پاکستان میں سیاسی فرقہ واریت

جمعرات 25 فروری 2021

Muhammad Riaz

محمد ریاض

سیالکوٹ کے علاقہ ڈسکہ NA-75 میں جہاں پرازئڈنگ آفیسران کے مبینہ اغوا یا گمشدگی کی بناء پر اس حلقہ میں ہونے والے ضمنی الیکشن کے نتائج کو الیکشن کمیشن نے روک دیا وہی پر پاکستان مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز نے اک احتجاجی جلسہ سے خطاب کیا، ڈسکہ کے رہائشی اک شخص جسکا جوان بیٹا ذیشان جو الیکشن کی نظر ہو کو اللہ کو پیارا ہوگیا، مقتول کے والد نے مریم نواز کے احتجاجی جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ''میرے 6 بیٹے ہیں اگر ن لیگ کے لیے قربان کرنے پڑیں میں انکار نہیں کروں گا'' ضمنی الیکشن کے دوران فائرنگ کی زد میں آکر جاں بحق ہونے ذیشان کے والد کے اس بیان کو سن کر حیرانی اور پریشانی کے عالم نے راقم کو اس تحریر کو لکھنے پر مجبور کردیا کہ آخر ہمارے معاشرے کو کیا ہوگیا ہے کہ جو اقتدار کے حصول کے لئے ہونے والی جدوجہد میں خود بھی اور اپنے پیاروں کی جانیں گنوانے کی بھی پرواہ نہیں کررہے اور حصول اقتدار کی جدوجہد اور تحریکوں میں اپنا مال، اپنا قیمتی وقت حتی کہ اللہ کریم کی دی ہوئی سب سے قیمتی شے یعنی جان کو نچھاور کرنے سے بھی گھبرا نہیں رہے۔

(جاری ہے)

کل تک ہم اپنے اپنے مذہبی عقائد کی بناء پر ایک دوسرے کیساتھ دست و گریباں ہوا کرتے تھے، مناظرے اور مباہلے کیا کرتے تھے, مذہبی فرقہ پرستی کی خاطر اپنی جان و مال و متاع کو قربان کیا کرتے تھے مگر آج ہم اپنے اپنے سیاسی رہنماؤں و پیشواؤں کے پیچھے لگ کر مخالف کو نیچا دکھانے اور حصول اقتدار کی جدوجہد کی خاطر اپنا تن من دھن قربان کرنے کے لئے ہمہ تن گوش رہتے ہیں۔

مذہب اسلام میں اختلاف رائے کو باعث رحمت کہا گیا ہے مگر ہم نے مذہب و شریعت کے چھوٹے چھوٹے فروعی مسائل کو اپنی اپنی جھوٹی آنا ء کا مسئلہ بنایا، کسی کو مشرک، کسی کو گستاخ، کسی کو بدعتی تو کسی کو کافر کہتے ہوئے بھی کوئی شرم محسوس نہ کی اور اک دوجے کے خلاف صف آراء ہوتے گئے اور فرقہ در فرقہ بٹتے گئے کوئی کسی کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا اور کوئی کسی کے سلام کا جواب دینا بھی اپنی توہین سمجھتا ہے، کوئی اللہ کے گھر خانہ کعبہ میں بھی مسجدالحرام کے امام کے پیچھے نماز پڑھنے کی بجائے اپنے ہوٹل میں چھپ کر نماز پڑھنے یا پھر حرم پاک میں اپنی علیحدہ جماعت کرواتے ہوئے دیکھائی دیتا ہے۔

حد تو یہ ہے کہ کچھ لوگ مخالف مسلک کے فرد کے مرنے کے بعد نفرت کی بناء پر اسکا نماز جنازہ بھی پڑھنا گوارا نہیں کرتے۔ آپ کسی سے اسکا تعارف پوچھیں تو جواب میں کوئی آپکو مسلمان نہیں بتائے گا بلکہ بریلوی، دیوبندی، اہلحدیث، اہل تشیع وغیرہ وغیرہ بتائے گا۔ اسلام اور کلمہ طیبہ لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ کے نام پر بننے والی مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان جہاں مسلمان کم مگر مختلف مسالک کے لوگ آپ کو زیادہ ملیں گے وہی پر مملکت خدادا پاکستان میں بڑھنے والی سیاسی فرقہ پرستی  اور فرقہ واریت نے اس مملکت میں بسنے والوں کو مزید تقسیم در تقسیم کردیا ہے، کسی بھی جمہوری ملک میں کسی بھی سیاسی پارٹی کے ساتھ وابستگی رکھنا نہ تو کوئی گناہ ہے اور نہ ہی کسی قسم کا جرم مگر ہم اپنی اپنی سیاسی پارٹیوں اور سیاسی قائدین کے نظریات پر ہر وقت آمین اور لیبک کہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

اس وقت پاکستان میں سیاسی فرقہ پرستی نے مذہبی فرقہ پرستی کو بھی بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ جہاں کل تک ہمارے اسلاف اور بزرگ کفار کیساتھ جہاد فی سبیل اللہ کرتے ہوئے شہادت کا عظیم رتبہ حاصل کرنے کی تمنا اور اسکی تگ دو کرتے ہوئے اپنی زندگیاں بسر کیا کرتے تھے، آج یہ جہاد (جنگ) ہم اپنے ہم وطنوں کیساتھ کرتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں۔ سیاسی کارکنوں اور سیاسی رہنماؤں کی سیاسی و حصول اقتدار کی جدوجہد میں مخالف سیا سی پا رٹی کے ہاتھوں مرنے والے کو شہید کا لقب بھی دیا جاتا ہے اور باقاعدہ شہدا کے نام سے مقبرے اور شہد اکے قبرستان بھی قائم کئے گئے ہیں۔

ہمارے سامنے کراچی شہر کی مثال بہت واضح ہے کہ کس طرح سینکڑوں کی تعداد میں ماؤوں کے لال اک سیاسی و لسانی جدوجہد کی بھینٹ چڑھ کر قبرستانوں تک پہنچ گئے اور ابدی نیند سو رہے ہیں۔خاندانوں کے خاندان تباہ و برباد ہوگئے۔کل تک اک خاندان میں زیادہ سے زیادہ مسلکی اختلافات ہوا کرتے تھے، خاندان کے اک گھر کسی ایک مسلک سے تعلق رکھتا تھا تو دوسرے گھر والے کسی دوسرے مسلک سے تعلق رکھتے تھے مگر اب تو سیاسی فرقہ پرستی اس قدر شدت اختیار کر چکی ہے قریبا ہر گھر میں ایک بھائی مسلم لیگ ن کا حمایتی ہے تو دوسر ا پیپلز پارٹی کا یا پھر تحریک انصاف کا وغیرہ وغیرہ۔

پچھلے دنوں یہ خبر میڈیا کی زینت بنی کہ اک شخص نے اپنی بیٹی کا رشتہ دیکھنے والوں کو اس بناء پر انکار کردیا کہ لڑکے والے عمران خان کے حمایتی ہیں۔ اسی طرح 2018  کے الیکشن والے دن اک بدبخت بیٹے نے مخالف پارٹی کو ووٹ دینے اور حمایت کرنے کی بناء پر اپنے باپ کو گولی مارکر قتل کردیا۔، آئے روزسکول، یونیورسٹی، دفتر، فیکٹری، کارخانوں، گلی محلہ اور تھروں پر بیٹھے نوجوانوں، بزرگوں کو سیاست پر بحث و مباحثہ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے،سوشل میڈیا پر اپنے اپنے سیاسی لیڈران اور سیاسی پارٹیوں کے سپورٹرزاپنے ہم وطن پاکستانیوں اور مسلمان بھائیوں کے ساتھ گالی گلوچ کرتے ہوتے دیکھے جاسکتے ہیں۔

ہم جن سیاسی لیڈران کی خاطراپنے بھائیوں، ساتھیوں، دوستوں، عزیز رشتہ داروں سے اپنے تعلقات کو ختم کررہے ہوتے ہیں، وہی سیاسی لیڈران اپنے بدترین سیاسی حریف کے ساتھ بغل گیر اور خوش گپیاں مارتے ہوئے نظر آتے ہیں، ہمارے سامنے بہت سی مثالیں ہیں کہ جب پاکستان کی سب سے بڑی دو سیاسی جماعتوں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے لیڈران نواز شریف اور بے نظیربھٹو جو کم و بیش دو دہائیوں تک اک دوسرے کے شدید سیاسی مخالف تھے اور انکے سپورٹران اک دوجے سے دست و گریبان ہوتے دیکھائی دیتے تھے،، وقت پڑنے پرانہی پارٹیوں کے لیڈران بہن بھائی بن گئے اور مثاق جمہوریت کرتے ہوئے دیکھائی بھی دیئے،کل تک پاکستان تحریک انصاف کے لیڈر عمران خان ایم کیو ایم کو دہشت گرد پارٹی کہا کرتے تھے آج اسی پارٹی کیساتھ اتحاد کرکے اقتدار کے مزے لے رہے ہیں۔

کل تک شہباز شریف جلسوں میں زرداری کو لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے کرتے تھے اور میرے جیسے بہت سے سپورٹران تالیاں بجا بجا کر واہ واہ کررہے ہوتے تھے، پھر اک وقت آیا کہ شہباز شریف کو زرداری کیساتھ مصافحہ و معانقہ کرتے ہوئے بھی تما م پاکستانیوں نے دیکھا، کل تک بلاول بھٹو نواز شریف کو مودی کا یار کے طعنے مارا کرتے تھے اورآج اسی مودی کے یار نواز شریف کی پارٹی کیساتھ اتحاد کئے ہوئے ہیں۔

زرداری عمران بھائی بھائی کا نعرہ لگاتی ہوئی مریم نواز آج عمران کے بھائی زرداری کیساتھ مل کر زرداری کے بھائی عمران کی حکومت کیخلاف حکومت ہٹاؤ تحریک کی روح رواں نظر آتی ہیں، عمران خان کے بقول پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو پرویز الہی ہوا کرتا تھا، پھر وقت نے کروٹ لی تو آج وہی پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو عمران خان کی مہربانیوں سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی کا اسپیکر ہے اور پرویز الہی کی پارٹی کے کچھ ارکان وفاقی اور صوبائی وزارتوں پر براجمان بھی نظر آرہے ہیں۔

اندازہ کریں کہ ہم ایسے سیاسی لیڈر کو اپنا پیشوا اور نجات دہندہ مان رہے ہیں کہ جس کے مطابق اپنی کہی ہوئی بات یا وعدہ سے مکر جانا کوئی عیب نہیں ہے یعنی یوٹرن لینے والے کو عظیم اور سمجھدار شخص کہا جاتا ہے۔کل تک جو لیڈر گورنر ہاؤسز اور وزیراعظم ہاؤس کو ختم کرکے یونیورسٹی بنانے کے دعوے کیا کرتا تھا، IMF سے قرضہ لینے کی بجائے خودکشی کرنے کو ترجیح دینے کا اعلان اور دعویٰ کیا کرتا تھا تو میرے جیسے بہت سے سپورٹرز اس لیڈر کی باتوں پر واہ واہ کیا کرتے تھے اور اپنے مخالف سیاسی خیالات رکھنے والے دوستوں اور رشتہ داروں کیساتھ منہ ماری کیا کرتے تھے،آج وہی لیڈر آج بیرون ممالک سے قرضوں کے حصول کو اپنی حکومت کی سب بڑی کامیابی تصور کرتا ہے،کل تک جو لیڈر 90 روز کی تبدیلی کا وعدہ اور دعویٰ کیا کرتا تھا  آج وہی لیڈر 5  سال کے اقتدار کو بھی بہت کم وقت سمجھتا ہے، جو لیڈرا ایک کروڑ نوکری اور پچاس لاکھ گھر بنانے کے وعدے  اور دعوے کرکے اقتدار کی مسند پر براجمان ہے وہ کہتا ہے کہ یہ سب کچھ کرنا حکومت کا کام نہیں ہے، کل تک ملک میں ہونے والی مہنگائی، بجلی اور گیس کے بلوں میں اضافہ کو حکمرانوں کی کرپشن تصور کیا کرتا تھا آج وہی لیڈ ر اپنے دور حکومت میں آئے روز بجلی، گیس، پٹرول اور ضروریات زندگی کی اشیاء کو مہنگا کرتا ہوا دیکھائی دیتا ہے۔


ہم سپورٹرز درحقیقت اندھی تقلید میں اتنا ادب و احترام اپنے والدین کا نہیں کرتے جتنا اپنے سیاسی لیڈران کا کرتے ہیں۔یہ کہنے میں کچھ حرج نہیں ہے کہ ہم نے اپنے اپنے سیاسی لیڈران کی پوجا کرنی شروع کردی ہے،کیونکہ کوئی شخص اپنے سیاسی لیڈر کے خلاف بات سننا پسند ہی نہیں کرتا،چاہے اسکا لیڈر کتنا ہی بڑا جھوٹا کیوں نہ ہو۔آج آپ کسی کے سیاسی لیڈر کی اسکی پالیسی اور عملی اقدامات کی بناء پر تھوڑی سی تنقید کرکے دیکھیں، اللہ معاف فرمائیں ہم لوگ اپنے سیاسی لیڈر کی مخالفت کرنے کی بناء پر مخالف شخض کے خلاف انتہائی غلیظ اور گھٹیا زبان استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں۔

ماں بہن اور دیگر گھر والوں کے خلاف گندی ز بان کا استعمال شروع کردیتے ہیں۔سیاسی لیڈران کے ساتھ وابستگی اور انکی حمایت کرنا کوئی جرم نہیں ہے مگر اپنے اپنے سیاسی قائد کی ہر بات پر من و عن آمین کہ دینا چاہے چاہے وہ جھوٹ ہی کیوں نہ ہو، یہ بہت غلط بات ہے، ہمیں سیاسی لیڈران کی حمایت صرف اور صرف انکی ملک و ملت کی فلاح و بہبود کے لئے بنائی گئی پالیسی اور پھر ان پر حقیقتا عملدرآمد کرنے کی صورت میں کرنی چاہئے،جمہوریت کا اصلی اور حقیقی حسن بھی یہی ہے کہ اسکی پسندیدہ جماعت اور اسکا لیڈرا اچھا کام کرے تو شاباش دیں اور اگر غلط کام کرے تو کھل کر تنقید کرے نہ کہ ذہنی غلام بن کر لیڈر کی ہر بونگی پرلیڈر کی ہاں میں ہاں ملائی جائے اور مخالف سیاسی پارٹی اور ورکرز کیساتھ منہ ماری کرتے رہیں۔

آپکا لیڈرا اور پسندیدہ سیاسی پارٹی حکومت میں آکر اچھا پرفارم کرے تو دل کھل کر اسکو شاباش دیں اور آنے والے الیکشن میں بھی کھل کر حمایت کریں لیکن اگر اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر بھی کچھ ڈیلیور نہ کرسکے تو نہ صرف اسکی مذمت کریں بلکہ تنقید برائے اصلاح کے ساتھ ساتھ الیکشن میں دوسری سیاسی پارٹی کو منتخب کروائیں۔
نہ جانے ہم بیچارے پاکستانیوں کو یہ سمجھ کب آئے گی کہ جن لیڈران کی خاطر ہم اپنے یاروں دوستوں، رشتہ داروں، محلہ داروں اور آفس کے ساتھیوں کے ساتھ منہ ماری کررہے ہوتے ہیں ان لیڈران کے نا صرف آپس میں باہمی رشتہ داریاں بھی ہیں اور کاروباری شراکت داریاں بھی ہیں، بلکہ بعض دفعہ تو ہمارے لیڈران میں سے ایک بھائی ایک سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہے تو دوسرا مخالف سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتا ہے،جس کی بہترین مثال پاکستان تحریک انصاف کے وفاقی وزیر اسد عمر صاحب اور انکی سگے بھائی زبیرعمر صاحب سابقہ گورنر سندھ جن کا تعلق پاکستان مسلم لیگ سے ہے، اور زبیر عمر صاحب اس وقت نواز شریف اور مریم نواز کی ترجمانی کے فرائض بھی ادا کررہے ہیں۔

، اسی طرح کی بہت سی مثالیں دیں جاسکتی ہیں، یہ لوگ اکٹھے شادیاں بھی مناتے ہیں اور عید و دیگر تقریبات میں اکٹھے نظر بھی آتے ہیں، اس لئے ہم سب سپورٹران کے لئے یہ سبق ہے کہ آپکی سیاسی وابستگی جس مرضی سیاسی پارٹی سے ہو، آپ کی مخالفت صرف اور صرف پالیسی سے اختلاف کی حد تک ہونی چاہئے نا کہ گالی گلوچ اور مرنے مارنے جیسی صورتحال پید اہوجائے۔

کاش ہم سیاسی فرقہ واریت سے پاک ہوجائیں اور سب پاکستانی بن جائیں، کاش ہم پاکستانی بن کر سوچیں اوراختلاف کو صرف زبانی اختلاف کی حد تک رکھیں۔یہ لکھتے ہوئے کوئی تعجب نہیں ہے کہ اسلام اور کلمہ طیبہ لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ کے نام پر بننی والی مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سیاسی فرقہ پرستی نے مذہبی اور مسلکی فرقہ پرستی کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔اللہ کریم ہم سب کے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں سچا اور پکا مسلمان بنائے تاکہ ہم اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنی زندگیوں کو گزارتے ہوئے صحیح معنوں میں آخرت کی تیاری کریں، آمین ثم آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :