Episode 8 - Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi

قسط نمبر 8 - نہیں آساں یہ سفر - نایاب جیلانی

وہ اپریل کی بڑی خوش گوار سی شام تھی۔ جب اچانک ہی راحت بیگم  ساحرہ اور نائلہ آپی چلی آئیں۔ اذکی حیرت سے گم صم رہ گئی۔ بہرحال انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھا کر اس نے دونوں بچوں کو دادو کی آمد سے آگاہ کیا۔ وہ کچھ شرماتے گھبراتے اس کا پلو پکڑے ڈرائنگ روم میں آ گئے۔ راحت بیگم نے دونوں کو دیکھ کر نرمی سے پاس بلایا۔ پیشانی سرچوم کر دیا کو گود میں جبکہ زید کو دائیں طرف اپنے ساتھ بٹھا لیا تھا۔

”پپا ابھی تک آئے نہیں۔“ وہ جانتی تھی کہ حیدر پہلے راحت ولا ہی جاتا ہے پھر کھانا کھا کر یا پھر کبھی کبھار چائے وغیرہ پی کر ہی اس طرف آتا ہے لیکن نجانے کیا بچوں سے کریدنا چاہا تھا انہوں۔
”پپا لات (رات) کو آئیں گے۔…“ دیا نے فوراً جواب دیا۔ وہ راحت بیگم کی کلائی میں پڑے نفیس سے کنگن کے ساتھ کھیل رہی تھی۔

(جاری ہے)

ساحرہ خاموشی سے صوفہ میں دھنسی اردگرد کا جائزہ لے رہی تھی۔
اگرچہ اس نے فلیٹ پہلے بھی دیکھ رکھا تھا مگر ان دنوں میں مزید تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ ڈرائنگ روم کا فرنیچر  پردے حتیٰ کہ کارپٹ بھی بدلا گیا تھا۔ اس نے بچوں کے چہرے دیکھ کر مزید تکلیف محسوس کی۔ وہ جانتی تھی کہ یہاں آکر دہری اذیت کا شکار ہو جاتی ہے مگر پھر بھی وہ یہاں آئی تھی ایک اور بازی کھیلنے۔ اسے اذکی کا مطمئن چہرہ دیکھ کر رشک آتا تھا۔
یہی اطمینان ساحرہ کے سکون کو ڈانواں ڈول کر دیتا۔ وہ جان نہیں پائی تھی اب تک  کہ کون سی ایسی چیز ہے جو اذکی کو انتہائی مطمئن رکھتی ہے۔ حالانکہ شوہر اور سسرال والوں نے کبھی اسے اہمیت نہیں دی تھی۔ ان سب کی نظروں میں اس کی حیثیت کسی بے جان کھلونے جتنی تھی۔
اذکی کولڈ ڈرنکس لے آئی تھی۔ راحت نے سہولت سے انکار کر دیا جب کہ ساحرہ نے نزاکت سے گلاس اٹھایا لیا تھا۔
نفیس سے گلاس میں مشروب بہت بھلا لگ رہا تھا۔ ساحرہ نے گلاس ٹیبل کی چمکیلی سطح پر رکھ کے اذکی کو دیکھا۔ وہ پہلے کی طرح موٴدب سی بیٹھی تھی آخر راحت بیگم کے سامنے کس کی جرأت تھی کہ جم کر بیٹھ سکے۔ چہار سو معنی خیز خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ بچے بھی چپ تھے۔ اذکی نے اس سکوت کو توڑتے ہوئے آہستگی سے کہا۔
”میں حیدر کو فون کرتی ہوں۔“
”آں۔
ہاں تم رہنے دو  حیدر آ رہا ہے۔“ اذکی کو اُٹھتے دیکھ کر ساحرہ سرعت سے بولی  ساتھ میں جتانے والی معنی خیز نظروں سے دیکھا تھا اسے۔ وہ جزبز سی بیٹھ گئی کچھ دیر بعد دروازہ کھلنے کی آواز آئی تھی  بچے قلانچیں بھرتے ہوئے حیدر کی ٹانگوں سے لپٹ گئے۔ اس نے بھی دونوں کو والہانہ انداز میں لپٹا لیا۔ ساحرہ نے محبت کے اس مظاہرے کو دیکھ کر نگاہیں موڑ لیں۔
”پپا آپ لات کو کیوں نہیں آئے  مجھے نیند بھی نہیں آئی آپ کے بغیل (بغیر)…“ شکایتوں کی پٹاری کھل چکی تھی۔
”مجھے بھی…“ زید نے اس کا چہرہ اپنی طرف موڑا۔ دونوں کے تابڑ توڑ سوالوں پر وہ بوکھلا گیا تھا۔
”ارے یار سانس تو لینے دو۔“ اس نے ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرکے بریف کیس اور کوٹ سوفے پر اچھالا ماں کو دیکھ کر اس کا چہرہ چمک اٹھا تھا۔
”میں لیٹ تو نہیں ہوا۔“ وہ صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولا۔ اذکی پانی لینے کچن میں چلی گئی تھی۔
”نہیں  ابھی ہمیں آئے ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی ہے۔“ راحت خوش گوار موڈ میں بولیں۔
”پیا! میں آپ کے ساتھ آفس جاؤں گی۔“ ساحرہ نے کچھ کہنے کیلئے لب کھولے ہی تھے جب دیا نے اچانک اُسے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ ساحرہ لب بھینچ کر رہ گئی۔
”وہ کیوں بھئی۔
“ حیدر نے نشست بدل کر کر دیا کی طرف دیکھا جو کہ بریف کیس کے بٹنوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہی تھی۔
”اس لئے کہ بالش (بارش) ہو جاتی ہے۔ پھل (پھر) آپ آفس سے نہیں آتے۔ دادو پاس چلے جاتے ہیں۔“
”اور آپ کیا کرو گی۔“ حیدر نے دلچسپی سے بیٹی کے چہرے کی طرف دیکھا۔
”میں امبریلا۔“
”دیا اٹھو شاباش نوڈلز کھا لو۔“ اذکی نے اُسے پچکارا۔
زید کو اٹھنے کا اشارہ کرکے وہ ڈرائنگ روم سے باہر نکل گئی تھی۔ دونوں نے بھی منہ بسورتے ہوئے ماں کی پیروی کی۔
”حیدر! مجھے گھر بھی جانا ہے لہٰذا تم بات کرو اذکی سے۔“ نائلہ آپی نے گھڑی کی سوئیوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔ حیدر کو بھی ان کی آمد کا مقصد یاد آ گیا تھا اس نے اذکی کو آواز دے کر بلایا۔
”میں نے تو اس وقت بھی ساحرہ سے کہا تھا یہ خود ہی نہیں مانی تھی۔
چلو اب بھی سہی بھلا ہمیں کیونکر اعتراض ہونا ہے۔“ اذکی راحت بیگم کے الفاظ سن کر ٹھٹک گئی تھی۔ راحت کے برابر بیٹھتے ہوئے اس نے حیدر کے چند الفاظ سنے تھے۔ اس کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسکنے لگی تھی۔
”کیا مطلب ہے آپ کا؟“ اس نے فق چہرے کے ساتھ بامشکل کہا۔ ساحرہ کے علاوہ سب نے ہی اسے گھورا تھا۔ ساحرہ اطمینان سے سامنے دیوار پہ ٹنگی پینٹنگ بغور تک رہی تھی۔
”لگتا ہے تمہیں ہماری زبان سمجھ میں نہیں آتی۔“ راحت نے ناگواری سے اب لب کاٹتے دیکھ کر کہا۔ وہ بے قراری سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
”آپ جو چاہتے ہیں وہ نہیں ہوگا۔“ بہت مشکل سے یہ چند الفاظ اس کے منہ سے ادا ہوئے تھے ورنہ اس سے تو بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔ راحت کو اس کے کورے جواب نے طیش دلا دیا۔ بھلا اس کی اوقات ہی کیا تھی کہ راحت کے سامنے انکار کرتی۔
”بہت بولنے لگی ہے امی جان یہ  آپ کا بھی لحاظ نہیں رہا۔ اس دو کمروں کے فلیٹ میں آکر نجانے کیا سمجھنے لگی ہے خود کو…“ نائلہ آپی کٹیلی نگاہوں سے اسے گھورتے ہوئے امی جان سے مخاطب ہوئیں۔
”حیدر! اس سے کہو کہ دیا کا بیگ تیار کرے۔“ راحت نے کچھ سوچتے ہوئے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
”تائی جی یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔ میں دیا کو کیسے جانے دوں۔
اسے تو میرے بغیر سونے کی عادت بھی نہیں ہے۔“ وہ جانتی تھی کہ راحت جو کہتی ہیں وہی کرتی ہیں۔ ان کا فیصلہ اٹل ہوتا ہے۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ وہ اپنی ضد منوا کر دم لیتی ہیں لہٰذا منت بھرے لہجہ میں کہتے ہوئے گڑگڑائی تھی۔
”دیا غیروں میں نہیں جا رہی ہے  میں اس کی دادی ہوں  ساحرہ بھی ماں ہے اور ویسے بھی یہ ساحرہ کا حق بنتا ہے۔ پہلے وہ اس لئے خاموش رہی تھی کہ دیا کو تمہاری ضرورت تھی لیکن اب وہ ساحرہ کے ساتھ رہ سکتی ہے۔
اگلے سال تک اسکول جانے کے قابل ہو جائے گی۔“ انہوں نے دو ٹوک بات کرکے اسے اشارہ کیا۔ اذکی کے قدم من من بھر کے ہو رہے تھے اس سے کھڑا رہنا دشوار ہو گیا۔ وہ بے جان ٹانگوں کو گھسیٹتی ہوئی صوفے پر بیٹھ گئی۔
”حیدر آپ تائی جی کو سمجھائیں۔“ اس نے امید بھری نظروں سے حیدر کے پر سوچ چہرے کی طرف دیکھ کر بھرائی آواز میں کہا۔ راحت کو گویا پتنگے لگ گئے۔
”کیا کہہ رہی ہو لڑکی تم حیدر مجھے یعنی اپنی ماں کو سمجھائے۔بہت بول لیا تم نے اب بس جاؤ حیدر دیا کو لے آؤ نائلہ کو دیر ہو رہی ہے۔ اُسے گھر ڈراپ کرنا ہے۔“ تائی جی نے چادر سنبھالی۔ ساحرہ اور نائلہ بھی اُٹھ چکی تھیں۔ حیدر دیا کو لے آیا تھا۔ اذکی کے دل کو کسی نے مٹھی میں بھینچا۔
”حیدر! آپ میری بچی کو نہیں لے جا سکتے۔ میں اس ڈائن کے حوالے اپنی بیٹی نہیں کروں گی۔
“ وہ چیختی ہوئی آگے بڑھی تھی حیدر نے اس کا بازو پکڑ کر صوفے پر پٹخا۔
”یہ ڈرامہ بازی بند کرو۔“ وہ غرایا۔ بچی ماں کو روتے دیکھ کر کسمسائی۔ نائلہ نے آگے بڑھ کر اسے گود میں اٹھا لیا تھا۔ اذکی نے دھندلائی نظروں سے ان سب کو جاتے دیکھا۔ اس کے گالوں پر آنسو موتیوں کی طرح گر رہے تھے جب کہ شہ رگ پر کسی نے چھری چلا دی تھی وہ اذیت سے کراہنے لگی۔
زید ماں کے رونے کی آواز سن کر لاؤنج میں آ گیا تھا۔ جب وہ رو رو کر تھک گئی تو خود ہی خاموش ہو گئی۔ زید اس کے پیروں میں لیٹا اونگھنے لگا تھا۔ وہ اس کے گلابی گالوں پر سے آنسو چنتے ہوئے اپنی گزشتہ زندگی کو سوچنے لگی اسے لگ رہا تھا کہ زندگی میں اب کوئی خوشی نہیں بچی  امید کے جگنو راستہ بھول گئے تھے۔ راہوں میں کوئی روشنی نہیں رہی تھی چہار سو اندھیرا اور تاریک رات پنکھ پھیلائے خوشیوں کو نگلنے کیلئے بے تاب بیٹھے تھے۔
######

Chapters / Baab of Nahi Aasan Yeh Safar By NayaB JilaNi