Episode 3 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 3 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

حیدر کو دروازے کی طرف بڑھتا دیکھ کر وہ تیزی سے اس کے پیچھے آئی تھی۔
”نہیں کرنا مجھے ناشتہ واشتہ۔“ اس کا موڈ سخت خراب تھا۔ اذکی نے روکنے کی کوشش کی مگر بے سود  وہ تیزی سے سیڑھیاں اُتر گیا تھا۔ اس نے کھڑکی میں کھڑے ہو کر کئی سورتیں حیدر پر پڑھ کر پھونکیں۔ جب تک گاڑی نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئی تھی وہ کھڑکی میں سے اسے دیکھتی رہی۔
گاڑی نے ٹرن لیا تو وہ پردے برابر کرکے بیڈ روم میں چلی آئی۔
یہ سب تو معمول کا حصہ بن گیا تھا جب کبھی حیدر کا موڈ آف ہوتاوہ اس کے جذبات کا خیال کئے بغیر اپنی ضد پر اڑ جاتا۔ غصے میں کبھی اسے احساس نہیں ہوتا تھا کہ اذکی کے نازک دل کو کتنی ٹھیس پہنچی ہے۔ اب تک تو اسے عادی ہو جانا چاہئے تھا مگر وہ اپنی فطرت کا کیا کرتی۔ لوازمات سے سجی ٹیبل کو دیکھ کر اسے رونا آ گیا۔

(جاری ہے)

مینگو شیک کو فریج میں رکھتے ہوئے اس نے کتنے ہی آنسو بہا دیئے۔ ہاف فرائی ایگ  بریڈ  جیم  مارجرین اور کیک  ایک ایک کرکے ساری چیزیں اٹھاتے ہوئے وہ سخت دلبرداشتہ تھی۔ حیدر زیادہ چائے نہیں پیتا تھا جب کہ اذکی کی آنکھیں چائے کے بغیر کھلتی نہیں تھیں لیکن اس وقت چائے پینے کو بھی دل نہیں کر رہا تھا۔ بچوں کو دیکھا تو وہ ابھی تک سوئے ہوئے تھے۔
دونوں اڑھائی سال کے ہو رہے تھے بے حد صحت مند اور خوبصورت  اس نے باری باری دونوں کی پیشانی چومی اور پھر لاؤنج میں آکر بیٹھ گئی۔
دل بھر بھر کے آ رہا تھا۔ وہ جتنی بھی کوشش کرتی تھی صبح کے وقت ضرور کوئی نہ کوئی بدمزگی ہو ہی جاتی۔ جب سے وہ اس فلیٹ میں شفٹ ہوئے تھے حیدر اکثر ہی کسی نہ کسی بہانے سے ناشتہ نہیں کرتا تھا پہلے تو صرف شک تھا اسے  اب یقین ہونے لگا تھا کہ حیدر راحت دلا جاتا ہے۔
اسے حیدر کے راحت دلا جانے پر کوئی اعتراض نہیں تھا بلکہ وہ تو اس کے کٹھور رویے اور بے حسی پر کڑھتی رہتی تھی۔ یہ تو معمول کی باتیں تھیں اس کیلئے۔ صبح صبح حیدر یونہی ہنگامہ مچائے رکھتا تھا اذکی کا ایک پیر کچن میں اور دوسرا بیڈ روم میں ہوتا۔
”اذکی! میرا والٹ نہیں مل رہا۔“ وہ دوڑتی ہوئی بیڈ روم میں آتی۔ بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھے والٹ کو دیکھ کر اسے بھی غصہ آ جاتا تھا۔
”یہ کیا ہے؟“ وہ اس کے سامنے والٹ لہراتی تو وہ انجان بن کر بھولپن سے بولتا۔
”اچھا ادھر رکھا تھا مجھے تو نظر نہیں آیا۔“ یا پھر ”میری بلیو ربن والی فائل نہیں مل رہی۔“ وہ ڈھونڈ ڈھانڈ کر فائل برآمد کرتی۔
”ذرا موبائل تو چارجنگ پر لگانا۔“ وہ فرائنگ پین میں انڈا ڈالنا بھول کر موبائل کو دیکھنے لگتی۔ گھی گرم ہو کر اچھلنے لگتا۔
وہ چائے بنا رہی ہوتی تو حیدر ایک دفعہ پھر چیختا ہوا اس کے سر پر پہنچ جاتا تھا۔
”میرے سوکس تو ڈھونڈ دو نہ جانے ایک کہاں غائب ہو گیا ہے“ وہ سوکس دینے آتی تو نیا آرڈر جاری ہو جاتا۔
”یہ بلیک شوز رہنے دو  براؤن پالش کر دو۔“ اذکی جوتے پالش کرنا شروع کرتی تو حیدر تیار ہو کر ٹیبل تک آ جاتا۔ اسی اثناء میں ناشتہ ادھورا رہ جاتا تھا۔
نتیجتاً وہ جلتا کلستا اسے باتیں سناتا آفس سدھارتا۔ اس سارے قصہ میں اپنا قصور نہ ہونے کے باوجود وہ خود کو کوستی رہ جاتی تھی۔ اس وقت بھی اسے خود پر غصہ آ رہا تھا۔ دیا کے رونے کی آواز سن کر وہ اٹھ بیٹھی۔ دونوں بہن بھائی نہ صرف اٹھ چکے تھے بلکہ رونے کا پروگرام بھی شروع ہو چکا تھا۔ دیا اور زید کے منہ دھلا کر اس نے باری باری کپڑے تبدیل کئے۔
بیڈ روم کی چیزیں سمیٹیں۔ ان دونوں کے پیچھے بھاگ بھاگ کر ناشتہ کرواتے ہوئے اس کا دھیان بٹ گیا تھا۔ دونوں تھے بھی بلا کے شرارتی  کوئی ڈیکوریشن پیس ان دونوں کے عتاب سے نہیں بچا تھا۔ وہ تو سنجیدگی سے سوچ رہی تھی کہ ان کی تیسری سالگرہ کے بعد مونیٹسوری میں داخل کروا دے گی۔
”آرام سے کارٹون دیکھو اور خبردار جو شرارت کی تو اور دیا آپ بھائی سے ذرا دور ہو کر بیٹھیں۔
“ کارٹون لگا کر اس نے دونوں کو ٹی وی کے سامنے بٹھا دیا تھا۔ باؤلز میں تھوڑے تھوڑے چپس ڈال کر اس نے دیا اور زید کے سامنے رکھے تھے تاکہ دونوں مصروف رہیں۔ دیا نے شرارت سے بھائی کے باؤل میں ہاتھ مارا تھا یعنی کہ حد ہی ہو گئی۔ ذرا بھی تنبیہ کا اثر نہیں ہوا تھا۔ اذکی کے گھورنے کا الٹا اثر ہوا وہ کھلکھلا کر ہنسنے لگی اور پھر دوڑ کر اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئی۔
یقینا لاڈ کا موڈ ہو رہا تھا اذکی نے اٹھا کر اس کے گال کو چوما پھر صوفہ پر بٹھاتے ہوئے بولی۔
”مجھے کام کرلینے دو  پھر پپا آ جائیں گے اور میں نے کھانا بھی بنانا ہے۔“
”پپا کدھل (کدھر) ہیں۔“
”آفس…“ اذکی کی بجائے زید نے مدبرانہ انداز میں جواب دیا اذکی کو ہنسی آ گئی۔ وہ دونوں کارٹونز دیکھنے میں محو ہو گئے تھے لہٰذا وہ آرام سے کام کر سکتی تھی۔
حیدر کے کئی مرتبہ کہنے کے باوجود اس نے کام والی نہیں رکھی تھی۔ کام تھا بھی کتنا سارا دن بور ہونے سے بہتر تھا کہ وہ مصروف ہی رہتی۔ برتن دھونے کے بعد اس نے کچن صاف کیا۔ بچوں کے کپڑے سرف میں بھگوئے تھے انہیں کھنگال کر الگنی رپ پھیلایا۔ ڈسٹنگ کی  حیدر کو ڈسٹ سے سخت الرجی تھی حیدر کی امی بھی بے حد صفائی پسند خاتون تھیں۔ مجال ہے جو گرد کی تہہ نظر آ جائے  حتیٰ کہ ڈسٹ بن تک چم چم کرتا تھا۔
کام سے فراغت کے بعد اس نے اپنا حلیہ درست کیا۔ دیا اور زید کی آواز نہیں آ رہی تھی جب کہ ٹی وی چل رہا تھا۔ وہ بے حد پریشانی کے عالم میں لاؤنج میں آئی تو دیا صوفہ پر جب کہ زید کارپٹ پر بے خبر سو رہے تھے۔ اس نے نرمی سے زید کو بانہوں میں اُٹھا کر بیڈ پہ لٹایا اور دیا کے اوپر چادر ڈال کر ٹی وی بند کر دیا اور خود بھی کارپٹ پر دراز ہو گئی۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور ذہن راحت ولا میں اٹکا ہوا تھا۔
###

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi