پی ٹی آئی حکومت جاگو ۔۔! لیکن ہوش کے ناخن لیتے ہوئے

اتوار 21 فروری 2021

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

کورونا وائرس نے آج کی تاریخ تک دنیا میں صحیح معنوں میں تہلکہ مچا کر رکھ دیا ہے۔ اس وائرس نے دنیا بھر کے 145 ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔اور سینکڑوں نہیں ،ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراداس کے شکنجے میں آ چکے ہیں۔(WHO) ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اسے عالمی وباڈیکلیئر کر دیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل چین کی دفتر خارجہ کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ اس کوروناوائرس کو پھیلانے میں امریکہ کا ہاتھ ہے اور یہ اقدام امریکی خفیہ ادارے نے بیالوجیکل حملہ چین کی معاشی طاقت کو بڑھنے سے روکنے کیلئے کیا جس کے نتائج پوری دنیا بھگت رہی ہے، چین اس معاملے کو اقوام متحدہ میں بھی اٹھائے گا جس کی امریکہ کو وضاحت دینا پڑے گی۔

یہ وائرس امریکی افواج اپنے ساتھ چینی شہر ووہان میں لیکر آئے تھے۔

(جاری ہے)

اس کا جواب دیتے ہوئے امریکہ نے چین کے اس بیان کی سخت الفاظ میں تردید و مذمت کی بلکہ چین کو تنبیہ کی کہ یہ تو آپ نے الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی بات کی ہے۔ امریکہ خود آبادی کے لحاظ سے دنیا بھر کے بڑے ممالک میں شامل ہے، اور وہ خود بھی کورونا وائرس کے مہلک اثرات کا حامل ملک ہے، اس سلسلے میں امریکہ میں ایمرجنسی لگا دی گئی تھی۔

اور امریکہ نے پورے یورپ کی فلائیٹس کو بند کر کے اپنے بارڈر بھی بند کر دیئے تھے۔ اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے برطانیہ نے بھی آج کل 33 ممالک کی ایک لسٹ جاری کر دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی مسافر ان 33 ممالک سے ٹرانزٹ کرتا ہوا برطانیہ کے کسی بھی ایئرپورٹ پر لینڈ کریگا تو پہلے تو اسے لندن میں موجود برطانوی حکومت کی طرف سے بک شدہ ہوٹلوں میں کم سے کم 10 روز کیلئے آئسولیٹ ہونا لازمی ہو گا، اور ان 10 روزہ قیام و طعام کا سارا خرچ اس مسافر کو خود ہی برداشت کرنا پڑیگا۔

قیام کے دوسرے روز کورونا وائرس سے بچاؤ کا پہلا انجیکشن لگایا جائیگا اور اس کے بعد آٹھویں روز دوسرا انجیکشن لگانے کے بعد گیارہویں روز کورونا ٹیسٹ کیا جائیگا، ٹیسٹ کے منفی رزلٹ آنے پر اسے گھر یا جس بھی کام کیلئے اس کا برطانیہ آنا ہوا ہوگا تو اسے جانے دیا جائیگا۔اور ان ٹیسٹوں کا خرچ 210 پاؤنڈ بھی وہ خود ادا کریگا۔ ہوٹل میں قیام و طعام کا خرچ 1750برطانوی پاؤنڈ ہو گا۔

اس کے علاوہ برطانیہ سے جانے والے مسافر جو برطانیہ میں پہلے سے ہی رہائش پذیر ہیں انہیں ملک چھوڑ کر جانے کیلئے وہ وجہ بتانی پڑے گی جس کے باعث وہ کسی دوسرے ملک کا سفر کر رہے ہیں۔ اس قانون کی زد میں پاکستانی تارکین وطن جو برطانوی شہریت رکھتے ہیں، بھی آئے ہوئے ہیں۔ اور اسی ساری پریشانی سے بچنے کی وجہ سے بے شمار مسافروں نے بیرون ممالک کا سفر یا تو مئوخر کر دیا ہے یا بالکل ہی ترک کر دیا ہے۔

اسی وجہ سے برطانیہ کے سارے ایئرپورٹس جو پہلے پہل 24 گھنٹے مسافرسیاحوں سے بھرے ہوتے تھے، آجکل شہر خاموشاں کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ سعودی عرب میں مسجد الحرام اور مسجد نبوی بھی عمرہ زائرین صرف لوکل سعودی باشندوں کیلئے کھلی ہوئی ہیں۔ یورپی ممالک میں موجود مسلمانوں کی بڑی بڑی مساجد بھی یا تو بند کر دی گئیں ہیں یا ان میں عبادت کرنیوالے مسلمانوں کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے۔

اور انہی مساجد کے پیش اماموں نے اپنے مسلمان بھائیوں بہنوں کو ہدایت کی ہے کہ جمعہ المبارک سمیت تمام نمازوں کی پابندی کورونا وائرس کی احتیاطی تدابیر پر مکمل عمل کرتے ہوئے ہی پوری کریں، استغفار کا کثرت سے ورد جاری رکھیں۔ گزشتہ ادوار میں یورپی اقوام ہر آنے والی چھٹیوں کی قبل ازوقت پلاننگ کر لیا کرتی تھی، ابھی اگلے ماہ کے پہلے ہفتے میں ایسٹر کے سلسلے میں یورپ کے تعلیمی ادارے بند ہوتے ہیں،لیکن مکمل لاک ڈاؤن کے باعث تو ابھی تک تعلیمی ادارے بند ہیں، یکم مارچ کے بعد برطانوی حکومت لاک ڈاؤن میں نرمی اور سکولوں کے علاوہ کاروبار جزوی طور پر کھولنے کی پالیسی کا اعلان کریگی اور اگر اپریل میں آنے والی ایسٹر کی چھٹیوں میں حالات بہتر ہوئے تو عوام کی ایک بڑی تعداد چھٹیاں انجوائے کرنے کیلئے دوسرے ملکوں کا رخ کریں گے۔

اس پورے کورونا سیزن میں اب تک پوری دنیا کی ہوائی کمپنیوں کو 35 سے 40 فیصد خسارہ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اور دنیا بھر کے سیاحوں کے اپنے اپنے ملکوں میں محصور ہونے کی وجہ سے ہوٹل انڈسٹری بھی بری طرح متاثرہو ئی ہے۔ چھوٹے سے لیکر بڑے ہوٹلوں نے اپنے اپنے کرایوں میں نمایاں کمی بھی کی لیکن پھر بھی سارے ہوٹل ویران پڑے ہیں اور سب لوگ فارغ ہاتھ پے ہاتھ رکھے بیٹھے ہیں۔

آج کی تازہ خبر تو یہ بھی ہے کہ ہالینڈ، جرمنی، بیلجیئم اور فرانس کی ریلوے نے ان چھٹیوں میں ریل کا سفر بالکل مفت کر دیا ہے لیکن ان ساری سہولیات دینے کا زرا برابر بھی فائدہ نہیں ہو رہا۔ کیونکہ یہاں کے سائنسدانوں کے تجزیہ کے مطابق پچھلے سال کے کورونا نے نئے سال میں ایک نئے انداز میں انڈے بچے دیتے ہوئے زیادہ مہلک قسم کے کورونا وائر س کی شکل اختیار کرتے ہوئے حملہ کیا ہے۔

اور یہ حملہ پہلے کورونا حملہ سے 75 فیصد زیادہ خطرناک ہے۔اس قحط والی بڑھتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر امریکہ، کینیڈا اور یورپ کی عوام نے بڑے بڑے سپر سٹوروں سے ٹوائلٹ پیپر، پینے کا صاف پانی، ضروریات زندگی اور کھانے پینے کی مختلف اشیاء کی خریداری ضرورت سے زیادہ خریدکر کے ذخیرہ کر لی ہے۔ تاکہ قحط کی صورت میں انہیں مشکل پیش نہ آئے۔ اس عذاب الہٰی کی وجہ سے پوری قوم کو سخت کوفت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اللہ ہی خیر کرے۔۔۔
اگلے ماہ 3 مارچ کو پاکستان میں سینٹ الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔ اس سے پہلے گیارہ جماعتی اتحاد پی ڈی ایم سینٹ الیکشن کی وجہ سے ملکی سیاست سے غائب ہو گیا ہے اور 26 مارچ کو لانگ مارچ کا اعلان کر کے سکون سے اپنے اپنے پارٹی دفاتر میں ایک دوسرے سے صلح مشورے کرنے میں مصروف ہے۔ حکومتی پارٹی کو سینٹ الیکشن خفیہ بیلٹ کے ذریعے یا شو آف ہینڈ کے ذریعے کرانے کیلئے عدالتی فیصلے کا انتظار ہے۔

اور الیکشن میں ووٹنگ کا حق رکھنے والے ارکان اسمبلی اپنے اپنے طورپر ووٹ کی قیمت لگانے کیلئے نت نئے طریقے سوچ رہے ہیں اور پورا پورا پلان تیار کیا جا رہا ہے کہ یہی وقت ہے جب وہ اپنے اپنے الیکشن میں خرچ کئے ہوئے پیسے سود کے ساتھ واپس کما سکیں۔ مبینہ طور پر اس مرتبہ ارکان اسمبلی نے پیسوں کی ادائیگی متحدہ عرب امارات میں کرنے کیلئے پلاننگ کر رکھی ہے۔

پچھلے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے سنیٹرز کے ووٹوں کی خرید کیلئے استعمال کئے جانیوالے والے پیسوں کی ادائیگی اور وصولی کی ویڈیو ساری دنیا میں وائرل ہو چکی ہے۔ جس کو دیکھ کر ہم تارکین وطن پاکستانیوں کو دنیا بھر سے یہاں آئے ہوئے غیرملکی دوستوں کے سامنے سخت شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 3 مارچ کے بعد سینٹ الیکشن کے نتائج کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔


کافی عرصہ غائب رہنے کے بعد جہانگیر ترین بھی ملکی سیاست میں دوبارہ ان نظر آ رہے ہیں اور انہوں نے کھل کھلا کر پی ٹی آئی اور اس کی طرف سے منتخب شدہ سنیٹرز کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔انہوں نے آتے ہی پی ٹی آئی کے مختلف ناراض ارکان اسمبلی سے رابطہ کر کے انہیں پی ٹی آئی کی صفوں میں دوبارہ شامل کر ا دیا ہے جس کے بارے میں پورا پاکستان جانتا ہے کہ وہ بہت ماہر سمجھے جاتے ہیں۔

اپنی شکست صاف دیکھتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں نے بھی اپنی پوری تیاری کر رکھی ہے کہ پی ٹی آئی کو ہروایا جائے تاکہ سینٹ میں ایساکوئی بھی نیا قانون پاس نا ہو سکے جو ان کی کرپشن پر حاوی ہو سکے۔ دو روز قبل ہونیوالے ضمنی الیکشن کے نتائج پی ٹی آئی کیلئے کسی بھی حیرت سے کم نہیں کیونکہ ان ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی نے اپنی منتخب سیٹوں سے بھی ہاتھ دھو لیا ہے۔

جس پر انہیں فکر کرنی چاہئے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں بھی پی ٹی آئی وہ نتائج نا دے سکی جس پر وہ پہلے ہی کامیاب ہو چکے تھے۔ دراصل پچھلے ادوار میں ہر حکومت کے زوال کا باعث چند ایک ہی غلطیاں ہوتی ہیں جن کو وہ چھوٹی موٹی غلطیاں تصور کرتے ہوئے نظرانداز کر دیتے تھے، لیکن وہ چھوٹی موٹی غلطیاں ہی بڑی غلطیاں بنتے دیر نہیں لگتی، اور وہ ناصرف پوری حکومت کو ہی لے ڈوبتی ہیں بلکہ اس کے بعد نئی حکومت کیلئے منعقدہ الیکشن میں بھی ان کی ناکامی کا باعث بنتی ہیں۔

پچھلی تین دہائیوں سے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی ناکامیوں میں سب سے بڑی وجہ لوٹ مار کرپشن اور ملکی اسٹیلشمنٹ سے بنا کر نہ رکھنا بنی۔ مشرف دور حکومت میں جنرل مشرف نے لال مسجد اسلام آباد پر حملہ اور اس کے نتیجے میں پورے ملک میں افراتفری پھیلانے پر، اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس سے پنگا اور وکلاء حضرات کی تحریک نے مشرف حکومت کو ہلا کر رکھا دیا۔

بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پیپلز پارٹی نے اپنی پرانی روایت کو برقرار رکھا اور جس کے باعث یوسف رضا گیلانی اپنی وزیراعظم کی مدت پوری نہ کر سکے اور نااہل قرار پائے۔ اس کے بعد راجہ پرویز اشرف 12ویں کھلاڑی کے طور پر بحیثیت وزیراعظم تھوڑے ہی عرصے میں پانچ سال کا مزا اڑا گئے۔ اس کے بعد تو پیپلز پارٹی کو پاکستان کی عوام نے سندھ تک محدود کر دیا، باقی صوبوں میں پیپلزپارٹی کا صفایا ہو گیا۔

جس کا مداوا وہ ابھی تک نہیں کر پائے اور اس کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اس کے بعد جب چوتھی مرتبہ نواز شریف نے اقتدار سنبھالا تو پھر وہی رونا روتے ہوئے دکھائی دیئے، کہ اسٹیبلشمنٹ انہیں بحیثیت وزیراعظم وہ عزت نہیں دیتے جو ایک وزیراعظم کو دیتی چاہئے، میرے سامنے آرمی جنرل اپنی ٹوپیاں اتار لیتے ہیں تاکہ سیلوٹ نا کرنا پڑے۔ اس دور اقتدار میں وزیراعظم نواز شریف نے انڈیا کے ساتھ دوستی کی وہ پینگھیں بڑھائیں کہ آج تک اس کی مثال نہیں ملتی۔

نریندرامودی بغیر پاسپورٹ و ویزہ کے ہی لاہور لینڈ ہوئے اور نوازشریف کی نواسی کی شادی میں شرکت کرنے کے بعد انڈیا واپس چلے گئے۔ بلوچستان سے آئی ایس آئی نے انڈیا کا ایک جاسوس گرفتار کیا۔ نوازشریف نے کبھی انڈیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نا کی اور نا اس جاسوس سے متعلق کوئی مذمتی بیان دیا۔ بلکہ اس دور حکومت میں اور اس سے پہلے سے ہی انہوں نے انڈیا میں سٹیل ملز میں سرمایہ کاری کی۔

اس کے کرتا دھرتا جنڈال نے کئی بار پاکستان کا کاروباری دورہ کیا۔ اس دورحکومت میں ہی نواز شریف پر پانامہ کیس اوپن ہوئے اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے وہ وہ راز افشاں ہوئے جسے سن اور دیکھ کر پاکستان کا بچہ بچہ منہ میں انگلی دبائے دیکھا گیا۔ اسی دور حکومت میں ہی نواز شریف بھی اپنے وقت سے پہلے ہی نا اہل کر کے گھر بھیج دیئے گئے۔ خاقان عباسی کو ان کی جگہ پر کرنے کیلئے لایا گیا۔

قصہ مختصر اسی طرح عوام نے تنگ آ کر 2018 ء میں نئے پاکستان کے لالچ میں عمران خان کو ووٹ دیکر بحیثیت وزیراعظم منتخب تو کرا دیا لیکن ڈھائی سال گزر جانے کے باوجود پی ٹی آئی عوام میں اپنا وہ مقام نہ بنا پائی جس کے پی ٹی آئی نے عوام سے الیکشن میں وعدے و دعوے کئے تھے ۔ اس بات سے قطعہ نظر کہ عمران خان نے وعدے پورے کئے یا نہیں، کیونکہ اب پاکستانی باشعور عوام جانتی ہے کہ قیام پاکستان سے لیکر اب تک ہر الیکشن سے قبل ہر سیاست دان عوام کو سہانے سپنے دکھاتے ہیں۔

سو عمران خان نے بھی اپنے پہلی حکومت سے پہلے عوام کیلئے لاکھوں گھروں کی تعمیر، کروڑوں نوکریوں کی بھرماراور نئے پاکستان بنانے کے کئی دعوے وعدے کئے لیکن ان وعدوں پر ڈھائی سال گزر جانے کے باوجود ابھی تک تو عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آٓ رہا۔ ہاں ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان ون ڈے کرکٹ میچ کی طرح اپنا سارا زور اختتامی اوورز میں لگائے گا لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ مہنگائی کا جن کسی طرح بھی عمران خان کے بس میں نظر نہیں آ رہا۔

اب تو غریب اور متوسط طبقہ جو پہلے آئی آئی ، پی ٹی آئی کے نعرے لگاتے نہیں تھکتا تھا اب دبے لفظوں میں عمران خان اور پی ٹی آئی پر سخت نالاں ہے جس کا اندازہ پاکستان کے عوام ضمنی الیکشن میں آنے والے نتائج سے لگایا جا سکتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان بذات خود ایماندار لیڈر ہے، اور پاکستان کا محب وطن ہے، لیکن اسے اگر اگلا الیکشن اکثریت سے جیتنا ہے تو خان صاحب آپ کوہوش کے ناخن لیتے ہوئے انقلابی فیصلے کرنے ہونگے، اور ملکی معیشت پر مکمل کنٹرول کرتے ہوئے ایسے تمام مافیاز کو سخت ہاتھ ڈالنا ہو گا جس کے نتائج فوراً حاصل ہوں اوراسکے تمام مثبت اثرات عام آدمی کو بھی نظر آئیں۔

تمام مافیاز کی سرکوبی کرتے ہوئے مہنگائی کے جن کو اسی بوتل میں قید کرنا ہو گا جس سے وہ برآمد ہوا ہے۔ کیونکہ یہی وہ سب سے بڑا مسئلہ ہے جس پر اگر آپ نے قابو پا لیا تو پورے پاکستان کا غریب اور متوسط طبقہ ناصرف آپ کو دعائیں دے گا بلکہ آپ کے ساتھ ہو گا ورنہ آپ کی پارٹی بھی اگلے الیکشن میں چند سیٹوں کے ساتھ اپوزیشن بیچوں پر بیٹھی حزب اقتدار پر دوسری تمام اپوزیشنز کی طرح تنقید برائے تنقید کرتی نظر آئے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :