Episode 54 - Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem

قسط نمبر54 - باتیں کینیڈا کی (ایک پاکستانی امیگرینٹ کی زبانی) - فرخ سلیم

کلچرشاک
جب مجھے پہلی دفعہ بتایا گیا کہ میں کلچرشاک کا شکار ہوں تو میری سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کلچرشاک کیا بلا ہے؟میں ایک اچھا بھلا صحت مند شخص ہوں، میں اسکا شکار کیسے ہو سکتا ہوں۔ تھوڑی تفصیل میں جانے اور اپنی ذات کاتجزیہ کرنے کے بعد احساس ہوا کہ بات کسی حد تک صحیح ہے
جب ایک امیگرینٹ کسی دوسرے معاشرہ میں داخل ہوتا ہے تو اسے نت نئے تجربات سے گزرتا پڑتاہے جو اس کی زندگی پر منفی اور مثبت دونوں طرح کے دوررس، اثرات مرتب کرتے ہیں۔
اس قسم کے تجربات ، محسوسات، عمل اور ردِ عمل کی وضاحت کے لئے سوشل سائنٹسٹ ، ماہرِ نفسیات اور دیگر متعلقہ افراد نے مختلف اصطلاحات وضع کی ہیں جن میں سے ایک کلچرل شاک بھی ہے۔

(جاری ہے)


کلچرشاک ایک طرح کی جسمانی ، اور جذباتی بے اطمینانی ہے جو کلچر کی تبدیلی کے سبب لوگوں پیدا ہوتی ہے۔ یہ ایک ا یسی کیفیت ہے جسے ہوم سکنس Home Sickness یا جیٹ لیگ کی طرح محسوس کرنا آسان، لیکن بیان کرنایا سمجھانا کافی مشکل کام ہے۔

اس کی کچھ واضح علامات مندرجہ ذیل ہیں:
غمگینی کی کیفیت، تنہائی کا احساس، غصہ، جھنجلاہٹ، ڈپریشن، عدمِ تحفظ کا احساس، اعتماد کی کمی،ذاتی تشخص کی گمشدگی، نئے کلچر کا خوف اور ناپسندیدگی، بے سمتی یا گمشدگی کا احساس اور اپنی شخصیت کا ادھورا پن وغیرہ۔
کلچرشاک کوئی اچانک نمودار یا پیدا ہونے والی کیفیت نہیں ہے۔ اس کا اثر آہستگی سے اور کئی مراحل میں ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اسکے مختلف مراحل مندرجہ ذیل ہیں۔
پہلا مرحلہ بہت گرمجوشی کا ہے۔ اسے ہنی مون کا موسم بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس مرحلہ میں ہر چیز بہت خوبصورت نظر آتی ہے۔ تمام باتیں نئی اور دلپسند لگتی ہیں۔ موسم ، شہر، لوگ، عمارتیں، آسائشیں اور ماحول غرضیکہ ہر چیز لبھانے والی ہوتی ہے۔ لیکن افسوس !ر ہنی مون کا یہ موسم بہت جلد ختم ہو جاتا ہے
 اسکے بعد دوسرا ذرا مشکل مرحلہ شروع ہوتا ہے۔
اس مرحلہ میں نئے آنے والے کو مشکلات پیش آناشروع ہو جاتی ہیں۔ زبان وبیان کی مشکلات، کلچر سے ناواقفیت، نئی جگہ نئے لوگ۔ چیزوں کاتوقع کے مطابق ظہو ر پذیر نہ ہونا۔ ٹرانسپورٹ، رہائش، اور نوکری کی تلاش کی مشکلات ا ور ا سطرح کے دیگر مسائل وغیرہ۔ اس زمانہ میں اداسی، غصہ، جھنجلاہٹ او ربے اطمینانی عروج پر ہوتی ہے۔ اپنی ذات پر سے اعتماد اٹھنے لگتا ہے اور بعض دفعہ اپنے فیصلے پر پچھتاوے کا احساس ہونے لگتا ہے۔
امیگرینٹ کی زندگی کا یہ سب سے اہم مرحلہ ہے۔ا گر اس زمانہ میں خود پر قابو نہ پایا جائے تو اس کے انددہناک نتائج نکل سکتے ہیں
تیسرا مرحلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب انسان نئے کلچر سے کچھ مانوس ہو جاتا ہے۔ زندگی میں کچھ رنگ اور نئے زاویے نظر آنے لگتے ہیں اس مرحلہ پر انسان کو اپنی زندگی میں ذراتوازن سا محسوس ہونے لگتا ہے ا ور نفسیاتی الجھنوں میں بھی کمی ہونے لگتی ہے۔
زندگی میں کچھ مقصد دکھائی دینے لگتا ہے اور سارے مسائل کے کچھ نہ کچھ حل دکھائی دیتے ہیں۔
چوتھے مرحلہ میں امیگرینٹ کو اس بات کا ادراک ہونے لگتا ہے کہ نئے معاشرے میں کچھ اچھائیاں اور برائیاں ہیں اور حقیقتیں کیا ہیں اور یہاں سے وہ خود کو حالات کے نئے تقاضوں نکے مطابق شعوری طور پر جدوجہد شروع کر دیتا ہے۔ ان تمام مراحل میں لوگ اپنے مزاج، حالات اور شخصیت کے لحاظ سے ردِعمل کااظہار کرتے ہیں اور اسی حساب سے اثر قبول کرتے ہیں
جب میں اپنے حالات پر غور کرتا ہوں تو کلچر شاک کے سارے مراحل مجھے اپنی امیگرینٹ زندگی میں بالکل اسی طرح نظر آتے ہیں، جس طرح بیان کئے گئے ہیں
سوشل ورک کی ۴۵۰ گھنٹی کی عملی تربیت میرے ڈگری پروگرام کا ایک حصہ تھااور یہ عملی تربیت مجھے کسی ایسے ادارے میں کر نی تھی جو سماجی کام کرتا ہو ، اچھی ساکھ رکھتا ہو، اور اس کے پاس ماسٹرز ڈگری رکھنے والا کم ازکم ایک ایسا سوشل ورکر ہو جو میری رہنمائی کر سکتا ہو۔
یونیورسٹی کے پاس ایسے اداروں کی ایک جامع فہرست تھی، لیکن اگر میں چاہوں تو میں کسی اور دارے کا بھی انتخاب کر سکتا تھا، جویونیورسٹی کے معیار پر پورا ترتا ہو۔ نوکری ختم ہونے سے یہ آسانی ہو گئی تھی کہ عملی تربیت کے لئیمیں مکمل طور سے دستیاب تھا۔ نوکری ہوتی تو چھٹی کا چکر چلانا پڑتا
تھوڑی سی محنت کے بعد میں نے اپنے ہی شہر میں ایک ایسا ادارہ ڈھونڈ لیا جو کافی عرصے سے پبلک ہیلتھ میں مفت خدمات پیش کرر ہی تھا۔
مجھے انہیں زیادہ قائل کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی، میری یونیورسٹی کا خط ہی میرا کامیاب تعارف تھا۔
یوں تو مجھے ۴۵۰ گھنٹے پورے کرنے تھے لیکن میں نے سوچ رکھا تھا کہ یہاں زیادہ سے وقت دونگا تاکہ جو کچھ ممکن ہو سیکھ سکوں۔ ایجنسی کے پاس کلائنٹس کی کمی نہیں تھی، میں نوکری سے فارغ تھا اسلئے اب میرے پاس وقت ہی وقت تھا۔
 مجھے ایک سینئرکونسلرکی معیت میں کام پر لگا دیا گیا۔
اس ادارے کے پاس زیادہ تر ایسے لوگ کونسلنگ کے لئے آتے تھے ایک تو وہ جو کسی ذہنی بیماری کا شکار تھے اور دوسرے وہ جو قانونی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے اور پولیس نے انہیں پکڑ لیا۔ مثلاً شراب پی کر گاڑی چلا رہے تھے، بیوی بچوں کے ساتھ مار پیٹ، جوئے کی لت، حد سے زیادہ غصہ ، لوگوں کے ساتھ لڑائی جھگڑا وغیرہ۔ پولیس کیس بننے کے بعدوہ عدالت کی جانب سے اصلاح کے لئے ۱۵، ۱۶ کونسلنگ کے سیشن میں شرکت کے پابند تھے ۔

میرا کام ان کا ایک تفصیلی انٹر ویو لے کر ایک ابتدائی فارم بھرنا ہوتا تھا جس میں ان کے کوائف، پس منظر اور دیگر تفصیلات فراہم کی جاتی تھیِ۔پھر ان کی کونسلنگ ہوتی تھی۔ یہ سارا کام میرے تجربہ میں خاطر خواہ اضافہ کر رہا تھا۔
میں نے جب اس ادارہ میں عملی تربیت شروع کی تو مجھے اندازہ ہوا کہ یہاں آنے والے کثر امیگرینٹ کلچرل شاک کا شکار ہوکر اپنا راستہ کھو بیٹھیاور غیرمحسوس طریقے سے پو ری فیملی کا شیرازہ بکھرنے لگتا ہے ہے اور اکثر اوقات خاندان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے، جیسا کہ کرن کی فیملی کے ساتھ ہوا۔

"میری بیوی اکثر کہتی ہے کہ میرا غصہ بہت تیز ہے،۔ مجھے بھی یہ بات معلوم ہے لیکن میں کیا کروں میرا باپ بھی بہت غصہ ور تھا۔مجھے اپنے غصہ پر ذرا بھی کنٹرول نہیں ہے،ایک د ن میری بیوی سے تھوڑی بہت کھٹ پٹ ہوئی ، میں نے فون زمین پر پٹخ دیا، بیوی نے ۹۱۱ گھما دیا پولیس آ گئی، مجھے حراست میں لے کر پولیس سٹیشن پہنچا دیا"
یہ کہہ کر میرے ۴۵ سالہ کرن نے رونا دھونا شروع کردیا ۔
بظاہر وہ ایک مضبوط جسم کا مالک تھا لیکن ایک گھنٹہ کے کونسلگ سیشن میں تین دفعہ رویا۔ سیشن ختم ہونے کے بعد بھی ا سکی آنکھیں نم تھیں۔
قصہ کچھ اس طرح تھا کرن کی بیوی کی دو ہفتہ پہلے اچانک نوکری چھٹ گئی تھی اور وہ نئی نوکری کے لئے خاصی پریشان تھی۔ اس کا شوہر کرن رات کی شفت میں کام کرتا تھا۔ پچھلے ہفتہ جب کرن رات کام کے بعد صبح گھرپہنچاتو بیوی نے اس کا پیچھا لے لیا کہ کرن ناشتہ کرنے کے بعد اسے ایمپلائمنٹ ایجنسی لے جائے۔

 کرن کی شفٹ بہت سخت گئی تھی اور اب وہ سونا چاہ رہا تھا۔ اسے اندازہ تھا کہ اگلی رات بھی خاصی سخت جائے گی۔ لیکن بیوی کا اصرار اپنی جگہ تھا، وہ چاہ رہی تھی کہ جلد از جلد کوئی نوکری مل جائے۔دونوں اپنی اپنی جگہ کسی حد تک صحیح تھے۔دونوں طرف سے سوال جواب ہوئے اور گرما گرمی بڑھتی گئی ، پرانے گڑے مردے اکھاڑے گئے، ایک دوسرے کے خاندان والے نوازے گئے اور آخرِ کار کرن کی بیوی نے ۹۱۱ کال کر دیا۔ اس نے اپنے ساتھ کام کرنے والیوں سے سن رکھا تھا کہ پولیس کو بلانا اس کا حق ہے، اس میں ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔

Chapters / Baab of Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem