Episode 13 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 13 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

وہ جان گئی تھی کہ ساحرہ اسے جلانے تڑپانے کیلئے بعض نازیبا حرکتیں کرتی ہے۔ لہٰذا اس نے خود پر خول چڑھا لیا۔ مگر کبھی کبھی یہ خول چٹخ جاتا تھا۔ خصوصاً جب وہ حیدر کے ساتھ ہوتی تھی۔ صبح صبح وہ بیڈ روم کا دروازہ کھول دیتی تھی تاکہ اس کی کھنکتی ہنسی اذکی کے کانوں تک پہنچ سکے۔ اکثر اپنی سہیلیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وہ حیدر کی بے تابیوں کی داستان سنانے لگتی۔
اسے ہمیشہ ساحرہ پر رشک آتا تھا۔ وہ ان چند لوگوں میں سے تھی جو چاہے جانے کیلئے بنے ہوتے ہیں۔ ماں باپ کی لاڈلی  ساس کی چہیتی  نندوں کی دلاوری اور شوہر کی من چاہی۔ اسے سب کی محبتیں بے دریغ ملی تھیں۔ اسے تو مغرور ہونا ہی تھا جبکہ اذکی نے آنکھ کھولی تو ماں نہیں تھی  لڑکپن گزرا تو باپ کا سایہ اٹھ گیا۔ ماموں مامی نے ہی آسرادیا تھا۔

(جاری ہے)

ان کی محبت ہی اس کی کل کائنات تھی مگر ماموں کی طویل بیماری راحیلہ بھابھی کے روزانہ کے جاہلانہ جھگڑوں نے انہیں سخت پریشان کر رکھا تھا۔

وہ جلد از جلد اسے مضبوط ہاتھوں میں دینا چاہتے تھے۔
مامی کے رشتے کے بھائی نے ہی اذکی کے تایا کے متعلق بتایا تھا۔ اسے بھی پہلی مرتبہ کسی قریبی عزیز کے بارے میں پتا چلا تھا۔ تایا جی کی شفیق صورت دیکھ کر اسے اپنے بابا یاد آ گئے تھے۔ ان کے سینے سے لگ کر ساری محرومیاں بھول گئی تھی۔ وہ ان کے جانے کے بعد سچ مچ کڑی دھوپ کا گماں ہوا تھا اسے۔
جس کے ساتھ اتنا مضبوط تعلق تھا۔ وہ سدا کا لاپروا  اسے لاکر بھول چکا تھا یقینا اسے نہ حق لینا آیا تھا نہ حق وصول کرنے کیلئے جھگڑنا۔ وہ اوّل روز کی طرح اب بھی راحت کو دیکھ کر تھر تھر کانپنے لگتی تھی۔
اگر حیدر کبھی اچانک سامنے آ جاتا تو وہ کونوں کھدروں میں چھپنے لگتی تھی۔ وہ اونچی آواز میں بولتا تو اذکی سہم کر کمرے میں دبک جاتی۔
اگر اس کے مزاج کے خلاف کوئی بات ہو جاتی تو وہ زمین آسمان ایک کر دیتا۔ نجمہ کانپتی لرزتی ادھر ادھر بھاگنے لگتی۔ اذکی کے ہاتھ پیر پھول جاتے  بس ایک ساحرہ واحد ہستی جو اس کے غصے کو کبھی خاطر میں نہیں لاتی تھی یا پھر حیدر کو اس پر غصہ ہی نہیں آتا تھا۔
شروع سے ہی اذکی تایا جی اور حیدر کے کپڑے دھو کر پریس کرکے ہینگ کر دیا کرتی تھی۔
ان دونوں کے جوتے پالش کرکے شوز ریک میں سجا دیتی۔ البتہ کریڈٹ سارا راحت بیگم کے حصے میں چلا جاتا تھا جن کے سلیقے کی سارے خاندان میں دھوم تھی اور اب ان کی بھانجی نے ان کا تخت سنبھال لیا تھا۔
صبح کے وقت حیدر اور ساحرہ ایک ہنگامہ مچائے رکھتے تھے۔ حیدر آفس جلدی پہنچنے کیلئے شور مچاتا جبکہ ساحرہ یہ ثابت کرنے پر تلی ہوتی تھی کہ سارا گھر اس نے سنبھال رکھا ہے۔
ہاتھوں سے زیادہ زبان چلتی تھی اس کی بھاگتی دوڑتی  کبھی حیدر کی پسند معلوم کر رہی ہے۔ کبھی راحت کو پرہیزی ناشتہ پہنچا رہی ہے۔ ساتھ وہ اذکی کو بھی خوب دوڑاتی تھی۔
”اذکی! پیاز کاٹ دو آملیٹ کیلئے۔“ وہ آٹا گوندھ کر ہٹتی تو نیا حکم جاری ہو جاتا۔ اتنے میں ساحرہ برتن لگانے شروع کر دیتی۔ اذکی ملک شیک بنا کر جگ میں ڈالتی اور ساحرہ کمال مہارت سے ٹرے میں سجا کر حیدر کو بیڈ روم میں دے آتی۔
وہ کچن میں برتنوں کے ساتھ الجھ رہی ہوتی اور راحت کی بڑبڑاہٹیں عروج پر پہنچ جاتیں۔
زندگی اسی طرح اپنی ڈگر پر رواں دواں تھی۔ وقت اپنی چال روانی سے چل رہا تھا۔ اذکی نے اب تو انگلیوں پر حساب لگانا بھی چھوڑ دیا تھا۔
حیدر کبھی کبھار اسے کاموں میں الجھا دیکھ کر ٹھٹک جاتا تھا وہ جان کر بھی انجان بن جاتی۔ وقت کے ساتھ ساتھ سب میں تبدیلیاں آ جاتی ہیں مگر راحت اور ساحرہ اوّل روز کی طرح تھیں مغرور اور خودپسند۔
ساحرہ کی شادی کو چھ سال ہو گئے تھے پر ابھی تک اس کی گود خالی تھی۔ راحت کو بھی فکر نے گھیر لیا تھا۔ لوگوں کے دبے دبے تبصرے اذکی کے کانوں تک بھی پہنچ رہے تھے۔ ساحرہ بھی فکر مند رہنے لگی تھی۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر ساحرہ نے نئی چال چلی۔ راحت بھی اس کی ہمنوا تھیں۔ دراصل ساحرہ کو حیدر کے بدل جانے کا وہم ہو گیا تھا۔ اولاد ہی پیروں کی زنجیر ہوتی ہے۔
اس کی سہیلی کے ساتھ ایسا حادثہ ہو چکا تھا جس نے اسے صحیح معنوں میں پریشان کر دیا تھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ حیدر بھی اس کے ساتھ اس قسم کا کھیل کھیلے۔
ساحرہ کو یقین تھا کہ اس کا یہ عمل اعلیٰ ظرفی اور وسیع دل ہونے کا ثبوت بن جائے گا۔ لوگوں کی واہ واہ اور خاندان بھر کی شاباشی اور سب سے بڑھ کر راحت کی مکمل خوشنودی حاصل ہو جائے گی۔
ساحرہ کی فیملی کے علاوہ کسی اور کو حیدر اور اذکی کے نکاح کی خبر نہیں تھی۔
اس بات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے حیدر اور اذکی کی شادی کا اعلان کر دیا۔ پورے خاندان میں گویا بھونچال آ گیا تھا۔ سب بے حد حیران تھے جبکہ ساحرہ کو اصل پریشانی نے اس وقت جکڑا تھا۔ جب اس نے حیدر سے ذکر کیا اور اس نے خاموشی سے سر جھکا کر اپنی رضا مندی کا اظہار کر دیا۔ وہ حیدر کے رویے کو جان نہیں پائی تھی مگر اگلے بہت سے دنوں نے ثابت کر دیا تھا کہ اگر ساحرہ یہ قدم نہ اٹھاتی تو وہ پھر بھی اذکی کو بیوی کا درجہ دینے والا تھا۔
رہی اذکی تو اس کا سکتہ ابھی تک نہیں ٹوٹا تھا۔دو ماہ گزر جانے کے بعد بھی وہ ابھی تک بے یقین تھی۔ کہاں تو راحت اور ساحرہ سرے سے اس کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری تھیں اور کہاں پل ہی پل میں انہوں نے اس کے مقام کا خود ہی تعین کر دیا۔
شروع شروع میں حیدر قدرے اکھڑا کھڑا ہی رہا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ اس کے رویے میں تبدیلی آ گئی اور جب اسے باپ بننے کی خوشخبری ملی تو راحت ولا میں گویا خوشیوں کی بارات اتر آئی۔ راحت کا موڈ بھی بہت بہتر ہو گیا تھا جبکہ ساحرہ اب اکھڑی اکھڑی رہنے لگی تھی۔ اسے دیکھتے ہی تنفر سے رخ بدل جاتی۔ وہ زیادہ تر اپنے کمرے میں بند رہنے لگی تھی اذکی وجہ جانتی تھی کہ یہ سب اس وجود کے مرہون منت ہے جس نے ابھی اس دنیا میں آنکھ نہیں کھولی تھی۔

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi