Episode 27 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 27 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

یہ ان دنوں کی بات ہے جب خاکی وردی والوں کو بڑی عقیدت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اسی چاہ میں انہوں نے اپنے تینوں بیٹوں کو بری اور بحری فوج میں بھرتی کروایا۔ تینوں نے ہی اپنی ذہانت کی بنا پر کمیشن لیا اور مختلف عہدوں پر فائز ہو گئے۔ بلند بخت نے اپنے بیٹوں کیلئے ورثے میں بہت سی زمینیں اور ایک خستہ حال فیکٹری چھوڑی تھی جو کہ ان کے بیٹوں کو ناکافی معلوم ہوتی تھی۔

آخر عمر میں جب سید بلند بخت گھٹنوں کے درد کی وجہ سے چل پھر نہیں سکتے تھے‘ بڑھاپے اور رعشہ کی وجہ سے ان کے ہاتھ اور سر کانپتا تھا اور ان کی داڑھی کے سفید بال نجانے کیوں گدلے آنسوؤں سے بھیگتے جاتے اور ان کی لکنت زدہ زبان پر صرف چند الفاظ گویا ٹھر گئے تھے۔ ان کی خدمت پر مامور خادم بتاتا تھا کہ وہ اپنے بیٹوں سے سخت نالاں تھے۔

(جاری ہے)

اور ان کے قریبی عزیزوں کا خیال تھا کہ بڑھاپے کی وجہ سے ان کا دماغی توازن ٹھیک نہیں رہا۔
اسی لئے وہ اپنے اتنے لائق بیٹوں کو گالیاں دیا کرتے تھے۔ جنہوں نے ہر لمحہ‘ ہر پل اپنی باپ کی خواہش کا احترام کیا۔
”رب نواز بتاتا تھا کہ بلند بخت نے آنکھیں بند کرنے سے پہلے ساری رات بہت سی باتیں کیں اور ان کی زبان ذرا بھی نہیں لڑکھڑائی۔ آخری وقت میں انہوں نے بہت افسوس سے کہا تھا کہ ”کاش“ میں انہیں اعلیٰ تعلیم کے ساتھ اچھا انسان بننے کی بھی ترغیب دیتا۔
میں نے ان کا دھیان ہمیشہ بڑی کرسی‘ بڑا عہدہ اور بڑے خوابوں کی طرف لگایا۔ اگر بلند بخت کے بیٹے بلند انسان ہوتے‘ ایمان دار ہوتے تو کیا خوب ہی اچھا ہوتا۔“
وقت گزرتا گیا۔ اس وقت کی ایک خستہ حال فیکٹری چار بڑی فیکٹریوں میں تبدیل ہو گئی۔ رزق حلال میں حرام کی آمیزش نے روح کو آلودہ‘ دلوں کو سیاہ اور آنکھوں پر پردہ ڈال دیا تھا۔
بیویاں بھی چمک دمک کی دلدادہ اور شوقین مزاج تھیں۔
ایک زندگی پنجاب کے اس چھوٹے سے گاؤں میں ہمیشہ کیلئے دفن ہو گئی تھی‘ دوسری بہت روشن اور چمکدار تھی اور اس دوسری زندگی نے تیسری زندگی کو وہ ہی عیش وہی آرام اور وہی حرام وراثت میں لوٹایا تھا۔
جنرل جہاں زیب کا چھوٹا بیٹا شاہ میر تھا۔ اس سے بڑے تین بھائی تھے اور باپ کی شدید خواہش کے باوجود ان تینوں نے باپ کے پروفیشن کو اہمیت نہیں دی تھی۔
اب جنرل جہاں زیب کی امیدوں کا واحد مرکز ان کا لاڈلا اور بے حد چہیتا بیٹا شاہ میر تھا۔
وہ اس سے بے حد محبت کرتے تھے۔ ان کے لاڈ پیار نے اسے ضدی اور لاپروا بنا دیا تھا اور جب اس نے آرمی جوائن کی تو جنرل جہاں زیب کا سیروں کے حساب سے خوب بڑھ گیا۔ وہ شاہ میر سے بے انتہا خوش تھے۔
بڑے دونوں بیٹوں کی شادیاں اپنے بھائی کی بیٹیوں کے ساتھ اور تیسرے کی منگنی اپنے ہی جیسے آرمی سے منسلک خاندان میں کرکے وہ بہت مطمئن تھے۔
شاہ میر کو بھی انہوں نے باندھ دیا تھا۔ مگر بعض دھاگے بہت کمزور ہوتے ہیں۔ ایک جھٹکے سے ٹوٹنے والے۔ جنرل جہاں زیب جانتے نہیں تھے کہ جس دھاگے سے انہوں نے شاہ میر کو باندھ رکھا ہے وہ کتنا کچا اور عنقریب ٹوٹنے والا بھی۔
”پھر تم کب مل رہی ہو؟“ وہ فون پر اس سے پوچھ رہا تھا۔ دوسری طرف اس نے نجانے کیا کہا تھا کہ شاہ میر تپ اٹھا۔
”اس کے علاوہ کوئی اور بہانا ڈھونڈو۔
“ وہ غصے سے بولا۔
”تم مجھ سے ملنا نہیں چاہتی۔“ اس نے کہا۔ اس کی توقع کے عین مطابق وہ فوراً ہی جذباتی حربے سے گھائل ہو گئی۔
”ٹھیک ہے پھر تم کل مجھ سے مل رہی ہو‘ اوکے۔“ ”میں کل پانچ بجے تمہیں لینے کیلئے آؤں گا۔“ وہ تحکم سے بولا۔
”ڈر‘ کس بات کا ڈر؟“ شاہ میر جھنجلایا۔
”تم دوسروں کی طرف مت دیکھو‘ اپنے دل کی سنو۔
“ دوسری طرف وہ روہانسی ہو کر فون رکھ چکی تھی۔ شاہ میر ایک دفعہ پھر اس کا نمبر ملا رہا تھا۔
”فون کیوں بند کیا ہے؟“ اس نے بمشکل اپنے غصے پر کنٹرول کرکے پوچھا۔
”ایک بات بتاؤں شفق! تم جب تک مجھ سے ملنے کا وعدہ نہیں کر لیتی‘ میں اسی طرح تمہیں فون کرتا رہوں گا۔ چاہے پوری رات بیت جائے یا زندگی۔“ وہ جنونی لب و لہجے میں بولا تھا۔
دوسری طرف وہ رو رہی تھی‘ اس کی سسکیوں کی آواز شاہ میر کی سماعتوں سے ٹکرا کر اس کی انا کی تسکین کر رہی تھیں۔ وہ کچھ پرسکون سا ہو گیا۔
”شفق! میں تمہیں بے حد چاہتا ہوں۔ میں تم سے۔“
شاہ میر اسے خواب دکھا رہا تھا۔ وہ خواب جو بند آنکھوں کے پیچھے بہت کھلے اور خوشنما لگتے ہیں۔ آنکھ کھولنے پر ان کی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ پھر وہ سلگاتے ہیں‘ تڑپاتے ہیں‘ رلاتے ہیں۔
”پھر تم مجھ سے مل رہی ہونا…“ اس کی آواز بہت دھیمی اور بوجھل تھی۔
”ہوں‘ یہ ہوئی نا بات۔“ وہ خوشی سے چلایا اور پھر مزید دو چار باتیں کرنے کے بعد اس نے فون بند کر دیا تھا۔
######

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi