Episode 39 - Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem

قسط نمبر39 - باتیں کینیڈا کی (ایک پاکستانی امیگرینٹ کی زبانی) - فرخ سلیم

کہیں دیر نہ ہو جائے؟
شام کا وقت تھا، میں دفتر سے آنے کے بعد اخبار پڑھ رہا تھا اور چائے سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ چھوٹے صاحبزادے سامنے کرسی پر آکر بیٹھ گئے اور میری طرف دیکھنے لگے۔ مجھے انداز ہ ہو گیا کہ کوئی خاص فرمائش ہے یا کوئی بڑا مسئلہ درپیش ہے
"کیا بات ہے؟" میں نے پوچھا
"میں اخبار بانٹوں گا" جواب ملا
 "کیاپیسوں کی ضرورت ہے؟" مجھے ذرا فکر ہوئی
"ہاں پیسے بھی ملیں گے"
میں نے اخبار ایک طرف رکھ دیا کیا ۔
مسئلہ کچھ گھمبیر سا لگ رہا تھا۔
تفصیل میں جانے سے پتہ چلا کہ ان کے ایک کلاس فیلو یہ کام کر رہے تھے اور وہ چونکہ اس علاقہ سے کہیں اور جا رہے ہیں ، اس لئے انہوں نے یہ کام ازراہِ دوستی ان کو آفر کر دیا تھا۔

(جاری ہے)

ہفتے میں ایک دن یعنی جمعرات کو گھرگھر جا کر ۶۰، ۷۰اخبار بانٹنے تھے۔ اخبار کیا تھا یہ اشتہاروں پر مشتمل ایک ہفتہ وار پلندہ تھا جو مفت تقسیم کیا جاتا تھا۔

تقریباً ایک گھنٹے کاکام تھا۔اور اس کا م کا معاوضہ بمشکل ۱۰ ڈالر بن رہا تھا۔ جس علاقہ میں اخبار تقسیم کرنا تھے، وہ گھر سے زیادہ دور نہیں تھا۔ جمعرات کے دن صبح اخباروں کا بنڈل ہمارے اپارٹمنٹ کے دروازہ پر مل جائے گا۔ پیسوں کی ادائیگی براہِ راست بنک اکا وئنٹ میں ہوگی۔ حضرت ساری تفصیل لائے تھے اور پکا کام کر کے آئے تھے۔
میرے اندر کی جھوٹی اناجسے میں اپنے طور پر مدتوں پہلے دفن کر چکا تھا آڑے آئی۔
یہ دن آگئے ہیں، اب میرا بچہ گھر گھر اخبار بانٹے گا۔کیوں وہ دن بھول گئے جب فیکٹری کی جاب کے لئے گئے تھے دو گھنٹے انتظار کیا اور پتہ چلا کہ کوئی جاب نہیں دوسرے دن آنا۔ مجھے جھر جھری سی آ گئی
"کب سے شروع کرنا ہے" میں نے پوچھا
"اس جمعرات سے" جواب ملا
"ٹھیک ہے چلیں گے"
جمعرات آ گئی ۔دفتر میں میرے پاس کافی کام تھا ، ایک رپورٹ میں ساتھ لے آیا جو مجھے کل پیش کرنی تھی۔
میں نے ابھی اپنا کام شروع کر ہی رہا تھا کہ حضرت تشریف لے آئے
"چلیں اخبار بانٹنے"
میرا توخیال تھا ، وقتی بات ہے حضرت بھول جائیں گے۔ بات میرے ذہن سے اتر بھی گئی تھی۔اب کیا کروں ؟ اس وقت میرے پاس کام بھی کافی ہے۔
میں نے بیگم کی طرف دیکھا۔ وہ ساری کہانی سے واقف تھیں
"چلیں آج میں چلی چلتی ہوں۔ اگلے ہفتے سے آپ دونوں خود ہی کریں۔ یہ میرا کچن کا ٹائم ہوتاہے"
میرے لئے اتنی مدد کافی تھی۔
جگہ نزدیک ہی تھی۔ میں نے گاڑی کھڑی کر دی۔ ان دونوں نے اخبار اٹھائے اور بانٹنا شروع کر دئے اورمیں گاڑی میں ہی بیٹھ کر اپنی رپورٹ پر کام کرنے لگا۔ تقریباً ایک گھنٹے کے بعد جب دونوں لوٹے تو بیگم تو بہت تھکی ہوئی لگ رہی تھیں، لیکن صاحبزادے بہت خوش تھے۔
اگلے ہفتہ خالصتاً میری ڈیوٹی تھی میں نے وہیں پرانی جگہ گاڑی پارک کی ، اخبار اٹھائے ہی تھے کہ صاحبزاے کہنے لگے
" آپ اس لائین سے شروع کریں، میں دوسری لائین میں چلا جاتا ہوں"
"اس لائین میں کیوں؟"
"کیونکہ اس لائین میں ۲۴ نمبر مکان میں بہت بڑا کتا ہے"
میرے تو دیوتا کوچ کر گئے۔
مجھے ایک دفعہ کتا کاٹ چکا تھا، میرے پیٹ میں انجکشن لگ چکے تھے اسلئے میں کتوں سے کافی خوفزدہ رہتا تھا۔
دو مکانوں میں اخبار ڈالے ہی تھے کہ ۲۴ نمبر مکان آگیا۔ مکان کے باہر سے ہی کتے کی بھونکنے کی آواز آ رہی تھی۔ نزدیک پہنچا تو مکان کی دیوار پر بورڈ لگا تھا
' اس گھر میں کتا ہے، خبردار رہیں'
 میرے رہے سہے حواس بھی جاتے رہے۔ میں نے ڈرایئو وے پر قدم رکھنے کا ارادہ ترک کر دیا اور ایسی جگہ ڈھونڈنے لگا جہاں سے میں اخبار اس طرح پھینکوں کہ سیدھا برآمدے میں جا گرے۔
جیسے ہی مجھے ایسا موقعہ ملا ، میں نے اخبار کو رول کر کے پھینکبرآمدے کی طرف اچھال دی۔زمین پر اخبار گرنے کی آواز کے ساتھ ہی کتے نے غدر مچا دیا اور میں باہر کی طرف سرپٹ بھاگا۔
 باہر آکر کچھ دیر سانس درست کی اور اگلے مکان کی طرف چل پڑا۔یہاں بڑے بڑے مکان تھے، لمبے لمبے ڈرائیو وے اور پھر برآمدہ۔ مجھے یہ بھی فکر تھی کہ کسی مکان میں ڈرائیو وے سے چل کر ان کے برآمدے میں جانا مناسب بھی ہے یا نہیں۔
لیکن زیادہ تر میل باکس برآمدہ میں ہی تھے، اس لئے مجبوری تھی۔اکثرگھروں میں باہر کوئی نہیں تھا۔ ایک آدھ جگہ اگر کوئی باہر نظر بھی آیا تو اس نے ہائے ہیلو کر لی میں بھی اخبار ڈال کر نکل آیا ۔
 میرا حوصلہ بڑھ چکا تھا، اب صرف دو گھر باقی تھے۔آخری گھر دیکھنے میں بہت عالیشان تھا، لیکن اسکے مکین شائد لاپرواہ لوگ تھے۔لان کی گھاس بھی بڑھی ہوئی اور باڑھیں بھی بے ترتیب تھیں۔
برآمدے میں ایک بڑے میاں بیٹھے ہوئے کافی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر مسکرائے اور اخبار کے لئے ہاتھ بڑھا دیا۔
"شائد میں تمہیں آج پہلی دفعہ دیکھ رہا ہوں"
"ہاں آج میرا پہلا دن ہے"۔ میں نے جواب دیا۔
بڑے میاں کچھ باتیں کرنے کے موڈ میں تھے لیکن مجھے کار تک پہنچنے کی جلدی تھی تاکہ بیٹے کو انتظار نہ کرنا پڑے۔ اگلے ہفتہ بھی کچھ اسی طرح ہوا کہ میں بڑے میاں سے زیادہ بات چیت نہیں کر سکا لیکن مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ اس بڑے مکان کے تنہا مکین ہیں۔

اگلا ہفتہ کرسمس سے پہلے کا ہفتہ تھا۔ بیٹا بیمار تھا ، اسے اخبار بانٹنے کے لئے لانا مناسب نہیں تھا ۔ اخبار کا ناغہ بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، اسلئے میں نے تنہا اخبار بانٹنے کا فیصلہ کیا۔ جب میں بڑے میاں کے مکان پر پہنچا تو کافی دیر ہو چکی تھی لیکن بڑے میاں برآمدے میں بیٹھے ہوئے تھے۔
"میں تو سمجھا تھا کہ آج تم نہیں آؤگے، ویسے بھی مجھے نہیں لگتا کہ یہ تمہاری روزی روٹی ہے۔
تم یہ کام کیوں کرتے ہو ؟اس میں تو کچھ زیادہ پیسے تو نہیں ملتے"
ٓ"اصل میں یہ میں اپنے بیٹے کے لئے کر رہا ہوں ورنہ شام میں تو میں گھر سے نکلنا بھی پسند نہیں کرتا"
یہ کہہ کر میں نے انہیں اخبار بانٹنے کی وجہ تسمیہ بتائی۔ میری بات سنتے سنتے ان کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا
"تم مشرقی بھی عجیب لوگ ہو۔ ایک میں ہوں جس نے کبھی اپنے اکلوتے بیٹے کی پرواہ نہیں کی۔
میں اپنے بزنس میں مصروف رہا اور آخر وہ گھر چھوڑ کر چلا گیا اور آج تک واپس نہیں آیا"
یہ کہہ کر انہوں نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا۔ انکی کہانی کا لبِ لباب یہ تھا کہ وہ ایک کامیاب بزنس مین تھے۔ وہ دولت کمانے میں مصروف رہے اور بیگم دولت خرچ کرنے میں۔ دونوں کے پاس ننھے ڈیوڈ کے لئے وقت نہیں تھا۔ وہ آیا اور ٹی وی کی رفاقت میں بڑا ہوا اور ۱۷ سال کی عمر میں گھر چھوڑ کر چلا گیا۔
پہلے ان کاخیال تھا کہ اس گھر کا سا عیش اسے کہاں ملے گا خود ہی گھوم پھر کر لوٹ آئے گا۔ لیکن آج تیرا سال ہو گئے ہیں وہ نہیں آیا۔ صرف کرسمس پر فون کرتا ہے۔وہ اپنی ماں کے انتقال پر بھی گھر نہیں آیا ۔
کرسمس گزر گیا ۔ آج جب میں اور میرا بیٹا پھر اخبار بانٹنے نکلے تو میرا بیٹا کہنے لگا
" ذرا جلدی آ جائیے گا۔ مجھ سے کھڑا بھی نہیں ہوا جا رہا ہے"وہ ابھی تک بیماری سے پوری طرح صحت یا ب نہیں ہو ا تھا۔

بڑے میاں کا برآمدہ خالی تھا اور مکان پر برائے فروخت کا بورڈ لگا ہو اتھا۔ مجھے خوش گمانی ہوئی کہ شائد اس کرسمس پر ڈیوڈ گھر آیا ہو گا بڑے میاں کو اپنے ساتھ لے گیا ہو گا اور گھر بیچ رہا ہو گا۔ میں اخبار ہاتھ میں لئے سوچ رہا تھا کہ کیا کروں کہ ساتھ والے پڑوسی نے کہا
"اب یہاں آئندہ اخبار ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے ۔بڑے میاں گزر گئے ہیں، ان کی وصیت کے مطابق مکان بیچا جا رہا ہے۔
پیسہ چرچ کو چلا جائے گا"
"اور ان کا بیٹا ڈیوڈ۔ کیا اسے پتہ ہے؟"
"نہیں اس نے تو اس کرسمس پر فون بھی نہیں کیا۔ بڑے میاں کرسمس کی رات دیرتک ٹیلیفون کے پاس بیٹھے رہے اور اسی حالت میں گزر گئے" پڑوسی نے کہا
میں مڑ کر گاڑی کی طرف بھاگا جہاں میرا بیٹا میرا انتظار کر رہا تھا۔ مجھے فکر تھی کہ کہیں مجھے دیر نہ ہو جائے!

Chapters / Baab of Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem