Episode 11 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 11 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

تایا جی نے اسے اسکول داخل کروانا چاہا تو محض راحت کے خوف کی وجہ سے اس نے انکار کر دیا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ راحت کو طعنے دینے کیلئے ایک اور موضوع مل جائے۔ بی اے کرنے کے بعد حیدر نے یونیورسٹی جوائن کر لی تھی ساحرہ بھی اس کے ساتھ تھی۔ ساحرہ کے گھر والوں نے حیدر کے نکاح اور اذکی کی راحت ولا آمد پر اچھا خاصا واویلا کیا تھا تاہم راحت کے یقین دلانے اور حیدر کے ازلی لاپروا رویے کو دیکھ کر انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ اذکی ساحرہ کے راستے کی رکاوٹ ہرگز نہیں ہے۔

حیدر بے حد کھلنڈری طبیعت کا مالک تھا۔ بیس سال کی عمر میں اس سے کسی میچورٹی کی توقع کی بھی نہیں جا سکتی تھی۔
عباس کا ارادہ تھا کہ حیدر کی تعلیم مکمل ہونے کے فوراً بعد روایتی انداز میں اذکی، کی رخصتی کر دی جائے۔

(جاری ہے)

اپنی بیوی کے مزاج سے وہ اچھی طرح واقف تھے۔ اسی لئے وہ شدت سے منتظر تھے اس بابرکت دن کے  جبکہ راحت تو کچھ اور ہی سوچے بیٹھی تھیں۔

محض اذکی کو ایذا پہنچانے اور شوہر پر اپنی ضد ثابت کرنے کیلئے وہ روزانہ ہی ساحرہ کو کسی نہ کسی بہانے بلا لیتیں۔ اس کے لاڈ اٹھاتیں۔ وہ نخرے کر کرکے اپنی من پسند چیزوں کی فرمائش کرتی تھی۔ راحت بغیر ماتھے پر بل ڈالے اپنے ہاتھوں سے اس کیلئے کوئی نہ کوئی ڈش تیار کرکے رکھتیں۔ یہی حال نائلہ آپی اور ثمرہ کا تھا۔ ساحرہ کو خصوصی اہمیت دے کر وہ دانستہ جتایا کرتی تھیں کہ ساحرہ ہی ان کی مند پسند بھابھی ہے۔
وہ بھی گرمیوں کی سخت ترین دوپہر تھی۔ پسینہ گویا پانی کی طرح بہہ رہا تھا۔ اذکی گرمی سے بے حال دوپہر کا کھانا تیار کر رہی تھی۔ نائلہ آپی اور سنیہ بھی آئی ہوئی تھیں۔ ان کی آمد کے فوراً بعد ساحرہ کو بھی فون کرکے بلوا لیا گیا۔ وہ سب لاؤنج میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ اذکی نے کھانا تیار کرکے برتن ٹیبل پر لگا دیئے۔ پھر پسینہ صاف کرتے ہوئے نجمہ کو لاؤنج میں ان سب کو بلانے کیلئے بھیجا۔
حیدر کسی دوست سے ملنے کیلئے صبح سے نکلا ہوا تھا جبکہ تایا جی… لنچ کے لئے آفس سے اٹھ آئے تھے۔ وہ تایا جی کیلئے گرما گرم پھلکے اتار رہی تھی جب ساحرہ کچن میں داخل ہوئی۔
”ارے نجمہ کی جگہ تم نے سنبھال لی ہے۔ ویسے اچھا کیا ہے تم نے  کھایا پیا حرام کرنے سے بہتر ہے کہ ہاتھ پیر ہلا لئے جائیں۔ جہاں سے کھاؤ تھوڑا حق بھی ادا کرو۔
میں ٹھیک کہہ رہی ہوں نا“ وہ معصومانہ انداز میں کہتے ہوئے اس کی پسینے سے شرابور کمر کو گھورنے لگی۔ اذکی نے آنکھوں میں اُمڈنے والی نمی کو صاف کرتے ہوئے ذرا سا رخ موڑ کر اسے دیکھا۔
”یہ میرے تایا جی کا گھر ہے۔“
”اوہو۔‘’‘ ساحرہ نے معنی خیزی سے آنکھیں پٹپٹائیں۔
”تو گویا معدے کے راستے سے گزر کر سب کے دلوں میں جگہ بنانا چاہتی ہوں۔
“ سرخ خوبانی کو نزاکت سے اُٹھاتے ہوئے وہ ایک لمحہ کو رُکی۔
”یہ تو تمہاری بھول ہی ہے  خواہ مخواہ نچڑ رہی ہو گرمی سے۔ ان تلوں میں تیل ہرگز نہیں۔ تم خالہ کے دل اور نگاہ میں کبھی نہیں اتر سکتیں۔“ ساحرہ نے تمسخر اڑایا اور پھر اونچی ہیل سے ٹک ٹک کرتی باہر کل گئی۔ تایا جی آواز دے رہے تھے۔ وہ نم پلکوں کو صاف کرتی ٹیبل تک آ گئی۔
اسے دیکھ کر راحت کی پیشانی شکن آلود ہو گئی۔
وہ گھبراتی ہوئی تایا جی کے برابر رکھی کرسی پر بیٹھ گئی۔ نائلہ آپی اور ساحرہ آپس میں کچھ بات چیت کر رہی تھیں جبکہ سنیہ کھانے کی طرف متوجہ تھی۔ تایا جی تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کی پلیٹ میں کچھ نہ کچھ ڈال رہے تھے۔ اذکی کے حلق سے کچھ بھی نہیں اتر رہا تھا۔ راحت کی مسلسل چُبتی نظروں نے اس کی بھوک کو منٹوں میں مٹا دیا۔ وہ بے دلی سے چاولوں کی پلیٹ میں چمچہ چلانے لگی تھی۔
اسی پل گیٹ پر مخصوص ہارن بجا اور حیدر آندھی و طوفان کی طرح داخل ہوا۔ گرمی کی حدت سے اس کی سرخ و سفید رنگت تمتما رہی تھی۔ اس نے زور دار آواز میں سلام جھاڑا اور ٹیبل کا جائزہ لے کر چمچہ پلیٹ پکڑ لی۔
”یہ کیا بے ہودگی ہے حیدر  آرام سے بیٹھ کر کھانا کھاؤ۔“ راحت نے اسے جلدی جلدی پلیٹ میں چاول ڈالتے ٹوکا۔ حیدر نے گلاس اٹھایا اور لبوں سے لگا لیا۔
”کہاں ہے بے ہودگی۔“ اس نے سرعت سے دائیں بائیں دیکھ کر ”بے ہودگی“ کو تلاشنا چاہا۔ راحت نے کڑی نظروں سے اس کی حرکت کو ملاحظہ کیا جبکہ ساحرہ اور نائلہ آپی نے بے اختیار قہقہہ لگایا۔ اذکی ہنوز سر جھکائے چاولوں کو ٹونگ رہی تھی۔
”ایں تم پھر آ گئیں۔“ ساحرہ کی سریلی ہنسی کو سن کر حیدر نے مصنوعی حیرت کا اظہار کیا۔ ساحرہ کے مسکراتے لب سمٹ گئے۔
”گھر میں کھانا نہیں ملتا تمہیں یا پھر کک چھٹی پر چلا گیا ہے۔“ اس نے ساحرہ کو اشتعال دلانے کی کوشش کی تھی۔ راحت نے اس کا مخروطی انگلیوں والا ہاتھ پکڑ کر دوبارہ بٹھایا اور حیدر کو ایک دفعہ پھر گھورا۔
”خاموشی سے کھانا کھاؤ۔“ عباس نے بھی اُسے گھر کا۔ وہ شرافت سے پلیٹ پر جھک گیا۔ کھانے کے بعد وہ سب لاؤنج میں چلے گئے تھے جبکہ ساحرہ کو حیدر اپنے کمرے میں لے گیا تھا نیا میوزک سسٹم دکھانے کیلئے۔
اذکی بے دلی سے برتن اٹھانے لگی تھی۔ کام سے فراغت کے بعد وہ برآمدے میں آکر بیٹھ گئی۔ تیز دھوپ اگرچہ آنکھوں میں چبھ رہی تھی مگر وہ ڈھیٹوں کی طرح بیٹھی رہی۔ تھوڑی دیر بعد نجمہ بھی ہاتھ پونچھتی آ گئی۔
نجمہ کافی باتونی تھی اپنی منگنی کا قصہ چٹ پٹے انداز میں سنا کر اب وہ ابا اور اماں کے تازہ ترین جھگڑے کا احوال سنانے لگی تھی۔ اذکی بھی تکلیف دہ سوچوں کو جھٹک کر اس کی طرف متوجہ ہو گئی۔
راحت نے انہیں خوش گپیاں کرتے ہوئے دیکھا تو نجمہ کو جھڑک کر اس کے کواٹر بھیج دیا جبکہ اذکی کو اوپر والے پورشن کی صفائی پر لگا دیا۔ وہ سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔ جب ساحرہ کی آواز نے اس کے قدموں کو جکڑ لیا۔
”خالہ جانی! یہ لڑکی ہے بڑے کام کی۔ کسی دن ہماری طرف بھیج دیجئے گا۔ لان کی تھوڑی کانٹ چھانٹ کروا لیں گے اسی سے۔“ اس نے اذکی کی طرف رخ کر کے بلند آواز میں کہا تھا۔
اذکی نے راحت کا جواب نہیں سنا۔ وہ ڈبڈبائی نظروں سے کارپیٹڈ سیڑھیاں چڑھنے لگی تھی۔ آخر رونے کیلئے تنہا کونا بھی چاہئے تھا۔
ماسٹرز کرنے کے بعد حیدر کو بڑی اچھی جاب کی آفر ہوئی تھی۔ عباس بھی گویا اسی دن کا انتظار کر رہے تھے۔ راحت کا موڈ قدرے بہتر دیکھ کر انہوں نے اپنی دلی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ کئی لمحے راحت پر سوچ نظروں سے ان کے پرامید چہرے کو دیکھتی رہیں۔ وہ بے حد عقل مند خاتون تھیں۔ جانتی تھیں کہ کس موقع پر کون سی بات کرنا مناسب ہے۔ اپنی بہن سے انہوں نے مشورہ کر لیا تھا۔ ان کی بیٹیاں اور خصوصاً حیدر بھی تقریباً راضی تھا۔ رہے عباس تو انہیں منانا کون سا مشکل کام تھا۔ راحت خود بھی مناسب موقع کی تلاش میں تھیں جو کہ عباس نے خود ہی فراہم کر دیا تھا۔

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi