پیپلز پارٹی (ن) لیگ سے ہاتھ کر گئی؟

وزارت عظمیٰ کا امیدوار بنو ا کر شکست سے دوچار کرنے کی حکمت عملی شہباز شریف سے سیاسی قد بڑا کرنے کیلئے بلاول کو اپو زیشن لیڈر بنانے کی کوشش

ہفتہ 11 اگست 2018

Peoples Party  N league say haath kar gayi
 اسرار بخاری
چند روز میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی تشکیل عمل میں آنے والی ہے ۔جوڑ تو ڑ کا سلسلہ آخری مراحل میں ہے ہر سیاسی جماعت زیادہ سے زیادہ سیاسی فوائد سمیٹنے کیلئے اپنے اپنے داؤ پیچ لڑ ا رہی ہے ۔کس کو مات ہو گی اور کون شہ مات دے گا ،جلد منظر عام پر آجائے گا ۔جہانگر ترین اور علیم خان کی تیز رفتار اُڑ انوں اور رابطوں نے 172کی سادہ اکثریت سے عمران خان کی وزارت عظمیٰ کی راہ تو ہموار کر دی ہے مگر قانون سازی اور بالخصوص اہم اصلاحات ِ تر امیم کیلئے مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں ہو گی کیونکہ تحریک انصاف کی 140،متحدہ قومی موونٹ کی 7، (ق) لیگ کی 3(کل پانچ میں سے پرویز الٰہی کی دو خالی ہوجائیں گی ) بلوچستان نیشنل پارٹی کی 5، جی ڈی اے کی 3اور جمہوری وطن پارٹی کی ملا کر 172بنتی ہیں جبکہ دو تہائی اکثریت کے لئے 229ارکان کی ضرورت ہے ۔

(جاری ہے)

یہ ضرورت صرف پیپلز پارٹی کے اشتراک سے ہی پوری ہو سکتی ہے ۔لیکن یہ بہت سادہ بات نہیں ہے آصف زرداری کی لوٹ کھسوٹ اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانے اور پیپلز پارٹی جیسی پارٹی سے کسی صورت اتحاد نہ کرنے کے عمران خان کے بیانات کی گونج ملکی فضاؤں میں ابھی موجود ہے جودراصل نئے پاکستان کی بنیا د ہے ۔اگر چہ اس کا حل آصف علی زرداری کی بجائے بلاول بھٹو سے معاملات طے کرنے کی صورت موجود ہے لیکن کیا بلاول پارٹی بالخصوص آصف زرداری کی مرضی کے خلاف فیصلے کر سکتا ہے ۔

اس کا جواب بیک ڈور رابطوں کے نتائج سے یوں ملتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے پنجاب اور کے پی کے کی حکومتوں میں حصہ داری کا مطالبہ تو شایدعمران کیلئے ماننا مشکل نہیں ہے مگر جو مطا لبہ تسلیم کر نا انتہا ئی مشکل ہے وہ ہے آصف زرداری کو صدر مملکت بنانا ۔صدر بن کر ا ستثنیٰ حاصل ہونے کے نتیجے میں آصف زرداری کی پانچ سال کے لئے مقد مات سے جان چھوٹ جائے گی ۔

ا س پس منظر میں بلاول کا یہ بیا ن ” کسی سے غیر مشروط تعاون نہیں کریں گے “ بہت اہم ہے ۔سوال پیدا ہو تا ہے اگر آصف زرداری اور ہزاروں ایکڑ اراضی سے مر عوب لوگوں کی زبانیں کھل جائیں گی ۔“ میں نے بات کاٹ کر سوال اٹھا یا “ اخباروں کے مطابق زبانیں تو کافی کھل گئی ہیں ہر امید وار نے مراد علی شاہ ،قائم علی شاہ ،خور شید شاہ ،ناصر حسین شاہ حتیٰ کہ فریال تا لپور جیسوں سے بھی کار کردگی کے سوالات کئے گئے ہیں اس کا جواب دینے کی بجائے اس جوان نے تشویش بھرے انداز میں کہا ”جن لوگوں نے زبان کھولنے کی گستاخی کی ہے الیکشن کے بعد دیکھنا ان کا کیا حشر ہوتا ہے ۔

اس سے ایک خوف استبداد کی اور دوسری جانب اندر کے شعور ی یا لاشعوری خوف کی عکاسی ہوتی ہے لیکن میراذاتی خیال ہے یہ اندر کا لاشعور ی خوف ہی ہے جو سندھ کے دیہی معا شرہ کو صدیوں کے جکڑے ہوئے ہے ۔پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کے سیاستدان کو زرداری خاندان سمیت یہ سمجھ کر آجانی چا ہئے وقت ک پہیہ اُ لٹی جانب نہیں بلکہ آگے کی سمت گھو متا ہے ۔

آئندہ پانچ سال میں سندھ کے کا لجوں اور یونیو رسٹیوں میں ہزاروں ضمیر چانڈیو ،الیاس ناریجو اور لطیف سو مرو شعور آگہی کی مشعلیں روشن کریں گے جن کا اُجالا سندھ کو بتدریج منور کر تا چلا جائے گا ،سوچ کی وحدت میں وسعت اور اخلاقی پختگی جڑیں پکڑے گی ،اس لئے وڈیرے اور صاحب ثروت لیڈر بے شک دانت پیش کر ہی سہی دیہی سندھ میں تر قیاتی کا موں پر توجہ ضرور دیں گے ۔

بات تو لطیفے جیسی ہی ہے مگر اس میں پیپلز پارٹی کے لئے خود احتسابی کا بہت سا مان ہے ۔مٹیاری کے ایک پو لنگ سٹیشن پر ساتھی صحافی نے ایک بزرگ خاتون سے سندھی میں بات چیت کی پھر ایک زوردار قہقہہ لگا یا پھر مجھے اُردو میں بتا یا ”میں نے اس بزرگ خاتون سے کہا کہ اماں جی !پیپلز پارٹی کو ووٹ دوگی ؟اس نے نفی میں سر ہلایا اور کہا پیپلز پارٹی نے کچھ نہیں کیا میں پیپلز پارٹی کو ووٹ نہیں دوں گی ۔

میں پوچھا پھر کس کو ووٹ دوگی ؟اس نے کہا میں بلاول کو ووٹ
 دوں گی ۔“ یہ سُن کر میرے صدر اور عمران خان وزیر اعظم ہوں تو یہ کیسا عجیب وغریب سیٹ اپ بنے گا ۔عمران کے قومی دولت کے لٹیروں کے خلاف نعروں کا کیا بنے گا اور روایتی سیاست کی یہ بے اصولی کون سا نیا پاکستان بنائے گی۔پیپلزپارٹی سے اتحاد جہاں عمران کو ایک مضبوط ومستحکم حکومت کی بنیاد بنے گا وہاں اپنے دعووں وعدوں اور بیانات کی روشنی میں بننے والا عمران کا امیج کہا ں جائے گا ۔

ہاں واحد صورت یہ ہے کہ جس طرح بارہ آزاد ارکان کو تحریک انصاف میں لایا گیا وہاں (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے کم از کم 50 ارکان تو ڑکر ان کے فارورڈ بلاک بنائے جاسکیں ۔سندھ کے سیاسی حلقوں کے مطابق شاہ محمود قریشی نے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں سے رابطے کئے اس کے جواب میں پیپلز پارٹی کی جانب سے متذ کر ہ بالا مطالبات پیش کردئیے گئے ہیں اور مطالبات پورے ہونے کی صورت میں تحریک انصاف کو سندھ حکومت میں حصہ دیا جائے گا گورنر تحریک انصاف کا ہو سکتا ہے نعیم الحق بھی گورنر ہوسکتے ہیں۔

بتایاگیا ہے پنجاب کے گورنر ہاؤس پر با بر اعوان کی نظریں ہیں ۔پر ویز الٰہی کو بھی پیشکش ہے اگر وہ گورنر کی بجائے سپیکر شپ پر راضی ہوگئے تو پھر چودھری سر ور گورنر ہوں گے تحریک انصاف سندھ کے ذرائع کے مطابق چودھری سر ور صدر مملکت بنائے جانے کیلئے زیر غور ہیں اس طرح بر طانیہ سے رابطے زیادہ بہتر ہو سکتے ہیں ،اگر چہ شیخ رشید وزارت داخلہ کے لئے بضد ہیں مگر چکوال کے ضمنی الیکشن میں کامیابی کی صورت کو اس کا قرعہ فال چودھری شجاعت حسین کے نام نکل سکتا ہے ۔

پیپلز پارٹی اگر چہ عمران کی ضرورت ہے لیکن متحدہ قومی موومنٹ کی طرح پارٹی کے اندر پیپلز پارٹی کے خلاف بھی قابل ذکر مزاحت ہے ۔اس لئے عمران خان کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وزیر اعظم بننے کے بعد بھی ذریعہ بلاول پیپلز پارٹی سے رابطہ کریں اس طرح زیر اعظم سے فائدہ اٹھانے کی سوچ پارٹی کے اندر مزاحمت کو ختم یا ختم کے قریب کم کر سکتی ہے ۔بہر حال چندروز میں سب سامنے آئے گا اگر پیپلز پارٹی سے معاملات طے ہوگئے تو متحدہ کی سندھ حکومت میں حصہ داری کی راہ ہموار ہوجائے گی وفاق میں وزیر قانون کے لئے فروغ نسیم امیدوار ہوگے ۔

کے پی کے میں تحریک انصاف اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت بننے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ۔سندھ میں 35رکنی بھاری بھر کم کابینہ بنانے کی شیند ہے پہلی کوشش فریال تا لپور کو وزیر اعلیٰ بنانے کی صورت میں سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ سپیکر اور سابق وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ ڈپٹی سپیکر ہوسکتے ہیں ڈپٹی سپیکر کے لئے دوسرا نام جام مدد علی کا لیا جا رہا ہے ۔

خواتین کی مخصوص نشستوں پر تنز یلہ قیصر انی پیپلز پارٹی کی .....بن گئی ۔اندرون سندھ 18گھنٹے کی لوڈشیڈنگ شروع ہوگئی ہے عوامی سطح پر کہا جارہا ہے پیپلز پارٹی حکومت کے ساتھ لوڈشیڈنگ بھی واپس لے کر آئی ہے ادھر جے ڈی اے نے احتجاجی تحریک کا اعلان کیا ہے ۔ڈاکٹر فہمیدہ مرزا ،غوث علی شاہ ،سردار رحیم ،ذوالفقار مرزا،کر شن چند پر وانی اور نعیم الرحمن نے کراچی میں پریس کانفرنس میں اس کا اعلان کیا مگر اس احتجاجی تحریک کے ثمر آور ہون کے حوالے سے زیادہ امید ظاہر نہیں کی جارہی ۔

تحریک انصاف سندھ حکومت میں پیپلز پارٹی میں شامل ہوگی تو پھر سندھ میں تاریخ کی کمزورترین اپوزیشن ہو گیبلکہ اس سے بڑھ کر بلاول زرداری کا یہ بیان ” میاں محمد نواز شریف کا اصلی باپ ضیاء الحق ہے اس نے اپنی بیٹی کو سافٹ امیج کے لئے استعمال کیا ۔میاں نواز شریف امیرا لمومنین بننا چا ہتا تھا اس نے اُسامہ بن لادن سے فنڈنگ حاصل کی کیا ایسا شخص صاف نیت ہو سکتا ہے “اس بیان کے الافظ اور یہ الفاظ جس لب ولہجہ میں ادا کئے گئے یہ اہم نہیں ہے بلکہ دراصل یہ ایک خا ص پیغام ہے جو مختلف حلقوں کو دیا گیا ہے یہ پیغام کس کو اور کیوں دیاگیا بلاول کی آئندہ سر گرمیوں پر نظر رکھنے والے یہ بخوبی جان لیں گے اگر نواز شریف نے سافٹ امیج یا اپنے مقصد کے لئے اپنی بیٹی کو استعمال کیا تو آصف زرداری بھی اپنے بیٹے کو بڑی چا بکد ستی کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں ۔

شاید آج میرے اس تجزیہ کو درست نہ سمجھا جائے تا ہم مجھے اصرار یہی نہیں ہے وزیر اعظم کے انتخاب میں (ن) لیگ کے صدر میاں شہباز شریف کو وزیر اعظم اور خورشید شاہ کو سپیکر قومی اسمبلی کا مید وار بنوا کر پیپلز پارٹی (ن) لیگ کے ساتھ بڑا ہاتھ کر گئی ہے (ن) لیگ کے رہنما دور اندیشی کا مظاہرہ نہ کرسکے اس لئے یہ چال سمجھنے میں ناکام رہے ۔(ن) لیگ کی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ ہوتا اگر وہ خود سپیکر اور پیپلز پارٹی کو وزیر اعظم کا امیدوار بنوا تے اس طرح پیپلز پارٹی کے لئے سودے بازی کی گنجائش نہ رہتی اب قیاس کی بنیاد پرکہا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف سے اندر خانہ معاملات ہے کا ثبوت ہوگا اگر خورشید شاہ سپیکر منتخب ہوجاتے ہیں سپیکر کا الیکشن خفیہ رائے شماری کے ذریعہ ہوتا ہے ا س لئے فلور کراسنگ کی زد میں آکر دوسری پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دینے سے رکنیت خطرے میں نہیں پڑتی اس لئے تحریک انصاف کے کچھ ووٹ بھی دلوائے جاسکتے ہیں اس طرح بلاول کو تحریک انصاف سے معاملات نہ ہونے کی صورت میں اپوزیشن لیڈر بنا کر اس کا سیاسی قد میاں شہباز شریف سے بڑا کیا جاسکتا ہے اور اگر معاملات طے پا گئے تو بلاول کو اہم وزارت دلوائی جائے گی تا ہم اب دیکھنا یہ ہے تحریک انصاف کی ایسی حکومت جس میں پیپلز پارٹی کی بھی شراکت دار ہو آصف زرداری ‘فریال تا لپور اور مظفر اویس ٹپی کو منی لانڈرنگ کیس میں کس حد تک رعایت دے یاد لواسکے گی اور بالفرض آصف زرداری کو صدر بنا کر عدالتی استثنیٰ مل جائے تو فریال تا لپور اور مظفر ٹپی اور اس کیس میں ملوث دیگر افراد کو کیسے فائدہ پہنچا یا جا سکتا ہے۔

کیا اس حوالے سے ایف آئی اے کی تمام تر تحقیقات کو سرد خانے میں ڈالا جاسکتا ہے ۔پیپلز پارٹی کی لمحہ موجود تک کی سر گرمیوں کا جائزہ لیا جائے تو زرداری خاندان کو تحفظ دلانا ہی اس کا اول وآخر پر گرام ہے ۔خور شید شاہ سپیکر اور بلاول زرداری اپوزیشن لیڈر بن کر حکومت کو انڈرپر یشر رکھ کر زرداری خاندان کے تحفظ کا سامان ہی کریں گے ن لیگ اگر سپیکر کا میدوار بنتی تو زیادہ امکان ہے کہ پیپلز پارٹی اس حد تک اپنا وزن تحریک انصاف کے امیدوار کے حق میں ڈالتی کہ (ن) لیگ کا سپیکرہار جاتا لیکن اس طرح پیپلز پارٹی کے لئے بھی اگر نا ممکن نہیں تو بہت زیاد ہ مشکل ضرور ہوجاتا کہ وزارت عظمیٰ کے منصب کے دروازے اس کے لئے کھلے رہیں گے ۔

عمران خان کو مرکز اور پنجاب میں ہی نہیں سندھ میں بھی ایم اے کیو ایم سے ” سیاسی نکاح “ کے خلاف پارٹی کے اندر اور بالخصوص قوم پر ستوں کی مخالفت کا سامنا ہے ۔سندھ نیشنل تحریک نے تحریک انصا ف اور ایم کیو ایم کے مابین 9نکاتی معاہدہ کرکے سندھ کی قومی وحدت پر حملہ قرار دیا ہے ۔سندھ نیشنل تحریک کے سر براہ اشرف نو نازی ،ڈاکٹر مظمیٰ جو کھیو، نجیب احمد تھیبو ،عابد صدیقی ،لالہ قربان سوڈؤد ،اختر سندھی اور جہانگیر ملاح نے مشتر کہ بیان میں کہا یہ معاہدہ کراچی آپریشن کو سبوتاژ کرنے اور کراچی کے عوام کی جانب سے تحریک انصاف کو دئیے گئے مینڈیٹ کی توہین ہے۔

کراچی کے عوام نے چالیس سال بعد ایم کیو ایم کی غلامی سے نجات کے لئے تحریک انصاف کو وویٹ دئیے مگرتحریک انصاف نے ایم کیو ایم سے معاہدہ کرکے کراچی کو پھر دہشت گردوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے ۔سندھی قوم سندھ میں انتظامی یونٹ کی تقسیم کو بھی سندھ کے خلاف سازش سمجھتی ہے جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا،ادھر کراچی کے سیاسی ،صحا فتی حلقوں کے مطابق ایم کیو ایم کاپورٹس اینڈ شپنگ اور اوور سیز پاکستانیز وزارتوں کا مطالبہ مان لیاگیا ہے تاہم اگر وفاق میں پیپلز پارٹی کے ساتھ معاملات طے پا جاتے ہیں تو پھر پیپلز پارٹی کے اندر مزا حمت کو بنیاد بنا کر اس پر نظر ثانی بھی کی جاسکتی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Peoples Party N league say haath kar gayi is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 August 2018 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.