Episode 29 - Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem

قسط نمبر29 - باتیں کینیڈا کی (ایک پاکستانی امیگرینٹ کی زبانی) - فرخ سلیم

میرے لئے اس وقت کتابوں کی خریداری ایک مسئلہ تھی کہ کتابوں کی قیمت بورڈ پر تقریباً پانچ سو ڈالر لکھی تھی اور میرے بجٹ میں اس کی قطعی گنجائش نہ تھی۔ مجھے اپنے حوصلہ پست ہوتے ہوئے معلوم ہوئے اور وقتی طور پر پیدا ہونے والاجوش ٹھنڈا ہونے لگا۔ میں دوبارہ کتابوں کی فہرت کا جائزہ لینے لگا تو مجھے اس میں نیچے ایک نوٹ لکھا نظر آیا کہ OSAP کی درخواست دینے والے لوگ ( یعنی مجھ جیسے لوگ) قیمت کی ادائیگی بعد میں کرسکتے ہیں۔
مجھے کالج کی انتظامیہ پر پیار آنے لگا اور حوصلے دوبارہ جوان ہونے لگے۔
 میں نے فوراً کتابوں کی دکان کا رخ کیا، اپنے داخلہ کی رسید دکھائی اور پانچ منٹ میں میرے کورس کا پورا تھیلا میرے ہاتھ میں تھا۔ اسکی فوراً بعد میں استقبالیہ کا رخ کیا۔

(جاری ہے)

وہاں کاؤنٹر پر بیٹھی خاتون نیخود کار کیمرہ سے میری تصویر لی اور کہا کہ پیر کو جب کالج ائیں تو یہاں سے اپنا شناختی کارڈلے لیں ۔


 لیجئے صاحب ہم اب کینیڈین درسگاہ کے باقاعدہ طالب علم بن گئے۔ پتہ نہیں اب اس عمر میں پڑھائی ہو بھی سکے گی یا نہیں۔ یونیورسٹی سے نکلے ایک مدت ہو گئی، بڈھے طوطے ویسے بھی بہت بدنام ہیں۔
کالج بہت طویل و عریض رقبہ پر پھیلا ہوا ٹھا۔ بے شمار بلڈنگ بلاکس تھے جو اندر اہی اندر ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے۔ کچھ بلاکس تین منزلہ بھی نظر آرہے تھے۔

کاؤ نٹر پر سے مجھے کالج کا ایک نقشہ بھی دیا گیا تھا اور ہدایات تھیں کہ اس نقشہ کے مطابق طالب علم کالج کا خود سے ایک چکر لگا لیں اگر کچھ مشکل پیش آرہی ہو تو کسی رضاکار سے رجوع کریں ۔
 رضاکاروں نے ایک لال رنگ کی پیٹی باندھ رکھی تھی جس پر موٹے موٹے الفاظ میں" والنٹیئر" لکھا ہوا تھا۔ میں نے نقشہ کے مطابق خود ہی اطراف کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔
یہاں تو پوری ایک دنیا تھی۔کمپیوٹر روم، لائبریری، سٹوڈنٹ روم، کافی کلب، وینڈنگ مشینز، فوٹو کاپی روم، بر گرز شاپ، لاکرز، گیمز روم، ریڈنگ رومز، کارپارکنگ کی بکنگ کہاں سے ہوگی؟ لاکر کی چابی کہاں سے ملے گی، شکایت کہاں درج ہونگی؟ انتظامیہ کے دفاتر ، اساتذہ کے دفاتر اورملٹی فیتھ روم۔
یہ ملٹی فیتھ روم کیا ہے؟ مجھے ذرا کھوج ہوئی۔ میرے حساب سے کثیرالعقیدوں کا کمرہ
ایک رضا کار سے پوچھا تو وہ مسکرایا
 کہنے لگا "کیا تم مسلم ہو؟ "
ہم نے کہا "ہاں"
لیکن مجھے اسکے سوال پر بہت حیرت ہوئی۔

 وہ میری حیرت تاڑ گیا۔ کہنے لگا
" اسکمرے میں زیادہ تر مسلم ہی جاتے ہیں اور تو شاید ہی کبھی اس کمرہ کا رخ کرتا ہو"
 اس نے مجھے پتہ سمجھا دیا۔ انٹر فیتھ روم ڈھونڈ کر اندر جا کر دیکھا تو اچھا خاصا کشادہ کمرہ تھا ۔اس کمرہ میں کسی بھی مذہب اور کسی بھی فرقہ کا شخص اپنے طور پر عبادت کر سکتا ہے۔
 میں نے ایک کونہ میں جاء نمازیں بھی دیکھیں اور ایک الماری میں کچھ اسلامی کتابیں بھی نظر آئیں۔
یہ سب کچھ دیکھ کر دل کو بہت طمانیت ہوئی اور کالج والوں کے لئے دل سے کلمہ خیر نکلا۔ انہوں نے تو اپنا کام کر دیا اب ہم عبادت کریں یا نہ کریں۔
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
 من اپنا پرانا پاپی ہے ، برسوں میں نمازی بن نہ سکا
کلاس میں مجھسمیت کل ۲۴ طلباء تھے، اور آدھی سے زیادہ کلاس مجھ جیسے بڈھے طوطوں پر مشتمل تھی۔
تقریباً ہر عمر اور ہر نسل کے طوطے۔ زیادہ تر امیگرینٹ تھے ۔ خواتین کی تعداد زیادہ تھی۔
ہرطالب،علم کے لئے ایک کمپیوٹر تھا ۔ آپ کسی بھی کمپیوٹر پر بیٹھ کر کالج کی طرف سے دئے ہوئے مخصوص پاس ورڈ کے ساتھ اپنے کورس کی ویب سائٹ میں داخل ہو سکتے تھے۔
 پہلی کلاس میں ٹیچر نے سب سے اپنا مختصر تعارف کرانے کو کہا۔ تعارف شروع ہوا تو اندازہ ہوا کہ اس میں کافی لوگ اپنے میدان میں بہت مہارت رکھتے تھے، لیکن زبان کی مشکلات، کمییوٹر کی مہارت میں کمی یا کینیڈین تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے ملازمت حاصل کرنے میں ناکام ہونے کے بعد دوبارہ پڑھائی کا رخ کرر ہے ہیں۔

میری باری آ ئی تو میں نے اپنا بہت مختصر سا تعارف پیش کیا۔زیادہ بولنا بھی اچھا نہیں ہوتا ۔ پتہ نہیں آگے چل کر کیا صورتِ حال ہو۔ انسان میں انکساری بھی ہونی چاہئے۔
کالج کی پڑھائی میرے گمان سے زیادہ مشکل ثابت ہو رہی تھی ۔ روزانہ چار گھنٹے کی کلا س پھر ہوم ورک۔ پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ ہفتہ کب شروع ہوا،اور کب تمام ہوا۔ اپنی مہارت توکورس شروع ہونے کے پہلے ہی دن ختم ہو گئی تھی۔
وہ تو اللہ بھلا کرے ہمارے ایک دو ساتھیوں کا انہوں نے نے میری بہت رہنمائی کی۔
 مجھے کالج جاتے ہوئے تین ہفتے ہوئے توایک دن دیکھا کہ دو تین جگہوں پر اطلاعات لگی تھیں کہ قرضیے کے امیدوار رابطہ کریں۔اسوقت توموقع نہیں تھا اسلئے میں اپنی کلاس ختم کرنے کے بعددفتر پہنچ گیا اور نمبر ٹوکن لے کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔ مجھ جیسے کافی طلباء تھے۔
تقریباً آدھے گھنٹہ کے بعد میرا نمبر آیا۔ کونسلر نے میرا سٹوڈنٹ کارڈ مانگا،فائل میں سے میری قرضہ کی درخواست نکالی اور کہنے لگی
" آپ کی درخواست منظور ہو گئی ہے اور اب آپ کو بقیہ کاروائی کے لئے اپنے بینک کی شاخ سے رابطہ کرنا ہو گا"
یہ کیساملک ہے بھائی۔ قرضے اور وہ بھی طلباء کے، اتنی آسانی سے منظور ہو جاتے ہیں؟
بعد میں مجھے پتہ چلا کہ چونکہ یہ کل وقتی کورس ہے اس لئے یہ فرض کیا گیا ہے کہ آپ پڑھائی کے ساتھ نوکری کے متحمل نہیں ہو سکتے ، آپ کو اس دوران گھر چلانے کے اخراجات بھی قرضہ میں شامل ہیں۔
آپ کو یہ کورس پاس کرناہے، فیل ہونے کی صورت میں آپ سے مکمل رقم کی ادائیگی کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے۔مطلب یہ ہے کہ سرکار نے آپ کو یکسوئی سے پڑھائی کے لئے تمام سہولیات مہیا کی ہیں، آپ کو ایمانداری سے پڑھنا ہے اور پاس ہونا ہے، ورنہ پیسے واپس۔ ہم نے دل میں سوچا کہ ہم جس ملک سے آئے ہیں وہاں قرضہ لے کر واپس کرنے کی کچھ ایسی قابلِ رشک روایات نہیں ہیں۔
جب واپسی کا وقت آئے گا
تو دیکھا جائیگا۔
میں دوسرے دن کالج ختم کرنے کے بعد بینک پہنچ گیا۔ بینک والوں نے کاغذات دیکھے، اکاؤنٹ نمبر اور گھر کے پتے کی تصدیق کی، کاغذات پر ہمارے دستخط کرائے ، دو کاپیاں اپنے پاس رکھیں اور ایک کاپی ہمیں واپس کر دی۔
 میرا خیال تھا کہ کالج کی فیس، کتابوں ،دیگر ضروری اخراجات اور بلوں کی ادائیگی کے بعد قرضہ میں سے جو رقم بچ رہی تھی اس سے فوری طور پرگاڑی خرید لینی چاہئے۔
اس وقت جو ہم بسوں اورآمدو رفت کے حساب میں جوڈھائی تین سو ڈالرخرچ کر رہے اتنے ہی میں گاڑی کا پیٹرول(یہاں کی زبان میں گیس) ، انشورنس اور چھوٹی موٹی مرمت کے اخراجات نکل جائیں گے اور بغیر گاڑی کے جو بسوں میں وقت برباد ہوتا ہے وہ بچ جائگا، گروسری وغیرہ لانے میں جو قباحتیں ہیں وہ دور ہو جائیں گی ۔ لوگوں سے میل ملاقات ہو سکے گی۔ فی الحال تو ہم لوگ گھر میں ( گھر کیا بیسمنٹ) بند ہو کر رہ گئے ہیں۔
گاڑی خرید لیں تو چھوٹے صاحبزادے کو مدرسے میں داخل کرائیں۔ پہلے ہی کافی وقت ضائع ہو گیا ہے۔
گاڑی خریدنا اور ہم جیسے امیگرینٹ کے لئے، جس کا بجٹ بھی محدود ہو اور مارکیٹ کی معلومات بھی نہ ہوں ، ایک بڑا مسئلہ تھا۔ اخبار کھنگالے تو پتہ چلا کہ ہر طرح کی ہر قیمت کی گاڑیانں برائے فروخت ہیں لیکن جو بات سمجھ میں نہیں آئی وہ یہ تھی کہ کچھ گاڑیاں 'جہاں ہیں اور جیسی ہیں' کی بنیاد پر برائے فروخت تھیں، ان کی قیمت کم تھی۔
نسبتاًگاڑیوں میں سیفٹی اور ماحولیاتی (امیشن ) ٹسٹ شامل تھا۔ یہ سیفٹی اور امیشن ٹیسٹ کا کیا ڈرامہ ہے، جن کی وجہ سے قیمت اوپر چلی جاتی ہے؟
 بڑے صاحب زادے فوراً متحرک ہو گئے۔ اس سلسلے میں ان کی معلومات بھی تھیں اور بذاتِ خود فوری طور پر وہ ڈرائیونگ لائسنس کے امیدوار بھی تھے۔
 سیفٹی کی بات تو فوراً ہی صاف ہوگئی کہ یہ ایک قسم کا فٹنس سرٹیفیکٹ ہے جو مکینک یا گیراج گاڑی کو چیک کرے گا، اس بات کو یقینی بنائے گا کہ گاڑی سڑک پر چلنے کے لئے محفوظ ہے، بریک وغیرہ ٹھیک ہیں۔
امیشن ایک ماحولیاتی مسئلہ ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ گاڑی معیار سے زیادہ تو دھواں خارج نہیں کر رہی۔
انشورنس بھی خاصی مہنگی لگ رہی تھی۔ میں نے انشورنس ایجنٹ سے کہا
" بھئی مجھے تو دو تین سال میں گاڑی کی قیمت سے زیادہ انشورنس دینی پڑے گی"۔
" بات صرف گاڑی کی قیمت کی ہی نہیں ہے، انشورنس اس لئے مہنگی ہے کہ اگر کوئی ایکسیڈنٹ ہو جائے اور خدانخواستہ کوئی معذور ہو جائے تو انشورنس کمپنی زندگی بھر اس کا خرچہ پانی دے گی" انشورنس ایجنٹ نے کہا
بات معقول تھی۔

انشورنس کے بعد گاڑی کی رجسٹریشن ، سالانہ ٹیکس اور نمبر پلیٹ کا بھی مرحلہ تھا۔
 کیوں بھئی جب ہم گاڑی خریدیں گے تو کیا پرانا مالک اس کی نمبر پلیٹ اتار لے گا ، یہ کیا بات ہوئی؟
پتہ یہ چلا کہ نمبر پلیٹ گاڑی کی نہیں بلکہ مالک کی ملکیت ہوتی ہے۔ آپ گاڑی خریدیں تو اپنی نمبر پلیٹ بھی خریدیں۔ بہرحال سارے مرحلے بخوبی طے ہو گئے تو مجھے اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہو گیا کہ یہ ایک انتہائی عمدہ نظام ہے، اس میں کسی بھی مرحلہ پر کسی قسم کی بے جا رکاوٹ ، دھاندلی یا رشوت ستانی کو کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کام صحیح ہے تو کوئی اڑنگا نہیں لگ سکتا، کام غلط ہے تو کوئی کروا نہیں سکتا۔

Chapters / Baab of Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem