Episode 61 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 61 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

شادی سے صرف چار دن پہلے خالہ چل بسیں۔ سامی کو سخت تپ چڑھ گئی کئی دن اس نے پھوپھی کے گھر کے چکر لگائے تھے‘ ایک دن پھوپھی سے دکھ سکھ کہنا شروع کر دیئے۔ شازی اور وہ گندم صاف کر رہی تھیں۔ پھوپھی گاجریں چھیل رہی تھی۔ مربہ بنانے کیلئے سامی‘ پھوپھی کے قریب موڑھے پر بیٹھا تھا۔
”سونی کی خالہ جنت کے باغوں میں سیر کریں ہمیشہ‘ پر جاتے جاتے بھی میرا کام بگاڑ کر ہی گئی ہیں اچھی بھلی تاریخ طے تھی۔
دعوت نامے تقسیم کر دیئے تھے۔ میری خوشی برداشت نہ ہو سکی۔“ وہ جلا بھنا بیٹھا تھا۔
”پُتر! یہ اللہ کے کام ہیں۔ تمہاری اماں کا بلاوا آ گیا تھا‘ جانا تو تھا ہی۔“ پھوپھی نے سادگی سے اسے ٹھنڈا کرنا چاہا۔ شازی اور سونی اپنی ہنسی چھپانے میں ہلکان ہو رہی تھیں۔
”اس وقت بلاوا آ جاتا تو اچھا تھا۔

(جاری ہے)

جب دھوپ میں میری کمر سینکا کرتی تھیں۔

سچ بتاؤں‘ پھپھی! بہت مارا کرتی تھیں۔ رات بھر بھوکا رکھتیں۔ دن بھر گدھے کی طرح جوتے رکھتیں۔ ابا کاٹھ کے وہ۔ ابا تھے‘ اب انہیں کیا کہوں۔ دونوں میاں بیوی جنت مکانی‘ ہماری تو یہی دعا ہے۔ دونوں کی دعائے مغفرت کرتا ہوں۔ پر میری بچپن میں مانگی بددعائیں عین شادی سے چار دن پہلے پوری ہوئی ہیں بطور میری سزا کے۔“
”اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے۔
چار دن شادی آگے ہو گئی ہے تو اس میں بھی کوئی بہتری پوشیدہ ہوگی۔“ پھوپھی نے نرمی سے سمجھایا تھا پھر سونی سے مخاطب ہوئیں۔“سامی کو گاجر کا رس نکال دے بیٹی!“
”اچھا پھوپھی!“وہ خوشی خوشی اٹھنے لگی تھی۔ کیونکہ گاجر کا رس اسے خود بہت پسند تھا۔
”نہ پھوپھی! مجھے نہیں پینا۔“سامی نے منہ بنایا۔
”کیوں پتر!“ پھوپھی جی نے نرمی سے پوچھا۔
”کیا چائے پیو گے۔؟“
”نہ چائے نہ پانی۔“
”تو پھر۔“سونی نے کلس کر پوچھا۔
”کھانا۔“
”واہ جی واہ۔“ شازی جھومی۔ ”تم ہماری برادری سے ہو‘ یعنی کھانے پینے کے شوقین۔“
”جی نہیں۔“سامی نے ان کی خوشی فہمی دور کی۔
”میں کھانے کے بعد کچھ نہیں کھاتا اور کھانا میں کھا کر آ رہا ہوں۔“
”ہم نے تو کڑاہی بنائی تھی۔
سوچا تھا تم آؤ گے توکھائیں گے۔ چلو بھئی سونی! ہم خود ہی کھا لیتے ہیں۔“ شازی نے بے تابی سے ہاتھ جھاڑ کر کہا۔
”کڑاہی کس نے بنائی۔“سامی نے گاجر کترتے ہوئے پوچھا۔
”میں نے۔“جواب سونی کی طرف سے آیا تھا۔سامی کو ادھر سے ہی جواب کی توقع تھی۔
”اور کیا کچھ بنانا آتا ہے؟“ باقاعدہ انٹرویو کا آغاز ہو گیا۔
”دہی گوشت اور…“ابھی وہ مزید سوچنے لگی تھی جب چوبارے سے سائر نے جھانک کر لقمہ دیا۔
”سامی بھائی! مجھے سے پوچھیے۔ آپا کو سب بنانا آتا ہے۔دہی گوشت‘ دھواں گوشت‘ بالٹی گوشت‘ٹب گوشت‘ کڑاہی گوشت‘فرائنگ پین بینگن‘ بھنڈی ہانڈی‘ ادولی گنی‘ پالک کوکر‘ دال کوکر‘ پائے کوکر‘ یہ کوکر میں پکائی جانے والی ڈشز تھیں۔توا کباب‘ کباب توے پر تلے جاتے تھے‘ گولا کباب‘ بارود کباب‘ سیخ کباب‘ توپ کباب‘ بندوق کباب‘ سب آتا ہے میری آپا کو بنانا۔
“ بڑے فخر سے سینہ پھلا کر سائر نے کہا تھا۔ سونی اور شازی نے گویا ماتھا پٹیا تھا جبکہ سامی بھائی تو گویا جھوم اٹھا۔
”میرے بھائی! مجھے ایک مشورہ تو دے۔“سامی نے سوچتے ہوئے کہا۔
”جی بھائی! بولئے۔“سامی پتنگ کی ڈور اپنے دوست کو تھما کر نیچے چلا آیا۔
”فیوچر پلاننگ کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ کیا میں ایک ہوٹل نہ کھول لوں؟“
”ضرور کیوں نہیں۔
“سائر نے زور و شور سے اثبات میں سر ہلایا۔
”کک کی تو ضرورت نہیں پڑے گی۔“
”تو اور کیا۔“ وہ سنجیدگی سے سر ہلاتا رہا۔
”تمہاری آپا جو ہے۔ہر فن مولا۔جسے بندوق اور توپ کباب بھی بنانے آتے ہیں۔ دال کوکر اور پائے کوکر بھی بنا سکتی ہے۔ ٹب گوشت اور بالٹی گوشت تمہاری آپا کے اضافی کمالات ہیں۔ تو پھر میرا تو فائدہ ہی فائدہ ہوا نا۔
“سامی نے سنجیدگی کے ریکارڈ توڑے۔
”آپا ہوٹل میں کام کرتی اچھی لگے گی کیا۔“سائر نے بہت دیر سوچنے کے بعد برا ماننے کی کوشش کی۔
”ابے گدھے! اٹھ‘ جاکر اپنا کام کر۔“شازی نے چپل لہرائی تھی۔وہ واقعی اٹھی کر بھاگ گیا۔
”تم کہاں کھسک رہی ہو؟“سامی نے نظر بجا کر کچن کی طرف جاتی سونی سے پوچھا۔
”بھوک لگی ہے؟“وہ منمنائی۔
”ناشتہ نہیں کیا تھا۔“سامی نے ہمدردی سے پوچھا۔
”کیا تھا۔“سونی نے اثبات میں سر ہلایا۔
”کیا کھایا تھا ناشتے میں؟“اس نے سرسری سے انداز میں پوچھا تھا جبکہ سونی تو تفصیل سنانے کیلئے بیٹھ گئی۔
”دو فرائی انڈے‘ دو چھوٹے پراٹھے۔ شازی اتنا سا پیڑہ لیتی ہے۔“باقاعدہ دو انگلیوں کا دائرہ بنا کر دکھایا گیا تھا۔
”دو گلاس لسی پی تھی۔
پھر مجھے سخت نیند آئی۔ مگر کام بھی تو ضروری تھے۔برتن دھوئے‘ صفائی کی‘ کپڑوں کے ڈھیر کو استری کیا۔ پھر سو گئی صرف دس منٹ سوئی تھی۔ بھوک نے جگا دیا تھا۔ سوجی کا حلوہ گرم کرکے جلدی جلدی سے کھایا۔ ایک کپ چائے پی۔ صبح کا بچا ہوا پراٹھا کھایا۔ پھر چکن کڑاہی بنائی۔ شازی نے بتایا تھا تم نے آنا ہے۔ پھوپھی نے کہا‘ رس ملائی بھی بناؤ۔ کھانا بنایا‘ گندم صاف کی‘ تمہاری باتیں سنی اور پھر سے بھوک لگ گئی ہے۔
”ماشاء اللہ‘ پیٹ ہے کہ کنواں۔“ سامی نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔
”اتنا کھایا پیا کہاں جاتا ہے؟“سامی کا اشارہ اس کی صحت کی طرف تھا۔
”نظر لگانے والے بھی تو بہت ہیں۔“وہ شازی کو چڑا رہی تھی۔
”دیکھ رہے ہو سامی! یہ قدر ہے ہماری۔“
”غم نہ کھاؤ میری بہنا! ہماری قدر اتنی بھی نہیں۔“سامی خوامخواہ جذباتی ہوا۔
”اکیس توپوں کی سلامی دوں تمہیں۔
“سونی بھنا کر پلٹی۔
”مجھے سلامی دینے سے زیادہ اہم کام مرغ کو چیرنا پھاڑنا ہے‘آپ جاکر اپنا شغل فرمایئے‘ چکن کڑاہی آپ کو پکار رہی ہے۔“سامی نے پچکار کر کہا۔
”تم تو گویا کچھ کھاتے نہیں‘ سونگھتے ہو صرف۔“سونی نے جواب دینا ضروری سمجھا۔
”اس رفتار سے تو نہیں کھا سکتا۔“
”سونی کے ساتھ رہو گے تو ایسی ہی رفتار پکڑ لو گے۔“ شازی بھی سونی کے پیچھے کچن کی طرف بھاگی تھی۔
”پھوپھی جی! یہ دونوں کتنا کھاتی ہیں۔“
”تو اور کیا۔“ پھوپھی کو اپنے دکھڑے یاد آ گئے تھے کہ کس طرح ان دونوں کے بابرکت ہاتھوں کی بدولت راشن ہفتہ بھر میں ہوا ہو جاتا ہے۔
######

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi