مختلف سوچوں نے اسے جکڑ رکھا تھا۔ کبھی ساحرہ کے چہرے کی روشنی دل کو منور کرتی اور کبھی اذکی کی اداسی اور ویرانی بے چین کر دیتی۔ اپنے پاس رکھی چابی سے لاک کھول کر وہ اندر آیا تو اذکی پہلے والی کیفیت میں بیٹھی ہوئی تھی۔ اسے دیکھ کر بھی اس کے وجود میں کوئی حرکت نہیں ہوئی۔ وہ تیزی سے اس کی طرف آیا۔ نبض چیک کی تو بخار سے جل رہا تھا اس کا بدن۔
اس نے سرعت سے اذکی کو اٹھا کر بیڈ پر لٹایا۔ پھر ڈاکٹر کو فون کیا۔ چیک اپ کرنے کے بعد ڈاکٹر نے پرچے پر چند دوائیاں لکھیں۔
”یہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں‘انہیں خوش رکھنے کی کوشش کریں۔ میں نے انہیں نیند کا انجکشن دیا ہے۔ چند گھنٹے یہ پرسکون نیند لے سکیں گی۔“ ڈاکٹر نے شائستگی سے کہتے ہوئے بیگ سنبھالا۔ ڈاکٹر طارق کے جانے کے بعد اس نے ٹھنڈے پانی کی پٹیاں اذکی کے ماتھے پر رکھیں۔
(جاری ہے)
رات تک اس کا بخار کچھ کم ہوا تھا۔ آنکھیں کھولتے ہی اس نے دیا کو پکارنا شروع کر دیا۔ حیدر نے اٹھ کر لائٹ آن کی پھر ہاتھ بڑھا کر اسے تکیے کے سہارے بٹھایا۔ حواس قدرے بہتر ہوئے تو اسے سب کچھ یاد آ گیا۔ نجانے کب وہ سوچتے سوچتے بے ہوش ہوگئی تھی۔ اچانک ہی بدن ٹوٹنے لگا تھا۔ اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ زید کو ہی اٹھا کر بستر پر لٹا دیتی۔ زندگی کے تلخ باب کو سوچتے ہوئے ساری طاقت نچڑ کر رہ گئی تھی۔
اس نے گردن موڑ کر زید کو دیکھا۔ وہ بے خبر سو رہا تھا۔ پھر اس کی نگاہیں اس بے حس شخص پر ٹک گئیں۔ اذکی کے اندر جوار بھاٹا اٹھنے لگا۔ حیدر نے بھی اس کی نظروں کی تپش محسوس کرلی تھی۔ تاہم اس نے اذکی کی طرف دیکھنے سے گریز کیا اور اٹھ کر کچن میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ آیا تو ہاتھ میں سوپ کا باؤل پکڑ رکھا تھا۔
”یہ پی لو پھر دوا کھا لینا۔
“حیدر نے باؤل اس کی طرف بڑھایا۔ اس نے خاموشی سے پکڑکر سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔
”پتا نہیں میری بچی نے کچھ کھایا ہے یا نہیں۔“
اس کی بے قرار ممتا کو کسی پل چین نہیں تھا۔ حیدر اس کی بے چینی کی وجہ جانتا تھا اسی لئے رسانیت سے بولا۔
”اذکی! دیا کی فکر نہ کرو۔ وہ بہت خوش ہے وہاں‘ ساحرہ بہت خیال رکھے گی اس کا۔ پھر امی بھی ہیں۔
“
”میں اپنی ممتا کا کیا کروں‘ کسی پل سکون نہیں آتا مجھے۔“ وہ بھرائی آواز میں گویا ہوئی۔
”عورت کی حیثیت ہی کیا ہے اور پھر مجھ جیسی عورت کی۔“ اس نے آنسو صاف کرکے تکیہ پر سر پٹخا۔
”جس کے آگے پیچھے کوئی نہیں۔ گھر ہے تو شوہر کا‘ اولاد ہے تو شوہر کی۔ مرضی ہے تو شوہر کی۔“ وہ بڑبڑا رہی تھی۔ حیدر اٹھ کر اس کے قریب چلا آیا۔
”تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے اذکی! خاموش ہو جاؤ پلیز۔“ اسے بے تحاشا روتے دیکھ کر حیدر نے التجا کی۔ پہلی مرتبہ اس کا لہجہ نہایت نرم تھا اور آواز بے حد پست۔
”میں دیا کو لانا چاہ رہا تھا مگر ساحرہ…“
”ہاں جانتی ہوں میں کہ اس عورت سے کوئی خوشی برداشت نہیں ہوتی میری۔ یہ میں ہی ہوں کہ ایک عمر انگاروں پر چلتی رہی۔ نو سال اذیت کی بھٹی میں گزارے۔
آپ کے گھر میں کیڑے مکوڑوں سے بھی بدتر زندگی جی۔ آپ کی ماں اور بیوی کی ہر بات مانی‘ طنز و طعنے برداشت کئے۔ عزت نفس کا گلا دبایا۔ صرف اور صرف ایک چھت کیلئے‘ روٹی کے چند ٹکڑوں کیلئے پل پل لمحہ لمحہ مرتی رہی میں اور آپ۔“ اس نے سر اٹھا کر حیدر کی طرف دیکھا۔
”آپ کیا کر سکتے ہیں حیدر صاحب‘کچھ بھی نہیں۔ انصاف تو دور کی بات ہے آپ تو اب بھی اذکی کی خاطر نہیں آئے۔
اس عورت کی خاطر جس نے نو سال آپ کے نام پر قربان کئے۔ کون دے گا حساب مجھے ان نو سالوں کا۔“ اس کے بال بکھر کر چہرے اور گردن سے چپک گئے تھے جب کہ سانسیں دھونکنی کی مانند چل رہی تھیں۔
”آپ تواپنے بیٹے کیلئے آئے ہیں نا اس کیلئے۔“ اس نے بے دردی سے کمبل کھینچا۔
”لے جائیں اسے بھی۔ اپنی محبوب بیوی کی خوشی پوری کر دیں۔ وہ یہی چاہتی ہے نا‘ سو آپ اس کی خواہش کا احترام کریں۔
جائیں آپ۔“ وہ زور زور سے چلا رہی تھی۔ حیدر نے اسے بال نوچتے دیکھ کر تیزی سے پکڑا۔ زید بھی اٹھ گیا تھا اور اب خوفزدہ نظروں سے ماں کو تک رہا تھا۔
”اذکی ہوش کرو‘ کیا پاگل پن ہے یہ۔“ حیدر نے اسے جھنجھوڑ ڈالا۔
”نہ آپ نے مجھ سے محبت کی نہ قدر کی‘ پاگل ہو گئی ہوں میں نہیں خواہش رہی جینے کی۔ اب جی کر کرنا بھی کیا ہے۔“ اس نے بے دردی سے لب کچلے۔
حیدر نے اسے ساتھ لگا لیا تھا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
”پلیز اذکی بس بھی کرو‘ مجھے تکلیف ہو رہی ہے۔“ اس نے نرمی سے اذکی کے بالوں کو سہلاتے ہوئے کہا۔ وہ ایک دم چپ کرکے پیچھے ہٹ گئی تھی۔ حیدر نے پانی کا گلاس اس کے سوکھے لبوں سے لگایا۔ پھر زید کو اٹھا کر دوسرے کمرے میں لے گیا تھا۔ زید کو سلا کر اس نے تمام لائٹس آف کیں سوپ ٹھنڈا ہو چکا تھا وہ مائیکرو وویو میں گرم کرکے لے آیا۔ اذکی بھی شاید تھک گئی تھی اسی لئے جب حیدر نے اسے سوپ پلانا شروع کیا تو اس نے کوئی مزاحمت نہیں کی تھی۔ خالی باؤل میز پر رکھ کر اس نے میڈیسن نکالی۔ دوا کھا کر وہ لیٹ گئی تھی۔ حیدر نے بھی دوسری طرف آکر تکیہ درست کیا اور دراز ہو گیا۔
######