادہ تر اخبارات کے مطالعہ سے یہ لگتا ہے کہ آپ پاکستان سے چھپنے والا کوئی اخبار پڑھ رہے ہیں۔
پرنٹ میڈیا کے علاوہ پاکستانی ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر بھی کافی سرگرم ہیں۔کینیڈین ٹیلی ویژن پر چند اچھے اردو پروگرام پیش کئے جا رہے ہیں۔ ریڈیو والے کافی عمدہ پروگرام پیش کر رہے ہیں اور مقامی مسائل سے متعلق لوگوں کو بہت اچھی معلومات بہم پہنچا رہے ہیں اور پرنٹ میڈیا سے بہتر کارکردگی پیش کر ہے ہیں
اردو ادب کے حوالے سے بھی پاک کینیڈین برادری کافی متحرک ہے۔
اس وقت صرف شہر ٹورانٹو ہی میں چار پانچ ادبی تنظیمیں ہیں جو اکثر اپنے پروگرام منعقد کرتی رہتی ہیں ۔تفریحی اور ثقافتی سرگرمیوں کے حوالے سے بھی اب پاکستانی کسی سے پیچھے نہیں ہے بلکہ دیکھا جائے تو اب بہت سارے میلے،پکنک،اور ثقافتی شو وغیرہ سالانہ بنیادوں پر بھی ہو رہے اور اس میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد بہت جوش و جذبہ کے ساتھ شریک ہوتی ہے۔

فلاحی کاموں کا سلسلہ بھی بہت عرصے سے جاری ہے۔ اس وقت کئی ایسے پاکستانی ادارے ہیں جوبراہ راست یا دوسرے اداروں کے ساتھ ملکر کافی فلاحی کام کر رہے ہیں۔ ان میں میت کی تجہیز و تکفین، ضرورتمند خاندانوں کے لئے گروسری کی فراہمی، بے سہارا خواتین اور بچوں کے لئے رہنے اور خوراک کا بندوبست اور اسی طرح کے د یگر فلاحی کام شامل ہیں۔
پاکستانیوں نے سیاست کے میدان میں بھی کافی پیش رفت کی ہے۔
الیکشنوں میں کئی پاکستانی امیدوارسا منے آئے۔ جن میں سے کچھ نے مرکزی ،صوبائی اور بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور اس طرح مستقبل میں سیاست کے راستے کے لئے اچھی خاصی فضا ہموار کر دی ہے۔ اب یہ آنے والوں کا کام ہے کہ وہ آئندہ اس سے کس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں
یہ صحیح ہے کہ پاکستانی برادری نے کینیڈین معاشرے میں اپنے قدم جمانے شروع کر دئیے ہیں لیکن یہ ابھی صرف ابتداء ہے ۔دیکھا جائے تو کمیونٹی کو کینیڈین معاشرے کے مرکزی دھارے میں موثر شرکت حاصل کرنے کے لئے ایک طویل سفر طے کرنا ہے۔ اس وقت جس طرح کے انفرادی اور اجتماعی مسائیل درپیش ہیں جن کاجلد از جلد حل کیا جانا ضروری ہے۔

Chapters / Baab of Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem