بے نظیر کی سالگرہ ،کسی نے قتل اور قاتلوں کا ذکر نہیں کیا

بدھ 26 جون 2019

Mubashir Mir

مبشر میر

پاکستان پیپلز پارٹی نے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی 66ویں سالگرہ مناتے ہوئے حالات حاضرہ پر سیاسی بیان بازی پر ہی اکتفا کیا، کسی ایک رہنما نے بھی محترمہ شہید کے مقدمہ قتل پر تبصرہ نہیں کیا۔ اس کے لیے انصاف میں تاخیر پر گفتگو نہیں کی۔ پی پی پی نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو قتل کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ جو اسوقت دبئی میں ہیں اور ان کے وکلاء کے مطابق ان کا علاج کروایا جارہا ہے۔

عدالت میں حاضری کے حوالے سے کئی ایک متضاد دعوے کیے گئے لیکن سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے نہ آنا تھا اور نہ آئے۔
محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی اس سال دسمبر میں 12ویں برسی منائی جائیگی، لیکن ان کے حوالے سے بہت سے سوالات ابھی بھی جواب طلب ہیں اور غالباً رہیں گے، لیکن مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جب محترمہ بینظیر بھٹو کی جانب سے صدر پرویز مشرف حکومت کے ساتھ بات چیت کا آغاز ہورہا تھا تو محترمہ شہید نے جنرل پرویز مشرف سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ان کی طرف سے کسی اور سے نہیں بلکہ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل پرویز کیانی سے مذاکرات کو ترجیح دیں گی۔

(جاری ہے)

تقریباً تمام معاملات جنرل پرویز کیانی نے طے کیے۔ جنرل پرویز مشرف کی ملاقات تو رسمی تھی۔
محترمہ شہید نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ مجھے حیرت تھی کہ جنرل پرویز مشرف نے میرے تمام مطالبات مان لیے حالانکہ انہیں ان مطالبات کو تسلیم کرنے کی پہلے ہی یقین دہانی کروائی جاچکی تھی۔ سوال یہ بھی ہے کہ جب محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت ہوئی تو جنرل پرویز کیانی ملک کے آرمی چیف بن چکے تھے۔

جنرل پرویز مشرف تو صدر تھے، لیکن آج تک پاکستان پیپلز پارٹی نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ محترمہ شہید کے قتل کے حوالے سے جنرل پرویز کیانی سے بھی پوچھا جائے۔ جنہو ں نے بحیثیت ڈی جی آئی ایس آئی کس نوعیت کی یقین دہانیاں کروائیں تھیں ؟ کیا ان پر عملدرآمد ہوا ؟ جب متحرمہ شہید کو اپنی سیکورٹی کے حوالے سے خدشات بڑھتے ہوئے دکھائی دئیے تو انہوں نے امریکی حکام کو اور مارک سیگل کو آگاہ کرنے کی کوشش کی۔

لیکن چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز کیانی کو رابطہ کرنے کی کوشش کیوں نہ کی۔ محترمہ شہید کی شہادت کے 12 برس بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاست کرپشن مقدمات کی دلدل میں پھنس چکی ہے۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ میں بجٹ اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر مفاہمت کی بات کی ہے۔ تمام سیاستدان مفاہمت پر آمادہ ہیں، لیکن اس شرط کے ساتھ کرپشن مقدمات بند کردیے جائیں ۔

گذشتہ را صلوة، آئندہ را احتیاط کے فارمولے پر عمل کرنے کے حق میں ہیں، لیکن موجودہ حکومت سزا اور جزا کے نظام کو رائج کرنے کی بات کررہی ہے۔
حقیقی طور پر دونوں فارمولے درست ہیں لیکن مکمل طور پر کسی ایک کو نافذ کرنے میں دشواریاں ہیں۔ ایمنسٹی اسکیم سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کیلئے نہیں رکھی گئی جبکہ پلی بارگین میں سیاستدان بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

سزا اور جزا کے نظام پر عملدرآمد کروانے میں نظام عدل و انصاف اور محکمہ پولیس ناکام رہا ہے۔ اگرچہ نیب کے قوانین سخت ہیں، لیکن تفتیشی طریقہ کار میں اتنے سقم ہیں کہ الله کی پناہ! ۔ قومی خزانے سے خردبرد ہونے والی رقم کا حصول بہت مشکل ہے، اس لیے "Truth & Recanciliation" پر بات کی گنجائش موجود ہے۔
سیاست کی بساط پر تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی ایک دوسرے کو شہہ دے رہی ہیں۔

اگر آصف علی زرداری اور محترمہ فریال تالپور کی گرفتاری عمل میں آئی ہے اور وزیراعلیٰ سندھ ، سید مراد علی شاہ، سید خورشید شاہ کی گرفتاری کی گفتگو ہورہی ہے ، تو پی پی پی نے ایوان بالا میں تبدیلی کا اشارہ دے کر شہہ دی اور سندھ میں وفاقی بجٹ کے خلاف ریلیاں نکال کر سیاسی دباؤ بڑھانے کی کوشش کی۔ اسی طرح جواب آں غزل کے طور پر گورنر سندھ عمران اسماعیل اور پیرپگارا کے درمیان طویل ملاقات ہوئی اور سندھ میں تبدیلی کی گفتگو زور پکڑ گئی۔

    
وزیراعظم عمران خان نے گھوٹکی کا مختصر دورہ کیا اور وفاقی وزیرعلی محمد مہر کی وفات پر اظہار افسوس کیا اور جی ڈی اے کے رہنماؤں سے بات چیت بھی کی، پر سیاسی گرد اسی طرح اڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ وفاقی بجٹ کی منظوری کے بعد تناؤ کی شدت میں کمی آئے گی لیکن مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز شریف متحدہ اپوزیشن کی مدد سے حکومت پر سیاسی دباؤ بڑھانے کے موڈ میں ہیں۔

باخبر ذرائع کے مطابق وہ سندھ کا بھی دورہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں جبکہ موسم کی شدت میں کمی کے بعد جلسوں کا ایک سلسلہ شروع کرنا چاہتی ہیں۔ غالباً ان کے جلسوں میں میاں شہباز شریف ان کے ہمراہ نہیں ہونگے۔
ملک کی معاشی صورتحال ابھی بھی دباؤ کا شکار ہے، یوں دکھائی دیتا ہے کہ ایک منظم طریقے سے کچھ گروہ کام کررہے ہیں جو قیمتوں میں استحکام لانے میں رکاوٹ ہیں۔

وہ سونے کے ر یٹ بڑھانے، اسٹاک مارکیٹ کو گرانے اور ڈالر کی مانگ میں اضافہ کے حوالے سے بڑے پیمانے پر خریدوفروخت کرتے ہیں۔ یہی خبریں شہہ سرخیاں بنتی ہیں، وفاقی حکومت یہ دھندا کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں ہوپارہی۔
وفاقی حکومت کو چاہیے کہ سونے کی خریدوفروخت کو ایک ڈسپلن میں لانے کی کوشش کرے تو صورتحال میں بے چینی کی فضا بہت حد تک کم ہوجائے گی۔

فسٹ نیشنل ایکویٹی لمیٹڈ کے مطابق یکم جنوری 2019ء سے اب تک کراچی اسٹاک ایکسچینج 100 انڈکس میں 1942 پوائنٹس کی کمی واقع ہوئی ہے یہ کمی 5.24 فیصد ہے۔ جبکہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ 26.28 فیصد شمار کیا گیا ہے۔
امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ممکن ہے۔ ایم کیو ایم نے سندھ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ ان کی وجہ سے سندھ کے حالات بہت خراب ہیں جبکہ شہری سندھ میں پی پی پی کی حکومت ترقیاتی کام نہیں کروارہی ، انہوں نے یہ بھی کہا کہ شہری سندھ میں ذوالفقار علی بھٹو کو بھی انتخابات میں کامیابی نہیں ملی تھی۔

گویا شہری سندھ ، کراچی، حیدرآباد اور دیگر میں پی پی پی کو مقبولیت حاصل نہیں۔
گرمی کی شدت نے پورے سندھ اور کراچی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک صوبہ سندھ میں ایک بھی جنگل نہیں لگایا گیا۔ سندھ کے بیشتر علاقے صحرا کا منظر پیش کررہے ہیں۔ کراچی کی 19ویں صدی کے خاتمے پر ایک لاکھ آبادی تھی تقریباً 47 برس بعد قیام پاکستان کے وقت اس شہر کی آبادی چار لاکھ نفوس پر مشتمل تھی اور قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی آمد ہوئی ، آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

اگر چہ آبادی کی تعداد تنازع کا شکار ہے، لیکن محتاط اندازے کے مطابق 25 ملین افراد اس شہر میں بستے ہیں۔ 13 لاکھ ایکڑ رقبے کے شہر میں سے تقریباً 3 لاکھ ایکر رقبے پر لوگ آباد ہیں، شہر کے ایک طرف سمندر اور تین اطراف صحرا ہے، ایک بھی جنگل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہیٹ ویو نے گذشتہ چند برسوں سے شہر کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کسی کو حبر نہیں کہ اس شہر کو اس عذاب سے نجات دلانے کے لیے کسے کردار ادا کرنا ہے۔ عوام پانی کی کمی کے عذاب کی طرح اس عذاب کے بھی عادی ہورہے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :