Episode 36 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 36 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

اگلی صبح کافی حیران کن تھی۔ شفق کو اندازہ نہیں تھا کہ اتنی جلدی اسے ”قفس“ سے رہائی مل جائے گی۔ وہ بہت خوشی خوشی لاہور روانہ ہوئی تھی۔ گھر آکر اس نے بہت سکون محسوس کیا تھا۔ شاہ میر چونکہ آفس گیا ہوا تھا‘ لہٰذا گوگی کو بتا کر اماں کی طرف آ گئی۔ اس کی ممانی بھی آئی ہوئی تھیں‘ اسی لئے وہ سارا دن اماں کی طرف رہی۔
شام کو ڈرائیور اسے لینے کیلئے آ گیا تھا۔
اگلے بہت سارے دن بہت خوشگوار گزرے تھے اور وہ دعا کرتی تھی کہ اس کی باقی زندگی بھی اسی طرح گزرے۔ صبح شاہ میر کے تیز تیز بولنے پر وہ ہڑبڑا کر اٹھی تھی۔ اس نے بے حد حیرانی سے شاہ میر کو تیار ہوتے دیکھا۔
”کہاں جا رہے ہیں آپ؟“
”میں پنڈی جا رہا ہوں۔ ممی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے‘ وہ ہاسپٹل میں ہیں۔

(جاری ہے)

“ اس نے بال بنا کر برش ٹیبل پر پٹخا اور پھر والٹ اٹھا کر پاکٹ میں ٹھونسا۔

وہ بھی کمبل ہٹا کر اٹھ گئی۔
”کب آئیں گے؟“
”ابھی تو جا رہا ہوں‘ اگر ممی کی طبیعت بہتر ہوئی تو کل آ جاؤں گا‘ ورنہ دو تین دن تک میں ادھر ہی ہوں۔ تم اگر یہاں رہنا چاہو تو ٹھیک ہے‘ ورنہ اپنی اماں کی طرف چلی جانا۔“
”نہیں‘ میں ادھر ہی رہوں گی۔ گوگی جو ہے میرے پاس۔“ اس نے بال سمیٹتے ہوئے آہستگی سے کہا۔
شاہ میر پلٹ کر اس کے قریب آیا اور پھر اس کی پیشانی پر محبت کی مہر ثبت کرتے ہوئے تیزی سے باہر نکلتا چلا گیا۔
وہ بھی پورچ تک اسے خدا حافظ کہنے کیلئے آئی تھی۔
شاہ میر کے جانے کے بعد اس کا باقی دن کافی مصروف گزرا تھا۔ اس نے گوگی کے ساتھ مل کر پورے گھر کی نئے سرے سے ترتیب بدلی‘ پردے وغیرہ دھلوائے۔ کام کے دوران بھی اس کا ذہن پنڈی میں ہی اٹکا ہوا تھا۔
گوگی کھانا لگا کر اس سے پوچھنے کیلئے آئی تو اس نے انکار کر دیا۔ دل ایک دم ہی ہر چیز سے اچاٹ ہو گیا تھا۔
وہ بے دلی سے ٹی وی دیکھتی رہی۔ گوگی کھانا کھا کر اس کیلئے دودھ لے آئی تھی۔ شفق نے گلاس ٹیبل پر رکھ دیا۔
کچھ دیر بعد گوگی جمائیاں لینے لگی تو شفق بھی ٹی وی آف کرکے اٹھ گئی۔ اس نے گوگی کو اپنے بیڈ روم میں سونے کیلئے کہا تھا۔ گوگی نے خاموشی سے اپنا بستر اس کے کمرے میں لگایا۔ وہ بھی بیڈ پر دراز ہو کر سونے کی کوشش کرنے لگی تھی۔
###

رات کا نجانے کون سا پہر تھا جب اس کی آنکھ کھل گئی تھی۔
اس کی نیند ٹوٹنے کی وجہ وہ ہلکا شور تھا۔ کچھ دیر کان لگا کر شفق نے اس ہلکے شور کو سننے کی کوشش کی اور پھر گوگی کو آواز دے کر جگا دیا۔ ایک خوف کی تیز لہر تھی جو سارے وجود میں سرائیت کر گئی تھی۔ کوریڈور میں سے بوٹوں کی دھمک سنائی دے رہی تھی۔ اس نے خوف زدہ ہو کر گوگی کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”گوگی! میرا خیال ہے کہ گھر میں چور گھس آئے ہیں۔
“ وہ لرزیدہ آواز میں بولی۔ گوگی نے اس کے خوف سے پیلے پڑتے چہرے کی طرف دیکھا۔
”نہیں بی بی! آپ کا وہم ہے۔“ گوگی قالین کے ڈیزائن کو گھور رہی تھی۔ شفق اس کے اطمینان پر قدرے حیران ہوئی۔
”تمہیں آواز نہیں آ رہی۔ مجھے تو لگتا ہے کہ باہر کوئی ہے۔“ شفق گھٹی گھٹی آواز میں بولی۔ اس پل دروازے کا ہینڈل گھوما تھا جبکہ شفق کے حلق سے نکلنے والی چیخ بے ساختہ تھی۔
”چچ… چور…“ شفق نے گوگی کا بازو مضبوطی سے پکڑ کر لرزتی آواز میں کہا۔
گوگی غیر محسوس طریقے سے شفق سے قدرے ہٹ کر بیٹھ گئی۔ وہ دو مرد تھے اور ان کے ساتھ ایک عورت بھی تھی۔ انتہائی خوبصورت عورت۔ اس عورت کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر شفق مزید گوگی کے قریب ہو گئی تھی۔
”کک… کون ہو تم؟“
”ابھی بتا دیتے ہیں‘ آخر جلدی کیا ہے۔
“ اس موٹے اور بھدے شخص نے بے ڈھنگا قہقہہ لگایا تھا۔
”ارے یہی شفق ہے۔“ دوسرے نے مونچھوں کو تاؤ دے کر کہا۔ ”شفق کی آنکھیں وحشت سے پھٹ رہی تھیں۔
”دیکھو‘ تم لوگوں کو جو چاہئے‘ میں تمہیں دیتی ہوں۔ اس دراز میں لاکر کی چابی ہے‘ اس میں میرا زیور ہے اور ساتھ ہی کچھ نقدی بھی ہے۔ پلیز تم لوگ مجھے کچھ مت کہو۔“
اس عورت نے شفق کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا اور شفق کو آگے بڑھ کر دو تین تھپڑ مارے تھے۔
وہ درد سے بلبلا اٹھی۔ وہ دونوں آدمی بہت خاموشی سے صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک اردگرد کا جائزہ لے رہا تھا۔
”اتنا بڑا قدم اٹھانے سے پہلے سوچنا تھا نا شہزادی! اونچے لوگوں سے ”یاریاں“ لگانے کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔“ اس عورت نے بازاری انداز میں قہقہہ لگایا تھا۔
”خدا کیلئے مجھے کچھ مت کہو۔ گوگی…! پلیز گوگی…! مجھے بچا لو…“ اب وہ عورت ہنٹر لہرا رہی تھی۔
وہ تڑپ کر گوگی کی طرف بڑھی۔
”ایک لفظ بھی زبان سے مت نکالنا‘ ورنہ بہت برا سلوک کروں گی۔“ وہ کرخت لہجے میں بولی۔ ان میں سے ایک آدمی صوفے پر سے اٹھا۔
”ہمیں بھی ”باری“ لینے دو رانی…! خود ہی گرجتی برستی رہوگی۔“ شفق کی طرف گندی نگاہوں سے دیکھتا وہ اس عورت سے مخاطب تھا۔
رانی نے اپنے بال جھٹک کر ہاتھ میں پکڑا ہنرا پوری شدت کے ساتھ اس خوفناک جسامت والے مرد کی کمر پر مارا تھا‘ وہ بلبلا کر پیچھے ہٹا۔
”رانی! مالک نے کہا تھا کہ…“
”بدنیت‘ حرام خور۔ شکل دیکھی ہے اپنی‘ تھوکنے کو بھی دل نہیں کرتا۔“ وہ غرائی تھی۔
اب وہ تینوں صوفے پر بیٹھ گئے تھے جبکہ گوگی ایک دم اٹھی تھی اور اس نے ہنٹر اٹھا کر شفق کی کمر پر برسانا شروع کر دیا تھا۔ وہ درد و کرب اور شدید دکھ اشتعال سے ایک ملازمہ کے ہاتھوں پٹتی رہی اور چیختی رہی۔
”چھوڑو مجھے‘ اللہ کا واسطہ نہ مارو۔
“ اس کے لبوں پر ایک ہی التجا تھی۔ جب وہ رو رو کر اور چیخ چیخ کر بے ہوش ہو گئی تو گوگی نے ہنر پھینک کر دھواں دھار رونا شروع کر دیا۔
رانی باہر نکلنے سے پہلے ایک دفعہ پھر بے ہوش پڑی شفق کے پاس آئی۔
”تیری صورت پر ترس آ گیا ہے مجھے‘ ورنہ جس نے ہمیں بھیجا ہے نا‘ اس نے کہا تھا کہ تیری بوٹیاں کر دوں‘ تجھے ذلتوں کے گڑھے میں اتار دوں‘ تجھے پامال کر دوں مگر میں نے ایسا نہیں کیا‘ میں نے تجھے پامال نہیں ہونے دیا۔
“ وہ آہستہ سے بڑبڑا رہی تھی اور پھر گوگی کو ٹھوکر مارتے ہوئے باہر نکل گئی۔
”ہم ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ دولت کے بھوکے‘ پیسے کے بجاری۔“ گوگی نے اپنی ٹانگ سہلاتے ہوئے اسے کہتے سنا اور پھر اس نے شفق کو اٹھا کر بستر پر ڈالا۔
اس کے بازو سے خون رس رہا تھا جبکہ دونوں گال سوجے ہوئے تھے۔ اسے ایک دم ہی اس حسین عورت پر ترس آیا۔
######

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi