حکومت پنجاب کیلئے ن لیگ اور پی ٹی آئی میں رسہ کشی !

جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف کی تاریخی فتح ....... عمران خان کا پاکستان کو مدینہ کے طرز کی فلاحی ریاست بنانے کا وعدہ قابل تحسین ہے

پیر 6 اگست 2018

hakumat punjab k liye n league or PTI main rasa kashi
اظہر سلیم مجوکہ
ملک میں ہونے والے عام انتخابات نے قو می سطح پر ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک تہلکہ مچا دیا ہے تحریک انصاف کی قومی اسمبلی میں بالادستی ،خیبر پختو نخوا میں حکومت سازی اور سندھ میں بھی نشستوں کے حصول نے انتخابات میں عوامی فیصلے کو تقویت بخشی ہے ۔جنوبی پنجاب میں قو می اسمبلی کی 6کی 6نشستوں پر تحریک انصاف نے کلین سویپ کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ تحریک انصاف کا سیاسی قلعہ ہے ،اس الیکشن میں جہاں مولانا فضل الرحمن ،سید یوسف رضا گیلانی ،اسفند یار ولی ،غلام احمد بلوچ ،سراج الحق ،سعد ر فیق ،عابد شیر علی اور دیگر بڑے سیاستددان الیکشن سے آؤٹ ہوئے ہیں وہاں کئی نئے چہرے بھی اسمبلی میں آئے ہیں مجلس عمل او ر تحریک لبیک کوایک دفعہ عوام نے ان کی پالیسیوں کی وجہ سے پھر مسترد کردیا ہے اور سنجیدہ عوامی اور سیاسی حلقے بجا طور پر عد لیہ اور فوج کی نگرانی میں ہونے والے ان انتخابات کو مکمل شفاف اورآزادانہ قرار دے رہے ہیں ۔

(جاری ہے)

اے پی سی کی طرف سے انتخابات کومسترد کرنے کے باوجود یہ حلقے الیکشن بغیر کسی دباؤ کے اور آزادانہ ہونے کے موٴ قف کا اظہار بھی کر رہے ہیں ،بہت سے پولنگ عملے اور پریذ ائیڈنگ افسران کی طرف سے بھی شفاف الیکشن کے دعوے کی تائید کی جارہی ہے ۔جنوبی پنجاب میں حلقہ 158۔NAپر بڑا اپ سیٹ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے ہارنے پر ہوا ہے جہاں پی ٹی آئی کے کمزور تصور کئے جانے والے امید وار ابراہیم خان کامیاب ہوئے ہیں ،اسی طرح آزاد امید وار سکندر حیات بوسن کے مقابلے میں احمد حسن ڈیہڑ کو بھی کمزور امید وار تصور کیا جارہا تھا لیکن وہ کامیاب ہوئے ہیں ۔

سید یوسف رضا گیلانی اور ان کے دونوں بیٹے الیکشن ہارگئے جبکہ ایک بیٹے علی حیدر گیلانی صوبائی اسمبلی کی نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے جبکہ شاہ محمود قریشی اور ان کے بیٹے زین قریشی اس الیکشن میں کامیاب ہوئے ہیں ۔سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی موسیٰ گیلانی کی نشست پر دوبارہ گنتی ہورہی ہے ،شاہ محمود قریشی کا صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر ہارنا بھی ایک اپ سیٹ قرار دیا جارہا ہے ۔

یہاں سے نوجوان سیاست دان سلمان نعیم کامیاب ہوئے ہیں جو پی ٹی آئی سے ٹکٹ نہ ملنے کے بعد آزاد امید وار کی حیثیت سے الیکشن لڑرہے تھے یہ بھی کہاجارہا ہے کہ اس اپ سیٹ کے پیچھے جہا نگیر ترین کا بھی ہاتھ ہوسکتا ہے کیونکہ شاہ محمود قریشی اور ان کے درمیان ایک عرصے سے سرد جنگ بھی چل رہی ہے ۔دوسری طرف شاہ محمود قریشی پنجا ب کی وزارت اعلیٰ کیلئے فیورٹ امیدوار بھی تھے بہر حال اب وزارت اعلیٰ توان کے ہاتھ سے جاتی نظر آرہی ہے تاہم وفاقی کا بینہ میں وزارت خارجہ کا قلمدان ضرور ان کا منتظر ہوگا کیونکہ انہیں وزارت خارجہ کابھی خاصا تجر بہ ہے اور وہ خارجہ امور گہر ی نظر اور مہارت رکھتے ہیں ۔

قو می اسمبلی کی نشست حاصل کرنے والے ملک عامر ڈوگر بھی مسلم لیگ ن کے طارق رشید سے جیت گئے ہیں اور ان کی یہ جیت 54ہزارووٹوں کی بالادستی کے ساتھ حاصل ہوئی ہے ۔اب جبکہ جنوبی پنجاب تحریک انصاف کا سیاسی قلعہ ثابت ہواہے تو دیکھنا ہے کہ اسرائیکی صوبے کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کے ساتھ ساتھ یہاں کے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کو وزارتوں میں کتنا حصہ ملتا ہے اوراس خطے کے عوام کی محرومیوں کا کس قدر ازالہ ہوپاتا ہے پنجاب اسمبلی میں بھی تحریک انصاف آزاد امید واروں کے ساتھ حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے جبکہ کبیر والا سے سید گروپ کے سید فخر امام کی تحریک انصاف میں شمولیت خوش آئندہ ہے ۔

سید فخر امام ایک منجھے ہوئے درویش منش سیاست دان ہیں اسپیکر اور وزیر کی حیثیت سے خاصے کامیاب رہے ہیں قو می اسمبلی کے اسپیکر بلدیات کے وفاقی وزیر کی حیثیت سے ان کی کابینہ میں شمولیت خوش آئندثابت ہوگی ۔ملک عامر ڈوگر کو بھی نو جوانوں کے امور یاکوئی دیگر وزارت دی جاسکتی ہے خسرو بختیار ،اللہ یار ہر اج اور جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے دیگر اراکین بھی نئی وفاقی اور صو بائی کابینہ میں اپنا بھر پور کر دار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں گورنرشپ کیلئے بھی جنوبی پنجاب کی کسی شخصیت کو نامزد کیا جاسکتا ہے ۔

موجود انتخابات میں ایک خوش آئندپہلویہ بھی ہے کہ 106ملین رجسٹر ڈودنوں میں سے ٹرن آؤٹ 50سے 55فیصد رہاہے گویا دونوں سابقہ جماعتوں کی کارکردگی سے مایوس عوام نے نئی پارٹی کوووٹ دینے کا فیصلہ کیا اور اس کے نتائج کے ثمر آزاد انہ اور تاریخ کے پہلے شفاف انتخابات سے ممکن ہوسکے ۔ملک بھرکی طرح جنوبی پنجاب کے عوامی اورسیاسی حلقو ں نے عمران خان کی وزیر اعظم بننے سے قبل پہلی تقریر کو نہایت خوش آئند قرار دیا ہے ۔

سعودی عرب اور چین کی طرف سے عمران خان کی حمایت اور بھارت سے متعلق ان کے بیان کوبھی خوش آئند قرار دیا جارہا ہے ۔حریت قیادت کی طرف سے عمران خان کو مسئلہ کشمیر کے حل پر توجہ مر کوز کرنے کا مشورہ بھی دیاگیا ہے ،مختلف مذہبی جماعتوں کی طرف سے انتخابی نتائج پر تحفظات اور دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ بھی سامنے آیا ہے ۔میاں مقصود احمد ،قاری حنیف جالند ھری اور شفقت بھٹہ کے مطابق ایم ایم اے کو ہر وایا گیا ہے جبکہ سنجید ہ عوامی اور سیاسی حلقوں نے ایم ایم اے کی ہار کو ان کی ناقص پالیسیوں اور عوام سے دوری کو قرار دیا ہے ۔

عمران خان ایک کھلاڑی کی حیثیت سے پاکستان کو ورلڈ کپ جتو ا چکے ہیں وہ دنیا کے تیسرے کھلاڑی حکمران بھی ہو ں گے ،اس سے قبل بہترین افریقی فٹ بالر جارج وی لائیبریا اور ڈا ن بلیک بیلٹ پیوٹن روس کے صدر بنے ہیں ۔عمران خان نے اپنی تقریر میں مدینہ کے طرز کی جس فلاحی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا ہے اگر وہ اس میں کامیاب ہوتے ہیں تو پاکستان میں آنے والے تر قی اور خوشحالی کے دور کورو نہیں جاسکتا ۔

ملائشیا میں مہا تیر محمد ،ترکی میں طیب اردگان اور پاکستان میں عمران خان کی حکومت مضبوط اسلامی بلاک کی طرف بھی پیش رفت ثابت ہو سکتی ہے اور امریکہ بہادر کی اسلام دشمن پالیسیوں کیلئے سیسہ پلائی دیوار بھی ثابت ہوسکتی ہے ۔صحت کے مسائل کے ساتھ ساتھ اگر مہنگائی پر کنٹرول پایا گیا اور بے روز گاری کے خاتمے کے اقدا مات کوحکومت کی تر جیحات میں شامل کیاگیا تو تحریک انصاف کی حکومت کامیابی کے زینے طے کرتی نظر آئے گی ۔

ملک میں ایمانداراور نیک نام سیاست دانوں کی کامیابی اور تحریک انصاف کی کامیابی کیلئے بیت اللہ میں آئے ہوئے پاکستانی حجاج کرام نے بھی دعائیں مانگی ہیں جو ووٹ تو نہ دے سکے لیکن اچھی حکومت اور حکمرانوں کے قیام کیلئے ان کی دعائیں ضرور رنگ لائی ہیں ۔اب خدا کرے کہ بننے والی نئی حکومت اسلامی اقدار کے فروغ میں اپنا ہم کردارادا کرتے ہوئے عوامی امنگوں کی تر جمان ثابت ہوملک سے کرپشن کا خاتمہ کرے اور میرٹ کوفروغ ملے ۔

الیکشن سے قبل ضلع بدر ہونے والے افسران کیلئے بھی یہ خبر سامنے آئی ہے کہ اب ان کا تبادلہ ایک سال بعد کیا جائے گا تا کہ تبادلوں کے دوبارہ اکھاڑ پچھار سے انتظامی ڈھانچے کو نقصان نہ پہنچے ۔معطل ہونے والے بلدیاتی اداروں کے چےئر مینوں اور اراکین کو بھی بحا ل کر دیاگیاہے ۔ملتان کی طرح راجن پور میں بھی تحریک انصاف نے کلین سویپ کیاہے جبکہ ضلع ڈیرہ غازی خان سے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بھی اپنی نشست حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔

ڈی جی خان میں تحریک انصاف کی زرتاج گل بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی ہیں جبکہ سابق گورنر پنجاب سردار ذوالفقار کھوسہ بھی کامیاب نہیں ہوسکے جبکہ ایک روز قبل سردار ذوالفقار کھوسہ کی کامیابی کی خبریں آرہی تھیں امجد کھوسہ کامیاب قرار پائے ،اسی طرح ضلع مظفر گڑھ سے عوامی راج پارٹی کے سر براہ جمشید دستی اپنی سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔

پنجاب حکومت کیلئے مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف میں رسہ کشی جاری ہے ۔شاہ محمود قریشی کے مقابلے میں کامیاب ہونے والے تحریک انصاف کے ناراض رکن سلمان نعیم سے حمزہ شہباز نے رابطہ کرکے ان کیلئے خصوصی طیارہ بھیجنے کی پیش کش بھی کی ہے جبکہ تحریک انصا ف کے رکن صوبائی اسمبلی وسیم خان بادوزئی نے شاہ قریشی کیلئے صوبائی حلقہ چھوڑنے کی پیشکش بھی کردی ہے جبکہ لودھراں او ر شجاع آباد میں دوبارہ گنتی کی درخواستیں خارج ہونے پریوسف رضا گیلانی او ر پیر رفیع الدین کے حامیوں نے ٹالر جلاکر مظاہرہ بھی کیا ہے ۔

پنجاب کی حکومت سازی میں آزاد اراکین کو تحریک انصاف کے ساتھ شامل کرانے میں جہانگیر ترین نے ایک بار پھراپنا کردار ادا کیا ہے اس سے قبل انہوں نے قومی اسمبلی کے امیدواروں کے حوالے سے بھی اپنا موٴثر کردار ادا کیا تھا ۔مرکز میں میاں شہباز شریف متو قع اپو زیشن لیڈر جبکہ حمزہ شہباز متوقع وزیر اعلیٰ کے امید وار ہیں تحریک انصاف کی حکومت نے حکومت سنبھالنے کے بعد پنجاب اور سر حد کے گورنر ہٹانے کا فیصلہ بھی کیا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

hakumat punjab k liye n league or PTI main rasa kashi is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 August 2018 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.