جاوید لطیف ۔۔۔ '' کیا پدی ، کیا پدی کا شوربا''

پیر 22 مارچ 2021

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ایک مرتبہ سابق گورنر پنجاب غلام مصطفٰی کھر نے ایک اخباری بیان میں کہا تھا کہ میں انڈیا کے ٹینکوں پر بیٹھ کر پاکستان آؤں گا۔ اس دور میں بھی ایسے ہی بیان کو پوری قوم نے مسترد کر دیا تھا، آج بھی انہیں پاکستان کی کوئی سیاسی پارٹی اپنے ساتھ ملانے کو تیار نہیں حالانکہ وہ اپنے طور پر کئی بار متعدد پارٹیوں کے ساتھ شامل ہونے کی کوشش کر چکے ہیں۔

آج وہ اپنے آبائی علاقے میں گم نامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہر الیکشن میں اپنے حلقے کے عوام کی حمایت حاصل کرنے کیلئے سرتوڑ کوشش کرتے ہیں لیکن اپنے ہی حلقے کے عوام کی جانب سے مسترد ہونے کے باعث اسمبلی تک نہیں پہنچ پاتے۔ 2020 ء میں عوام کو یاد ہی ہو گا کہ قومی اسمبلی کے سابق سپیکر اور موجودہ مسلم لیگ ن کے ایم این اے سردار ایاز صادق نے قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر ناجانے کس کے کہنے پر پاکستان آرمی کے جنرل کی ٹانگیں کانپنے والا بیان دے کر پوری قوم کو غم و غصہ میں مبتلا کر دیا تھا، اور اس دور میں پاکستان بھر کے تمام ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر سردار ایاز صادق پر خوب لعنتان کی بارش ہوئی اور اس کا سارا ردعمل ڈھائی سال بعد ملک بھر میں ہونیوالے الیکشن میں عوام کی جانب سے اس وقت دیکھنے میں آئیگا جب آئندہ الیکشن میں ایاز صادق اپنے اور مسلم لیگ ن کے تمام جلسے جلوسوں میں اپنی پارٹی کیلئے ووٹ مانگنے کیلئے عوام میں نکلیں گے۔

(جاری ہے)

اسی طرح کے دلوں میں نفرتوں کو پالنے والے چند ایک سیاست دان ملک بھر میں جگہ جگہ چھپے بیٹھے ہیں جو وقتاً فوقتاً اپنی اپنی گندی زبان سے پاکستان کے خلاف زہر اگلتے رہتے ہیں جس کو سن کر ہر محب وطن پاکستانی کو ناصرف دکھ ہوتا ہے بلکہ انہیں افسوس ہوتا ہے کہ ایسے سیاست دانوں کاپاکستان کی سیکورٹی ایجنسیز اور حکومت پاکستان '' مکو'' کیوں نہیں ڈھپتی؟ اب اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے گزشتہ ہفتے شیخوپورہ سے مسلم لیگ ن کے ایک ایم این اے میاں جاوید لطیف نے بھی ایک ٹی وی شو میں بیٹھ کر پیپلز پارٹی کی سابق چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سے آصف زرداری کے اس وقت کے بیان کا حوالہ دیا کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے نتیجے میں صوبہ سندھ میں پھوٹنے والے فسادات کے بعد آصف زرداری نے '' پاکستان کھپے ''کا نعرہ لگا کر پوری پاکستانی قوم کو متحد رہنے کی تلقین کی تھی، لیکن اس موسوف میاں جاوید لطیف نے ٹی وی پر بیٹھ کر یہ کہہ دیا کہ اگر یہاں مریم اعوان صاحبہ کو کچھ ہوا تو ہم اپنی عوام کو '' پاکستان کھپے'' کا نہیں کہیں گے بلکہ اس واقعے کے پیچھے جو بھی ہو گا اسے عوام کی عدالت کے کٹہرے میں لایا جائیگا، اس کے بعد انہوں نے اسے مشرقی پاکستان سے تشبیح دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا واقع دوبارہ رونما ہو۔

حالانکہ بے نظیر کے قتل کے بعد یہی مسلم لیگ ن ہی تھی جس نے بے نظیر کے قتل کا تمام کا تمام ذمہ دار آصف علی زرداری کو قراری دیا تھا، '' کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا'' جاوید لطیف کی اپنی ہی پارٹی میں جتنی حیثیت ہے اس کا پتہ سب کو ہے۔ وہ اگر ٹی وی شوز میں اپنی پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے بولتے ہیں تو سب کو پتہ ہے کہ ان کی گفتگو کا معیار کیا ہوتا ہے، ناقص کارکردگی اور کرپشن کے ردعمل کے باعث گزشتہ الیکشن میں بھی اپنے ہی حلقے کے عوام نے ان کا سر پھاڑ دیا تھا،اب ان کی کرپشن کی کہانیاں نیب تک بھی پہنچ چکی ہیں اور موصوف ایک مرتبہ نیب میں پیش بھی ہو چکے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب نیب سے سزا یافتہ سیاست دانوں کے ناموں کی لسٹ میں ایک اور نام کا اضافہ ہو جائیگا۔

اور یہ میاں جاوید لطیف اب اپنے قد سے بڑا بیان دے کر وہ آخر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ یقین جانئے یہ کھر، سردار اور میاں صاحبان اس پاکستان کا بال بھی بانکا نہیں کر سکتے، ملکی ایجنسیز اور حکومت وقت کو چاہئے کہ ایسے گندے انڈوں کو ایسی قرار واقعی سزا دیں کہ اس طرح کے سیاست دان کبھی بھی پاکستان کے خلاف اپنی گھٹیا زبان استعمال نہ کر سکیں۔

شنید ہے کہ جاوید لطیف کے اس بیان کو انڈیا کے میڈیا نے بھی مصالحے لگا لگا کر اپنے ٹی وی چینلز پر نشر کیا، اور اسی کے بعد ہی نیب نے ہائیکورٹ میں مریم نوازکی ضمانت منسوخ کر کے انہیں گرفتار کرنے کی استدعا کی ہے، کیونکہ مریم نواز کو اپنے والد کی تیمارداری کیلئے ضمانت پر رہا کیا گیا تھا، اب تو مریض اعظم نواز شریف کو بھی پاکستان سے بھاگے عرصہ گزر گیا، اب وہ کس کی تیمار داری میں مصروف ہیں؟ میاں جاوید لطیف کی طرح کے بیانات کے بعد ملک دشمن قوتیں اپنا ٹارگٹ سیٹ کرنے کیلئے ایک دم سے مصروف عمل ہو جاتی ہیں، کیونکہ ان کا تو یہی ایجنڈا ہوتا ہے کہ ملک میں انارکی اور افراتفری کیسے پھیلائی جائے۔

نیب نے ان کی درخواست ضمانت منسوخ کرنے یا نہ کرنے کیلئے 8 اپریل کی تاریخ رکھی ہے، اور ہو سکتا ہے کہ اسی روز درخواست ضمانت منسوخ ہونے کی صورت میں مریم نواز کو عدالت میں ہی گرفتار کر کے جیل بھیج دیا جائے۔ کیونکہ فی الوقت مریم نواز کیلئے جیل سے زیادہ کوئی بھی محفوظ جگہ نہیں جہاں ان کی جان کو کوئی خطرہ ہو۔
2/3 روز قبل پی ڈی ایم کے ایک سازشی اجلاس میں آصف علی زرداری نے ثابت کر دیا کہ وہ پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں پر بھاری ہے۔

اس اجلاس میں نواز شریف لندن سے اور زرداری ، اور دیگر کچھ پارٹی کے سربراہان موجودہ حکومت کے خلاف 26 مارچ کے دھرنا اور اپنے تمام ارکان اسمبلی کے استعفوں کا پروگرام فائنل کرنے کیلئے اکٹھے ہوئے لیکن زرداری نے نواز شریف کو ہی آڑھے ہاتھوں لیتے ہوئے ان سے مطالبہ کر دیا کہ پہلے آپ اور اپنے سمدھی اسحاق ڈار پاکستان کی ٹکٹ کٹواؤ اور یہاں آ کر پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر موجود حکومت کے خلاف دھرنے اور ارکان اسمبلی کے استعفوں کی سیاست میں ہمارے ساتھ شامل ہوں، اور اگر جیل جانا پڑے تو یہاں جیل بھرو تحریک میں شامل ہوں۔

اس سے قبل ارکان اسمبلی کے استعفوں کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ کیونکہ اگر پی ڈی ایم کی تمام پارٹیوں نے استعفے دیدیئے تو موجودہ عمران خان کی حکومت مزید مضبوط ہو جائیگی۔ اس مطالبے پر پی ڈی ایم کے غبارے سے پوری طرح ہوا نکل گئی، کیونکہ پی ڈی ایم اگر ایک غبارہ ہے تواس کی ہوا پیپلز پارٹی ہے ۔مبینہ طور پر اس کے بعد گویا اس اجلاس میں موجود تمام پی ڈی ایم پارٹیوں کے سربراہان کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔

اس اجلاس کے فوراً بعد پریس کانفرنس میں پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمان نے 26 مارچ کا لانگ مارچ منسوخ کر دیا۔ اور اپنے مختصرترین خطاب میں لانگ مارچ کی منسوخی کا اعلان کرنے کے بعد وہاں سے چلے گئے، ان کو پیچھے سے مریم نواز، شاہد خاقان عباسی، اور یوسف رضا گیلانی آوازیں دیتے رہ گئے لیکن مولانا اس پریس کانفرنس سے تیتر ہو گئے۔اب سنا جا رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان اور لندن میں بھاگے ہوئے مسلم لیگ ن کے مریض اعظم نواز شریف کے ساتھ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ٹیلی فونک رابطے کر کے نئے نئے پلان بنانے میں لگے ہوئے ہیں کہ لانگ مارچ پیپلز پارٹی کے بغیر کیا جائے یا مئوخر کر دیا جائے۔

لگتا ایسا ہی ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب نواز شریف کا حال بھی الطاف حسین جیسا ہی ہونیوالا ہے، جو پاکستان دشمنی میں اس حد تک آگے نکل گیا کہ اب اس کے اپنے بھی اس کا ساتھ چھوڑ کر چلے گئے ہیں، اور اکیلے ہی ویڈیو کلپ بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ان کلپس میں پاکستان آرمی، آئی ایس آئی اور محب وطن شخصیات سے معافی کا طلب گار ہے لیکن اب الطاف حسین کیلئے معافی والا دروازہ بند ہو چکا۔

جب کسی پر معافی والا دروازہ بند ہو تا ہے تو یقین جانئے اس کیلئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ #
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں
جس دن عمران خان نے قومی اسمبلی میں بحیثیت وزیراعظم پاکستان اعتماد کا ووٹ حاصل کیا ہے ، اس روز پارلیمینٹ کے باہر پی ٹی آئی کے سینکڑوں کارکن عمران خان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے اکٹھے ہوئے ، جب عمران خان اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو انہوں نے اپنے لیڈر اور پی ٹی آئی کے حق میں خوب نعرہ بازی کی۔

لیکن مسلم لیگ ن کے چند لیڈران شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، مصدق ملک اور مریم اورنگزیب وہاں آ گئیں جن کو دیکھ کر کارکنوں نے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے مسلم لیگ ن اور ان کی قیادت کے خلاف خوب نعرہ بازی کی۔ اس دوران مصدق ملک کو تھپڑ اور احسن اقبال کو جوتا بھی مارا گیا۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جانب سے ایسی حرکات پر پی ٹی آئی اور ہر طبقہ فکر کے صحافی، و سیاست دانوں نے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔

اس کے جواب میں ابھی چند روز قبل لاہور ہائیکورٹ میں پیش ہونیوالے پی ٹی آئی کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل پر سیاہی اور انڈے پھینکے گئے۔ اس کے بعد ان پر انڈے اور سیاہی پھینکنے والوں کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ اس کے علاوہ ابھی دو روز قبل ہی ایک اور کرائے کے بندے کو لاہور پولیس نے گرفتار کیا گیا ہے جو فیصل آباد سے وزیراعظم عمران خان پر جوتا پھینکنے کیلئے لاہور آیا تھا لیکن راستے میں ہی دھر لیا گیا، پکڑے جانیوالے نے انکشاف کیا ہے کہ اسے فیصل آباد سے رانا ثناء اللہ کے داماد رانا شہریار نے یہ مشن سونپا تھا کہ وہ لاہور میں ایک روزہ دورہ پر آئے ہوئے عمران خان پر جوتا پھینکے۔

سیاست میں یہ اوچھے ہتھکنڈے شروع ہوچکے ہیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی چھچھوری حرکات ایک بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے لیڈران کو چاہئے کہ ایسی حرکات پراپنے کارکنوں کی سرزنش کریں اور ایک دوسرے کے خلاف ایسی حرکات کرنے سے باز رکھیں ورنہ یہ ایک بڑے حادثے کاسبب بن سکتی ہیں۔ اور کارکنان کو بھی چاہئے کہ وہ باشعور پاکستانی کا ثبوت دیتے ہوئے ایسے عمل میں شامل ہونے سے گریز کریں جس سے ان کے پارٹی لیڈروں کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا ، ہاں البتہ ان کا پولیس ریکارڈ خراب ہو جائیگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :