امریکی صدر کے بیان پر بھارت میں کہرام آمیزسیاسی طوفان!

دیرینہ تنازعہ کے حل کیلئے ٹرمپ اور عمر ان خان کی کاوشیں قابل تحسین ہیں

جمعہ 2 اگست 2019

Amrici sadar k Bayan pet Baharat main kohram ameez siasi toofan
 اسرار بخاری
”وہی ہے چال بے ڈھنگی جوپہلے تھی سواب بھی ہے“والامعاملہ ہی ہے۔بھارت کے وزیر مملکت برائے امورخارجہ وی مرلیا دھرن نے لوک سبھا میں پرانا راگ الاپا ہے۔بھارت پاکستان کے ساتھ بہتر ہمسائیگی کے تعلقات چاہتا ہے اس بات کے لئے پر عزم ہے کہ تمام حل طلب مسائل کو دو طرفہ بنیادوں پر حل کرے تاہم اس کی ذمہ داری پاکستان پر عائد ہے کہ وہ بامعنی مذاکرات کے لئے دہشت گردی سے پاک ماحول پیدا کرے۔

پاکستان سرحد پارعسکر یت پسندی پر اپنی سر زمین پر جنگجوؤں کے ڈھانچے کو ختم کرنے کے لئے موثر اور ناقابل تردید اقدامات کرے۔وی مرلیا دھرن نے اقوام متحدہ کو منظور کردہ قرار دادوں کی بجائے شملہ معاہدہ اورلاہور معاہدہ کے تحت حل کرنے کی بات کی ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش نے بھارت میں جو کہرام آمیز سیاسی طوفان برپا کیا ہے وی مرلیادھرن نے اس کے حوالے سے بھارت کے پرانے راگ الاپ کر معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ہے۔

(جاری ہے)

بھارت یہ مسئلہ خود اقوام متحدہ میں لے گیا تھا کہ وہ بھارتی فوج کومقبوضہ جموں وکشمیر سے نکال کر کشمیری عوام کو حق خودارادیت دیکر انہیں قسمت کا خود فیصلہ کرنے کا اختیار دے گا مگر اس قرار داد کی منظوری کے فوراً بعد سے وہ انحراف کی راہ اختیار کئے ہوئے ہے مگر کشمیر پر فوجی قوت کے ذریعہ قبضہ جما کر ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔بھارت کی جانب سے صدر ٹرمپ کے بیان کی جو تردید کی گئی ہے امریکہ نے تادم تحریر کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جس سے ثابت ہو کہ ٹرمپ نے سچ کہا ہے اور مودی نے واقعی مسئلہ کشمیر حل کرانے کے لئے ٹرمپ کو ثالثی کے لئے نہیں کہا تھا۔


بہر حال اس بیان سے مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر بہتر انداز سے اُجاگر ہوا۔یہ وزیراعظم عمران خان کے دورئہ امریکہ کا اچھا نتیجہ قراردیا جا سکتاہے۔اس دورے کا دوسرا ثمرجوفوری طور پر سامنے آیاوہ پاکستان کے ایف سولہ طیاروں کے لئے 125ملین ڈالر کی رقوم فراہم کرنے کی منظوری ہے تاہم اس سلسلے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ کے دورہ پینٹاگون کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتاجہاں21توپوں کی سلامی اور شاندار فوجی استقبال پاکستان کے حوالے سے امریکی پالیسی میں بڑی تبدیلی کا سراغ لگا یا جا سکتاہے۔


امریکی صدر ٹرمپ کا بیان بھی قابل غور ہے کہ جسے اعتراف کیا جانا چاہئے کہ”کشمیر کی وادی خوبصورت ہے یہاں بم نہیں برسائے جانے چاہئیں اور کشمیریوں کا قتل عام نہیں کیا جانا چاہئے۔“
کیا بہتر ہوتا صدر ٹرمپ یا امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے اقوام متحدہ کو بھی یہ احساس دلانے کی کوشش کی جاتی کہ وہ اپنی منظور کردہ قرار دادوں پر عملدرآمد کر کے کشمیریوں کو عذاب مسلسل سے نجات دلا کے اور جنوبی ایشیاء کو ایٹمی جنگ کے منڈلانے خطرے سے محفوظ کرے کیونکہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا اس وقت تک یہ خطرہ بد ستور منڈلاتا رہے گا۔

ٹرمپ کی پیشکش کو عالمی سطح پر بھی محسوس کیا گیا ہے ۔چین نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے لئے امریکی پیشکش کی حمایت کی ہے چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چن ینگ نے ہفتہ دار بریفنگ میں کہا کہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے لئے امریکہ سمیت بین الاقوامی برادری کے مثبت کردار کی حمایت کرتے ہیں چین امید کرتا ہے دونوں ممالک کشمیر سمیت اپنے تمام مسائل بات چیت کے ذریعہ چل کریں گے۔


صدر ٹرمپ کے بیان اور وزیراعظم عمران خان کے دورئہ امریکہ کے حوالے سے مقبوضہ کشمیر میں بھی مثبت ردعمل سامنے آیا ہے ۔بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی نے صدر ٹرمپ کے سامنے مسئلے کشمیر اٹھانے پر وزیراعظم پاکستان عمران خان کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ”میں اپنی زندگی میں پہلا لیڈر دیکھ رہا ہوں جس نے ہم نہتے کشمیریوں کے لئے آواز اٹھائی ہے اب امریکہ کو کشمیر کی آزادی کے لئے کردار ادا کرنا ہوگا۔

ریاست کی گزشتہ تین نسلیں آزدی کے لئے قربانی دے چکی ہیں۔ممتاز کشمیری رہنما میرواعظ عمر فاروق نے کہا کشمیر کے عوام کو تنازع کے حل کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کشمیر پر وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر ٹرمپ کی ملاقات کے دوران ثالثی کی پیشکش بہت اچھی ہے اس سے برصغیر میں امن آئے گا،اس مسئلہ کا کوئی فوجی حل نہیں یہ معاملہ مذاکرات سے ہی حل ہو گا،اُدھر آزاد جموں کشمیر کے صدر مسعود خان نے صدر ٹرمپ کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ثالثی کے اعلان کو غیر معمولی اقدام قرار دیتے ہوئے کہا ہمیں امید ہے دیرینہ تنازعہ کے حل کے لئے امریکہ کردار ادا کرے گا۔


جموں وکشمیر کا مسئلہ دو طرفہ نہیں بلکہ بین الاقوامی معاملہ ہے۔چنانچہ اب اقوام متحدہ وعالمی برادری کی ذمہ داری ہے وہ اس سلسلے میں آگے آئے ،آزاد جموں وکشمیرکے وزیراعظم فاروق حیدر نے بھی ٹرمپ کے بیان کا خیر مقدم کیا اور کہا تنازعہ کشمیر کا حل کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق نکالا جائے یہ بہر حال اب حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کی پیشکش کو عالمی نقشے سے ہٹنے نہ دے تاکہ امریکہ عالمی برادری کے دیکھے ان دیکھے دباؤکے باعث مسئلہ کشمیر حل کرانے کے حوالے سے بھر پور کردار ادا کر سکے۔

ملکی منظر نامے پر نظر ڈالی جائے تو مشترکہ اپوزیشن کی جانب سے 25جولائی کو یوم سیاہ بہت کامیابی کے ساتھ منایا گیا اگر چہ حکومتی حلقے اس نا کام شو قرار دے رہے ہیں ظاہرہے وہ ایسا ہی کہیں گے اس طرح ملکی ذرائع ابلاغ پر بھی اپوزیشن جماعتوں کے جلسوں اور ریلیوں کی کوریج کم رہی ایسا حکومت کے ایماء پر ہوایا ذرائع ابلاغ نے ازخود یہ پالیسی اپنائی یہ حقیقت ابھی واضح نہیں ہے معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے کابینہ کے فیصلوں کے حوالے سے کہا ہے کہ وزیراعظم نے اپوزیشن کی کسی ریلی یا جلسے کو نہ روکنے کا حکم دیا ہے تاکہ عوام خود دیکھ لیں ان کے شوکس طرح فلاپ ہوئے ہیں اس پر اپوزیشن کا رد عمل یہ ہے کہ وزیراعظم یہ حکم 24جولائی کوجاری کرتے تو پھر بات بنتی انتخابات سے قبل پی ٹی اے نے”نیاپاکستان“کا نعرہ لگایا عوام کی اکثریت بالخصوص نوجوان اس گمان میں مبتلا ہوئے کہ پی ٹی آئی اقتدار میں آکر ملک پر مسلط اس استحصالی نظام کا خاتمہ کرکے نیا پاکستان معرض وجود میں لائے گی جس میں سات دہائیوں سے مشکلات ومسائل کے شکنجے سے نجات ملے گی مگر بد قسمتی سے اس جانب پہلا قدم بھی نہیں اٹھایا جا سکا بلکہ اسی استحصالی نظام میں رہتے ہوئے”انقلابی“اقدامات شروع کر دیئے گئے مثلاً معیشت کو دستاویزی بنانے کا فیصلہ بہت اہمیت کا حامل ہے ۔


کوئی ذی ہوش اس کی افادیت سے انکار نہیں کر سکتا،اس سے جو فضا بنائی جانی چاہئے تھی اس پر توجہ نہیں دی گئی ،بہت سے ممالک میں عائد شدہ ٹیکسوں کی شرح پاکستان سے بہت زیادہ ہے۔یورپی ممالک میں 40فیصد اور بلجیم میں60فیصد ہے اور لوگ قطاروں میں کھڑے ہو کر ٹیکس ادا کرتے ہیں کیونکہ حکومتوں پر بالخصوص حکومتی عہدیداروں اور اداروں پر ان کا اعتماد ہے ،یہ غور طلب ہے پاکستان میں اعتماد میں ایسی فضا کیوں پیدا نہیں ہو سکی اس لئے وزیراعظم عمران خان نے یہ خیال نہیں کیا کہ ان کے فیصلوں اور اقدامات سے عوامی سطح پر اعتماد کی فضا پیدا ہو سکے گی یا نہیں ۔


ٹیسٹ بنک کے سابق گورنر کے حوالے سے اگریہ سمجھا گیا کہ وہ نواز شریف کی جانب جھکاؤرکھتے ہیں اور پی ٹی آئی کی پالیسیوں کی تکمیل میں صحیح معاون ثابت نہیں ہوں گے تو ان کی جگہ نیا گورنر کو لگادیا گیا ہے جو مصر میں آئی ایم ایف کے حاضر سروس آفیسر تھے ۔سوال پیدا ہوتا ہے کیا ملک کے اندر یا خو د سٹیٹ بنک میں ایسا ماہر کوئی آفیسر نہیں ہے جو گورنر کے فرائض انجام دے سکے۔

وزیر خزانہ جناب حفیظ شیخ کو مقرر کیا گیا جن کا آئی ایم ایف سے تعلق ہر زبان زرخاص وعام ہے۔ایف بی آر کا چیئرمین شبرزیدی کو لگایا گیا کراچی کے صحافتی ،سیاسی ،تاجر حلقوں میں ان کے حوالے سے تحفظات ہیں۔تسلیم ان تینوں حضرات کی اہلیت وقابلیت ہمالیہ بلندترہے مگر ان سب کے حوالے سے تحفظات اعتماد میں فضا پیدا کرنے میں معاون ثابت نہیں ہوئی،ویسے بھی ہر قسم کی شرائط مان کرآئی ایم ایف سے قرضہ لینا کوئی اعلیٰ ترین مہارت کا ماظہر ہ نہیں ہے ۔

اگر کرائے بڑھا کر پی آئی اے اور ریلوے،بڑھا کر پٹرولیم اور شرح بڑھا کر بجلی وگیس کی کمپنیوں کی آمد ن بڑھادی جائے تو کوئی بھی اعلیٰ ترین مہارت کا کمال ہے۔
وزیر اعظم عمران خان سمیت کسی حکومتی عہدیدار کو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ مہینوں ایک ہی بات کی تکرا ر اس کا اثر ختم کردیتی ہے ۔سابق حکمرانوں کو چور اور ڈاکو قرار معیشت کی تباہ حالی کا ذمہ دار ٹھہرانے کی بات اتنی بار کہی گئی کہ اب لوگوں کو حفظ ہو گئی۔

لوٹی دولت کی واپسی سے عوام کے تمام درد دور ہوجائیں گے۔عوامی سطح پر اس ”خوش گمانی“ میں بھی کمی آرہی ہے کیونکہ اس جانب عملی اقدامات نظر نہیں آرہے اسی طرح شیخ رشید ،فردوس عاشق اعوان ،بابر اعوان ،فیاض چوہان ،فواد چودھری ،صمصام بخاری وغیرہ کی صورت پی ٹی آئی کا چہرہ سامنے لایا گیا ہے ،یہ تمام حضرات مشرف حکومت پیپلز پارٹی اور ق لیگ کا بھی چہرہ رہے ہیں اس لئے لوگوں کے سامنے کوئی نیا پن نہیں آیا حالانکہ پی ٹی آئی میں کوئی قحط الرجال نہیں ہے ان کی جگہ اگر شفقت محمود ،محمد علی ،شبلی فراز ،عمر چیمہ وغیرہ کو لایا جاتا تو عوام کو پی ٹی آئی کا نیا چہرہ نظر آتا ،بلاشبہ عمران خان پر کرپشن کے داغ دھبے نہیں ہیں تو سوال کیا جاتا ہے ان کے اردگرد ایسے لوگ کیوں ہیں جن پر انگلیاں اٹھائی جاسکتی ہیں ۔

حکومتی عہدیداروں کو یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ سخت اقدامات جرائم کے خاتمے اور امن وامان کے لئے ہوتے ہیں ۔
اصلاح احوال کے لئے ایسی حکمت عملی بنائی جاتی ہے جو اعتماد کی ایسی فضا کو جنم دے جس سے لوگ ازخود حکومتی پالیسیوں میں معاونت کریں۔عمران خان سے جب شوکت خانم ہسپتال کے لئے مہم چلائی تو خواتین نے اپنے زیورات اور بچوں نے پاکٹ منی نکال کر دے دیئے تھے تب عمران کے اردگرد دلدار پرویز بھٹی ،نصرف فتح علی خاں اور ابرارالحق جیسے لوگ تھے عمران خان ازخود جائزہ لیں گیا آج بھی ان کے اردگرد ”دلدار پرویز بھٹی،نصرت فتح علی خاں اور”ابرارالحق “ہی ہیں ،ہم نیک وبدحضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔”اگے تیرے بھاگ لچئی اے“․․․․․۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Amrici sadar k Bayan pet Baharat main kohram ameez siasi toofan is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 02 August 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.