احتساب کی چکی نہیں رکنے والی

منگل 1 جنوری 2019

Khalid Imran

خالد عمران

میاں نوازشریف کے دوسرے دور میں احتساب کی جس چکی کے چلنے کا آغاز ہوا تھا، اب اس نے باریک پسائی شروع کردی ہے۔ پہلے پہل تو اس چکی میں پیپلزپارٹی کو ڈالا گیا تھا، تب اس نے موٹا موٹا پیسنا شروع کیا تھا، اس وقت یہ چکی چلانے والے سابق سینیٹر سیف الرحمن (ریڈکو فیم) تھے۔ آصف علی زرداری کا نام اس وقت مسٹر ٹین پرسینٹ رکھا گیا تھا اور سیف الرحمن کو احتساب الرحمن کہا جاتا تھا۔

پہلے سابق صدر غلام اسحاق خان مرحوم، پھر فاروق لغاری مرحوم کے دور صدارت میں زرداری صاحب کو اس چکی میں ڈالا گیا لیکن اس وقت اصل مقتدرین کی دلچسپی شاید محض میاں نوازشریف کو برسراقتدار لانے تک تھی۔
12اکتوبر 1999ء کو جنرل (ر) پرویزمشرف نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے بھی احتساب کی چکی کے پاٹ صاف کراکر میاں صاحب پر آزمانے کی کوشش کی۔

(جاری ہے)

میاں صاحب کو طیارہ اغوا کیس میں سزا سناکر قید کردیا گیا اور احتساب کی چکی کو تیل وغیرہ دے کر چلانے کی کوشش کی گئی مگر سعودی فرماں روا کی فرمائش اور دیگر دوستوں کی سفارش پر میاں صاحب کو مع خاندان جدہ پہنچا دیا گیا۔

بیچ میں نائن الیون کی پسھوڑی بھی پڑ گئی، لہٰذا یہ چکی بند کردی گئی۔ سابق چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری اور دیگر ججوں کی بحالی کی تحریک بالآخر پرویزمشرف صاحب کی اقتدار سے رخصتی کا سبب بنی۔ تب اقتدار ایک بار پھر پیپلزپارٹی کو مل چکا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی مبینہ وصیت کی بنا پر زرداری صاحب پیپلزپارٹی کے کرتادھرتا بن چکے تھے اور ”پاکستان کھپے “ کا نعرہ لگاکر اتنے قابل قبول ہوئے کہ اقتدار ان کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی بن گیا۔

زرداری صاحب اور ان کی پیپلزپارٹی مفاہمت کا علم بلند کرکے پانچ سال پورے کرگئی لیکن ان کے وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی کو مدت پوری کرنا نصیب نہ ہوا اور راجا پرویزاشرف نے بھی وزارت عظمیٰ کے مزے لوٹے۔ گیلانی صاحب ”ایم بی بی ایس“ اور پرویزاشرف ”راجا رینٹل“ مشہور ہوئے۔ او جی ڈی سی، ریلوے ، اسٹیل ملز، پی آئی اے سمیت اکثر قومی اداروں کا بھٹا بیٹھ گیا لیکن زرداری صاحب تاریخ ”رقم“ کرنے میں اتنا مگن ہوئے کہ رقمو رقمی ہوگئے۔


2013ء میں میاں نوازشریف صاحب کو ایک اور موقع دیا گیا، میاں صاحب کو اقتدار تو ملا مگر حسب معمول قرار نصیب نہ ہوا۔ 2015-16ء میں زرداری صاحب کے خلاف کیسوں کی فائلیں جھاڑی جانے لگیں اور ساتھ ساتھ میاں صاحب پر کرپشن الزامات کا آہنگ بھی بلند ہونے لگا اور پھر ”پاناما“ ہوگیا۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی عمران خان نے جو 2002ء میں محض ایک نشست جیت کر پہلی مرتبہ قومی اسمبلی میں گئے تھے، میر ظفراللہ جمالی کے مقابلے میں مولانا فضل الرحمن کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ دیا۔

پھر خان صاحب جب کبھی اسمبلی میں آتے تو چودھری برادران کی کرپشن کی فائلیں ان کے ہاتھ میں ہوتیں۔ تب وہ پرویزمشرف کے ناقد تھے، جبکہ الیکشن 2002ء سے پہلے انہیں شاید کچھ سبز باغ دکھائے گئے تھے، جو بعدازاں تعبیر نہ پاسکے اور جنرل احتشام ضمیر کی محنتوں سے پاکستان مسلم لیگ (ق) اور پیپلزپارٹی سے پیٹریاٹ نکال کر پہلے میرظفراللہ جمالی، پھر شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنایا گیا۔

درمیان میں چالیس دن کے لیے چودھری شجاعت کے سر پر بھی وزارت عظمیٰ کا ہما بٹھایا گیا۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد عمران خان صاحب پہلے دھاندلی کے نام پر احتجاج کرتے رہے، پھر کرپشن کا نعرہ لگاکر انہوں نے سیاست میں ہلچل پیدا کرنے کی کوشش کی۔ 2018ء کے انتخابات آنے تک میاں نوازشریف پاناما کی بھینٹ چڑھ کر فارغ ہوگئے اور ان کی جگہ شاہد خاقان عباسی نے لے لی۔


ادھر راولپنڈی اور اسلام آباد کے دو بڑے گھروں کے مکین بھی بدل چکے تھے۔ حالات کا پانسا ایسا پلٹا کہ انتخابات 2018ء میں کرپشن سب سے بڑا موضوع ہوگیا۔ انتخابات میں کرپشن کے خلاف جنون اس انداز میں بروئے کار آیا کہ (ن) لیگ کا ہر حربہ ناکام ہوگیا۔ زرداری صاحب نے ایک بار پھر قابل قبول ہونا چاہا لیکن اب بہت دیر ہوچکی تھی۔ درمیان میں ایک دوبار ایسا لگا کہ تحریکِ انصاف اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے کے قریب آجائیں گی لیکن احتساب کی چکی کے پاٹ یوں لگتا ہے بالکل نئے نکور کرواکر لگادیے گئے ہیں۔

پہلے پہل زرداری صاحب کو ڈاکٹر عاصم حسین، ایان علی اور شرجیل میمن وغیرہ کے ذریعے جھٹکے دیے گئے اور دوسری طرف (ن) لیگ کی پسائی شروع ہوگئی، تب مفاہمت کے گرو زرداری صاحب سمجھے کہ شاید ان کی بچت ہوجائے گی لیکن وہ جو نعرہ لگتا تھا ”اگلی باری پھر زرداری“ یوں سچ ہوا کہ میاں کے بعد زرداری کی احتساب کی چکی میں پسائی باریک کے ساتھ ساتھ تیز بھی ہوگئی ہے، لیکن کیا یہ پسائی یہاں رک جائے گی؟ انور چراغ کا کہنا ہے کہ نئے سال کے پہلے مہینے میں اسلام آباد کے ایک بڑے گھر کے مکین کی تبدیلی سے احتساب کی چکی میں وہ بھی پسنا شروع ہوں گے جو آج خوش خوش دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ”پنڈی والوں “نے تمام معاملات اس انداز میں اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں کہ گزشتہ دنوں وفاقی وزیر اطلاعات قوم کو یہ اطلاع دیتے پائے گئے ”ہم کوئی مغل حکمران نہیں، ہمارے بھی ہاتھ بندھے ہیں۔


وزیراعظم عمران خان سمیت تحریک انصاف کے دیگر بڑے چھوٹے روز اول سے کہتے آرہے تھے کہ میاں شہبازشریف کو قومی اسمبلی کی پبلک اکاوٴنٹس کمیٹی کی چیئرمینی دینا دودھ کی رکھوالی پر بلّا بٹھانے والی بات ہے لیکن نہ صرف قومی اسمبلی کی پبلک اکاوٴنٹس کمیٹی کی چیئرمینی میاں شہبازشریف کو دی گئی بلکہ پنجاب اسمبلی کی پبلک اکاوٴنٹس کمیٹی کی چیئرمینی ان کے فرزند حمزہ شہباز کے سپرد کردی گئی۔

حد تو یہ ہے کہ میاں شہبازشریف کے چیئرمین پبلک اکاوٴنٹس کمیٹی بننے کے بعد بھی وزیراعظم عمران خان سمیت کئی حکومتی عمائدین ایسے ہی خیالات کا اظہار کرچکے ہیں، جبکہ دوسری طرف آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، سابق وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کئی موجودہ اور سابق صوبائی وزیروں واہلکاروں سمیت 172افراد کے نام ای سی ایل میں ڈال دیے گئے ہیں۔

جمعے کے روز چودھری شجاعت نے چودھری پرویز الٰہی اور ان کے فرزند رکن قومی اسمبلی مونس الٰہی کے ہمراہ وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی ہے۔ جاری کردہ خبر کے مطابق تو بڑے چودھری صاحب اور وزیراعظم نے اپوزیشن سے نمٹنے کے متعلق گفتگو کی لیکن نیب کے پاس چودھری برادران کی فائلیں بھی موجود ہیں اور جب بحریہ ٹاوٴن کے ملک ریاض کی پہیوں والی فائلیں کھلیں گی، اس وقت بھی چودھری صاحبان کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔


بعض بزعم خود واقفان حال کا کہنا ہے کہ 1985ء سے 2018ء تک اقتدار سے لطف اندوز ہونے والوں کی اکثریت کا احتساب ہوتا نظر آرہا ہے۔ پیر صاحب پگارا سید علی مردان شاہ مرحوم جھاڑو پھرنے کی جو پیش گوئی کیا کرتے تھے، لگتا ہے وہ اب پوری ہونے جارہی ہے۔ پیر صاحب مرحوم اپنے آپ کو علی الاعلان جی ایچ کیو کا آدمی کہتے تھے اور آج کل پنڈی والوں کی قربت کے دعویدار شیخ رشیداحمد بھی جھاڑو پھرنے کی بات کررہے ہیں۔

مرحوم پیرصاحب پگارا چوہے بلی کے کھیل کی بات بھی کیا کرتے تھے، شریف خاندان اور زرداریوں کے احتساب کے بعد چوہے بلی کا کھیل تو لگتا ہے ختم ہوگیا لیکن جھاڑو پھر کر رہے گی۔ پیر صاحب کہا کرتے تھے کہ جھاڑو پھرنے کے بعد جو بچے گا وہی سیاست کرے گا۔ 2019ء کے آخر تک راولپنڈی کے بڑے گھر کے مکین کے بدلنے کے بعد اگر پالیسی نہ بدلی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ نے دخل اندازی نہ کی تو پھر سیاسی منظرنامے پر وہی رہے گا جو احتساب کی چکی سے بچے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :