پاکستان میں ”نظام“آخری سانس لے رہا ہے؟

وکلاتحریک کی آڑمیں اپوزیشن کے کھیل کی تیاری آئی ایم ایف نے بجٹ بنا کر اپنا کھیل شروع کر دیا ہے

بدھ 26 جون 2019

Pakistan Main Nizaam Akhri Sans Ley Raha Hai
 محمد انیس الرحمن
یورپ کی کوکھ سے تین انقلابوں نے جنم لیا تھا ان میں سب سے پہلے”انقلاب برطانیہ“ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں خون کا ایک قطرہ گرائے بغیر بازی پلٹ دی گئی تھی یہ لیکن کیتھولک تاریخ دان اسے صحیح نہیں سمجھتے ،یہ انقلاب1688ء میں برپا کیا گیا تھا،اس کے بعد خونی ”انقلاب فرانس“ہے جو 1789ء میں لایا گیا اور آخر میں ”انقلاب روس“جسے1917ء میں تکمیل کے مرحلے میں پہنچا یا گیا تھا۔

مزے کی بات یہ ہے ان تینوں انقلابوں میں پس پردہ اہم کردار صہیونی بینکروں نے ادا کیا تھا۔یہ صہیونی بینکر قرضہ دے کر قوموں کو غلام بناتے تھے اور آج بھی یہ سلسلہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی شکل میں جوں کا توں جاری ہے۔
برطانوی انقلاب کیلئے ایمسٹرڈیم (ہالینڈ)کے یہودی بینکروں نے برطانیہ میں اولیورکرومویل Oliver Cromwellنامی فوجی سامان سپلائی کرنے والے ٹھیکیدار کو استعمال کیا جو بعد برطانوی سیاست میں بھی دخیل وااور برطانوی دولت مشترکہ کا محافظ لارڈ کہلایا۔

(جاری ہے)

انقلاب کی کامیابی کے بعد شاہ جیمس کی گردن اڑادی گئی اور اس کی پرٹسٹنٹ بیٹی میری اور داماداس انقلاب کے اصل ثمرات یورپین یہودیوں نے ایک برس بعد حاصل کیا جب جنوری 1689ء میں برطانوی پارلیمنٹ کا اجلاس منعقد کیا گیا اور برطانوی پارلیمنٹ میں”بل آف رائٹس“Bill of Rightsمنظور کیا گیا جس کے مقاصد کے حصول کیلئے اس برطانوی انقلاب کوبرپاکیا گیا تھا۔

اس ”بل آف رائٹس”کے مطابق ولیم آف اور نج بادشاہ اور شاہ جیمس کی بیٹی میری ملکہ کے طور پر مشترکہ حکمران ہوں گے،پارلیمنٹ کی جانب سے دونوں حکمرانوں کو سابقہ برطانوی بادشاہوں کی نسبت بہت کم اختیار ات حاصل ہوں گے تاکہ بعد میں باقی دنیا میں بھی ایسا کرنے کیلئے مثال قائم کی جاسکے۔
”بل آف رائٹس“پر بادشاہ اور ملکہ نے دستخط کردےئے اس بل میں کچھ آئینی اصول وضع کئے گئے تھے جس میں ریگولر پارلیمنٹ کا قیام ،آزاد الیکشن ،پارلیمنٹ میں اظہار رائے کی آزادی اس کے علاوہ کسی کیتھولک عقیدے کے عیسائی کا برطانوی حکمران بننے کی ممانعت اور سب سے اہم یہ کہ بینک آف انگلینڈ کے قیام کی اجازت۔

۔۔یہ آنے والے دور میں ”نیو ورلڈ آرڈر“کی بنیاد تھی۔مشہور کینیڈین ایڈمرل ولیم گے کئیر نے اپنی کتاب Pawns in The Gameمیں انکشاف کیا تھا کہ 1933ء میں یورپ میں ایک کمیٹی بنائی گئی تھی جس کاکام بینک آف انگلینڈ کے اصل مالکان کا سراغ لگانا تھا لیکن یہ کمیٹی بھی بعد میں اپنے مشن میں ناکام رہی۔یورپ کے ان تینوں انقلابات میں مذہب اور نسل پرستی کو خوب استعمال کیا گیا۔

اس انقلاب کا اگلا مرحلہ فرانس کا خونی انقلاب تھا۔
اس خونی انقلاب کا اصل سبب فرانس کے حکمران شاہی خاندان کا صہیونی بینکروں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بننے سے انکار تھا۔برطانیہ اور فرانس کے درمیان ہونے والی جنگوں میں ان صہیونی بینکروں نے دونوں ملکوں کو قرضے دے کراپنا باجگزاربنالیا تھا۔برطانیہ کی معاشیات پر مکمل قبضہ جمانے کے لئے نپولین اور برطانیہ کی جنگ کو استعمال کیا گیا تھا۔

صہیونی بینکرروتھ شائیلڈ جانتا تھا کہ واٹر لوکی جنگ میں نپولین کو شکست ہورہی ہے لیکن اس کے ایجنٹوں نے جان بوجھ کر برطانیہ میں افوااڑادی کہ نپولین تیزی سے کامیاب ہورہا ہے اس خبر کی وجہ سے برطانیہ کی اسٹاک ما رکیٹ بیٹھ گئی روتھ شائیلڈ کے فرنٹ مینوں نے برطانوی اسٹاک مارکیٹ کے حصص انتہائی کم قیمت پراٹھالئے لیکن جب اصل خبر برطانیہ پہنچی تو اس وقت تک تمام مارکیٹ صہیونی بینکروں کے ہاتھ میں آچکی تھی اب حصص نے بڑھنا تھا لیکن وہ سب یہودی بینکروں کے ہاتھ آچکے تھے جبکہ مقامی انگریز منہ دیکھتے رہ گئے وہ دن اور آج کا ہے تاج برطانیہ آج تک بینک آف انگلینڈ کا مقروض ہے۔

اسی بینک آف انگلینڈ کا لندن میں اکنامک زون ہے جہاں سے آج بھی روزانہ سونے کا بین الالقوامی ریٹ جاری ہوتا ہے اسی بینک کے تحت برطانیہ کا اسکول آف اکنامکس آتا ہے جہاں جدید ساہوکاری کے طریقے متعارف کرائے جاتے ہیں۔
اس ساری تاریخی تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم جان سکیں کہ وطن عزیز میں آج جب آئی ایم ایف اس کا بجٹ بنا رہا ہے تو اس کے پس پشت مقاصد کیا ہیں۔

اس میں مبالغہ نہیں ہے کہ زرداری اور شریف خاندان اس ملک کے کرامویل ہیں۔امریکہ افغانستان میں پھنسا ہوا تھاپاکستانی اداروں سے شاقی تھا کہ افغانستان میں اسے جومدد دینی چاہئے وہ پاکستانی ادارے نہیں دے رہے ۔اسی اثنامیں مشرف ہٹاؤ تحریک ملک میں زور پکڑتی ہے اس تحریک کا دوسرا سراعدلیہ بحالی تحریک سے جڑا ہوا تھا جس نے مشرف کو بے نظیر کے ساتھ بیٹھنے پر مجبور کیا یوں دبئی میں خفیہ مذاکرات کی داغ بیل ڈالی گئی جس میں سے”میثاق جمہوریت“کا ظہور ہوتاہے جس کا سکرپٹ لندن اور واشنگٹن میں تیار کیا جاتا ہے اس تحت پہلے پیپلز پارٹی نے اقتدار میں آنا تھا اس کے بعد ن لیگ کی باری تھی اور اس دوران دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بھی کرنا تھا زرداری کو جب صدر بنایا گیا تو اس کی ذمہ داری میں کابل سے تعلقات ٹھیک رکھنا بھی شامل تھا جس کے جواب میں وہ ملک میں جولوٹ کھسوٹ کرے اسے کوئی پوچھنے والا نہیں تھا اسی نوعیت کی ذمہ داری نواز شریف کی اس کا سیاسی قبلہ دبلی مقرر کیا گیا تھا۔

اس دوران میں پاکستان کی معیشت کو اس مقام تک پہنچا دینا تھا کہ اسے آنے والے وقت میں آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے سواکوئی چارہ نہ رہے اور ایسا ہی ہوا۔
اس صورتحال کو اگر بڑے تناظر میں لیا جائے تو بات صرف پاکستان کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ تمام مشرق وسطی اورشمالی افریقہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہوئے ہیں۔پاکستانی اسٹیٹ بینک کے مسلط کردہ گورنر باقر رضا اس سے پہلے مصر میں اس کی معیشت کا دھڑم تختہ کر آئے ہیں ۔

امریکی جریدے فارن پالیسی نے اپنے تازہ شمارے میں اس جانب واضح اشارہ دے دیا ہے کہ آنے والے وقت میں مصر معاشی تباہی کی جانب تیزی سے لڑھک رہا ہے۔مصر جو مشرق وسطی کا اہم ترین ملک ہے وہاں پہلے اخوان المسلمون کی حکومت کو قائم ہونے دیا گیا تاکہ تمام عرب ممالک خصوصاً تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں بادشاہتوں کو خاموش پیغام دے دیا جائے کہ اگر انہوں نے خطے میں امریکہ اور اسرائیل کے برخلاف کوئی قدم اٹھایا تو اخوان المسلمون کا سیاسی سیلاب ان کی حکومتوں کو بھی بہا کرلے جا سکتا ہے
۔


اس پیغام کے خلیجی ریاستوں میں کھلبلی مچادی تھی اور وہ تمام حکومتیں مصری جمہوری حکومت کے خلاف مصری فوجی ڈکٹیٹرشپ کی پشت پر کھڑے ہو گئے یوں وہاں ایک فوجی انقلاب کے ذریعے آمریت قائم کردی گئی اس ساری کارروائی میں مصری فوج اس قابل نہیں رہی کہ وہ اپنی سرحدوں سے باہر کی صورتحال کا مقابلہ کر سکے یوں تمام معاملات اسرائیل کی عین منشا کے مطابق کردےئے گئے۔

اب جبکہ مصر پوری طرح داخلی انتشار کا شکار نظر آتا ہے وہاں کی معیشت زبردست دھچکہ لگا ہے مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے عوام میں سخت قسم کی مایوسی چھائی ہوئی ہے۔
یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا ہے کہ اسرائیل کی سیاسی،عسکری اور معاشی سیادت میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہ رہے۔اس صورتحال کو دیکھ کر باقی خلیجی ریاستوں کے ہوش اڑچکے ہیں۔ سعودی عرب یمن کے حوثی تنازعے میں اس قدر الجھ چکا ہے کہ اب وہ وہاں سے اپنی جان چھڑانا بھی چاہئے تو مشکل نظر آرہا ہے ۔


جرمنی کی انٹیلی جنس کی ایک رپورٹ جرمن اخبار میں شائع ہوئی ہے جس نے یہ خوفناک انکشاف کیا ہے کہ سعودی فوج حوثی مسئلے پر قابو پانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔جنگ چونکہ ایک مہنگا کاروبار ہے اس لئے سعودی عرب کی معیشت کو اس سے زبردست جھٹکالگا ہے ۔امریکہ نے ایران کے مسئلے کو ہوادے کر عرب حکومتوں میں پہلے ہی امریکی اسلحے کی خریداری کی دوڑلگوادی تھی اور اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر اربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا ہے یوں ان خلیجی ریاستوں کی حکومتوں کومسلسل بے وقوف بنایا جارہا ہے
۔


ایسی ہی صورتحال پاکستان میں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی ہم اس سلسلے میں پہلے کہتے آئے ہیں کہ امریکہ افغانستان سے جاتے جاتے وہاں امریکہ اور بھارت نواز حکومت کے پاؤں مضبوطی سے جمانا چاہتا ہے اگر افغان طالبان بے جگری سے امریکہ اور اس کے صہیونی دجالی اتحادیوں کا مقابلہ نہ کرتے تو پاکستان کے گلے بڑی مصیبت پڑ سکتی تھی ۔لیکن موجودہ پی ٹی آئی حکومت آنے کے بعد وطن میں معیشت کا جوحال ہوا ہے یقینی بات ہے اس میں موجودہ حکومت سے زیادہ اس ملک کا نظام اور سابق دو حکومتیں ہیں جنہوں نے ایک طرف بری طرح لوٹ مار کی تو دوسری جانب اداروں میں موجود افراد کو بھی کرپٹ کردیا۔


اسی کرپشن کے پیسے کو مشرف ہٹاؤ تحریک میں استعمال کیا گیا اور اب یہی پیسہ ایک مرتبہ پھر عدلیہ کی آزادی کے نام پر اپنی کرپشن بچاؤ اور حکومت ہٹاؤ مہم میں استعمال کرنے کا پروگرام ہے اس سلسلے میں بڑے بڑے”دیہاڑی باز“دیہاڑی لگانے کو تیار بیٹھے ہیں لیکن اس مرتبہ یہ بیل مونڈھے چڑھتے نظر نہیں آتی۔اس سلسلے میں وکلاء برادری بری طرح تقسیم ہو چکی ہے ہڑتال مخالف وکلاکا کہنا ہے کہ احتساب سب کا ہونا چاہئے آئین میں اس کا طریقے کارواضح ہے شخصیات کی بجائے اداروں کو ترجیح دینا چاہئے۔

دوسری جانب اپوزیشن کر پشن بچاؤ مہم کا حصہ تو ہے لیکن کیسے اور کس طرح؟اس سلسلے میں مخمصے کاشکار ہے اور ایک دوسرے کا کاندھا تلاش کیا جارہا ہے ۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس شرمیں سے خیر کا پہلو یہ نکلا ہے کہ یہ نظام بری طرح پاکستانی قوم کے سامنے بے نقاب ہو چکا ہے اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ اپنی قبر میں اترتا جارہا ہے ۔جمہوریت ایک صہیونی حربہ ہے جس کی مثال ہم اوپر انقلاب برطانیہ کی شکل میں دے آئے ہیں۔

برطانیہ میں دارالعوام بھی ہے اور ہاؤس آف لارڈ بھی اسی دارالعوام سے وہی وزیر اعظم منتخب ہوتا ہے جس کی منظوری لندن کا ”اکنامک“زون دیتا ہے باقی سب دکھاوا اور میڈیا کا رزق۔۔۔جہاں تک حکومت کے خلاف وکلاتحریک کی بات ہے تو شاہداس غبارے سے ہوا جلد نکل جائے کیونکہ اپوزیشن کے پاس اب یہی ایک پلیٹ فارم رہ گیا تھا لیکن یہاں بھی بات بنتی نظر نہیں آرہی۔


اب وطن عزیز میں لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کے لئے سخت اقدامات کے سوا کوئی چارہ نہیں ،بے رحم احتساب کی تلوار چلائے بغیر اس ملک اور قوم کے زخموں کا مداواممکن نہیں رہا،قوم اس بے مقصد پارلیمانی نظام کامزہ چکھ چکی ہے جہاں پر دولت کی بنیاد پر چور قومی دولت کی مزید لوٹ مار کے لئے جمع ہوتے ہیں ۔جتنی جلد اس کرپٹ نظام کی بساط کو لپیٹ دیا جائے اتنا ہی اس ملک اور قوم کے حق میں بہتر ہو گا۔

کیونکہ آنے والے وقت میں جنگیں ایک نیارخ اختیار کرنے والی ہیں ،تیسری عالمگیر جنگ کی تمہید نائن الیون کے ڈرامے کے بعد سے شروع ہے۔روس اور چین اس بڑی جنگ کی تیاری تقریباً مکمل کر چکے ہیں ۔بھارت میں مودی کی حکومت کا دوبارہ قیام اور وہاں ہندوانتہا پسندی کا دور دورا اچانک نہیں بلکہ ایک بڑی پلاننگ کے تحت کیا گیا ہے ۔وقت اب بہت کم ہے۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Pakistan Main Nizaam Akhri Sans Ley Raha Hai is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 June 2019 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.