Episode 51 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 51 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

”اماں بی! کہاں رہ گئی تھیں آپ۔“سونی زینت بی کو دیکھتے… ہی چہک اٹھی۔زینت بی نے بھی بڑی گرمجوشی سے سونی کو گلے لگایا تھا۔اماں‘ ابا کے زمانے سے زینت بی کا ان کے گھر آنا جانا تھا۔ رشتہ داری تو نہیں تھی البتہ قرابت داری کی وجہ سے یونہی محسوس ہوتا تھا کہ زینت بی سے گہرا اٹوٹ تعلق ہے۔ اسی محلے اور اسی بند گلی کا آخری مکان زینت بی کا تھا۔بہو اور بیٹے کے ہمراہ رہتی تھیں‘ مگر اکثر ہی عزیزوں کے ہاں سے بلاوا آ جاتا تھا۔
بڑی ہی معاملہ فہم‘ سمجھ دار خاتون تھیں‘ سونی کو تو ہمیشہ اپنی اماں کا پرتو ہی لگا کرتی تھیں۔
”کسووال سے مہمان آئے ہوئے تھے‘ ان ہی میں مصروف رہی‘ پر دل تو ادھر ہی اٹکا رہا تھا۔ مہمانوں کے جاتے ہی بھاگ چلی آئی ہوں۔ سوچا بچی کو اک نظر دیکھ آؤں۔

(جاری ہے)

تم تو کم کم ہی نکلتی ہو۔“

”مہمان واپس چلے گئے؟“ وہ اماں بی کو لئے صحن میں آ گئی۔
اگرچہ گھنے اونچے اور بے تحاشا درختوں کی وجہ سے سورج کم کم ہی جھلک دکھاتا تھا۔ مگر اس وقت ظہر کے بعد اچھی خاصی دھوپ بڑے سے آنگن میں اتر آئی تھی۔
دو منزلہ مکان تھا‘پرانی طرز کا بنا ہوا‘ مگر سہولت کی ہر شے موجود تھی۔ اس کی اماں بڑی سلیقے قرینے والی خاتون تھیں۔ کفایت شعار بھی تھیں۔ ہر کمیٹی کھلنے کے بعد گھر کیلئے کچھ نہ کچھ منگواتی رہتیں‘ فریج‘ واشنگ مشین‘ ایئر کولر‘ گیزر اور اے سی تک لگوایا تھا۔
سونی کے پوچھنے پر اماں ہنس پڑتیں۔
”یہ ساری چیزیں تیری سہولت کیلئے ہیں۔ شادی کے بعد کام آئیں گی۔“ سونی گویا سمجھ کر سر ہلا لیتی تھی‘حالانکہ پلے کچھ بھی نہیں پڑتا تھا۔ وہ عمر ہی ایسی تھی۔ سوئی جاگی سی‘ بچپن جا رہا تھا‘ لڑکپن دامن کھینچ رہا تھا۔ شعور ابھی دور تھا‘کوسوں دور‘ بے فکری کا زمانہ اور اماں کی بے حساب محبت‘ ابا تو تین سال پہلے دل کے معمولی جھٹکے سے سنبھل نہ پائے تھے۔
”مہمان ابھی ادھر ہیں‘ ہمیشہ ادھر رہیں گے۔“ اماں بی کی آواز اسے سوچوں کی وادی سے واپس کھینچ لائی۔
”اچھا…“ سونی حیران ہوئی۔ ”واپس نہیں جائیں گے۔“
”نہیں…“ اماں بی نے ٹھنڈی آہ بھری۔ ”میرے مرحوم چچا کی نواسی اور اس کی بیٹی ہے۔ ماں‘ بیٹی بے آسرا ہیں۔ کرایوں پر دھکے کھاتی رہی ہے۔ ساری زندگی مشقت ہی کی۔ کچھ بنا نہ پائی کہ پیٹ کا دوزخ بھرتا تو کچھ اور سوچتی‘ لڑکی کو پڑھا لکھا دیا تھا‘ یہ بھی نانی کی مہربانی سے سولہ جماعتیں پاس کر گئی۔
ادھر پرائیویٹ اسکول میں نوکری کی بات کرکے آئی ہوں بچی کیلئے۔ صرف دو ہزار تنخواہ‘ ماں کہتی ہے گھر ڈھونڈ دو‘ چاہے ایک کمرہ ہی ملے۔ ماں‘ بیٹی سر چھپا کر بیٹھ جائیں گی۔ میری بہو کے مزاج سے تو واقف ہو‘ انہیں پل پل شرمندہ کئے دیتی ہے۔ میں نے بھی سوچا‘ ٹھکانہ تو ڈھونڈ دیتی ہوں‘ مگر دو ہزار تنخوا میں اگر پندرہ سو کرایہ نکل گیا تو یہ دونوں مہینے کے دن کیسے گزاریں گی۔
بہت سوچنے کے بعد تمہارے پاس آئی ہوں۔“ اماں بی کے چہرے پر سوچ کی پرچھائیاں تھیں‘ سونی چپ ہی رہی۔
”میں چاہتی ہوں اگر تم سامی سے مشورہ کرکے اوپر کی منزل کا ایک کمرہ ان ماں‘ بیٹی کو دے دو‘ تو بے چاریوں کی پریشانی کم ہو جائے گی۔ میرا تو دل کٹتا ہے ان دونوں کی بے بسی دیکھ کر‘ بچی تو سونے کی تار ہے‘ رج رج کر سوہنی‘ ماں اپنے پروں میں چھپائے بیٹھی ہے۔
یہ معاشرہ اور اس کے چلن کہاں کسی شریف بیوہ کو چین سے جینے دیتے ہیں۔ اللہ تمہارا بھلا کرے بیٹی! یک طرفہ فیصلہ نہ کرنا۔ سامی سے مشورہ کر لو۔ تم بھی تنہا ہوتی ہو‘ تمہارا وقت بھی اچھا کٹ جائے گا۔ ثروت اور اس کی بیٹی سوہنی کی تسلی میں دیتی ہوں۔ میری ذمہ داری پر بغیر کسی خوف کے تم فیصلہ کرنا۔سامی بھی دیکھا بھلا‘ شریف بچہ ہے۔ مجھے ثروت اور سوہنی کیلئے اس سے زیادہ اچھا اور باحفاظت ٹھکانہ نہیں ملے گا۔
“اماں بی بات کے اختتام پر گم صم بیٹھی سونی کے ہاتھ پر اپنا کھردرا مگر شفیق ہاتھ رکھ کے نرمی سے بولیں۔
”تم اچھی طرح سے سوچ لو۔ اگر دل نہیں مانتا تو زبردستی کا ہے کی۔“
”اماں بی! میں سامی سے بات کر لوں‘مجھے تو کوئی اعتراض نہیں۔اس گھر میں بھی انسانی آوازیں گونجیں گی‘ اس سے اچھا شگون اور کیا ہے‘ اماں‘ ابا کے بعد تو ایسا جمود طاری ہوا ہے جو ابھی تک سامی اور میری موجودگی کے باوجود نہیں ٹوٹا۔
“ سونی نے سنجیدگی سے پھلوں سے لدی شاخوں کی طرف دیکھ کر یاسیت سے کہا۔
””اللہ نے چاہا تو اس آنگن میں بچوں کی قلقاریاں ضرور گونجیں گی۔ پھر دیکھنا جمود کیسے ٹوٹتا ہے۔“ اماں بی نے حلاوت سے کہا تھا۔ پھر اس کا ہاتھ دباتے ہوئے نرمی سے مزید بولیں۔
”بیٹی! جس ڈاکٹرنی کا میں نے تمہیں پتا دیا تھا‘ اس سے رابطہ نہیں کیا؟“
”یہ دیر تو اللہ کی طرف سے ہے اماں بی!ہم دونوں کی رپورٹس ٹھیک ہیں۔
“ سونی نے لہجے میں اترتی رنجیدگی کو بمشکل خود پر طاری ہونے دیا۔
”رب سوہنا اپنا فضل ضرور کرے گا‘ نماز میں دل لگایا کرو بیٹی! دعا عبادت کا مغز ہوتی ہے۔“
”جی اچھا…“ ہمیشہ کی طرح سونی جی بھر کر شرمندہ ہوئی تھی۔ نماز تو وہ پڑھتی تھی‘ مگر ایک یا دو نمازیں ہمیشہ چھوٹ جاتیں۔ پابندی کا تسلسل قائم نہیں رہتا تھا۔
”سامی کب تک آ جاتا ہے دفتر سے۔
“اماں بی پھل کے بوجھ سے جھکی امرود کی شاخوں کو دیکھ کر پوچھنے لگیں۔
”چار بجے تک‘ مگر آج دیر سے آئے گا۔ چناب بازار جانا ہے اس نے کرایہ لینے۔“
”اللہ رزق میں اور برکت ڈالے بیٹی!یہ پھل اُتار لینا تھا۔“
”اتنی مرتبہ سامی سے کہا ہے‘مگر مجال ہے جو میری بات مان لے‘خود کا دل چاہا تو میرے کہے بغیر سارے صحن میں پتے ہی پتے بکھیر دے گا‘سارا پھل اُتار لے گا‘مگر صحن کی صفائی کرنے میں صاف جھنڈی دکھائے گا۔
”لیموں بھی زردی مائل ہو رہے ہیں‘ اچار ڈال لیتی۔“
”اماں بی!سامی کو اچار پسند نہیں‘ میں بھی صرف آم کا اچار کھاتی ہوں۔آپ کو ضرورت ہے تو لے جائیں۔“
”نہیں بیٹی!میں نے مرتبان بھر کے مرچ اور آم کا اچار ڈالا تھا۔ یاد ہے نا‘آم بھی اس درخت سے سامی نے توڑ کر دیئے تھے اور لیموں بھی یہیں سے لے کر گئی تھی۔رب تعالیٰ زیادہ کی ہوس سے بچائے‘جب تمہاری ماں زندہ تھی نا‘ پورے محلے میں موسم کے پھل اور سبزیاں بانٹتی تھی۔
“ اماں بی کسی اچھی یاد کو بیتے وقت کے کسی لمحے میں کھوجنے لگیں۔ سونی کو گویا جھٹکا لگا تھا۔ وہ کچھ پل کیلئے ساکت رہ گئی۔
”اور میں کیا کرتی ہوں۔اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو ضائع‘ محض سستی کی وجہ سے۔“سالن اور روٹی کے ٹکڑوں کو بچانے کیلئے ہر وقت کانشس رہنے والی سونی کو کبھی خیال نہیں آیا تھا کہ پیڑوں پر پکے پھل کیسی کیسی دہائی دیتے ہیں۔
مگر اس کا بھی قصور نہیں تھا۔ سامی کی منتیں کرتی رہتی تھی کہ امرود‘کیلے‘آم‘جامن وغیرہ اتار دیا کرے‘ موڈ ہوتا تو اتار دیتا تھا‘ پھر سونی کی موج ہو جاتی تھی۔ کبھی سیلڈ بن رہا ہے تو کبھی تازہ پھلوں کی چاٹ‘ کبھی فروٹ کسٹرڈ اور کبھی طرح طرح کے مربے‘ ہاں اس نے اماں کی روایت برقرار نہیں رکھی تھی۔ محلے کے کسی گھر میں موسم کی سبزی یا پھل نہیں بھیجا تھا۔ نہ جانے کیوں سونی کو جی بھر کے پشیمانی ہوئی۔ اس نے دل ہی دل میں ارادہ باندھا تھا کہ اس دفعہ وہ اماں کی یاد اسی طرح تازہ کرے گی اور پھر ہمیشہ کرتی رہے گی۔

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi