Last Episode - Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem

آخری قسط - باتیں کینیڈا کی (ایک پاکستانی امیگرینٹ کی زبانی) - فرخ سلیم

کینیڈا پہلا ملک ہے جس نے ۱۹۷۱ میں ملٹی کلچرزم کو ایک سرکاری پالیسی کے طور پر اپنایا۔ اس پالیسی کا بنیادی فلسفہ کہتا ہے کہ تمام کینیڈینز برابر ہیں اور مساوی حقوق رکھتے ہیں۔ وہ کینیڈا میں رہتے ہوئے اپنی تمام روایات، اقدار، ورثہ اور تشخص کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔مرکزی سطح پر کینیڈین چارٹر آف رائٹس اینڈ فریڈم، اورکینیڈین ہیومین رائٹس ایکٹ، اس بات کی ضمانت اور مکمل تحفظ فراہم کرتے ہیں
 ایک امیگرینٹ کو کیا چایئے؟ ٰایک ایسا ملک جہاں وہ اپنی تہذیب،روایت، ثقافت اور مذہب پر قائم رہ سکے۔
کینیڈا میں اس وقت دوسو سے زیادہ لسانی گروپ رہ رہے ہیں،ٹورنٹو کے آس پاس سو سے زیادہ مسجدیں اور اتنی ہے تعداد میں گرودوارے اور مندر کینیڈاکی ملٹی کلچرزم پالیسی کا ثمر ہیں۔

(جاری ہے)


میری بات ختم ہوئی تو میرے تمام ہم جماعتوں اور بڑی آپا نے بھی تالیاں بجائیں۔ ہمارے استاد کی تالیاں سب سے زیادہ زوردار تھیں۔میرا ڈگری پروگرام اب اختتام پر تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ میں نے یہ کورس صرف سوشل ورک میں سند حاصل کرنے کے لئے شروع کیا تھا لیکن جس طرح پروفیسروں نے پڑھایا، کلاس میں مباحثے ہوئے اور جس طرح ہم جماعتوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور سیکھے کا موقع ملا میں نے اس کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔
 آخری کلاس ختم ہونے سے پہلے ہم سے کہا گیا کہ ہم سب ایک دوسرے کے لئے اپنے تاثرات لکھیں اور نیچے اپنا نام بھی تحریر کریں۔
ہرشخص کی ۲۹ پر چیاں دی گئیٰ کہ کلاس میں طلباء کی اتنی ہی تعدا دبچی تھی۔ تاثرات لکھنے کے بعد آپ وہ پرچی متعلقہ شخص کوپہنچا دیں۔ کام مشکل نہیں تھا کیونکہ ہم سب لوگ گزشتہ پونے تین سال سے ساتھ پڑھ رہے تھے، ایک دوسرے کی صلاحیتوں اور کارکردگی سے اچھی طرح واقف ہو گئے تھے۔
 میرا خیال تھا کہ لوگ میری دانائی اور امیگرینٹ تجربے سے لبریز تقاریرکا ذکر کریں گے اور تعریفوں کے پل باندھیں گے۔
ایسا ہوا تو لیکن میری جس بات کی سب سے زیادہ تعریف ہوئی وہ تھے سموسے۔ ذائقے کی بات تو سب نے کی لیکن کچھ لوگوں نے اسے مشرقی تہذیب کا استعارہ ، کسی نے مہمان نوازی کی مثال ، کسی نے ایک خوشگوار شادی شدہ زندگی کا ثبوت بھی کہا۔ لوگوں نے بیگم کی تعریف کی اور شکریہ بھی ادا کیا
میں نے جب تیاری کے لئے کنووکیشن کی تاریخ اور پروگرام کا تفصیلی جائزہ لیا تو مجھے احساس ہوا کہ رجسٹریشن کی تاریخ تو کب کی گزر چکی تھی۔
میں نے اپنے سر پر دو تین خیالی جوتے لگائے،رجسٹرار کے دفتر فون کیا اور پوچھا کہ میں کس طرح اس کنووکیشن میں شریک ہو سکتا ہوں؟
"بس یہ کنووکیشن کی کتاب چھپنے ہی جا رہی تھی، جس میں ڈگری حاصل کرنے والوں کی لسٹ ہے۔ تم ڈگری کی فیس ادا کرو میں تمہارا نام شامل کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔تمہارا فون دو منٹ بعد آتا تو معاملہ ہاتھ سے نکل گیا ہوتا"خاتون نے کہا
میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کریڈٹ کارڈ سے فوری طور پر فیس کی ادائیگی کر دی۔

 کنووکیشن میں میرے ساتھ چار مہمانوں کی شرکت کی گنجائش تھی۔ چونکہ یہ تقریب منگل کے دن تھی بچے تو مصروف تھے صرف بیگم نے اس دن چھٹی کرنے کی حامی بھری۔ یہ تقریب اصل یونیورسٹی کیمپس میں تھی جو دوسرے شہر میں تھا اور میرے گھر سے تقریباً ساڑے تین سو کیلو میٹر تھا۔
 میرے دل میں ابھی تک یہ خدشہ سا تھا کہ میرا نام ڈگری لینے والوں کی فہرست میں ہے یا نہیں۔
میں نے دئے ہوئے پروگرام کے مطابق ایک جگہ سے گا ؤن اور ہڈ حاصل کیااور سیدھا وہاں پہنچا جہاں رجسٹریشن ، نام کے بلے اور کنووکیشن کی
 کتاب دی جارہی تھی۔ میں کنووکیشن کی کتاب ملتے ہی ذرا سا کنارے ہو گیا اور کتاب کی ورق گردانی شروع کر دی۔ مجھے اپنا بلہ لینے کا بھی ہوش نہیں تھا ۔ میں نے حروفِ تہجی کے اعتبار سے نام تلاش کیا ، میرا نام کہیں نہیں تھا۔
میرا دل بیٹھ ساگیا۔
 ایڈیٹ یہ بیچلرز والوں کی فہرست ہے ماسٹرز والوں کی نہیں۔میں نے خود کو ٹوکا۔
ماسٹرز والوں کی فہرست بہت طویل نہیں تھی۔ مجھے فوراً ہی اپنے نام نظر آ گیا۔ یا اللہ شکر۔ میری نبض قابو میں آنے لگی۔ مجھے لگا کہ جیسے ڈگری میرے ہاتھ میں آ گئی جو کچھ لمحے پہلے ہوا میں معلق تھی۔
تھوڑی دیر کے بعد ہال کا دروازہ مہمانوں کے لئے کھول دیا گیا، ڈگری حاصل کرنے والے بھی اچھی خاصی بڑی تعداد میں تھے۔
انہیں ان کی متعلقہ قطاروں میں کھڑا ہونے کے لئے کہا گیا۔ ہم بھی اپنی باری آنے پر ہال میں داخل ہوئے اور ڈائس کے سامنے کی سیٹوں پر بیٹھنا شروع ہو گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور اساتذہ داخل ہونے شروع ہوئے۔ ہم لوگوں نے اپنے اپنے اساتذہ کو دیکھ کر ہاتھ ہلائے۔ مھے اپنے اساتذہ کو دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی تھی، ہو سکتا وہ بھی اتنے ہی خوش ہوں۔

باری باری نام پکارے جاتے رہے۔ ہر طالب علم اپنی ڈگری لینے کے بعد خوشی سے اچھلتا کودتا، کوئی ہوائی بوسہ دیتا کوئی نعرہ مستاہ بلند کرتا ، کوئی ہوائی بوسہ یتااور کوئی رقص کرتا ہوا سٹیج سے اتر رہا تھا۔
ہمارے گروپ کا بھی نمبر آگیا۔ حرف تہجی کے اعتبار سے نام پکارے جاتے رہے، پہلا، دوسرا،تیسرا ، چوتھا ، میرے گروپ والے ، سردار جی، بڑی آپا،اور یہ میں۔
میرے قدم کچھ ڈگمگا سے رہے تھے۔ میں سیڑھیاں پھلانگتا ہوا سیدھا سٹیج پر چڑھ گیا۔
"مبار ک ہو ، تمہاری محنتوں کا ثمر" وائس چانسلر نے میرے ہاتھ میں ڈگری دیتے ہو ئے کہا
میری محنتوں کا ثمر؟ میں نے ایک لمحہ کے لئے سوچا۔ کرم ہے اس کا جس کی ہم مخلوق ہیں۔ ورنہ ہم کیا اور ہماری اوقات کیا۔ رہے نام اللہ کا
میری بے خواب راتوں کا ثمر۔میری آنکھوں کے سامنے سے ان تمام لوگوں کی تصویریں گزرنے لگیں جن کی وجہ سے یہ ڈگر ی میرے ہاتھ میں تھی، میڈم ، ڈاکٹر صاحب، میرے اساتذہ ، میرے ہم جماعت اور میرے گھر والے۔
میں نے مہمانوں کی نشستوں پر نظر دوڑائی،بے اختیار اپنے ہاتھ اٹھائے اور بلند آواز سے کہا
"او کینیڈا، او کینیڈا "
میرے ساتھی مسکرائے اور میری آواز سے آواز ملانے لگے
"او کینیڈا، او کینیڈا "

Chapters / Baab of Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem