Episode 56 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 56 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

”تم جانتی ہو اماں نے کیا حکم صادر کیا ہے۔“ شازی جلتی کلستی چھت پر چلی آئی تھی۔ کیونکہ وہ جانتی تھی کہ سونی کینوؤں سے بھری ٹوکری لئے چھت پر ہی بیٹھی ہوگی۔
”میں نہیں جانتی۔“وہ کینو کا رس نکال رہی تھی۔ ساتھ ساتھ مالٹے کھا بھی رہی تھی۔
”تم جانو گی کیسے؟“ شازی کا انداز بھرپور طنز لئے ہوئے تھا۔
”کھانے کے علاوہ تمہارا دھیان کب کسی اور چیز پر ہوتا ہے۔
کھانا اور سونا دو ہی تو تمہارے شوق ہیں۔“
”اور تمہیں میرے یہ ہی دونوں شوق ایک آنکھ نہیں بھاتے۔“ وہ دلجمعی سے اپنے کام میں مصروف رہی۔
”شوق تو ڈھنگ کے پالتی‘ کھانا‘ اور سونا۔“ شازی نے کھا جانے والی نظروں سے کینوؤں سے بھری ٹوکری کو دیکھا۔
”اور کام کرنا‘بے حساب‘بے شمار۔

(جاری ہے)

“وہ بھی جتا دینے میں ماہر تھی۔ ”کام چور!تیرے حصے کا کام بھی کرتی ہوں۔

انرجی ڈاؤن ہو جاتی ہے‘ تبھی تو کچھ نہ کچھ کھاتی رہتی ہوں۔“
”پھر بھی بے حساب کھانے کے باوجود جسم پر ماس نہیں آ رہا‘ ویری سیڈ۔“ شازی نے تاسف کا برملا اظہار کیا۔
”اور تم بغیر کھائے پیے پھٹنے کے قریب پہنچ چکی ہو۔“
”تمہاری طرح کھایا پیا ضائع تو نہیں ہو رہا نا‘کھاتی ہوں تو نظر بھی آتا ہے“ شازی نے ایک کینو اٹھا لیا۔
”تمہارے گھر کے باغ کے ہیں۔“
”ہاں…“
”کون لایا۔“ شازی نے میٹھا رسیلا کینو دو منٹوں میں چٹ کر دیا تھا۔ اب وہ ایک اور اٹھانا چاہتی تھی۔
”اماں بی نے بھجوائے ہیں‘ گھر کی دیکھ ریکھ وہ ہی تو کرتی ہیں۔“ وہ اس کا ارادہ بھانپ چکی تھی‘ تبھی ٹوکری بائیں سے دائیں طرف منتقل ہو چکی تھی۔
”ایک اور دونا۔“ شازی نے لجاجت سے کہا۔
”سوری! میں نے تین گلاس جوس پینا ہے۔“
”مگر یہ تو چار سے بھی اوپر ہو جائے گا۔ بس بھی کرو‘ انہیں نمک لگا کر کھاتے ہیں۔“ شازی کے منہ میں پانی بھر آیا۔
”ایک گلاس تمہیں بھی ملے گا اور دوسرا پھوپھی جی کو۔“وہ ہاتھ کی مشین سے جوس نکال رہی تھی۔ اماں کے جہیز کی مشین تھی جو اس نے سائر کے ہاتھ منگوائی تھی گھر سے‘ وہ بڑی مہارت سے ہینڈل گھما کر جوس نکال رہی تھی۔
ہاتھ کی مشین سے احتیاط کے ساتھ رس نکالنا پڑتا تھا تاکہ چھلکے کی کڑواہٹ جوس میں گھلنے نہ پائے۔
”جیو‘ میری جان‘ ہزاروں‘ لاکھوں برس۔“ شازی اس عنایت پر کھل اٹھی۔
”بد دعا تو نہ دو۔“ وہ خواہ مخواہ بھنائی۔
”بددعا نہیں دیتی‘ تم مجھے ایک کینو دے دو‘ یہ تو بڑے مزے کے ہیں۔“شازی نے للچاتی نظر سے اُسے دیکھا۔
”جوس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ملے گا‘ ہاں‘ یہ چھلکے پڑے ہیں‘ انہیں کھانا چاہو تو شوق سے کھا سکتی ہو۔
”آدھا ہی دے دو۔“
”بھاگو یہاں سے‘ جوس بھی نہیں دوں گی۔“ اس نے دھمکایا۔ ”ویسے تم چھت پر کرنے کیا آئی تھیں۔“
”شکر ہے‘ تمہیں خیال تو آیا پوچھنے کا۔“وہ کلس کر رہ گئی۔
”بتاؤ۔“وہ اپنا کام ختم کر چکی تھی۔ چھت پر لگی ٹونٹی کھول کر ہاتھ دھوتے ہوئے بولی۔
”اماں نے آگے پڑھنے سے منع کر دیا ہے۔“ شازی کو رونا آ گیا تھا‘ سچ مچ کا رونا۔
”تو نہ پڑھو۔“ وہ ہاتھ دوپٹے سے خشک کرتی بے نیازی سے بولی۔
”آستین کی سپولن۔ کیسے منہ پھاڑ کر کہہ دیا ہے نہ پڑھو جبکہ میں چاہ رہی ہوں تم اماں کو راضی کرو۔“ شازی پھاڑ کھانے کو دوڑی۔
”پھوپھی جی ہرگز نہیں مانیں گی‘ اگر انہوں نے منع کر دیا ہے تو بس کر دیا۔ کوئی بھی انہیں منا نہیں سکتا، حتیٰ کہ زمین پر لوٹیں لگا کر پیسے مانگتا سائر بھی نہیں۔
“ وہ اطمینان سے بولی۔سائر‘ شازی کا چھوٹا بھائی تھی اور پھوپھی کا بہت لاڈلا بھی تھا۔
”وہ میری شادی کرنا چاہتی ہیں۔“شازی بسوری۔
”اچھی خبر ہے‘ کب جا رہے ہیں ہم رشتہ دیکھنے‘ دہی بھلے اور فروٹ چاٹ کھانے۔“ سونی نے چٹخارا لیا۔
”بس تم تو کھانے پر مرتی رہنا۔“شازی جل کر اُٹھی۔ منڈیر پر سے کپڑے اتارے۔
”تو اور کس پر مروں۔
“ وہ جوس کا تیسرا گلاس چڑھاتے ہوئے بولی۔
”وہ ہے نا‘ تیری رشتے کی خالہ کا سوتیلا بیٹا۔“ شازی معنی خیزی سے مسکرائی۔
”کون؟“وہ حیران ہوئی۔
”سامی اور کون؟“ شازی ہنس رہی تھی۔
”بکواس نہ کر۔“ وہ برا مان گئی۔
”غصہ کھانے کی کیا بات ہے۔‘ مرنا ہی ہے تو سامی پر مرمٹو‘ کچھ حاصل بھی ہو‘ ویسے ہے تو وہ دیکھنے کی چیز۔
“ شازی نے آنکھ دبائی۔
”تم نے کب دیکھا اسے۔“ وہ بھنویں اچکا کر دیکھ رہی تھی۔
”ایک ہزار ایک مرتبہ تو دیکھا ہے۔ مامی کی فوتگی پر‘ قل اور دسویں والے روز‘ چالیسویں کے بعد بھی خالہ اور سامی آتے رہے تھے نا‘تیری خبر گیری کیلئے۔“شازی کپڑے تہ کرنے کے ساتھ ساتھ کن انکھیوں سے اسے بھی دیکھ رہی تھی‘ جو سچ مچ کسی سوچ کے زیر اثر دور بہت دور پہنچی ہوئی تھی۔
”سامی!“ اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ آمنا سامنا تو بے شمار مرتبہ ہوا تھا۔ خوش مزاج اور شوخ و شریر سا خالہ کا سوتیلا بیٹا حسام سہیل‘ کھلتی رنگت‘سیاہ آنکھیں‘ کھڑی ناک‘ جس پر اسے بڑا ہی مان تھا۔ ہر دفعہ اس پر نظر پڑتی تو وہ وہ لمحہ بھر کو ضرور رک جاتا تھا اور پھر دانستہ کوئی نہ کوئی شریر سا جملہ بھی اچھال دیتا۔ اماں کی عیادت کے بہانے کئی مرتبہ خالہ کے ساتھ آیا تھا۔ خالہ‘ اماں کی دور کی کزن تھیں۔ اماں کو ان سے خصوصی لگاؤ تھا۔ وہ بھی اماں سے ملنے آتی جاتی رہتی تھیں۔جب سے وہ پھوپھی کے ساتھ آئی تھی‘ خالہ نے چکر نہیں لگایا تھا۔
”تم تو سامی کے تصور میں گم ہو گئی‘بہن! لوٹ آؤ اپنے حواسوں میں۔“وہ اس کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجاتے ہوئے بولی۔

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi